تو اس سال کیا چاتک بھی رہے گا پپیاسا
تو اس سال کیا “چاتک” بھی رہے گا پیاسا ؟؟؟۔
آصف جمیل امجدی
ساون کا مہینہ آ چکا ہے، لیکن آسمان میں بادل آکر بغیر برسے واپس لوٹ رہے ہیں۔ کسان دن رات آسمان میں چاروں طرف نظر دوڑاتے ہیں، لیکن ہر طرف ان کو مایوسی ہی ملتی ہے۔مختلف جگہ دھان کے روپے گیے پودھے سوکھ رہے ہیں، کسان مایوس و پریشان لگ رہے ہیں۔ اگر کچھ دن اور برسات نہیں ہوئی تو کسانوں کی ساری محنت بے کار ثابت ہو سکتی ہے۔ ہر سال ساون کے مہینہ میں ہر طرف ہریالی ہوتی تھی اور چاروں طرف برساتی پانی ہی پانی نظر آتا تھا۔ کھیتوں میں دھان کے ہرے پودھے جھومتے اور لہلہاتے دکھتے تھے، لیکن اس بار یہی پودھے مرجھاۓ اور پیلے ہیں۔ ہر طرف کھیتوں اور کھلیانوں میں دھول ہی دھول نظر آرہی ہے۔ محنتی کسان ہمت دکھاتے ہوۓ مہنگے ڈیژل لاکر کسی طرح دھان کی روپائی میں لگے ہیں، لیکن بغیر برسات کے انجن کے پانی سے دھان کی بہتر پیداوار شاید آسان نہیں، اور اگر کچھ کامیابی بھی ملی تو وہ نفعے کی نہیں، بل کہ گھاٹے کا سودا ہوگا۔ کل ملا کر آسمان میں آنے جانے والے بادلوں کی حرکت اور ناراضگی کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ اس سال “کسانوں” کے ساتھ “چاتک” بھی پیاسا ہی رہے گا؟؟؟؟۔ اب آپ میں سے کچھ لوگ “چاتک” کا نام سن کر سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کسانوں کے بیچ کہاں سے آ گیا، تو آپ کو بتا دیں کہ “چاتک” ایک پرندہ ہے اس کے سر پر چوٹی نما رچنا ہوتی ہے۔ ہندوستانی کہاوت میں اس کے بارےمیں ایسا مانا جاتا ہے کہ یہ بارش کی پہلی بوندوں کو ہی پیتا ہے۔ اگر یہ پرندہ بہت پیاسا ہے اور اسے ایک صاف پانی کے جھیل میں ڈال دیا جاۓ تب بھی یہ اس جھیل کا پانی نہیں پئے گا اور اپنی چونچ بند کرلے گا تاکہ جھیل کا پانی اس کے منہ میں نہ جاسکے۔ اسے مارواڑی زبان میں “میکیوا” اور “پپییا” بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ “چاتک” ہی ایک ایسا عزت نفس کا خیال رکھنے والا پرندہ ہے جو بھلے پیاسا ہو یا مرنے والا ہو تب بھی وہ کسی چشمے کا پانی ہرگز نہیں پیتا، بل کہ بارش کا ہی پانی پیتا ہے۔ عوامی خیال کے مطابق “چاتک” پرندہ بارش کا پانی زمین پر گرے بغیر پیتا ہے اس لیے اس کے انتظار میں آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا ہے۔ بارش نہ ہونے پر وہ پیاسا رہ جاتا ہے لیکن تال تلیا کا پانی نہیں پیتا۔