طارق مسعود دیوبندی کی ہفوات کا قرآن حدیث اور اقوال ائمہ نحو کی روشنی میں

Spread the love

 مفتی طارق مسعود دیوبندی کی ہفوات کا قرآن حدیث اور اقوال ائمہ نحو کی روشنی میں جائزہ

ازقلم: فرحان المصطفےٰ نظامی حنفی مدنی

شعبہ تخصص فی الحدیث ناگ پور

دیوبندیوں کے مشہور یوٹیوبر مفتی طارق مسعود نے اپنے حالیہ خطاب کے اندر ایک بڑی جسارت کرتے ہوئےقرآن،صاحب قرآن اور عدالت اصحاب رسولﷺ کو چیلینج کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ: “جب وحی کا نزول ہوتا تو سرکار کسی صحابی کو بلاتے اور ان سے اس کو لکھوا دیتے

لیکن بعض دفعہ کاتب لکھنے میں غلطیاں کر دیتا تو محمد عربی ﷺ اس کی تصحیح نہ کرواتے کیونکہ انہیں پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا جیسے قرآن کی آیت ہے “لَنَسْفَعًا ” یہ اصل میں ہے “لنسفعن”اس میں “لام” تاکید کے لیے ہےاور آخر میں “نون ساکن” بھی تاکید کے لیے ہے باوجود اس کے اسے تنوین کے ساتھ لکھ دیاگیا ہے جو کہ گرامر کی غلطی ہے۔

اس کے کلام پرمختصر تبصرہ:

س کی یہ گفتگو کئی لحاظ سے گستاخیوں اور بے ادبیوں سے لبریز ہے ہیں مثلاً:1. سرکار جاہل ہیں۔ (نعوذ باللہ)2. صحابہ کی عدالت مشکوک ہے۔(نعوذ باللہ)3. قرآن میں گرامر کی ظاہری طور پر غلطیاں موجود ہیں۔(نعوذ باللہ)۔

اس کی اس بات سےبہت زیادہ تعجب تو نہیں ہوا کیونکہ یہ گستاخانہ روش ان کے آبا و اجداد سے چلی آرہی ہے، یہ کبھی محمد عربی ﷺ کے علم کو پاگلوں کے علم سے تشبیہ دے دیتے ہیں تو کبھی انہیں دارالعلوم دیوبند کا طالب علم قرار دیتے ہیں کہ سرکار علیہ الصلوۃ والتسلیم کو دارلعلوم دیوبند سے منسلک ہونے پر اردو کی سمجھ آئی،البتہ اس کی کم علمی اور علم صرف و نحو کی ناواقفیت سے ضرور پردہ اٹھ گیا کہ یہ شخص ان علوم سے کس قدر عاری ہے۔

امی کے معنی کی وضاحت

میرے آقا ﷺکا لقب ” امی ” ضرور ہے اور امی کا مطلب بھی یہی ہے” جو پڑھنا لکھنا نہ جانتا ہو” جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت نمبر 78 میں ارشاد ہوا: وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلّاۤ اَمَانِیَّ۔ یعنی ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں کہ جو کتاب کو نہیں جانتے مگر زبانی پڑھ لینا۔

لیکن درج بالا معنی کا اطلاق ذات محمد ﷺ پر نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ قرآن نے خود واضح فرمایا: اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا ۝یعنی اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اُتاری اور آپ کو سکھادیا جو کچھ آپ نہ جانتے تھے اور اللہ کا آپ پر بڑا فضل ہے (سورةالنساء ، رقم الآية:4)

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ۝ یعنی اس (نزولِ قرآن) سے پہلے آپ کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا تو باطل والے ضرور شک لاتے ۔(سورةالعنکبوت، رقم الآية:48)

ان آیات بینات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ “امی” ہونا سرکار کی صفت محمودہ ہے کیونکہ اللہ رب العزت نےاپنے محبوب علیہ الصلوۃ والتسلیم کو تمام علوم کا جامع بنایا تھا اوردنیا میں کسی استاد کی شاگردی اور پیروی سے محفوظ فرما دیا تھا ۔ اور سرکار علیہ السلام کے نہ لکھنے میں حکمت یہ تھی کہ باطل قوتیں کہیں یہ الزام نہ لگادیں کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ محمد عربی کی تخلیق ہے۔پس یہ کہنا کہ سرکار کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا یہ جہالت و حماقت، علم و آگہی سے نا واقفیت اور توفیق الہی سے محرومی کی دلیل ہے۔

کیا صحابہ عادل نہیں ہیں؟

طارق مسعود کے بیان سے ذوات صحابہ کے متعلق یہ شبہ پیدا ہوا کہ جب وہ لکھنے میں غلطیاں کرسکتے ہیں تو صحیح بات پہنچانے میں بھی ان سے غلطی کا وقوع ممکن ہے جبکہ اہلسنت والجماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں، ان کے قلوب خشیت ربانی اور محبت سرکارِ لا ثانی سے اس قدر بہرہ ور ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی حدیث رسول ﷺ یا احکام بیان کرنے میں دروغ گوئی کا سہارا نہیں لیا کیوں کہ رب قدیر نے ان کے دلوں کو غیر شرعی لوازمات سے محفوظ فرما دیا ہے۔

اللہ تعالی ٰارشاد فرماتا ہے: أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ عَظِیْمٌ۝ یعنی یہ وہی حضرات ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے چن لیا ہے، انہیں کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر بھی۔(سورة الحجرات،رقم الآية ٣)۔

مقدمہ ابن صلاح میں ہے:إِنَّ الْأُمَّةَ مُجْمِعَةٌ عَلَى تَعْدِيلِ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ .یعنی امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں۔(مقدمة ابن الصلاح،ص295،باب معرفة الصحابة،طبع: دار الفكر المعاصربيروت)

حافظ ابن حجر عسقلاني رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اتفق أهل السنّة على أنّ الجميع عدول، ولم يخالف في ذلك إلا شذوذ من المبتدعة. یعنی اہلسنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں،اس بات کی مخالفت چندبدعتی لوگوں کے علاوہ کسی نے نہیں کی ہے۔(الاصابة في تمييز

الصحابة،ج١،ص١٦٢،الفصل الثالث في بيان حال الصحابة من العدالة،دارالكتب العلمية بيروت

*کیا قرآن میں گرامر کی غلطیاں ہیں؟

یہ کیسے سوچا جا سکتا ہےجس قرآن کے متعلق اللہ ارشاد فرماتا ہے:اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۝ یعنی بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔(سورۃ الحجر،رقم الآية9)تو یہ تصور کیونکر ممکن ہوگا کہ قرآن میں غلطیاں ہیں ؟ اس لحاظ سے تو یہ اعتراض اللہ رب العزت کی جناب میں ہوگا کہ جب اللہ نے حفاظت قرآن کی ذمہ داری لی ہے تو کتابت قرآن غلط ہو رہی تھی تو اللہ نے بذریعہ وحی یا کسی اور طریقہ سے اس کی حفاظت کا سامان کیوں نہیں فرما یا؟لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی کوئی غلطی ہے ہی نہیں۔

اللہ ارشاد فرماتا ہے:وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَؕاور ہم نے قرآن کو حق ہی کے ساتھ اتارا اور حق ہی کے ساتھ اترا۔(سورۃ الاسراء، رقم الآية ١٠٦)یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ -وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ-اے رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا اس کی تبلیغ فرما دیں اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اُس کا کوئی پیغام بھی نہ پہنچایا ۔(سورۃ المائدۃ، رقم الآية ٦٧)۔

ان دونوں آیت کریمہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ اللہ رب العزت نے قرآن کو جس انداز سے نازل کرنے کا ارادہ فرمایا قرآن کا نزول ویسے ہی ہوا اور ویسے ہی میرے آقا ﷺ نے اس کی تبلیغ بھی فرما دی۔پس یہ کہنا قرآن لکھنے میں غلطی ہوئی ہے یہ جہالت کی انتہا اور یہود و نصاری بلکہ منکرین قرآن کی چاپلوسی کا شاخسانہ ہے۔

“نون خفیفہ” کا قضیہ

طارق مسعود نے قرآن کے جس لفظ کو غلط ٹھہرایا اس لفظ کے متعلق ائمہ نحو اور مفسرین کی تصریحات ملاحظہ کرنے سے قبل یہ بات جان لیجیے کہ “لَنَسْفَعًا ” کا تعلق” لام تاکید بانون خفیفہ” سے ہے ، اسی پر طارق مسعود نے اپنی جہالت دکھائی ہے کہ جب “نون خفیفہ” ہے تو تنوین کیسے آگئی؟تو جان لیں! کہ نحو صرف کا بنیادی معیار قرآن ہی ہے یعنی نحو صرف کے قواعد کا جائزہ قرآن کی روشنی میں لیا جائے گا ، نا کہ قرآن کو موجودہ گرامر پر پرکھا جائے گا ۔

کیوں کہ قرآن متواتر اور غیر قیاسی ہے اور قواعد نحویہ و صرفیہ قیاسی ہیں لہذا اسے معیار نہیں بلکہ قرآن کو معیار بنایا جائے گا کہ قرآن سب سے فصیح و بلیغ ہے۔

اسم تفضیل کے استعمال کے بحث کے تحت ہدایۃ النحو کے حاشیہ میں ہے:اعلم انه قد جاء استعمال اسم التفضيل عاريا عن الوجوه الثلاثة اذا كان بمعناه في كلام الله عزوجل، قال الله تعالى: اعدلوا هو أقرب للتقوى، و قولوا للناس حسنا، الى غير ذالك من الآيات.ولا حاجة الى التأويل لأن قواعد النحو تابعة لكلام الفصحاء و لا عكس فينبغى يؤول القاعدة.(هداية النحو،ص106،بحث اسم تفضیل، طبع: مکتبة البشری کراچي)

قواعد نحویہ تابع ہیں متبوع نہیں لہذا نحوی قواعد میں تاویل کی جائےگی اصول میں تبدیلی نہیں ہوگی۔”نون خفیفہ” کا اجماعی قاعدہ بیان کرتے ہوئے “ابن ہشام نحوی” لکھتے ہیں:نون التوكيد الخفيفة الواقعة بعد الفتحة كقوله تعالى: “لَنَسْفَعًا” وليكونا وقف الجميع عليها بالألف. قال الشاعر: وإياك والميتات لا تقربنها ولا تعبد الشيطان والله فاعبدا أصله أعبدن. یعنی مطلب یہ ہوا کہ “نون تاکید خفیفہ ” فتحہ کے بعد واقع ہو جیسے “لَنَسْفَعًا ” میں ہے تو الف کے ساتھ وقف کرنے پر اجماع ہے۔جیسے شاعر کے شعر میں ” فاعبدا” ہے حالانکہ اصل میں وہ ” أعبدن” تھا ،لیکن وقف کی صورت میں الف سے تبدیل ہو گیا۔(شرح قطرالندي و بل الصدي،ص ٣٢٧،باب الوقف،طبع:القاهره)۔

امام النحو “سیبویہ” اپنی کتاب ” الکتاب لسیبويه” میں لکھتے ہیں:اعلم أنه إذا كان الحرف الذي قبلها مفتوحا ثم وقفت جعلت مكانها ألفا؛ وذلك لأن النون الخفيفة والتنوين من موضع واحد، وهما حرفان زائدان، والنون الخفيفة ساكنة كما أن التنوين ساكن، وهي علامة توكيد كما أن التنوين علامة المتمكن، فلما كانت كذلك أجريت مجراها في الوقف. یعنی جان لو! اگر اس (نون خفیفہ) سےقبل حرف مفتوح ہو اور وقف کیا جائے تو اس “نون” کی جگہ “الف لایا جائےگا۔

وہ اس لیے کہ “نون خفیفہ” اور “تنوین” دونوں حرف زائد ہیں، اور ” نون خفیفہ” بھی “تنوین” ہی کی طرح ساکن ہے اور ” نون خفیفہ” تاکید کی علامت ہے اور “تنوین” متمکن کی علامت ہے، جب دونوں ایک ہی طرح کے ہیں تو وقف میں بھی ایک ہی حکم ہوگا۔(الکتاب لسیبويه،ج٣ص٥٢١،باب الوقف عند لانون الخفيفة،طبع:مكتبة الخانجي قاهره)

زمخشری نے “الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل” میں لکھا:قرئ: لنسفعنّ، بالنون المشدّدة. وقرأ ابن مسعود، لأسفعا. وكتبتها في المصحف بالألف على حكم الوقف. یعنی نون تشدید کے ساتھ” لنسفعنّ” بھی پڑھا گیا ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسے”لأسفعا” پڑھا ہے اورمصحف شریف میں حکم وقف کا اعتبار کرتے ہوئے “الف” کے ساتھ مذکور ہے۔(الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل للزمخشری،ج 4،ص 778، طبع: دار الكتاب العربي بيروت)۔

ابو حيان اندلسی” البحر المحیط في التفسیر” میں لکھتے ہیں:وقرأ الجمهور: بالنون الخفيفة، وكتبت بالألف باعتبار الوقف.یعنی جمہور کا موقف یہی ہے کہ “نون خفیفہ” وقف کی صورت میں “الف”کے ساتھ لکھا جائےگا۔(البحر المحیط فی التفسیر،ج١٠ ص ٥١١، دارلفکر بیروت)امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:أبدلت ألفا بعد الفتح إجماعا۔ وفي التنزيل ” لَنَسْفَعًا ” ولذلك رسم بالألف على نية الوقف.فتحہ کے بعد (نون خفیفہ) کو اجماعی طور پر “الف” سے بدل دیا جاتا ہےجیسے قرآن میں ہے “لَنَسْفَعًا” اور اس كو “الف” کے ساتھ وقف کے اعتبار سے لایا گیا ہے۔

قارئین ! سطور بالا سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ طارق مسعود کی یہ جسارت،باطنی خباثت،قلبی شقاوت اور بد عقیدگی کی غلاظت کے سوا کچھ نہیں، اور واقعہ بھی یہی ہے کہ گستاخی ، بے ادبی اور دریدہ دہنی انہیں ان کے آباء و اجداد سے خاندانی،جماعتی اور مسلکی وراثت میں ملی ہے۔

اللہ کریم ان بے ادبوں کے منحوس سائے سے بچائےاور باادب لوگوں کی پاکیزہ صحبت نصیب فرمائے آمین۔

One thought on “طارق مسعود دیوبندی کی ہفوات کا قرآن حدیث اور اقوال ائمہ نحو کی روشنی میں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *