ٹیلی پرامپٹر اور ہمارے وزیراعظم

Spread the love

از۔ محمدقمرانجم قادری فیضی ٹیلی پرامپٹر اور ہمارے وزیراعظم

آج مودی جی کی تقریری صلاحیتوں کا سارا پول کھل کر سامنے آ گیا ہے واقعہ ایسا ہوا کہ مودی جی ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کی لائیو ویڈیو کانفرنس کے سامنے بیٹھے بڑے بڑے لوگوں کے سامنے لمبی گیندیں پھینک رہے تھے کہ اچانک جملے آنا بند ہو گیے۔

سامنے ٹیلی پرامپٹر خراب ہوگیا، اور مودی جی کو کچھ سمجھ نہیں آیا، پھر ابّا، ڈبّا، جھباّ۔آئیں، بائیں بکنے لگے۔اور ڈیووس کے موسم کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا اور الوداع کہنا شروع کر دیا۔ لگتا ہے مودی جی ٹیلی پرامپٹر چلانے والے بھائی کو کبھی معاف نہیں کر پائیں گے۔

تبھی تو ہم کہیں کہ وزیر اعظم نریندرمودی نے 8 سالوں سے ایک بھی پریس کانفرنس کیوں نہیں کی؟۔

ہر تقریر ٹیلی پرمپٹر سے پڑھتے ہیں، جلسہ و جلوس کے اسٹیج پر ہو، الیکشن اسٹیج پر یا بطور وزیر اعظم ملک اور بیرون ملک۔ نریندر مودی ہر جگہ ٹیلی پرمپٹر استعمال کرتے ہیں وہ پریس کانفرنس میں ایسا نہیں کر پائیں گے کیوں کہ صحافیوں کے سوالات ہوں گے اور مودی کو ان کا سیدھا جواب دینا پڑے گا۔

بڑے افسوس کی بات ہے کہ معروف صحافی رویش کمار کو وزیراعظم انٹرویو نہیں دیتے۔ ایک چیز تو ثابت ہوگئی ہے، تو اب یہ ٹیلی پرمپٹر کیا کرے ساری زندگی شمشان گھاٹ، قبرستان، پاکستان اور مسلمان ان کے غور و فکر اور تقریر کا موضوع رہے۔

تو مودی جی اسکرپٹ کے بغیر دو لفظ بھی نہیں بول سکتے، یہ کل ٹیلی پرمپٹر ایپی سوڈ میں ثابت ہوگیا، جسے آپ مودی کی موثر تقریر سمجھتے ہیں، یہ سارے اسکرپٹ رائٹر کی محنت کا نتیجہ ہے اور اس معاملے کو بے نقاب نہیں ہونا چاہیے، اس لیے مودی جی نے آخری کام کیا، سات سالوں میں ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی۔

اب آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ مودی سرکار اپنے پی آر واقعات کیسے کرتی ہے، ٹی وی پروگراموں کے ذریعے ان کی شبیہ کیسے بنائی جاتی ہے تاکہ مودی کی شبیہ ایک عظیم خطیب کی ہی رہے، جسے آپ ابھی پڑھنے جارہے ہیں، یہ پوسٹ انگریزی میں تھی، جسے میں نے ہندی میں پوسٹنگ کی۔

یہ پوسٹ 24 دسمبر 2018ء/ کو ایک جنوبی ہندوستانی دوست وکنیش نے لکھی تھی۔ اس نے اس پوسٹ میں اپنے کالج کی ایک واقعہ کی کہانی شیئر کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ مودی حکومت اپنے [PR] ایجنڈے کو کس طرح چلاتی ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اچانک پوچھے گئے سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔

میں اپنا ایک واقعہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ہم احمد آباد میں ‘ہیکاتھون’ کی اختتامی تقریب کے لئے گئے تھے۔ لنچ کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ وزیر اعظم ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے طلباء سے خطاب کریں گے۔ میں نے سوچا کہ وہ طلباء سے براہ راست سوال کریں گے۔

لیکن میں غلط تھا۔ اصل پروگرام سے چار گھنٹے پہلے کچھ اہلکار آئے اور کچھ دیر کے لیے ہمارا پروگرام روکنے کو کہا۔ اور وہ اہلکار ہر ٹیم میں جانا شروع کیا اور پوچھا کہ کیا کسی کو وزیر اعظم سے کوئی سوال ہے اور چونکہ ہم جنوبی ہندوستان سے تھے اس نے خاص طور پر ہماری ٹیم کو نشانہ بنایا اور ہم سے پوچھا کہ کیا کوئی ہندی جانتا ہے؟

ہماری ٹیم میں واحد ہندی بولنے والا شخص ‘اگروال’ تھا، جس کی وجہ سے وہ مایوس ہوا اور سوال پوچھنے کا خیال چھوڑ دیا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی جنوبی ہندوستانی سے ملاقات ہو اور ہندی میں تعریف کی ہو، اس کا اثر زیادہ ہوتا۔

ان عہدیداروں نے پروگرام شروع ہونے سے 3 گھنٹے قبل کرسیوں اور طلباء کے بیٹھنے کے انتظامات کو تبدیل کر دیا اور ہمیں ‘ریہرسل’ (وزیراعظم سے سوال پوچھنے کی ریہرسل) کے لیے بیٹھنے کو کہا گیا۔ اس کے بعد تمام ٹیموں میں سے 3 لڑکیوں اور 2 لڑکوں کو منتخب کرکے اگلی صف میں لایا گیا۔

پھر ہر طالب علم کو پوچھنے کے لیے اسکرپٹڈ(پہلے سے تیارشدہ سوالات) سوال دیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ وزیراعظم کے جواب دینے کے بعد آپ کیا جواب دیتے ہیں اور کب دیں گے؟۔

یہاں تک کہ اس نے وزیر اعظم کے ساتھ فالو اپ سوال و جواب کے سوالات بھی ترتیب دیئے اور نشریات کے دوران کب اور کیسے ہنسنا ہے یہ بھی ہمیں بتایا گیا۔ کمال یہ ہوا کہ ویڈیو کانفرنس وزیراعظم کی آمد سے ایک گھنٹہ قبل شروع کردی گئی۔ ہمیں بطخوں کی طرح بیٹھے ہوئے تین گھنٹے سے زیادہ ہوچکے تھے لیکن کچھ کرائے کے لوگ ’’مودی مودی مودی‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

پھر اچانک اسٹیج پر ایک چالیس سالہ چچا نمودار ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آپ مجھے وزیراعظم سمجھ کر اپنی آخری ریہرسل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں اپنے موبائل فون بند کرنے کو کہا گیا۔ میں نے اپنی زندگی کے اہم ترین مناظر دیکھے۔

اس چالیس سالہ ماموں نے وزیر اعظم کی مکمل نقل کرنا شروع کر دی، انہوں نے پہلے سے تیار کئے گئے سوالات کے صحیح اسکرپٹ پڑھ کر جواب دیئے، یہ وہی سوال و جواب تھے جو وزیر اعظم پڑھنے والے تھے۔

پوری منصوبہ بندی اس قدر چالاکی سے بنائی گئی تھی کہ اس نے کوئمبٹور کے ایک طالب علم، جس کا نام وکاس تھا، کو گھسیٹ کر فرنٹ لائن پر لے آیا تاکہ وزیر اعظم مذاق میں کہہ سکیں کہ ’’وکاس‘‘ جنوب تک پہنچ گیا ہے۔

اب پروگرام اپنے عروج پر تھا، وزیراعظم آچکے تھے، مودی ازم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، انہوں نے وہ لطیفے اور سوالات ہٹا دیئے جو کارآمد نظر نہیں آتے تھے۔ کھیل شروع ہونے ہی والا تھا کہ ہم نے کیمرے باہر آتے ہوئے دیکھا اب ہم دونوں طرف دو ٹیلی پرمپٹرز دیکھ سکتے ہیں۔ یہ پوری پی آر چال بہت احتیاط سے تیار کی گئی تھی۔

اور اگلے دن کی شہ سرخیاں تیار تھیں کہ ہمارے وزیر اعظم نے طلباء کو انٹرپرینیورشپ کے لیے ترغیب دی: درحقیقت سچ یہ ہے کہ ہمارے پردھان سیوک کے منہ سے جو بھی نکلتا ہے وہ اسکرپٹ ہوتا ہے اور حقیقت میں وہ بغیر اسکرپٹ کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دے سکتا اور شاید اسی لیے ان میں غیر رسمی انٹرویوز کا سامنا کرنے یا پریس کانفرنس کرنے کی ہمت ہے۔

واضح ہو کہ عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) سے خطاب کے دوران بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اچانک کیوں رک گئے؟ کیا ٹیلی پرامپٹر میں خرابی نے انہیں خاموش ہونے پر مجبور کیا؟ یا کوئی تکنیکی مسئلہ تھا؟ بھارت میں سوشل میڈیا پر یہ سوال زیرِ بحث ہے۔

گزشتہ شب نریندر مودی کی ڈیووس عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کی ویڈیو کا وہ حصہ سوشل میڈیا پر اس بحث کا موضوع ہے جس میں وہ خطاب کرتے ہوئے اچانک رک کر دائیں جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

کچھ وقفے کے بعد نریندر مودی ڈیووس میں اپنے میزبان اور عالمی اقتصادی فورم کے سربراہ کال شواب سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ انہیں سن سکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پوچھتے ہیں کہ کیا ان کے ترجمان کی آواز بھی صاف سنائی دے رہی ہے۔

اس دوران وزیرِ اعظم مودی کی تقریر دو منٹ تک رکی رہی جس کے بعد انہوں نے دوبارہ خطاب شروع کیا۔

وزیر اعظم مودی کو ان کے حامی بہترین مقرر قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے حزبِ اختلاف نے تقریر کے دوران وزیرِ اعظم مودی کی خاموشی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تقریر کے دوران وزیرِ اعظم کی اچانک خاموشی کو بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نے ٹیلی پرامپٹر میں رکاوٹ کا نتیجہ قرار دیا۔

کانگریس پارٹی کے آفیشل ٹوئٹر پیج سے وزیرِ اعظم کی تقریر میں رکاوٹ کی ویڈیو کے ساتھ ’ٹیلی پرامپٹر گائے‘ کا تبصرہ کیا گیا اور ساتھ ہی فلمی گیت ’اچھا چلتا ہوں، دعاؤں میں یاد رکھنا‘ بھی لکھا۔

کانگریس کے رہ نما راہل گاندھی نے بھی اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ اتنا جھوٹ ٹیلی پرامپٹر بھی نہیں جھیل پایا تقریر کے دوران خاموشی پر ٹوئٹر پر ’ٹیلی پرامپٹر‘ اور ’ٹیلی پرامپٹر پی ایم‘ کے ٹرینڈز بن گیے جس میں میمز اور ٹیلی پرامپٹر کی تصاویر بھی شیئر کی جانے لگیں۔ ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا کہ مذاق ایک طرف۔ ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائز شخص ٹیلی پرامپٹر میں رکاوٹ کے بعد ایک لفظ نہیں بول سکتا ۔ یہی تو خطابت دکھانے کا موقع تھا۔

آلٹ نیوز‘ ہی سے وابستہ محمد زبیر کا بھی کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کے پس منظر میں کوئی یہ کہتا سنائی دے رہا ہے ’سر آپ ایک بار پوچھیں کہ سب جڑ گیے کیا؟

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے وزیراعظم نریندر مودی اپنی تقریر شروع کرنے کے چند منٹ بعد خاموش ہو جاتے ہیں اور اپنے بائیں جانب دیکھتے ہیں اور کچھ الفاط بولنے کے بعد دوبارہ خاموش ہو جاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *