آسام کے مختصر روداد

Spread the love

تحریر: محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف 1979 سے 2021 تک کی  آسام کے مختصر روداد

آسام کے مختصر روداد

آسام میں جو ہورہا ہے یہ پچھلے کئی مہینوں سے چل رہا ہے، دو روز قبل یہ معاملہ پولیس کے تشدد کی وجہ سے سامنے آیا، بلکہ یہ کہیے کہ لایا گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ ابھی اکثریتی طبقے کو الیکشن میں اپنی جانب کرنا ہے، مہنگائی، بے روزگاری، بدعنوانی عروج پر ہے ایسے میں صرف ہندو مسلم کے درمیان شدید ٹکراؤ ہی مرکزی حکومت کا ہتھیار ہوگا

اسی کی ایک ہلکی سی جھلک درانگ میں نظر آئی ہے ۔

یہ جو لاشوں پر ڈانس ہو رہا ہے اس کی اصل وجہ

NRC

ہے اور اس این آر سی کو کانگریس نے ہی منظوری دی تھی اور پچھلے 40 سالوں سے آسام کے مسلمان اسی این آر سی کا درد جھیل رہے ہیں، کانگریس سے بڑا مسلمانوں کا ہم درد شاید ہی کوئی اور ہو

ایک بار پارلیمنٹ میں سدھانشو ترویدی نے کہا تھا کہ “مسلمانوں کی تباہی کی ذمہ دار یہ سیکولر پارٹیاں ہی ہیں” واقعی بات بھی درست ہے، تشدد پسند افراد کے خلاف کانگریس نے کبھی کوئی کارروائی ہی نہیں کی، ہمیشہ واک اوور دیتے رہے اور وہ آگے بڑھتے رہے، مراداباد، میرٹھ، مظفر پور، بابری مسجد جیسے بہت سے احسانات ہیں ہم پر

یہ وہی کانگریس ہے جس کے دروازوں پر علامہ سید مظفر حسین کچھوچھوی (نور اللہ مرقدہ) کی جوتیاں گِھس گئیں لیکن دنگا فساد بل پاس نہ ہو سکا، پہلے اندرا گاندھی پھر راجیو گاندھی صرف وعدے پر وعدہ کرتے رہے اور ہم بستیاں جلتی، عزتیں پامال ہوتی اور اپنے مکان لٹتے دیکھتے رہے، کانگریس کی اس سافٹ کلنگ شبیہ کا دنیا کی کوئی طاقت، کوئی تنظیم مقابلہ نہیں کر سکتی، کانگریس کے ان احسانات پر مجھے کلیم عاجز کا یہ شعر یاد آرہا ہے

دامن پہ کوئی چھنیٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

سارا تنازعہ علاقائی اور در اندازی کرنے والے افراد کو لے کر 1979 میں شروع ہوا تھا جو 2019 تک سپریم کورٹ میں چلا اور اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جنگلی علاقوں میں بھی پناہ نہیں دی جارہی ہے 
بی بی سی بات کرتے ہوئے کانگریس کے رکن اسمبلی جناب عبدالباطن کا دعویٰ ہے کہ ’ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ آبادی بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی ہے جن کی غالب اکثریت ناخواندہ ہے۔

کانگریس کے زمانے میں انھیں سرکاری زمینوں سے بے دخل نہیں کیا جاتا تھا لیکن زمین ان کے نام الاٹ بھی نہیں کی جاتی تھی۔ اب حکومت انھیں ان زمینوں سے بے دخل کر رہی ہے جبکہ یہ ریاست کے جائز بشندے ہیں اور سبھی کے پاس شہریت کے مطلوبہ دستاویزات موجود ہیں۔

آسام میں موجودہ رکن اسمبلی جناب عبد الباطن کی حالت بھی کانگریس کے گجرات سے رکن پارلیمنٹ رہے احسان جعفری سے مختلف نہیں لگتی، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا –

یاد ماضی عذاب ہے یا رب

ماہر سیاسیات سنجیب باروا اپنی کتاب

Immigration, Ethnic Conflict and Political Turmoil- Assam 1979-1985

(ہجرت، سماجی رسہ کشی اور سیاسی کشمکش-آسام 1985-1979)میں لکھتے ہیں ۔

1979 سے 1985 کے دوران مرکزی آسام کے علاقے نیلی میں ایک بھیانک فساد برپا ہوا یہ 18 فروری 1983 کی صبح کو 6 گھنٹے تک جاری رہا۔اس قتل عام میں نو گاؤں ضلع کے نیلی اور گردونواح کے 14 گاؤں کے 2191 لوگ ہلاک ہوئے تھے (واضح رہے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 10000 سے متجاوز ہے )۔

ہلاک شدگان مشرقی بنگال کے وہ مسلمان تھے جن کے آبا ء واجداد نے ما قبل تقسیم برطانوی ہندوستان میں یہاں نقل مکانی کی تھی۔ذرائع ابلاغ سے وابستہ تین افراد انڈین ایکسپریس کے” ہمیندر ناراین” آسام ٹریبیون کے “بیدابرتا لکھر” اور اے بی سی کے شرما اس واقعہ کے گواہ تھے۔

یہ متاثرین ان لوگوں کی آل و اولاد تھے جو بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں برٹش انڈیا کے تحت چلنے والی اس وقت کی آسام حکومت کی راست تولیت کی بنیاد پر آسام آئے تھے۔(وکیپیڈیا)

نیلی میں رونما ہونے والا یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب آسام ایجی ٹیشن عروج پر تھا اور اسے ریاست میں رہنے والے بنگالیوں کے خلاف آسوکی زیر قیادت علاقائیت پسند نام نہاد آسامیوں نے انجام دیا تھا۔”اس واقعہ کو جنگ عظیم ثانی کے بعد بدترین اقلیت کشی کا نمونہ قرار دیا گیا ہے”(ویکیپیڈیا)

آسام میں بوڈوں کا نزلہ بھی مسلمانوں پر ہی گرتا رہا ہے، پورے ملک میں جب کسی حکومت کو سیاسی خطرہ ہوتا ہے یا کسی تنظیم پر مشکلات آتی ہیں تو تو تختہ مشق مسلم ہی ہوتے ہیں، انڈیا کے اکثریتی طبقہ کو خوش کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہوتا ۔

آسام میں اس سے قبل ۱۹۹۳ ، ۱۹۹۴، ۱۹۹۶اور ۲۰۰۸ میں بھی فسادات ہوچکے ہیں۔ ۱۹۹۶ میں بھی دولاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے اور ہلاکتوں کی تعداد ۲۰۰سے زائد تھی۔بوڈو عوام کی ابتدائی جنگ حکومت ہند کے خلاف تھی۔

نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ نے آزادی کے حصول کے لئے ۱۹۸۸ میں اپنی مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا

لیکن ۲۰۰۳ میں حکومت کے ساتھ بوڈوؤں کا معاہدہ ہو گیا۔ بوڈو گوریلا جنگجو وقتاً فوقتاً اپنے مطالبات منوانے کے لیےنہتے مسلمانوں کو اپنی دہشت گردی کا شکار بناتے رہے ہیں۔آسو نے بھی یہی کیا تھا اوربنگالی مسلمانوں کے نام پر نیلی میں قتل عام کیااور پھر حکومت ہند سے معاہدہ کرکے اپنی سیاسی جماعت اے جے پی بنائی اور کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کر کے ریاستی اقتدار پر قابض ہوگئے تھے ۔

نیلی فسادات میں سرگرم کردار ادا کرنے والوں کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ کانگریس کی مرکزی حکومت نے آسو کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے ان کے خلاف چلنے والے تمام مقدمات واپس لے لئے تھے ۔ جب مقدمات ہی نہیں رہے تو فسادیوں کو سزا دئے جانے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور اس طرح ملک کے دیگر صوبوں کی طرح ہزاروں مسلمانوں کا خون یوں ہی رائیگاں چلا گیا۔

تعجب ہوتا ہے کہ نیلی قتل عام جو 1984 سے صرف ایک سال قبل ہوا اور دسیوں ہزار مسلمان مار دیے گیے اسے ایسے بھلا دیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، نیلی قتل عام کا ذکر بھی نہیں ہوتا اور انٹرنیٹ پر مواد بھی بہت کم دستیاب ہے

آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمارا اتر پردیش انڈین مسلمانوں کا مرکز رہا ہے، ہر فرقے کا کا بڑا ادارہ یہیں قائم ہے، یہیں سے دہلی کا راستہ طے ہوتا ہے اور یہیں ہماری تباہی کا تانا بانا بنا جاتا رہا ہے

لیکن اسی مرکز سے کبھی کشمیریوں آسامیوں، بنگالیوں اور دور دراز کے علاقوں کے مسلمانوں کے خلاف مضبوط آواز کیوں نہیں اٹھی؟ حالاں کہ اتر پردیش کے مسلمان بھی ہمیشہ زد پر رہے ہیں لیکن خاصی تعداد میں دینی اور سیاسی اثر رکھنے والے لیڈر بھی ہوے ہیں، پھر ایسی کیا وجہ رہی کہ ہمیشہ خاموشی ہی دکھائی دی۔

تحریر: محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف

چیئرمین : تحریک علماے بندیل کھنڈ
رکن : روشن مستقبل دہلی

ان مضامین کو بھی پڑھیں

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

ایک مظلوم مجاہد آزادی

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

 اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے

خطرے میں کون ہے ؟

افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں 

 مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें 

 

30 thoughts on “آسام کے مختصر روداد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *