ماہِ محرم الحرام کی فضیلت اور مروجہ بدعات و رسومات

Spread the love

ماہِ محرم الحرام کی فضیلت اور مروجہ بدعات و رسومات

فرحان بارہ بنکوی 

صانعِ عالم نے دنیائے رنگ و بو کو وجود بخشا اور تمام روئے زمین کو مرتب انداز پر چلانے کے لیے بے شمار اسباب مہیا فرمائے؛ چنانچہ انسان کو متعین وقتوں اور مقررہ دونوں میں اپنے امور کو انجام اور ترتیب دینے کے لیے اس نے چاند کو مقرر فرمایا؛ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: و یسئلونک عن الاھلۃ قل ھی مواقیت للناس (سورۂ بقرہ: ۱۸۹، پ: ۲)

چاند کا اہم کام اور مشغلہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ لوگوں کو وقت سے آگاہ اور مطلع کرتا ہے اور اسی آگاہی کے لیے سال، مہینوں، دنوں اور گھنٹوں کو وجود عطا کیا گیا۔

اس دنیا میں متعدد تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب و ملل کے پیروکار ہیں، ہر ایک نے اپنا سال اپنے حسبِ منشا مقرر کر رکھا ہے۔ متبعینِ اسلام نے جب سال کے آغاز کا فیصلہ کیا تو ماہِ محرم کو منتخب فرمایا اور یہ ماہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار پایا۔

یہ مہینہ ایک اہم اور فضیلت والا مہینہ ہے؛ چنانچہ قران میں اللہ رب العزت نے فرمایا: ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھرا۔۔۔۔۔ منھا اربعۃ حرم (سورۂ توبہ: ۳۶، پ: ۱۰) 

اللہ تعالی کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور ان میں سے چار مہینے محترم ہیں اور ان مہینوں میں سے ایک ماہ ’’ماہِ محرم‘‘ بھی ہے۔ ان ماہِ محترم کا لحاظ کرتے ہوئے مشرکینِ مکہ بھی جنگ و جدل روک دیتے تھے۔ اس ماہ کو گونا گوں اہمیتیںو فضیلتیں اس معنی کر بھی حاصل ہیں کہ اسی ماہ میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ اسی ماہ میں حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کی توبہ قبول ہوئی اور اسی ماہ کی دس تاریخ کو قیامت واقع ہوگی۔ اس ماہ کی اہمیت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے نہیں ہوئی ہے؛ بلکہ اس ماہ محرم الحرام کی فضیلت روزِ اول سے ہی چلی آ رہی ہے۔ ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرتِ حسینؓ اور اہلِ بیت کی شہادت ایسا جان کاہ واقعہ ہے کہ جس نے تمام اہلِ اسلام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اس حادثۂ فاجعہ کا حزن و ملال تا عمر امتِ مسلمہ کو رہے گا؛ مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اس ماہ کو غمِ حسین اور غمِ اہلِ بیت کا ماہ تصور کر لیا جائے

اور اس غم کی نمائش و اظہار کے نام پر بدعات و رسومات کا انبار لگا دیا جائے۔ بے حیائی کا مظاہرہ اور اغیار، بالخصوص اہلِ ہنود کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ کفر و شرک کا ننگا ناچ ہو، مذہبِ اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔

بعضے لوگ اس سانحہ کے پیش آنے کی بنا پر اس ماہ محترم کو غم و آلام کی نظر کر دیتے ہیں اور رنج و حزن کا ایک ایسا مظاہرہ اور نمائش کی جاتی ہے کہ جیسے یہ اس صدمے سے کبھی نبرد آزما نہ ہو سکیں گے۔

واقعۂ کربلا کو اس طور پر پیش کیا جاتا ہے گویا اس سے بڑا یا اس کے علاوہ کوئی سانحہ اہلِ اسلام کو پیش ہی نہ آیا ہو۔

کیا حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس عالم انسانی سے پردہ فرما جانا، کوئی غیر معمولی واقعہ ہے کہ جس کو نظر انداز کر دیا جائے؟ حضور ﷺ کے بے شمار شیدائی اور صحابۂ کرامؓ قربان کر دیے گئے؛ لیکن کبھی ان پر ان گھڑیالیوں نے آنسو نہیں بہائے، نہ غم کا اظہار کیا؛ مگر ماہِ محرم کو غم کا مہینہ متعین کر دیا۔ اس ماہ میں غموں کا اظہار: نوحہ کرنا، ماتم کرنا، تعزیہ رکھنا، سوگ کے لیے سیاح لباس پہننا، ننگے پیر چلنا پھرنا، اپنا شعار بنا لیا ہے۔

اگر شہادت پر غم منانا روا ہوتا تو مذہبِ اسلام اظہارِ غم کی حدود متعین نہ کرتا۔ اسلام چونکہ آفاقی مذہب ہے، اس نے ہر ایک پہلو سے اپنے متبعین کو زندگی گزارنے کے احکام دیے؛ اس لیے اس ماہ کو غم و آلام کا مہینہ نہ بنا کر، عبادت، ایثار و قربانی، صبر و استقلال کا مہینہ بنایا جائے۔ اسلامی احکام کی پاسداری کی جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر عمل کرتے ہوئے صوم و صلاۃ کا اہتمام کیا جائے اور بے جا خرافات، بدعات و رسومات کا قلع قمع کیا جائے اور رضائے الہی اور خوشنودئ مصطفوی ﷺ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے، وصلِ جنت کو لازمی اور یقینی بنایا جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *