رمضان المبارک کے روزے صبر وتحمل کا پیغام

Spread the love

رمضان المبارک کے روزے صبر وتحمل کا پیغام

مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی

اللہ رب العزت نے اس دنیا کی تخلیق فرما کر انسانوں کے سلسلے کو جاری وساری فرمایا، اور انسانوں کے مزاج اور اس کی ضروریات کے مطابق دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا فرمایا ہے۔

رب کائنات نے انسانوں کی تخلیقات ایک عظیم مقصد کے تحت فرمائی ہے، انسان جب اپنی تخلیقی پس منظر پر غور وفکر کرکے آیات قرآنی پر نظر ڈالتا ہے تو اسے اس بات کا علم واندازہ ہوتا ہے کہ انس وجن کی تخلیقات رب کائنات کی عبادت وریاضت اور بندگی کے واسطے کی گئی ہے، وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِيَعۡبُدُوۡنِ (الذریات: ٥٦)ترجمہ: اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔عبادت وبندگی نام ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر یعنی احکامات الہی کے بنائے حدود اور دائرے میں رہ کر زندگی گزارنے کا۔

اللہ رب العزت نے انسانوں پر چند احکامات فرض کیے ہیں جنہیں بجا لانا لامحالہ کلمۂ طیبہ پڑھنے والوں اور اس پر یقین کرنے والوں کے لئے لازمی ہے، ان احکامات میں سے ایک حکم رمضان المبارک کے روزے ہیں،اللہ رب العزت نے مسلمانوں پر رمضان المبارک کا روزے فرض کیے ہیں۔

اور روزہ نام ہے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے رک جانے کا۔روزہ ارکان اسلام کا ایک رکن ہے، رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے اس ماہ کی فضیلت واہمیت، افضلیت و برتریت دیگر ماہ سے بڑھے ہوئے ہیں۔

کیوں کہ یہ ماہ اپنے اندر کئی جہت سے خصوصیات کا حامل ہے، اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسی ماہ میں کلام اللہ کا نزول ہوا جس کی شہادت خود قرآن مجید نے دی ہے۔ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ (البقرۃ: ١٨٥)ترجمہ: رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔)

اللہ رب العزت نے روزے کی فرضیت کے وجوہات بھی خود قرآن مجید میں واضح طور پر بیان فرمائے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ (البقرۃ: ١٨٣)ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی (پرہیزگار) بن جاؤ۔

تقوی کیا ہے؟تقوی کا استعمال شرعی لحاظ سے دو معنوں پر ہوتا ہے، بچنا احتیاط کرنا، اور گناہ ومعصیت سے خوفزدہ ہوتے ہوئے دور رہنا ،ظاہر ہے کہ جب کسی چیز سے انسان خوفزدہ ہوگا تبھی ان چیزوں سے احتیاط کرے گا، تقوی کا اصل تقاضہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اصول شکنی سے خوفزدہ ہونا اور اس خوف کی وجہ سے ناجائز خواہشات اور تمام قسم کے معصیت اور فواحش سے بچنا۔

رمضان المبارک کے روزے ہمیں تقویٰ وخشئیت الہی کا درس دیتا ہے، کیوں کہ روزے کی حالت میں حلال اور جائز ومباح چیزیں بھی حرام ہیں اور یہ محض رب کی اطاعت و بندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے، یقیناً اللہ رب العزت نے انسانوں کے درجے اور مراتب طے کرتے ہوئے واضح طور پر فرمان جاری کردیا کہ

ہمارے نزدیک محترم ومکرم اور معظم وہ بندہ ہے جو مجھ سے میرے معاملے میں تقویٰ پرہیزگاری کا لحاظ رکھے؛ يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۚ اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ (الحجرات: ١٣)اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں وہ اس لیے تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے

بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔یقیناً رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے لئے زہد وتقویٰ کا درس دیتا ہے، مسلمان اس ماہ میں محض خوشنودئ الہی کے لیے کھانے پینے کے ساتھ ساتھ نفسانی خواہشات سے خود کو دور رکھ کر بندگی کے تقاضے پورے کرنے کی سعی کرتے ہیں

اور بزبان حال وقال اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ میری عبادت وریاضت اور میری بندگی، میری موت وحیات، میرا جاگنا سونا، میرا اٹھنا بیٹھنا، میرا چلنا پھرنا، میری ہر سانس میری ہر آس یہ محض آپ کے لئے ہے، آپ کے احکامات کی پیروی آپ کے فیصلے پر راضی رہنا یہی میرا سرمایۂ حیات ہے

ہم سے جس طرح کی بھی قربانی کا مطالبہ ہوگا ہم ایک رب کی خاطر اس کے لیے مستعد رہیں گے۔

وہی رب ہے جس نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے اس پر وہی احکامات مسلط فرمائے جسے وہ با آسانی بجا لا سکے ”لايُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا“ اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا۔ (البقرۃ: ٢٨٦) یقیناً اللہ کی ذات وصفات اونچی اور بلند ہے

وہ ارحم الراحمين والی صفت رکھتے ہیں، وہ کبھی بندوں کے ساتھ دشواریاں نہیں چاہتے ہیں بلکہ سہولت اور آسانی چاہتے ہیں، یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ (البقرۃ: ١٨٥) اللہ بندوں کے لیے سہولت چاہتے ہیں دشواری نہیں

اور رمضان المبارک کے روزے بندوں کے حق میں ہر محاذ پر بہتر اور اعلیٰ ہے، روزے سے ہمارے اندر تقویٰ کے ساتھ ساتھ تحمل و برداشت اور صبر کے آداب پیدا ہوتے ہیں،صبر وضبط یہ اسلامی تعلیمات کا اہم جزو ہے

اللہ رب العزت نے صبر کرنے والوں کو اپنا خاص دوست قرار دیتے ہوئے فرمایا: ”ان اللہ مع الصابرين“ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں،(البقرۃ: ١٥٣) صبر و تحمل اور ضبط کے اوصاف یہ بڑی نعمت ہے، اور اس کے ذریعہ ہماری زندگی مکمل کام یاب وفلاح پا سکتی ہے

اللہ رب العزت نے ایسے لوگوں کے لیے خوش خبری سنائی ہے اور مومنین کے اوصاف میں یہ ایک اہم صفت ہے؛ والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس۔ (آل عمران: ١٣۴) ترجمہ: اور وہ اپنے غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔

روزے کی فضیلت و اہمیت پر اگر توجہ دی جائے تو یہ مسلمانوں کے لئے بڑا ذریعہ و وسیلہ اور موقع ہے کہ وہ اپنے رب کی رضا خوشنودی حاصل کرے، کیوں کہ اللہ کا وعدہ روزہ دار کے سلسلے میں بےپناہ انعامات و اکرامات کا ہے۔

رمضان المبارک کے روزوں کی اہمیت و فضیلت اور تقاضوں کے سلسلے میں چند احادیث:عن ابی هریرة قال، قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم: من صام رمضان ایماناً و احتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه. (صحیح البخاری‘ 1: 10‘ کتاب الایمان‘ رقم حدیث: 38)ترجمہ: حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

الصیام جُنة من النار کجُنة أحدکم من القتال مالم یخرقھا بکذب وغیبة.ترجمہ: جس طرح میدانِ جنگ میں دفاع کے لئے ڈھال ہوتی ہے۔ روزے تمہارے لیے اسی طرح آگ (جہنم) کے لئے ڈھال ہیں۔ جب تک کہ انسان اس ڈھال (روزہ) کو جھوٹ اور غیبت سے توڑ نہ ڈالے۔علیکم بالصوم فإنه لا مثل لهترجمہ: تم پر روزہ رکھنا فرض ہے کہ روزے جیسی عبادت کی کوئی مثال نہیں۔

قال اللہ عزوجل کل عمل ابن اٰدم له إلا الصیام فإنه لي وأنا أجزي به والذي نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسك.ترجمہ: ابن آدم ہر عمل اپنے لئے کرتا ہے مگر روزہ صرف میری خاطر رکھتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔

خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بُو خدا تعالیٰ کے نزدیک مشک و عنبر سے بھی زیادہ فرحت افزا ہے۔ان تمام پہلوؤں پر اگر ہم توجہ دیں گے

تو یقیناً ہمیں اس بات کا علم واندازہ ہوگا کہ روزہ ایک اہم عبادت ہے اور اس سے انسان کے اندر تقویٰ وخوف الہی پیدا ہوتا ہے اور ان چیزوں سے ہی دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، اور رمضان المبارک کے روزے ہمیں صبر و تحمل کا پیغام دیتا ہے

مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی

معلم چک غلام الدین ہائی اسکول بیلسر ،ویشالی ،بہار موبائل نمبر 7909098319

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *