سورہ ہود ایک مختصر تعارف

Spread the love

سورہ ہود ایک مختصر تعارف

محمد عبدالحفیظ اسلامی

سورہ مذکور میں حضرت ہود علیہ السلام کا تذکرہ ہے، اسی مناسبت سے اسے آپ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ یہ ایک سو تیئیس 123 آیات پر مشتمل ہے۔ اس کے کلمات ایک ہزار چھ سو اور حروف 9567 ہیں۔ ہجرت سے کچھ عرصہ پہلے اس کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا۔ قرآن اس بات پر شاہد ہے کہ سورۃ یونس کے فوراً بعد یہ سورۃ نازل ہوئی۔ اسلامی دعوت کا یہ وہ نازک دور ہے جب سنگین مزاحمتوں کے باوجود اسلام کا نور کفر و شرک کے پختہ مورچوں کو سر کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا جس کے باعث کفار ومشرکین آتش زیرپا ہوگئے۔

اپنے ترکش جور و جفا کا ہر تیر آزمانے پر اُتر آئے۔ اسلام اور حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ان کی ہرزہ سرائی اور بہتان طرازی ، خست و کمینگی کی حد تک پہنچ چکی تھی ، نادار و بے بس مسلمانوں پر اُنھوں نے ظلم کی انتہا کردی ان حالات میں اس سورۃ کا نزول ہوتا ہے۔ (حوالہ جلد دوم ص 337 ضیاء القرآن) ۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا…۔ ’’میں دیکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بوڑھاپے کے آثار وارد ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے‘‘؟ جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” شَیبْنی ھود واخواتھا‘‘۔ مجھ کو سورۂ ہود اور اس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کردیا ۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہ زمانہ کیسا سخت ہوگا جب کہ ایک طرف کفار قریش اپنے تمام ہتھیاروں سے اس دعوتِ حق کو کچل دینے کی کوشش کررہے تھے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے پے در پے آیات نازل ہورہی تھیں۔ ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر وقت یہ اندیشہ گھلائے دیتا ہوگا کہ کہیں اللہ کی دی ہوئی مہلت ختم نہ ہوجائے اور وہ آخری ساعت نہ آجائے جب کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب میں پکڑ لینے کا فیصلہ فرمادیتا ہے۔

فی الواقع اس سورے کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک سیلاب کا بند ٹوٹنے کو ہے اور اس غافل آبادی کو ، جو اس سیلاب کی زد میں آنے والی ہے ، آخری تنبیہ کی جارہی ہے۔

سورۃ یونس کی بہ نسبت یہاں دعوت مختصر ہے، فہمائش میں استدلال کم اور وعظ و نصیحت زیادہ ہے ، اور تنبیہ مفصل اور پرزور ہے۔ دعوت یہ ہے کہ پیغمبر کی بات مانو ، شرک سے باز آجاؤ ، سب کی بندگی چھوڑ کر اللہ کے بندے بنو اور اپنی دنیوی زندگی کا سارا نظام آخرت کی جواب دہی کے احساس پر قائم کرو

فہمائش یہ ہے کہ حیات دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کرکے جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کی دعوت کو ٹھکرایا ہے وہ اس سے پہلے نہایت بُرا انجام دیکھ چکی ہیں، اب کیا ضرور ہے کہ تم بھی اسی راہ چلو جسے تاریخ کے مسلسل تجربات قطعی طور پر تباہی کی راہ ثابت کرچکے ہیں۔ تنبیہ یہ ہے کہ عذاب کے آنے میں جو تاخیر ہورہی ہے یہ دراصل ایک مہلت ہے جو اللہ اپنے فضل سے تمہیں عطا کررہا ہے۔

اس مہلت کے اندر اگر تم نہ سنبھلے تو وہ عذاب آئے گا جو کسی کے ٹالے نہ ٹل سکے گا اور اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت کو چھوڑ کر تمہاری ساری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹادے گا۔ اس مضمون کو ادا کرنے کے لئے براہِ راست خطاب کی بہ نسبت قوم نوح ، عاد ، ثمود ، قوم لوط ، اصحاب مدین اور قوم فرعون کے قصوں سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔

ان قصوں میں خاص طور پر جو بات نمایاں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا جب فیصلہ چکانے پر آتا ہے تو پھر بالکل بے لاگ طریقہ سے چکاتا ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ ذرہ برابر رعایت نہیں ہوتی۔اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کس کا عزیز ہے۔

رحمت صرف اس کے حصہ میں آتی ہے جو راہِ راست پر آگیا ہو ، ورنہ خدا کے غضب سے کوئی نہیں بچتا۔ یہی نہیں بلکہ جب ایمان و کفر کا دو ٹوک فیصلہ ہورہا ہو تو دین کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ خود مومن بھی باپ اور بیٹے اور شوہر اور بیوی کے رشتوں کو بھول جائے اور خدا کی شمشیر عدل کی طرح بالکل بے لاگ ہوکر ایک رشتۂ حق کے سوا ہر دوسرے رشتے کو کاٹ پھینکے ایسے موقع پر خون اور نسبت کی رشتہ داریوں کا ذرہ برابر لحاظ کر جانا اسلام کی روح کے خلاف ہے۔

یہی وہ تعلیم تھی جس کا پورا پورا مظاہرہ تین چار سال بعد مکہ کے مہاجر مسلمانوں نے جنگ بدر میں کرکے دکھایا۔ (حوالہ تفہیم القرآن جلد دوم ص 320 تا 321) انبیاءسابقین کی بعثت چوں کہ صرف ایک مخصوص حلقہ کے لیے اور ایک محدود وقت تک کے لیے تھی۔ اس لیے ان کی تعلیمات بھی اِنھیں مقامی اور وقتی ضروریات کے مطابق تھیں لیکن مرشدِ اعظم اور ہادی اکمل صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام اقوام کیلئے اور قیامت تک کیلئے تشریف فرما ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاشرہ کی اصلاح کرنا تھی اور بوقلموں (رنگا رنگ تعجب آمیز) حالات سے دوچار ہونا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب صحراؤں اور جنگلوں کے ناخواندہ عوام بھی تھے اور شہروں اور آبادیوں کے مقنن باشندے بھی۔ ملوکیت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے غلام بھی تھے۔ اور صنعت و حرفت میں اوج کمال تک پہنچے ہوئے لوگ بھی۔

دولت و ثروت کے خمار سے مخمور بھی اور اس مفلس و خستہ حال بھی۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مختلف طبقوں میں پیدا ہونے والی متنوع غلط کاریوں کی اصلاح کرنا تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام کی سیرتوں اور اپنے انبیاعلیھم السلام پر ان کے اعتراضات اور دعوتِ حق کے مقابلہ میں ان کا ردعمل ایک ایک کرکے بیان فرمادیا تاکہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تمام احوال سے آگاہ کردیا جائے جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دوچار ہونا تھا۔ تاکہ کوئی بات خلاف توقع نہ ہو اور کوئی ردعمل باعث حیرت و استعجاب نہ بنے۔

ان تمام اُمور کو اس سورۃ مبارکہ میں بڑے دلنشین اسلوب میں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہیں… ’’فاستقم کما امرت ومن تاب معک‘‘

آپ اور آپ کے ساتھی حکم الٰہی کو بجا لانے کے لیے حالات کی سنگینی اور ماحول کی ناسازگاری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مستعد اور ثابت قدم رہیں۔ اور پھر یہ بھی فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کے واقعات بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہیکہ ’’نثبت بہٖ فوادک‘‘ -آپ کے دل کو ثبات و قرار نصیب ہو۔ آپ عبادت الٰہی میں سرگرم رہیں اور اسکی تائید و نصرت کے سامنے دشمنان اسلام کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا اور فتح و نصرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم چومے گی۔ (حوالہ ض ق)۔

نکاح کو آسان کیسے بنایا جائے

محترم قارئین کرام ! ۔

یہ تھاسورۃ مذکور کا مختصر تعارف: اگر اس مکی سورہ “ہود” کا بتوفیق الہی تفصیلی مطالعہ کیا جاے اور دوسری طرف ساری دنیا اور اپنے اطراف میں اسلام مخالف ومسلم دشمن ماحول پر غور کیا جاے تو بحیثیت مسلمان و بندہ مومن کہ اس میں بہت سارے اسباق مل جاتے ہیں جو ایمان کی اہمیت کے ساتھ اسلام پر جینے مرنے کا ہنر سیکھلاتے، اور ہمت وحوصلہ پیدا کرتے ہیں، جو عام اہل ایمان کے علاوہ داعیان حق٫ ودین حنیف کےعلمبرداروں کے لیےانتہائی ضروری ہے

خاص طور پر آیت کریمہ 112 میں اہل ایمان کو تعلیم دی گئ کہ مشکل ترین حالات میں بھی ایمان پراستقامت کے ساتھ اخلاقی قوت اور رفعت کے کردار کا مظاہرہ تمہاری زندگی کے ہر پہلو سے ہونا چاہیے اور اس بات کی یادہانی بھی کردی گئ کہ دیکھو اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال کو دیکھ رہاہے۔

محمد عبدالحفیظ اسلامی

سینئر کالم نگار حیدرآباد

9849099228

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *