جو ڈھاکا کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے

Spread the love

جو ڈھاکا کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے

تحریر محمد زاہد علی مرکزی

چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ

فیض احمد فیض کے یہ اشعار آج کل ہمارے ملک اور ہمارے احسان فراموش پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے حالات پر بالکلیہ صادق آرہے ہیں، احسان فراموش پر پریشان نہ ہوں نیشنل میڈیا آج کل یہی الفاظ استعمال کر رہا ہے ۔فیض احمد صاحب سے معذرت کے ساتھ مقطع حاضر ہے، اصل مقطع دیکھنا ہو تو گوگل کر لیں ۔چہرے پہ دونوں ملکوں کے گرد ملال ہےجو ڈھاکا کا حال ہے وہی دلی کا حال ہےالجھن، گھٹن، ہراس، تپش، کرب، انتشاروہ بھیڑ ہے کہ سانس بھی لینا محال ہےپرچھائیاں قدوں سے بھی آگے نکل گئیںسورج کے ڈوب جانے کا اب احتمال ہےجون جولائی کے گرمی سمیٹے وہ 5 اگست کی قدرے خنک صبح تھی جب شیخ واجد حسینہ کے گارڈز نے انھیں بتایا کہ اب یہ ملک آپ کو برداشت نہیں کر سکتا، اگر گزشتہ دوونو ماہ کی گرمی سے بچنا ہے تو استعفیٰ دے کر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوے کسی اور ملک کا رخ کریے، تھوڑی نا نکر کے بعد شیخ حسینہ کو یہ بات سمجھ آگئی اور وہ وقت رہتے انڈیا نکل آئیں، شیخ حسینہ بنگلہ دیش میں 1996 سے 2001 تک اور پھر 2009 اگست 2024 تک وزیر اعظم رہی ہیں ۔ان کی جگہ نوبل انعام یافتہ شیخ یونس کو عبوری وزیر اعظم چنا گیا، شیخ یونس کو ساری دنیا نے سراہا کیوں کہ وہ نوبل انعام یافتہ تھے، ہمارے پردھان منتری نے بھی انھیں شبھ کامنائیں دیں، وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر لکھا کہ” پروفیسر محمد یونس کو ان کی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے پر میری نیک خواہشات۔ ہم ہندوؤں اور دیگر تمام اقلیتی برادریوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے معمول پر جلد واپسی کے منتظر ہیں۔ ہندوستان امن، سلامتی اور ترقی کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے”. _____ معاملات کہاں سے بگڑے؟ اگست میں حکومت چھوڑنے کے بعد شیخ حسینہ کے ہندوستان میں پناہ لینے کے چند ہی دن بعد یونس نے عبوری حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ پڑوسی ملک میں ہونے والی پیش رفت کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملوں اور ہندو سنت چنمئے کرشنا داس کی گرفتاری کے بعد حالیہ ہفتوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے، اگرتلہ، تریپورہ میں بنگلہ دیشی سب ہائی کمیشن میں مظاہرین کے زبردستی داخل ہونے کے معاملے نے بھی دونوں ممالک کے تعلقات کو خراب کیا ۔ شیخ صاحب کی حکومت کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوے لیکن شیخ جی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھلے ہی وہ نوبل انعام یافتہ ہوں لیکن آنکھیں وہ بھی رکھتے ہیں، انڈیا، پاک اور بنگلہ دیش بل کہ اب تو امریکا تک میں جارحانہ سیاست ہو رہی ہے اس لیے شیخ صاحب نے اس موقع کو نہایت غنیمت جانا ، شیخ جی نے ہمارے ملک کے لوگوں سے نصیحت پکڑتے ہوئے مسلم ایجنڈے کو جماعت اسلامی کی شہ پر خاموش بڑھاوا دیا، معاملہ اتنا بڑا تھا نہیں جتنا بڑا بنا دیا گیا، اسکان کے چیف چنمئے داس پر بنگلہ دیشی جھنڈے کی توہین کا الزام تھا، جماعت اسلامی نے اس معاملے کو خوب بڑھایا، شیخ جی ملک کی نبض دیکھ چکے ہیں جو پچھلے کئی مہینوں سے نہایت تیز چل رہی ہے اس لیے شیخ جی نے معاملات میں خاموشی برتی اور جماعت اسلامی نے جم کر ہنگامہ کیا…. چنمئے داس کی ضمانت خارج کر دی گئی، اسکان پر پابندی کی مانگ اٹھنے لگی، ہمارے یہاں کے لوگوں کی ہمدردی نے آگ میں گھی کا کام کیا اور قریب پچاس کے قریب اسکان سے منسلک پجاری بنگلہ دیش چھوڑنے کے لیے بنگال بارڈر پر اکٹھا ہو گئے، ادھر سے بھارتی ہندو بھی بارڈر پر اپنے مذہبی رہنماؤں کی حمایت میں محاذ کھول بیٹھے، بنگلہ دیش نے بارڈر پر کلر ڈرون تعینات کر دیے… یہ سب ہو ہی رہا تھا کہ بھارتی سیاسی اور مذہبی لیڈران نے خوب بیان بازی کرکے بھارتی حکومت کو اس معاملے کو نمٹانے کی بات کی، بھارت نے کڑا ورودھ جتایا، بنگلہ دیش نے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں تو ہی بہتر ہے، بھارتی حکومت پر شیخ حسینہ کو پناہ دینے پر بنگلہ دیش پہلے ہی ناراض ہے، حسینہ کو بنگلہ دیش کو سونپنے کی بات ڈھاکا پہلے ہی کئی بار کر چکا ہے۔—- پرچھائیاں قدوں سے بھی آگے نکل گئیں ایک ویڈیو دیکھا جس میں بنگلہ دیش کے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ بھارت ہمیں آنکھیں نہ دکھائے ہم کمزور نہیں ہیں، بنگلہ دیش کے عام لوگ ہی نہیں بل کہ سابق فوجی اور کمانڈرس بھی مارچ نکال کر انڈیا کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہوش میں رہو ورنہ چار گھنٹے میں بنگال ہمارا ہوگا ، ہم وہ نہیں ہیں جو 1972 میں تھے، بعض کا کہنا تھا کہ ہم امریکا کو بھی اوقات دکھا سکتے ہیں، یہ بات کوئی نوجوان نہیں بوڑھا آدمی کہہ رہا تھا، یعنی جو کمال واٹس ایپ یونیورسٹی نے انڈیا میں کر رکھا ہے وہی حال بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی نے کر رکھا ہے…. شعری زبان میں کہا جائے تو یوں کہہ سکتے ہیں ع دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی فی الحال جو حال مذہبی جماعتوں کا انڈیا میں دیکھنے کو مل رہا ہے وہی حال بنگلہ دیش میں بھی مذہبی جماعتوں کا ہے، طرفین سے آگ اگلی جارہی ہے اسی لیے ہم کہہ رہے ہیں کہ ع جو ڈھاکا کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے. واقعی پرچھائیاں قدوں سے آگے نکل گئی ہیں اس لیے جو بات دونوں ملکوں کے سربراہ نہیں کہہ سکتے وہ باتیں پرچھائیاں کہہ رہی ہیں، ان پرچھائیوں کی لپٹوں میں کتنے لوگ جھلس تے ہیں یہ دیکھنے والی بات ہوگی، بھارت کے سارے پڑوسی ممالک بھارت سے دور ہوتے جارہے ہیں یہ تشویش کا باعث ہے لیکن جیسا ماحول ہے ایسے میں دونوں ملکوں کے سربراہ اپنی قوم کو ناراض نہیں کرنا چاہیں گے یعنی کچھ دن یہ ہنگامہ آرائی ہونا ہی ہے….. بعدہ امید بہتری کی ہی ہے…. —– سکریٹری سطح کی ملاقات سے بہتری کی امید ہنگاموں کے بیچ انڈیا نے سوموار کو خارجہ سکریٹری سطح کی ملاقات کی اور میٹنگ کے دوران بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملوں کے ‘افسوسناک واقعات’ کا معاملہ اٹھایا، لیکن بنگلہ دیش نے اسے ‘گمراہ کن اور غلط معلومات’ قرار دیتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ کسی بھی ملک کو اپنے داخلی قوانین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کسی کو معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ انڈیا کے خارجہ سکریٹری وکرم مصری اور بنگلہ دیش کے خارجہ سکریٹری محمد جسیم الدین کے درمیان ہونے والی ملاقات میں، جسیم الدین نے کہا کہ بنگلہ دیش کو ہندوستان میں ‘منفی مہم’ کو روکنے میں ہندوستان کے فعال تعاون کی توقع ہے تاکہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان اعتماد پیدا ہو سکے ۔ انڈین سکریٹری کی ملاقات بنگلہ دیش کے وزیر اعظم شیخ یونس صاحب سے بھی ہوئی اور یہاں ملاقات چالیس منٹ تک چلی، ملاقات کے بعد شیخ یونس اور انڈین سکریٹری نے مشترکا بیان میں کہا کہ ہم جلد ہی حالات بہتر ہونے کی امید کرتے ہیں ۔بنگلہ دیش کے خارجہ سکریٹری محمد جسیم الدین نے کہا کہ بنگلہ دیش کو امید ہے کہ ہندوستان کے ساتھ تمام ‘غیر حل شدہ مسائل’ حل ہو جائیں گے۔ بنگلہ دیش کے بیان کے مطابق بات چیت کے دوران مشترکہ دریاؤں کے مسائل کو اس وقت اضافی اہمیت حاصل ہوئی جب بنگلہ دیش نے تیستا پانی کی تقسیم کے معاہدے پر دستخط کرنے کے ساتھ ساتھ گنگا کے پانی کے معاہدے کی تجدید پر اصرار کیا۔ یہ معاہدہ 2026 میں ختم ہو جائے گا۔ بنگلہ دیش نے بھی بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ درآمدی ڈیوٹی اور غیر درآمدی رکاوٹوں کو دور کرے۔ 11/12/20249/6/1446

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *