حضور حجتہ الاسلام کا علمی مقام
حضور حجتہ الاسلام کا علمی مقام
از- علی حسین ضیائی اُتر مہاراج پور، مالدہ، مغربی بنگال
خاندانِ رضا صدیوں سے شجاعت و بسالت، غیرت و حمیت اور جرأت و دلیری میں ممتاز و نمایاں رہا۔
جب اس نیک خصال خانوادے نے میدانِ کارزار اور تیغ و سناں کو ترک کر کے وادیِ علم و عرفان کو اپنی جولان گاہ بنایا تو وہاں بھی ایسے محیرالعقول کارنامے انجام دیے کہ اُفقِ علم و فضل اُن کے فیضان سے منور ہو گیا۔
علم و حکمت، شعر و ادب، معقولات و منقولات — ہر میدان میں ان کے آثارِ قلم گوہرِ تاباں بن کر چمکے اور علمی خزانوں کو نادر شہ پاروں سے معمور کر دیا۔ حق گوئی و بے باکی، احقاقِ حق و ابطالِ باطل کی جدوجہد اُن کا شعار تھا۔
خانوادے کا طرزِ اسلوب اپنی مثال آپ تھا۔ عشقِ رسالت ﷺ ان کے وجود کا سرمایۂ بصیرت تھا اور محبتِ رسول ﷺ ان کے قلوب کا جوہرِ حقیقت۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ امت کے قلوب میں عشقِ رسول ﷺ کی شمع روشن کرنے میں صرف کیا۔
گستاخانِ خدا و رسول کے خلاف ہمیشہ شمشیرِ حق بکف رہے اور جہادِ بالقلم کو اپنا ابدی شعار بنایا۔اسی درخشاں خانوادے کے جلیل القدر عالمِ دین، حجۃ الاسلام، شیخُ الاسلام والمسلمین، حجۃ اللہ فی الارضین، امامُ العلماء، تاجُ العلماء الکاملین، سندُ المفسرین، عمدۃُ المحدثین، شیخُ الادب، شیخُ الحدیث، امامُ الوقت، رہبرِ شریعت، شیخُ الطریقت، عظیم المرتبت سلطانُ المناظرین، قائدِ اہلِ سنت، نائب و جانشینِ اعلیٰ حضرت، علامہ مولانا مفتی حامد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ نے اپنے اسلاف کے علمی وقار اور روحانی جلال کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ علم و حکمت، دانائی و بصیرت، تبلیغ و اشاعت، زہد و تقویٰ اور خدمتِ دین سے اسے مزید فروغ دیا۔
وہ بحق نائبِ اعلیٰ حضرت کہلائے، جنہوں نے علم و عمل کے گلستان میں ایسے نایاب پھول کھلائے کہ آج تک اُن کی حیاتِ طیبہ میں انجام پائے دینی و علمی امور کی مثال تاریخِ اسلام میں کم ہی ملتی ہے۔خاندانِ رضا کا یہ آفتابِ عالمتاب ربیع الثانی ۱۲۹۲ھ بمطابق ۱۸۷۵ء میں اُفقِ علم و حکمت پر طلوع ہوا۔
حضورِ اعلیٰ حضرت نے اپنے لختِ جگرِ خلفِ اکبر کا نام حضور ﷺ کے اسمِ مبارک پر رکھا اور عرفیت “حامد رضا” تجویز فرمائی۔ حجۃ الاسلام کی تعلیم و تربیت اپنے والدِ گرامی فقیہِ اعظم امام احمد رضا کی آغوشِ رحمت و شفقت میں ہوئی۔
آپ بچپن ہی سے ذکی و فہیم اور ذہین و فطین تھے۔ دورانِ درسِ علمی و فنی سوالات پیش فرماتے، اور چونکہ اعلیٰ حضرت جیسے بحرالعلوم ان کے معلم تھے، اس لیے ہمیشہ شافی جواب پا کر مطمئن ہو جاتے۔ اعلیٰ حضرت کو آپ کے بعض سوالات اس قدر پسند آتے کہ “قالَ الوَلَدُ الأَعَزُّ” لکھ کر اُن کا سوال اور پھر اپنا جواب متعلقہ کتاب کے حاشیے یا کسی دوسرے مقام پر رقم فرما دیتے۔
اعلیٰ حضرت نے حجۃ الاسلام کو محنت و شفقت سے پڑھایا بھی اور پلایا بھی۔ آپ کو نہ صرف معقولات میں بامِ عروج تک پہنچایا بلکہ وقت کے عظیم مفسر، محدث، فقیہ اور مایہ ناز ادیب بھی بنایا۔جب آپ نے علومِ دینیہ کی تکمیل کر لی تو مسندِ افتاء پر متمکن ہوئے۔
یہ سلسلہ ۱۳۱۲ھ (۱۸۹۵ء) سے ۱۳۲۶ھ (۱۹۰۸ء) تک جاری رہا۔ اسی دوران آپ استاذ مکرم اعلیٰ حضرت کے زیرِ سایۂ کرم رہ کر تصنیف و تالیف اور فتویٰ نویسی میں کمال حاصل کرتے رہے۔
اللہ رب العزت نے حضور حجۃ الاسلام کو زبان و قلم دونوں پر غیر معمولی قوت عطا فرمائی تھی، اور یہ سب اعلیٰ حضرت کی تربیت و محنت کا نتیجہ تھا۔ آپ کی تصانیف بلند پایہ، پرمغز اور دلائل و براہین کا خزانہ ہیں۔
ماہرِ رضویات و فاضلِ نوجوان ڈاکٹر مولانا امجد رضا امجدصاحب قبلہ کے مطابق آپ کی تصانیف کی تعداد ۲۳ ہے، جب کہ علامہ مفتی محمد حنیف قادری صاحب قبلہ نے ۱۴ تصانیف شمار کی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے مطابق آپ کی کتب یہ ہیں:1. الصارم الربانی علی اسراف القادیانی2. سرِ الفرار3. دو آفتِ بد4. نکسِ اباطیلِ مدرسۂ خرما5. اجلی انوارِ رضا6. اجتنابِ العمال7. سلامۃُ اللہِ لابِلِ السنۃ8. رمزِ شیریں چاهِ شور9. قصدیم شیریں با چاهِ نور10. خطبۂ استقبالیہ11. اذان من اللہ 12. مراسلتِ سنت و ندوه13. تسییر المعیون للسکون فی وباء الطاعون14. فاتحۃُ الریاحین بِطِیبِ آثارِ الصالحین15. جبل اللہ المتین16. تعلیقاتِ فتاویٰ رضویہ (جلد سوم)17. حاشیہ کنز المصلّی18. مسئلہ اذان کا حق نما فیصلہ19. حاشیہ ملا جلال20. ترجمۃ الدولۃ المکیۃ21. ترجمۃ حسام الحرمین22. فتاویٰ حامدیہ23. دیوانِ نعت (بنام تحائفِ بخشش)اگر کمیت کے پہلو سے دیکھا جائے تو حضور حجۃ الاسلام علیہ الرحمۃ کی تصانیف کی تعداد بظاہر ۲۳ معلوم ہوتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ قلتِ تصانیف نہیں بلکہ کثرتِ مصروفیات کی دلیل ہے۔
آپ کی علمی و دینی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع اور ہمہ جہت تھا کہ تنہائی ملے تو مزید علمی ذخائر تحریر ہو سکتے تھے۔ اگر آپ محض گوشۂ خلوت اختیار کر کے قلم و قرطاس کے ساتھ متمکن ہو جاتے تو یقیناً علم و ادب کے ایسے بے بہا ذخائر وجود میں آتے کہ کتب خانوں کی الماریاں تنگ پڑ جاتیں۔
کیوں کہ آپ قلم کے وہ شہسوار تھے جن کی نوکِ قلم میں بصیرت کا نور، فکر کی جولانیاں، اور علم کی پختگی جلوہ گر تھی۔ وہی قلم جو امام احمد رضا کے فیضانِ فکر سے روشن تھا، اور وہی علم جو خاندانِ رضا کی میراثِ الٰہیہ کی جلوہ گری تھا۔
باوجود بے پایاں مصروفیات کے، جب بھی آپ نے زمانے کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے قلم اٹھایا، تو ہر سطر آپ کے تبحرِ علمی، قوتِ فکر، اور گہرائیِ بصیرت کی بلند ترین مثال بن گئی۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ آپ کی تصانیف تعداد میں کم ہیں، مگر کیفیت، جامعیت اور اثرآفرینی کے اعتبار سے وہ ایسی گراں قدر علمی متاع ہیں جو بسا اوقات ضخیم کتب کے انبار پر بھاری نظر آتی ہیں۔حضور حجۃ الاسلام علیہ الرحمۃ عربی زبان میں نہایت برجستگی، فصاحت و بلاغت کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے۔ آپ کی فصاحت کے معترف نہ صرف برصغیر کے علماء بلکہ اہلِ عرب بھی تھے۔
آپ کے فصیح و بلیغ کلام کے چند واقعات مشہور ہیں۔ حضورِ صدر الافاضل رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ ایک بار اجمیر میں مولانا معین الدین اجمیری کے عربی سوالات کے جواب برجستہ اشعار میں دیے، جس پر سب حیران رہ گئے
حتیٰ کہ حضورِ صدر الافاضل جیسی عبقری شخصیت نے اعتراف کیا کہ ”عربی زبان کا ایسا ماہر میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔” اسی طرح جب حجاجِ مقدس کے وزیرِ دفاع سید حسین دبّاغ رحمۃ اللہ علیہ آپ سے عربی میں گفتگو فرما رہے تھے، تو انہوں نے فرمایا: “میں نے اکنافِ ہند کا دورہ کیا مگر ایسی سلیس و نفیس عربی بولنے والا دوسرا نہیں پایا۔” اسی طرح ترکی سے سید محمّد مالکی تشریف لائے، گفتگو ہوئی تو وہ بہت مسرور ہوئیے اور فرمایا کہ “طول و عرض ہند میں ان جیسا بولنے والا نہیں دیکھا” عربی زبان پر آپ کی حکیمانہ قدرت ہی کا نتیجہ تھا کہ جب کانگریسی لیڈر ابوالکلام آزاد نے عربی مناظرہ کا چیلنج دیا تو آپ نے قبول فرمایا، مگر شرط رکھی کہ عربی ”بے نقطہ” بولی جائے گی۔
یہ سن کر ابوالکلام آزاد نے راہِ فرار اختیار کر لی۔اعلیٰ حضرت نے اپنی کتاب “الدولۃ المکیۃ” اور “کفل الفقیہ الفاہم” کی طباعت کے وقت آپ کو تمہید لکھنے کا حکم فرمایا۔
آپ نے حکم کی تعمیل کی تو اعلیٰ حضرت بہت خوش ہوئے، خوب دعائیں دیں اور آپ کی تمہید کو روحانی تحسین سے نوازا۔آپ شعر و سخن میں بھی امام احمد رضا کے جانشین تھے۔ آپ نے عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں شاعری کی اور فصاحت و بلاغت کے دریا بہائے۔ تصنیف و تالیف، شعر و سخن اور فتویٰ نویسی میں آپ بحق نائبِ اعلیٰ حضرت تھے۔
آپ بلند پایہ عالم ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت، تدبر اور فراست کے بھی امام تھے۔جب شہرِ بریلی میں دیوبندی مدرسہ قائم ہوا تو سنی طلبہ کے بگڑنے کے اندیشے سے آپ کی فکرِ رسا کے نتیجے میں ۱۳۲۲ھ میں دارالعلومِ منظرِ اسلام کی بنیاد رکھی گئی۔
حضور امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی تائید سے قائم ہونے والا یہ ادارہ جلد ہی اہلِ سنت کا علمی و روحانی مرکز بن گیا۔شعبان ۱۳۴۳ھ (مارچ ۱۹۲۵ء) میں مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی ترقی کے لیے مقتدر علماء نے آل انڈیا سنی کانفرنس کی بنیاد رکھی، جس کے بانی اراکین میں حضورِ حجۃ الاسلام کا نام سرِ فہرست تھا۔
تاسیسی اجلاس مرادآباد میں منعقد ہوا جہاں آپ نے صدرِ مجلسِ استقبال کے طور پر خطبہ دیا جو مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی کا واضح لائحۂ عمل پیش کرتا ہے۔۱۹۲۷ء میں آپ آل انڈیا سنی کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۳۵ء میں جب سکھوں نے انگریز حکومت کی پشت پناہی میں مسجدِ شہید گنج لاہور کو منہدم کیا تو آپ نے مسلمانوں کے احتجاجی جلوس میں قیادت فرمائی۔
دو لاکھ مسلمانوں کا پرامن جلوس آپ کی زیرِ قیادت نکلا، جس میں نظم و ضبط کی مثال قائم ہوئی۔۱۹۲۰ء میں تحریکِ ترکِ موالات کے دوران کانگریسی رہنما اور ہم نوا بعض مسلم رہنماؤں نے مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، جو ملتِ اسلامیہ کے لیے خطرناک تھا۔
بصیرت مند علماء نے اس نازک مرحلے میں صحیح رہنمائی کی اور تعلیمی اداروں کی حفاظت کی، جن میں علی گڑھ کالج (جو بعد میں مسلم یونیورسٹی بنا) سرفہرست تھا۔حضور حجۃ الاسلام علیہ الرحمۃ نے نہ صرف ہندوؤں کی چیرہ دستی بلکہ خلافتی رہنماؤں کی عدمِ بصیرت کو بھی شدید محسوس کیا۔ آپ نے فرمایا:“انگریزوں کے مقابلے کا تو نام تھا، مگر مخالفت علماء سے تھی، مسلمانوں کے کالجوں اور اسکولوں سے تھی، علی گڑھ یونیورسٹی سے تھی
۔”تحریکِ خلافت اور ترکِ موالات کے دوران بعض مسلم رہنماؤں نے ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے ذبیحۂ گائے کے خلاف مہم چلائی اور ترکوں کے چندے میں خیانت کی۔ حجۃ الاسلام نے اس بددیانتی کی سخت مخالفت کی اور فرمایا کہ مذہبی اصولوں کو قربان کرکے ہندوؤں کی خوشنودی حاصل کرنا ناقابلِ قبول ہے۔ آپ نے اس پر بھی احتجاج کیا کہ چندہ اسلامی تعلیم کے بجائے تقویۃ الایمان جیسی کتابوں کی اشاعت پر خرچ کیا گیا۔ آپ کی تنبیہ یہ تھی کہ دین اور اتحادِ امت کی خاطر بھی اصولوں سے انحراف ہرگز جائز نہیں۔حضورِ حجتہ الاسلام کا خاندان شریعت و طریقت علم و عرفان کا بے مثال سنگم تھا، جہاں شب و روز علوم و معارف کے چشمے جاری رہتے تھے۔ تزکیہ و احسان کے لیے زہد و تقویٰ، توکل و قناعت، ذکر و فکر اور ادوار وظائف کی شمعیں ہمیشہ فروزاں رہتی تھیں، جن کے انوار سے دل و دماغ منور ہوتے تھے۔ اس مقدس خاندان کو مارہرہ شریف کے برگزیدہ شیوخ سے بیعت و خلافت کے برکات حاصل ہوئے، جن کا سلسلہ زبدۃ العارفین حضرت سید شاہ برکات اللہ مارہروی تک پہنچتا ہے۔ ہندوستان میں جہاں سلسلہ قادریہ کی کئی شاخیں موجود ہیں، سِلسلہ قادریہ کو جو ترقی و فروغ نصیب ہوا وہ آلِ برکات و خلفائے برکاتیہ کے فیضان سے نمایاں ہوا۔ یہ بلند مقام اور اثرِ علمی و روحانی کا ایسا جلوہ ہے جس کا نظیر کم ہی دیکھتے کو ملتی ہے۔اس دور میں مختلف ناموں سے کئی سلسلۂ طریقت رائج تھے، جیسے سلسلہ رضویہ، برکاتیہ، نوریہ، نظامیہ وغیرہ، جو دراصل غوثِ اعظم کے بحرِ فیضان سے نکلنے والی نہریں ہیں اور مشائخ کے نام سے منسوب ہیں۔ ہر شخص نے سلسلہ قادریہ کے فروغ میں حصہ لیا، مرید کیے اور دوسروں کو اجازت و خلافت دے کر روحانی خدمت کو عام کیا۔ سیدنا نور العارفین شاہ ابوالحسین نوری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حجۃ الاسلام کو اجازت و خلافت سے نوازا، جسے آپ نے خلوص و اخلاص سے نبھایا۔ آپ کے ہاتھ پر لاکھوں نے توبہ کی اور فیضان حاصل کیا۔ ملک و بیرونِ ملک آپ کے فیض کے طالب جوق در جوق حاضر ہوتے اور سلسلہ قادریہ میں داخل ہوتے۔الحاصل: حضرتِ حجۃ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے عہد کے یگانۂ روزگار عالم، منبعِ علومِ ظاہری و باطنی، وارثِ مسندِ ولایت و خلافت، رئیسُ العلماء و الاتقیاء، فخرِ مفسرین و محدثین، آفتابِ شریعت و معرفت، بحرِ بے کنارِ حکمت و دانائی اور بحق مفکرِ اسلام کے بلند ترین لقب کے مستحق تھے۔ آپ کی ذاتِ گرامی علم و عمل، زہد و تقویٰ، فہم و فراست اور فصاحت و بلاغت کا حسین امتزاج تھی۔ علومِ اسلامیہ میں ان کا رفیع المرتبت مقام تھا کہ اہلِ علم تعظیم و تحسین سے ان کی جامعیت کے سامنے سر جھکاتے، اور معارفِ الٰہیہ کے اسرار میں وہ درک و بصیرت رکھتے کہ اہلِ دل ان کے افکار و انوار سے اپنی راہیں منور کرتے۔آپ برصغیر ہند و پاک کے اُن چند معدودہ علماء میں سے تھے جنہوں نے عقل و نقل، علم و عرفان، شریعت و طریقت، اور دعوت و ارشاد کے ہر میدان میں یکساں مہارت و کامیابی کے نقوش چھوڑے۔ آپ سلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ نوریہ رضویہ کے چالیسویں امامِ ہدایت، اور امامُ الائمہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز کے خلفِ اکبر، نائبِ مطلق، مجاز و جانشین تھے۔آپ اپنے والدِ گرامی کی تمام علمی، فکری، روحانی اور اخلاقی عظمتوں کے مظہرِ کامل اور ان کے علوم و معارف کے حقیقی وارث تھے۔ سنتِ رسول ﷺ کے متبعِ کامل اور محبتِ رسول ﷺ کے مجسم پیکر تھے۔ آپ کی حیاتِ طیبہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی حرارت، غیرتِ ایمانی کے جلال، اور علم و فضل کی رفعت سے درخشاں و تاباں تھی، جو خاندانِ رضا کی امتیازی پہچان ہے۔حقیقتاً آپ اپنے اسلافِ عظام کی سیرتِ طیبہ کے آئینہ دار، ان کے علم و عرفان کے وارثِ کامل، اور ان کے مشنِ حق کی تابندہ مشعل تھے، جن کے وجود سے علم و دین کی فضا معطر اور قلوبِ مومنین منور ہوئے۔حضرتِ حجۃ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان کی علالت کا آغاز ۱۳۵۷ھ/۱۹۳۹ء سے ہوا، مگر اس کے باوجود آپ نے عبادات اور معمولاتِ زندگی میں ہرگز کمی نہ آنے دی۔ علالت کے دنوں میں بھی آپ نے تبلیغی سفر جاری رکھے اور وصال سے ایک سال قبل ہی اپنی رحلت کے احوال و کوائف بیان کرنا شروع کر دیے۔ آپ نے فرمایا:“وقتِ وصال میری زبان سرکار دو عالم ﷺ پر درود و سلام اور ذکر میں مصروف رہے گی، اور روحِ پاک قربِ وصال کے لطیف و سرشار سرور سے محظوظ رہے گی۔”چنانچہ ۱۷ جمادی الاولی ۱۳۶۲ھ بمطابق ۲۳ مئی ۱۹۴۳ء کو، ۷۰ سال کی عمر پا کر، نمازِ عشاء کے دوران عین حالتِ قعود میں کلماتِ تشہد و درود و سلام پڑھتے ہوئے، شب کے ۱۰:۴۵ بجے آپ کا وصالِ مبارک ہوا۔ آپ کی حیاتِ طیبہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ، علم و فضل، زہد و تقویٰ، طریقت و شریعت، اور خدمتِ دین و امت کا روشن آئینہ تھی، جس نے قلوبِ مومنین کو منور اور فضا کو معطر کر دیا۔اللہ رب العزت حضرتِ حجۃ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان کے درجات کو اعلیٰ درجات میں بلند فرمائے، قبرِ مطہرہ کو نور و جلاء سے منور کرے، حیاتِ مبارکہ کے بے شمار فیوض و برکات ہم سب پر نازل فرمائے، اور ہمیں بھی ان کی سیرتِ طیبہ سے روشنی، ہدایت اور فیضانِ روحانی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔