فضاے بدر پیدا کر
دبستانِ فکر و نظر بنام “دبستانِ فیضانِی
فضاے بدر پیدا کر
خلیل فیضانی
استاذ: دارالعلوم فیضان اشرف باسنی
کسی بڑی منزل
کے حصول کے لیے جہاں صبرواستقامت ،پامردی وجگرکاوی ،دماغ سوزی اور جاں کاہی
ضروری ہے وہیں قلب مضطر کی پنہائیوں اور گہرائیوں میں ایک ای “شعلہ جوالہ” بھڑکتے رہنا بھی نہایت ضروری ہے کہ جو ہمارے جسموں کو نرم ونازک خواب گاہوں سے دور کردے ۔
آپ یا میں، بلکہ دنیا کا کوئی بھی شخص اگر کام یابی سے ہمکنار ہونا چاہتا ہے تو اسے اس کام یابی کی ایک بڑی اور بھاری قیمت تو چکانی ہی پڑے گی
پھر یہ الگ بات ہے کہ مقاصد و اہداف جس قدر بڑے ہوں گے اسی قدر پرخار راستے عبور کرنے ہوں گے۔
بقدر الکد تکتسب المعالی من طلب العلی سھر اللیالی ۔تو اپنے اہداف کی تحصیل اور عزائم کی تکمیل کے لیے دل میں ایک ایسا دہکتا بھڑکتا “آتش فشاں شعلہ” لازمی پیدا کریں جوآہنی ارادوں کو غذا فراہم کرتا رہے ،دل کی دھڑکنوں مہمیز کرتا رہے
قواے ذہنیہ کو انرجی -energy-فراہم کرتا رہے اور بلند وبالا عزائم کو سرد مہری کا شکار نہ ہونے دے ۔عامر خاکوانی عزائم کو مہمیز دیتے ہوۓلکھتے ہیں: “ایک چیز جو کامیابی کی چوٹی پر متمکن خوش بخت افراد میں مشترک ہے وہ ہے ان میں موجود شعلہ فروزاں۔
خواہ وہ کھیل ہو یا سیاست کی وادئ پُرخار، صنعت و تجارت کا میدان ہو یا شوبز کی جگمگاتی زندگی، علم و ادب کا شعبہ ہو یا فن و ہنر کا طلسم کدہ…. ان میں وہی لوگ آگے بڑھتے اور فتح مند ہوتے ہیں جن کے سینوں میں اک آگ سی بھڑک رہی ہو… کچھ کر گزرنے کا جنون… یہی جذبہ ایک کامیاب ترین انسان کو میدان سے باہر کھڑے حسرت بھری نظروں سے تکنے والے تماشائی سے ممیز کرتا ہے
پھر جب تک اس میں فتح کی بھوک، کامیابی کی لگن، کچھ کر گزرنے کا جنون باقی رہتا ہےوہ مسلسل آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پھر جیسے ہی اس کا شعلہ سرد ہونے، جنون ٹھہراؤ میں بدلنے لگتا ہے
منزل کی طرف بڑھتے اس کے قدم بھی ٹھٹکنے لگتے ہیںوہ سفر ترک کر کے پڑاؤ ڈالنے پر امادہ ہو جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ قصہ، وہ کہانی بھی تمام ہو جاتی ہے۔
باقی رہی بات نام باقی رہنے کی تو اس کا انحصار سفر کی طوالت اور دشوار گزاری پر ہے۔
اگر اس مرد جری نے کٹھن منزلیں طے کی ہیں تو اس کی جرأت و ہمت کے چرچے زیادہ عرصے رہتے ہیں ورنہ ایک دو نسلوں کے بعد کوئی نام لیوا نہیں رہتا۔” (زنگار، صفحہ 57، )
کسی بھی شعبے میں کام یابی کا ایک سنہری اصول-golden rules-ہے “لگن اور تڑپ”، جسے انگریزی میں ڈیڈیکیشن-dedication – سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے بغیر انسانی شخصیت استقامت کے جوہر سے عاری رہتی ہے ۔
تو جس ہدف -goal- کو حاصل کرنا ہے آج ، بلکہ ابھی سے اس میں لگ جائیں اور اپنے اندر استقامت واستقرار پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔”Three years golden rules”کہاگیا ہے کہ اگر کسی کام میں آپ ٹھیک سے تین سال دے دیتے ہیں تو اس فیلڈ میں آپ کی کام یابی کے تقریباً صد فیصد امکانات بن جات ہیں ۔
یہ حقیقت ہے ۔سو ہمیں عمل کا غازی بن کر” توکل علی اللہ ” میدان میں اترجانا چاہیے۔