لبنان اسرائیل جنگ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
لبنان اسرائیل جنگ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟
تحریر محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
گزشتہ سے پیوستہ
سب سے پہلے آپ کو یہ بتادیں کہ 19 اکتوبر بروز سنیچر لبنان کی طرف سے حیفا کے علاقے قیسریا میں اسرائیلی پردھان منتری نتن یاہو کے گھر پر ڈرون سے ح ز ب اللہ نے حملہ کیا، ابھی تک جانی نقصان کی کوئی خبر نہیں ہے، ایک گاڑی میں آگ کی لپٹیں اٹھتی دیکھی گئیں، اسرائیلی حکام کے مطابق جس وقت یہ حملہ ہوا اس وقت نتین یاہو کا خان دان وہاں موجود نہیں تھا ح زب اللہ کی جانب سے کئی میزائل بھی داغے گئے ساتھ ہی تین خود کش ڈرون کے ذریعے بھی حملہ کیا گیا، ایک ڈرون اپنے مقصد میں کامیاب ہوا
اور خبروں کے مطابق نتین یاہو کے گھر پر ہی گرا ہے – یہ لبنان کی اب تک کی بڑی کارروائی ہے اور اسرائیلی دفاعی نظام کی بڑی ناکامی بھی ہے، جب نتین یاہو کا گھر بھی محفوظ نہ ہو تو پھر حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جنگ اب کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے – امریکا نے اسرائیل کو ایک تھاڈ سسٹم مہیا کرا دیا ہے مگر اس حملے کے بعد مزید تھاڈ سسٹم کی ضرورت پڑنے والی ہے – وہیں جوابی کاروائی میں لبنان میں اسرائیل نے سخت حملے کیے ہیں، بیروت میں آگ کے شعلے اٹھتے دیکھے گئے ہیں – غزہ میں بھی ہوائی حملے جاری ہیں، اسی بیچ سعودی حکومت کی بے راہ روی سے عراقی عوام مشتعل ہو گئی اور عراقی عوام نے سعودی MBC چینل کے ہیڈکوارٹر پر اس وقت حملہ کیا جب چینل نے ق ا س م سلیمانی، ا س م ا ع ی ل ھ ن یہ اور ی ح ییٰ س نوار کو “دہشت گرد” قرار دیا۔ سعودی اخبارات کی سرخیاں بتا رہی ہیں کہ آل سعود کو یہود سے بے پناہ محبت ہے – سنیچر کی رات غزہ کے بیت لحیہ پر اسرائیلی حملے میں 21 افراد کے جاں بحق ہونے کی خبر ہے، یہ حملے خالص عوام پر ہو رہے ہیں مگر ساری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے – _____عرب میں جمہوریت نہ ہونے کے نقصانات ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میںبندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتےآج عرب میں آمریت کا بول بالا ہے، ساری دنیا کو جمہوریت کا درس دینے والا امریکا عرب میں خاموش رہتا ہے، وجہ صاف ہے کہ جہاں کٹھ پتلی حکومت ہو یا جس حکومت میں آپ کے مفادات سے پرے جانے کی قوت نہ ہو، وہاں ان نام نہاد جمہوری فرماں رواؤں کو نہ انسانیت پر ہونے والے مظالم یاد آتے ہیں اور نا ہی حقوق انسانی کی حق تل فیاں یاد آتی ہیں -سلمان، سی سی، جیسوں کو آج امت مسلمہ کی حالت زار سے محض اسی لئے واسطہ نہیں ہے کیوں کہ انھیں “بندوں کی گنتی” والی جمہوریت کا ڈر نہیں ہے، کاش یہ ڈر ہوتا تو آج مصر اور عرب کے حکم راں نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے فلسطینی بھائیوں کے خون کو پانی سے سستا نہ ہونے دیتے، اپوزیشن کے خوف سے بھی کچھ کرتے، نہ کرتے تو اپوزیشن سارے ملک کو جام کر دیتا، اس قدر بے حسی تو ہرگز نہ ہوتی جس قدر اس آمریت میں دیکھنے کو مل رہی ہے، عوام تو فلسطین، لبنان کے ساتھ ہے مگر حکومتیں امریکا کے تلوے چاٹ نے میں بازی لے جانے کی ہوڑ میں مصروف ہیں – جیسے ہمارے یہاں اکثریتی طبقے کو خوش کرنے کے لیے کچھ بھی کیا جارہا ہے اگر بندوں والی جمہوری حکومت ہوتی تو شاید وہاں کا نظارہ بھی یہاں سے مختلف نہ ہوتا…… اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!______ ایران کی پالیسی… دنیا جانتی ہے ایک لمبے عرصے سے ایران لبنان، یمن اور شام کو کنٹرول کرتا رہا ہے، ہتھیار دیتا ہے، مالی مدد کرتا ہے، عرب پر یمنی حوثیوں کے حملے پچھلے سال تک جاری رہے ہیں، سعودی عرب کہیں نہ کہیں اس چیز کو بھی نظر میں رکھے ہوے ہے، بظاہر وہ کچھ بھی کہے لیکن ایران سے اس کی چَش مَک ظاہر ہے، نیز سعودیہ اکثر یہ بھی کہتا رہا ہے کہ اگر ایران جوہری پروگرام کی توسیع کرتا ہے تو عرب بھی پیچھے نہیں رہے گا اور وہ جوہری ہتھیاروں کے لیے کوشش کرے گا – ایران کا طاقت ور ہونا سعودیہ اپنے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس جنگ سے سعودیہ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے – لبنان کے ح زب اللہ نے اسرائیل فلسطین جنگ میں شمولیت بغیر ایران کی مرضی کے نہیں کی ہوگی، حالات و قرائن اسی جانب مشیر ہیں، پھر بھی فرض کریں کہ ح ز ب اللہ ایران کی مرضی کے بغیر جنگ میں شامل ہوا ہے تو بھی یہ ایرانی پالسی کا فلاپ ہونا ہے اور اس کا سیدھا نقصان ایران کو ہی ہوا، اگر ح ز ب اللہ ایران کی مرضی سے شامل ہوا تو تصویر واضح ہے، ایران اور اسرائیل کے درمیان چند سالوں سے چل رہی سرد جنگ کو آپ دیکھ ہی رہے ہیں، ایران کے جوہری پروگرام کے کئی سائنس داں اسرائیل نے ایران میں گھس کر مارے ہیں، کئی بار سائبر حملے کیے ہیں جس سے جوہری پروگرام میں ایران کا لمبا وقت ضائع ہوا ہے، جنرل ق ا س م سلیمانی اور ایران میں ح م ا س صدر کی موت نے بھی ایران کو اپنی پالیسی بدل نے پر مجبور نہیں کیا، اپنی زمین، سرکاری مہمان پر ہونے والے حملے کا جواب ایران نے نہیں دیا، سیکڑوں سائنس داں اور سیکیورٹی اہل کاروں کی موت بھی ایران کی خاموشی نہ توڑ پائی، پھر ح ز ب اللہ چیف کے مارے جانے پر ایران کا اسرائیل پر حملہ بہت کچھ کہتا ہے، در اصل ایران ح ز ب اللہ کو اسرائیل فلسطین جنگ میں اسی لیے لے کر آیا تھا تاکہ اپنا بدلا لے سکے، اس طرح ایک تیر سے ایران نے دو نشانے سادھے – اگر آپ یہ بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ لبنان اور اسرائیل کی جنگ بھی عشروں پرانی ہے، ح ز ب اللہ کا شامل ہونا بہتے پانی میں ہاتھ دھونے جیسا ہے – (1) عالم اسلام کا ہیرو بننا، شیعوں کی شبیہ سنیوں کے مابین بہتر کرنا، عالم اسلام کو اپنی طرف مائل کرنا، کیوں کہ ساری دنیا میں صرف ایران ہی تھا جو فلسطینی عوام کے ساتھ مذہبی ساخت کے ساتھ ح ز ب اللہ کے ذریعے کھڑا تھا، بَے ساکھی ضرور ح ز ب اللہ کی تھی لیکن طاقت ایران کی تھی – اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ ایران نے سنی ممالک کو سوائے نقصان کے کچھ نہیں دیا، خواہ وہ عراق ہو، خلیجی ممالک ہوں یا شام، (شام کی عوام کی اکثریت سنی اور حکم راں شیعہ ہے) اہل علم سے یہ بھی مخفی نہیں کہ خامنہ ای کے پاور میں آنے کے بعد ساری دنیا میں شیعہ حضرات نے اپنی مذہبی تبلیغ میں نمایاں اضافہ کیا ہے، اب طرح ایران کے بہت سے اہداف تھے جن کے حصول کے لیے یہ ساری چیزیں ہوئیں – (2) اسرائیل سے اپنا حساب چکتا کرنا، یعنی اس طرح ایران سانپ کو بھی مار رہا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹ رہی ہے، لیکن ایران یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ جنگ اس کے گلے کی ہڈی بن جائے گی، ح ز ب اللہ کے حملوں کو دیکھتے ہوئے اسرائیل نے ح ز ب اللہ چیف کو نشانہ بنا دیا، یہ ایران کے لیے حیران کن عمل تھا، چوں کہ سب کچھ ایران کے اشارے پر ہو رہا تھا اس لیے اس بڑے حملے کا جواب دینا ایران پر لازم تھا ورنہ یمن، لبنان اور شام کے ایرانی حلیف ایران کا ساتھ چھوڑ جاتے – اگر آپ کو میری بات پر شک ہے تو ذرا تصور کریں کہ شام تباہ ہوا ایران نے ڈائریکٹ حملہ نہ کیا، فلسطین تباہ ہوا تب ڈائرکٹ حملہ نہ کیا ، ایران میں ح م ا س چیف پر حملہ ہوا ایران نے جواب نہ دیا لیکن ح ز ب اللہ چیف پر حملہ ہوا تو ایران کو وار کرنا پڑا کیوں کہ ح ز ب اللہ کو جنگ میں لانے کا پلان ایران ہی کا تھا – ____ ایران میدان جنگ میں ایران کے اس حملے کے بعد گنید امریکا اور اسرائیل کے پالے میں ہے وہ ایران کو جنگ میں کھینچنا چاہتے تھے اور وہ کسی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں، اب امریکا یا اسرائیل کو ایران پر حملہ کرنے کے متعلق دنیا کو صفائی دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، فی الحال امریکا میں صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں اس لیے ایران پر حملہ رکا ہوا ہے کیوں کہ ایسے وقت میں ایران پر حملہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کو آسمان تک پہنچا دے گا، چوں کہ جنگ کے طول پکڑنے کے قوی امکانات ہیں اس لیے الیکشن کے وقت شاید امریکا اسرائیل کی وہ مدد نہ کر سکے جو الیکشن بعد کر سکے گا، تاخیر کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے -_____ یوکرین بنتا ہوا لبنان فی الحال لبنان کی حالت یوکرائن سے مختلف نہیں ہے، امریکا نے یوکرین کو جس طرح پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر آگے کیا تھا ویسے ہی ایران نے ح ز ب اللہ کے ساتھ کیا ہے، بیک سپورٹ امریکا بھی کر رہا ہے اور ایران بھی، زے لنسکی کے کئی بیانات آئے ہیں جس میں اس نے صاف کہا ہے کہ ہمیں اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے، NATO کی ممبر شپ تو ملی نہیں، ملک ضرور تباہ ہوگیا، جس طرح امریکا روس سے سیدھی جنگ نہیں چاہتا ویسے ہی ایران بھی اسرائیل سے سیدھی جنگ نہیں چاہتا – ورنہ ایران کے پاس اسرائیل پر حملے کے کافی سبب ہیں – وہاں امریکا اپنی چودھراہٹ سے بچ گیا لیکن یہاں ایران نہیں بچ سکتا، ح ز ب اللہ سے ہاتھ کھڑے نہیں کر سکتا ورنہ پورا خطہ ایران کے ہاتھ سے نکل جائے گا، ایران کی دہائیوں کی محنت پر پانی پھر جائے گا، اس لیے دیر سویر ایران کو میدان جنگ میں کھل کر آنا ہی پڑے گا، ان جام کچھ بھی ہو، اب ایران کے لیے واپسی کے دروازے بند ہو گئے ہیں، سوائے اس کے کہ ایران ح ز ب اللہ کو لے کر پیچھے ہٹ جائے اور یہ بھی مشکل ہے، یہاں بھی آگے کنواں، پیچھے کھائی کا مسئلہ ہے – ______ میں ایران کے خلاف نہیں یہاں تک پہنچتے پہنچتے بہت سے احباب مجھ پر تنگ نظر ہونے کا ٹھپا لگا چکے ہوں گے، ان کے من میں یہ سوال اٹھ رہا ہوگا کہ جو ملک پوری قوت کے ساتھ اسرائیل کے خلاف کھڑا ہے اسے بھی آپ غلط ٹھہرا رہے ہیں، مذہبی چشمے سے دیکھ رہے ہیں، تو پیارے! مسلمانوں کے قاتل اسرائیل کو کسی بھی صورت کلین چٹ نہیں دی جا سکتی، حالات و قرائن سے پرے یک طرفہ نہیں لکھا جا سکتا، اس لیے ہم نے پوری بات رکھ دی ہے تاکہ موجودہ قارئین کے ساتھ ساتھ مستقبل کے قارئین کو ماضی کا علم ہو ، حال کی اصلاح بھی اسی پر منتج ہے اور مستقبل کے منصوبوں میں یہی حقائق مشعل راہ ہوں – ظاہر ہے یہ جنگ ہلال وصلیب کی جنگ ہے اس لیے جس طرح ابتدائے اسلام میں رومیوں (اہل کتاب) کی فتح اہل اسلام کو خوش کرتی تھی ویسی ہی خوشی اہل اسلام کو اب بھی ہوتی ہے، جس طرح اہل فارس کی فتح پر مشرکین مکہ خوش ہوتے تھے ٹھیک اسی طرح آج اسلام مخالف قوتیں خواہ وہ کسی ملک سے ہوں اہل اسلام کی شکست پر خوش ہوتی ہیں، جو چیزیں کل مشترک تھیں وہی آج بھی مشترک ہیں، اس لیے یہ جان لیں کہ موجودہ جنگ میں اہل اسلام اسرائیل پر ایران کی بالا دستی چاہتے ہیں
نوٹ : جنگ کا رخ کچھ بھی ہو ہمیں اپنے عقائد میں پختہ رہنا چاہیے