شاد عظیم آبادی کی نعتیہ شاعری ظہورِ رحمت کے تناظر میں

Spread the love

شادؔ عظیم آبادی کی نعتیہ شاعری ‘ ظہورِ رحمت ‘ کے تناظر میں :

( طفیل احمد مصباحی )

شادؔ عظیم آبادی برّ صغیر کے وہ عظیم شاعر ہیں ، جنہوں نے ادبی حلقوں کو مختلف جہتوں سے متاثر کیا ۔ نظم و نثر کے لحاظ سے ان کی خدمات وسیع اور قیع ہیں ۔ ایک اچھا شاعر ایک اچھا نثر نگار بھی ہو اور ایک کامیاب غزل نگار کامیاب نعت گو ہو ، ایسا حسنِ اتفاق شاید و باید ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ وہ اپنے معاصرین میں امتیازی حیثیت کے مالک تھے ۔ ان کی غزلیہ شاعری جہاں کانوں میں رس گھولتی ہے ، وہیں ان کی نعت گوئی خواجۂ کونین حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عشق و عقیدت کے جذبات میں اضافہ کرتی ہے ۔ شادؔ اور حالؔی میں بڑی مناسبت نظر آتی ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے قدر داں اور قریبی دوست تھے ۔ شاعری کی مخصوص ہیئت ” مسدّس ” میں دونوں کو کمال حاصل تھا ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حالؔی نے اپنے مسدس ( مد و زجرِ اسلام ) میں مختلف موضوعات کا احاطہ کیا ہے اور شادؔ نے اپنے نعتیہ مسدّس ( ظہورِ رحمت / میلاد نامہ ) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ” سیرتِ طیبہ ” اور آپ کے فضائل و مناقب تک محدود رکھا ہے ۔ ” ظہور رحمت ” کی روشنی میں سیرتِ طیبہ کے موضوع پر ایک مستقل اور مدلل کتاب تیار کی جا سکتی ہے ۔ یہ نعتیہ مجموعہ شادؔ عظیم آبادی کی کامیاب نعتیہ شاعری کا قابلِ قدر نمونہ ہے ، جو نہ صرف ایک وجد آفریں میلاد نامہ ہے ، بلکہ زبان و بیان کا ایک خوب صورت مرقع اور بیش قیمت شعری و ادبی سرمایہ بھی ہے ۔ موجودہ ادبی دنیا جن فن پاروں کو ” تخلیقی ادب ” کا نمونہ قرار دے کر ان کی قدر و قیمت کا قصیدہ پڑھتی ہے اور فنکاروں کی بارگاہ میں خراجِ تحسین پیش کرتی ہے ، ظہورِؔ رحمت ان میں سے ایک ہے ۔ زبان کی لطافت ، بیان کی حلاوت ، اسلوب کی ندرت ، خیالات کی بلندی و پاکیزگی اور عشق و وارفتگی اس کی سطر سطر سے نمایاں ہے ۔ اس ” نعتیہ مسدّس/ میلاد نامہ ” کے بارے میں حمیدؔ عظیم آبادی کی مثبت رائے یہ کہ ” یہ شاعری نہیں ، عبادت ہے اور میرے عقیدے میں تو سببِ مغفرت ۔ جہاں تک میرا مطالعہ ہے ، میں نے تو اردو میں اس طرح کے ” نعتیہ مسدّس ” نہیں دیکھے کہ جن میں صداقت کے ساتھ ساتھ اس قدر شاعرانہ وجد و کیف بھی ہو ۔ کاش یہ نادر اور آب دار موتی اہلِ نظر کے دامانِ نگاہ تک پہنچ سکیں ۔ یہ بند ( جس میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حلیہ شریف بیان کیا گیا ہے ) اردو شاعری میں نادر اور عدیم المثال ہی نہیں بلکہ تاجِ سخن کے وہ گوہرِ آب دار اور لعلِ چراغِ شب ہیں جن کی بدولت اردو شاعری کو معراجِ افتخار حاصل ہوا ہے ” ۔

              ( فروغِ ہستی ، ص : ۲۷ ، ناشر : درج نہیں )

شادؔ عظیم آبادی کو غزل و قصیدہ اور مرثیہ و مثنوی کے علاوہ نعت گوئی سے بڑی دلچسپی تھی ۔ وہ نبوت و رسالت کے مقام و منصب اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت سے بخوبی واقف تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دیگر اصناف میں طبع آزمائی کے ساتھ نعت کے میدان میں بھی پیش قدمی کی اور متعدد ” میلاد نامے ” تحریر کیے ۔ فارسی زبان میں ان کا مشہور غیر منقوط نعتیہ قصیدہ کافی اہمیت و معنویت کا حامل ہے ۔ دو ہفتہ قبل راقم الحروف اس پر ایک تفصیلی مضمون قلم بند کر چکا ہے ۔ اخترؔ عظیم آبادی کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ شادؔ نے یہ میلاد نامہ ( ظہورِ رحمت ) علی گڑھ کے ایک اجلاس میں سرسید ، شبلی نعمانی ، حالؔی اور پروفیسر آرنلڈ وغیرہ کی موجودگی میں پڑھ کر سنایا تھا اور داد و تحسین سے نوازے گئے تھے ۔ چنانچہ اختر کاکوئی عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ حضرت شادؔ نے نظم میں کئی ” میلاد نامے ” بھی لکھے تھے ۔ حالؔی نے سنا تو گرویدہ ہو گئے اور سرسیدؔ کو مشتاق بنایا ۔ چنانچہ شادؔ کو علی گڑھ جا کر ہزاروں آدمیوں کے مجمع میں پڑھنا پڑا ۔ علامہ شبلیؔ نعمانی اور مسٹر آرنلڈؔ وغیرہ بھی ( مجمع میں ) موجود تھے ۔ تعددِ ازدواج ، جہاد بالسیف و غیرہ کے متعلق غیروں کے جو اعتراضات ہیں ، ان کے تشفی بخش جواب تھے ، لوگ سن کر بیحد محظوظ ہوئے ۔

( مقدمہ ظہورِ رحمت ، ص : د / ۴ ، ناشر : درج نہیں )

شادؔ عظیم آبادی نے ” ظہورِ رحمت ” کا آغاز بڑے اچھوتے انداز میں کیا ہے ، جس میں زبان کی سلاست کے ساتھ بیان کی لطافت اور شعری معنویت وافر مقدار میں موجود ہے ۔ نعت گوئی ، دیباچۂ سخن ، شعر و ادب کی آبرو ، طغرائے لوحِ عشق ، دین کی پہچان ، اسلام کا نشانِ امتیاز ، سرتاجِ عرش ، آنکھوں کا نور ، دلوں کے لیے وجہِ سرور ، زیبائشِ کلام اور زینتِ بیان سب کچھ ہے ۔ ان تمام حقیقتوں کو شادؔ نے جس والہانہ طریقے سے بیان کیا ہے ، وہ انہیں کا حصہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ کو نگینوں کی مانند انگشتِ سخن میں جڑ دیا گیا ہے ۔ وہ جو آتشؔ نے کہا ہے کہ ” شاعری اور بندشِ الفاظ نگینہ جڑنے کا عمل ہے اور شاعری مرصّع سازی کا کام ہے ” ۔ کچھ یہی حال ذیل کے اشعار کا بھی ہے ۔ ملاحظہ کریں :

دیباچۂ سخن ہے شہِ انبیا کی مدح
محبوب ہے دلوں کو حبیبِ خدا کی مدح
طغرائے لوحِ عشق ہے خیر الوریٰ کی مدح
اسلام کا نشان ہے اس پیشوا کی مدح
نعتِ رسول حق ہے ہماری سرشت میں
امت پہ اس کا راز کھلے گا بہشت میں

سرتاجِ عرش نعت رسولِ زماں کی ہے
آنکھوں کا ہے جو نور تو لذت زباں کی ہے
زیبائشِ کلام ہے زینت بیاں کی ہے
شہرت ملائکہ میں اسی داستاں کی ہے
وہ کون ہے جو مدح میں رطب اللساں نہیں
عالم میں ذکر ختمِ رُسل کا کہاں نہیں

کلامِ شادؔ میں ادبی محاسن اور فنی خوبیاں نہ ہوں ، یہ ممکن نہیں ۔ ان کی مجموعی شاعری میں مواد و ہیئت ، زبان و بیان ، لفظ و معنی ، فکر و خیال اور اسلوب کا جو حسن و دلکشی پائی جاتی ہے ، وہ ان کی نعتیہ شاعری میں بہر گام موجود ہے ۔ کسی بھی ادب پارے میں مواد اور ہیئت بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ، انہیں دونوں کی باہمی ترکیب و تجسیم سے شعر و ادب کے تانے بانے تیار ہوتے ہیں اور مواد و ہیئت کی عمدگی کو سامنے رکھ کر ہی فن اور فنکار کی قدر و قیمت کا تعین کیا جاتا ہے ۔ زیرِ نظر مضمون میں ہیئت سے قطعِ نظر مواد کو سامنے رکھ کر گفتگو کی جائے گی ۔ باقی اہلِ نظر اور اہلِ ذوق شادؔ کے نعتیہ کلام کے حسنِ ہیئت و اسلوب و دیگر محاسن کا خود ہی اندازہ لگا لیں گے ۔ اللہ کے پیارے حبیب جناب محمد عربی روحی فداہ صلی اللہ علیہ و سلم مظہرِ ذاتِ کبریا ، نورِ خدا ، محرمِ اسرارِ حق ، آئینۂ صفاتِ الہٰی ، ہادیِ کونین ، سلطانِ دارین ، باعثِ تخلیقِ عالم اور خامۂ قدرت کے شہکار ہیں ۔ اس حقیقت پر قرآن و حدیث کی نصوص گواہ ہیں اور جملہ ائمہ و محدثین اور مفسرین و متکلمین کا اس امر پر اتفاق ہے ۔ امامِ نعت گویاں حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی ممدوحِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں یوں رطب اللسان ہیں :

خامۂ قدرت کا حسنِ دست کاری واہ واہ
کیا ہی تصویر اپنے پیارے کی سنواری واہ واہ

شادؔ عظیم آبادی ایک وسیع المطالعہ شاعر تھے ۔ اسلامیات اور تواریخ و سِیر کی گہری معلومات رکھتے تھے ۔ ” ظہورِ رحمت ” کے مطالعہ سے ان کے تاریخی شعور ، دینیات کا وسیع علم اور سیرتِ طیبہ پر ان کی گہری نظر کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ذیل کے اشعار دیکھیں ۔ اتنی بلند پایہ نعتیہ شاعری وہی کر سکتا ہے ، جو سچا عاشقِ رسول ، با کمال نعت گو اور اسلامیات کا وسیع مطالعہ رکھتا ہو ۔

نورِ خدا و باعثِ ایجادِ کائنات
اعلیٰ ترین صنعتِ خلّاقِ شش جہات
شمعِ جمالِ لم یزل ، آئینۂ صفات
ہادیِ انس و جاں و خَضَرِ جادۂ نجات
بندوں کو ان کے فضل کی تائید چاہیے
جو آپ نے بتائی وہ توحید چاہیے

ارفع ہے انبیا سے مراتب کا ان کے بام
اعلیٰ ہے قدسیوں سے بھی یہ آسماں مقام
مرآتِ حسنِ شاہدِ مطلق شہِ انام

اوصاف ہیں گواہ کہ خیر البشر ہیں آپ
تاباں ہے جس سے بزمِ قِدَم وہ قمر ہیں آپ
ہے جس کی شام روزِ ازل وہ سحر ہیں آپ
تھے مبتدا جو حضرتِ آدم ، خبر ہیں آپ

نحوی اصطلاح ” مبتدا و خبر ” کا صنفِ نعت میں فنکارانہ استعمال شاعر کی اخّاذ طبیعت پر دال ہے ۔ اسی طرح حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ” بزمِ قِدمِ میں روشنی بکھیرنے والا قمر ” کہنا بھی شاعر کی وسعتِ فکر و نظر کی دلیل ہے ۔

مصدرِ کائنات ، خواجۂ کونین جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات جملہ مخلوقات کی تخلیق کا سبب ہے ۔ آپ باعثِ ایجادِ عالم اور وجہِ کُن فکاں ہیں ۔ آپ کے نورِ اقدس اور جوہرِ پاک سے دونوں جہاں زمین و آسمان ، عرش و کرسی ، لوح و قلم ، شمس و قمر ، نجوم و کواکب ، بحار و انہار ، اشجار و جبال وغیرہ پیدا کیے گیے ۔ آپ مصدرِ کائنات اور اصلِ کل موجودات ہیں ۔ اگر آپ کی تخلیق نہ ہوتی تو زمین و زماں اور مکین و مکاں و دیگر مخلوقات وجود میں نہیں آتے ۔ اسی لیے تو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کہتے ہیں :

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہے وہ جہان کی ، جان ہے تو جہان ہے

محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ الباری ” مدارج النبوۃ ” میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ ایک دائمی اور ابدی حقیقت ہے کہ اولِ مخلوقات اور ساری کائنات کا ذریعہ اور تخلیقِ عالم و آدم علیہ السلام کا واسطہ ، نورِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے ۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے : اول ما خلق اللہ نوری ( اللہ رب العزت نے تمام مخلوقات سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا ) اور تمام مکوناتِ ( موجودات ) علوی و سفلی آپ ہی کے نور سے پیدا ہوئے ہیں ۔ آپ ہی کی جوہرِ پاک سے ارواح ، شبیہات ، عرش ، کرسی ، لوح ، قلم ، جنت ، دوزخ ، ملک و فلک ، انسان و جنات ، آسمان و زمین ، بحار ( دریا ، سمندر ) ، جبال ( پہاڑ ) اور تمام مخلوقات عالمِ ظہور میں آئی اور باعتبارِ کیفیت تمام کثرتوں کا صدور اسی وحدت ( نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ہے اور اسی جوہرِ پاک سے ساری مخلوقات کا ظہور و بروز ہے ۔

( مدارج النبوۃ ، جلد دوم ، ص : ۱۳ ، مطبوعہ : شبیر برادرز ، لاہور )

صوفیائے کرام کے یہاں ایک حدیث بڑی مقبول و مشہور ہے : کنتُ کنزا مخفیا فاحببتُ ان اُعرف فخلقت الخلق ۔ یعنی اللہ عز و جل کا فرمانِ عالی شان ہے کہ میں ایک مخفی ( پوشیدہ ) خزانہ تھا ۔ جب میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو مخلوق کو پیدا کیا ۔ ( لیکن ناقدینِ حدیث اس روایت کو حدیث نہیں مانتے ) ۔ بہر کیف ! مشیتِ ایزدی نے اپنی معرفت و عبادت کے لیے سب سے پہلے جملہ مخلوقات کے سردار ، سلطانِ انبیا و رسل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو پیدا کیا ۔ پھر یہ نورِ محمدی صدیوں عرشِ الہٰی کے نیچے اور سایۂ سدرہ میں رہ کر اللہ رب العزت کی تسبیح و تحمید میں مصروف رہا اور حسبِ مشیتِ ایزدی مختلف مقامات کی سیر کرتا رہا اور بالآخر آدم علیہ السلام کی پیشانی پر نمودار ہوا ۔ بعد ازاں نسلاً بعد نسلاً اصلابِ طیبہ سے ارحامِ طاہرہ کی طرف یہ نور منتقل ہوتا رہا ۔ یہاں تک کہ یہ درِ نایاب بطنِ آمنہ رضی اللہ عنہا میں جلوہ گر ہوا اور آپ کی ولادتِ با سعادت ہوئی اور آپ کے نور سے سارا عالم منور و مجلیٰ ہو گیا ۔

شادؔ عظیم آبادی نے ” نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ” پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اس کے آغاز و ارتقا پر فکر انگیز اشعار نظم کیے ہیں ۔ یہ بند دیکھیں :

جس وقت تک ہوئی تھی نہ مشہودِ کائنات
لا ریب اک خزانۂ مخفی تھی اس کی ذات
پنہاں تھے اس کے پردۂ قدرت میں سب صفات
چاہا کہ ہو ظہور ، کرے خلق شش جہات
جوش آ گیا جو قدرتِ حق کے ظہور کو
پیدا کیا خدا نے محمد کے نور کو

پھر نور سے نبی کے ہوا خلق دو جہاں
ظاہر ہوا دخان سے نُہ طاقِ آسماں
حق نے کیا زمیں کو کفِ آب سے عیاں
تب ماہ و مہر و نجم ہوئے اس پہ ضو فشاں

ستّر ہزار سال تہِ عرشِ کبریا
نورِ محمدی یوں ہی تسبیح خواں رہا
پھر مدتوں بہشت میں کرتا رہا ثنا
عشقِ خدا میں محو رہا نورِ مصطفیٰ
ان سب کے بعد سایۂ سدریٰ مقام تھا
ستّر ہزار سال وہاں بھی قیام تھا

آخر بحکمِ محکمِ خلّاقِ خاص و عام
پہلے فلک پہ نورِ نبی نے کیا قیام
پیدا ہوئے جو حضرتِ آدم شہِ انام
تب ان کے صلب میں ہوا اس نور کا مقام
احمد کے نورِ پاک سے محمود وہ ہوئے
آخر ملائکہ کے بھی مسجود وہ ہوئے

علامہ شیخ احمد بن محمد قسطلانی ( متوفیٰ : ۹۴۳ ھ ) اپنی مایۂ ناز تصنیف ” المواھب اللدنیۃ ” میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ” طہارتِ نسب ” پر ایک مستقل باب قائم فرمایا ہے اور تاریخِ ابنِ عساکر و تفسیرِ دّرِ منثور کے حوالے سے یہ حدیث نقل کیا ہے :

لم یزل اللہ ینقلنی من الاصلاب الطیبۃ الیٰ الارحام الطاھرۃ مصفیً مھذبا ، لا تنشعب شعبتان الا کنت فی خیرھما .

( المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ ، جلد اول ، ص : ۴۶ ، مطبوعہ : دار الکتب العلمیۃ ، بیروت )

ترجمہ : اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے پاک صُلبوں سے پاک رحموں ( بطنوں ) میں برابر منتقل کرتا رہا صاف و شفاف اور مہذب طریقے پر ۔ سب سے بہتر خاندان میں میری نشو و نما ہوتی رہی ۔
شادؔ عظیم آبادی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :

اصلابِ طیّبہ سے یوں ہی نورِ مصطفیٰ
ارحامِ طاہرہ کی طرف منتقل رہا
جب آمنہ کے بطنِ مبارک میں پائی جا
وقت آ گیا ظہورِ جمالِ جناب کا
خوش تھے مَلَک زمانۂ عیش و نشاط تھا
ارواحِ انبیا کو عجب انبساط تھا

ولادتِ مصطفیٰ کے وقت جن و بشر اور حور و ملک نے بے پناہ خوشیوں کا اظہار کیا تھا ۔ خانۂ کعبہ اور حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر فرشتوں کی بارات اتر آئی تھی ۔ مواہب اللدنیہ و دیگر کتبِ سیرت میں اس کی تفصیل موجود ہے ۔ اسی لیے تو شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے شادؔ کہتے ہیں :

تا عرش ہے ولادتِ مولیٰ کی دھوم دھام
ہے قدسیوں کا خانۂ ہاشمؔ میں ازدحام
مملو ملائکہ سے ہے بیتِ خدا تمام
خالی نہیں ہے رحمتِ حق سے کوئی مقام
محبوبِ حق عدم سے ہیں تشریف لانے کو
آج آپ سرفراز کریں گے زمانے کو

عاشقِ صادق اپنے محبوب سے بھی عشق و عقیدت کا دم بھرتا ہے اور اس سے منسوب اشیا پر بھی جان و دل نثار کرتا ہے ۔ کیوں کہ نسبت سے شے محبوب و ممتاز ہوتی ہے ۔ شاعر کو اپنے نبی سے بھی غایت درجہ محبت ہے اور اس ماہِ مبارک سے بھی انسیت ہے ، جس میں ان کی ولادت ہوئی ہے ۔ شاعر اپنے نبی کی ولادتِ طیبہ کو دولتِ سرمدی اور اللہ رب العزت کی ایک عظیم نعمت قرار دیتا ہے ، جو در اصل قرآن کی خوب صورت ترجمانی ہے ۔ جیسا کہ آیتِ کریمہ : لقد من اللہ علیٰ المومنین اذ بعث فیھم رسولا ۔ اس پر مُشیر ہے ۔ نیز شاعر اپنے ممدوح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الطاف و عنایات ، ان کے سراپا فیض و رحمت پر بھی قربان ہونے کا اعلان و اعتراف کرتا ہے ، جو نعت گوئی کا ایک عظیم وصف و خصوصیت ہے ۔

اے اولِ ربیعؔ ! اس آمد پہ میں نثار
اس کبریا کی دولتِ سرمد پہ میں نثار
الطاف و فیض و رحمتِ بیحد پہ میں نثار
دی نعمتِ بہشت ، محمد پہ میں نثار
دوزخ کا اب نہ خوف نہ دھڑکے عذاب کے
توحید خود بتائے گی رستے صواب کے

ایک عظیم اور قادر الکلام نعت گو کی حیثیت سے شادؔ عظیم آبادی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ موجودہ ادبی حلقہ ان کی نعت گوئی پر توجہ نہ بھی دے تو اس سے ان کی ادبی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ان کی نعت گوئی میں مواد کی عمدگی اور ہیئت کی دلکشی دونوں وصف پایا جاتا ہے اور یہی ان کے کامیاب نعت نگار ہونے کی دلیل ہے ۔ شادؔ نے اپنے نعتیہ کلام اور میلادی نظموں میں تازگی ، شگفتگی ، نادرہ کاری ، رنگارنگی اور گہرائی و گیرائی پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔ خیالات کی بلندی ، افکار کی پاکیزگی ، جذبات کی رنگا رنگی ، احساسات کی ہمہ جہتی ، لطافتِ لسان ، ندرتِ بیان اور جدتِ اسلوب نے ان کے نعتیہ کلام کو ” ادبِ معلیٰ ” کا بے نظیر نمونہ بنا دیا ہے ۔ لیکن برا ہو اس تعصب کا جو شادؔ سمیت دیگر عظیم شعرا کی نعت گوئی کو قصداً پردۂ خفا میں رکھنے پر مُصر ہے ۔ شادؔ عظیم آبادی کی نعت گوئی کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فرحانہ شاہین لکھتی ہیں :

شادؔ عظیم آبادی کی شاعری اور قادر الکلامی کا معترف سارا ادبی حلقہ ہے ۔ انہوں نے متفرق اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی ہے ………. ایک نعت گو کی حیثیت سے بھی ان کا مقام کافی بلند و بالا ہے ۔ ” ظہورِ رحمت ” ان کی مقبول ترین نعتیہ تصنیف ہے ۔ پیارے حبیبِ خدا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مقدس ، زیستِ اقدس اور سیرتِ پاک پر انہوں نے بڑی رعنائی و دلکشی کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔ ان کے نعتیہ کلام کی نمایاں خصوصیات سادگی ، صفائی ، روانی اور فصاحت و بلاغت ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی جوش و عقیدت اور اطاعت و تسلیم کے دامن سے بھی گہرے طور پر وابستہ ہیں ۔

( بہار میں اردو کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی مطالعہ ، ص : ۳۳۸ ، ۳۳۹ )

شادؔ کے نعتیہ کلام میں پیکر تراشی کا عمل :

” پیکر تراشی ” جسے سراپا نگاری بھی کہتے ہیں ، اردو شاعری کا ایک مخصوص اسلوب ( Style ) ہے ، جس میں شعرا اپنے ممدوح کا سراپا یعنی اس کے خد و خال ، زلف و رخسا ، قد و قامت اور لب و رخ وغیرہ کو ایک مخصوص شاعرانہ اسلوب اور والہانہ انداز میں بیان کرتا ہے ، جو بعض اوقات مبالغہ کی دائرے کو عبور کرتے ہوئے ” اغراق ” کی سرحد میں داخل ہو جاتا ہے ۔ لیکن نعت گوئی میں ایسا نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ نعت کا موضوع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات کا شعری و نثری اظہار ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مظہرِ حسنِ ازل ، آئینۂ صفاتِ رب اور نائبِ پروردگار ہیں ۔ آپ کی ذاتِ قدسی صفات کا تو یہ عالم ہے کہ شاعر کہنے پر مجبور ہے :

حسنِ یوسف ، دمِ عیسیٰ ، یدِ بیضا داری
آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سراپا ، وجودِ ناز ، حسن و جمال ، لب و رخسا اور خد و خال وغیرہ کی جتنی بھی تعریف کی جائے ، وہ کم ہے ۔ شادؔ عظیم آبادی نے اپنے نعتیہ کلام میں ممدوحِ کائنات جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حسن و جمال اور آپ کے ” سراپا ” کا جو حسین نقشہ کھینچا ہے ، وہ قابلِ قدر اور لائق رشک ہے ۔ ان کی سراپا نگاری و پیکر تراشی اپنے اندر بڑی کشش اور جاذبیت رکھتی ہے ۔ شادؔ کی نعتیہ پیکر تراشی کا نمونہ پیش کرنے سے قبل ” پیکر تراشی ” کا مختصر تعارف پیشِ خدمت ہے ۔ اس کائناتِ رنگ و بو میں جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں اور اس کا گہرا مشاہد کرتے ہیں تو اس کی تصویر ذہن کی اسکرین پر چھپ جاتی ہے ۔ منطقی حضرات اسی کو علم کہتے ہیں یعنی ان کے نزدیک شے کی صورتِ ذہنیہ کا نام علم ہے ۔ ذہن کی اسکرین پر چھپی ہوئی اسی تصویر / خاکہ / نقش کو شعری اصطلاح میں ” پیکر ” کہتے ہیں ۔ اب شاعر ، ادیب اور فنکار اس ذہنی تصویر کو اپنے مخصوص انداز میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ اس کی چلتی پھرتی تصویر نگاہوں کے سامنے پھر جاتی ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جس کو شعر و ادب کی اصطلاح میں ” پیکر تراشی ” اور ” محاکات ” کہا جاتا ہے ۔ ” پیکر ” اور ” پیکر تراشی ” کی حقیقت و ماہیت کو سمجھنے کے لیے یہ اقتباس مفید ثابت ہوگا ۔ ڈاکٹر توحید احمد خاں لکھتے ہیں :

کائنات کی مختلف اشیا اور کیفیات کے مفہوم اور ان کے صحیح تصور کی حقیقت کو پہنچنے کے لیے کچھ خیالات ذہن میں منقّش ہوتے ہیں اور ان خیالات سے اس شے کی اصلیت کا انکشاف بھی ہوتا ہے ۔ بس ذہن میں منقش ہونے والے یہی خیالات جو چشمِ بصارت سے پرے ہوتے ہیں اور کسی حقیقت و کیفیت کا اظہار کرتے ہیں ” پیکر ” ہوتے ہیں ۔ یہ پیکر کبھی تو فقط اشیا کی ماہیت کو سمجھاتے ہیں ۔ مثلاً : حورؔ کا تصور کیا جائے تو ذہن میں ان دیکھی حور کا ایک مخصوص تصور قائم ہو کر ایک نقشہ کھِنچ جاتا ہے ۔ اسی طرح جبریل ، جنت اور جہنم وغیرہ ۔ اسی طرح بصری اشیا کے تصور سے ان چیزوں کا ایک خیال ایک نقشہ ذہن میں قائم ہو جاتا ہے ۔ مثلاً : دریا ، شجر ، سنبل ، گیسو وغیرہ کے خیال سے ذہن میں ان کے نقوش اس طرح قائم ہو جاتے ہیں کہ گویا آنکھ انہیں دیکھ رہی ہو اور وہ چیز اصل ہیئت کے ساتھ سامنے کھڑی ہو ۔ بس اس وقت قائم ہونے والا ذہنی نقشہ ، ذہنی شکل اور ذہنی تصور ہی ” پیکر ” ہے ۔ اس پیکر کے اور واضح اظہار کے لیے الفاظ اور آوازوں کو ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ان کا وہی ما قبل ذہنی تصور ، وہی خاکہ دوسرے کے ذہن میں قائم کرنے کی سعی کی جاتی ہے ۔ الفاظ اور آواز کے ذریعے ظاہر ہو کر ایک ذہن سے دوسرے ذہن میں پیدا ہونے والے ان ہی نقوش ، تصورات اور خاکوں کو ” لفظی پیکر ” کہتے ہیں ۔ بعض اوقات تخلیق کار ان لفظی پیکروں کا استعمال اس زور اور دباؤ کے ساتھ کرتا ہے کہ مذکورہ اشیا کا نہ صرف خاکہ ذہن میں نقش ہو جاتا ہے ، بلکہ اس کی چلتی پھرتی صورتیں آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہیں ۔ ذہن کی یہ کیفیت ” تلازمہ ” اور ” محاکات ” کہلاتی ہے ۔

( اقبال کی شاعری میں پیکر تراشی ، ۱۹ ، ۲۰ )

مذکورہ بالا اقتباس کو سامنے رکھتے ہوئے خامۂ شادؔ کی سراپا نگاری و پیکر تراشی ملاحظہ کریں اور شاعر کی جودتِ فکر و فن کی داد دیں :

آئینۂ صفاتِ احد روئے لا جواب
روشن ہے جس سے عرشِ الہٰی وہ آفتاب
صفحہ یہ ہے بیاضِ حقیقت میں انتخاب
آئی اسی کے صدقے میں قرآن سی کتاب
ہر روز دیکھتی ہے جو آ آ کے دور سے
شرماتی ہے بیاضِ سحر اس کے نور سے

صبحِ جبیں سے صدق و صفا آشکار ہے
رنگت سے نورِ حق کی ضیا آشکار ہے
ماتھے سے صاف مہر و عطا آشکار ہے
بے پردہ شانِ حسنِ خدا آشکار ہے
اک سلسلہ ہے عرشِ الہٰی کے نور تک
جاتی ہے چھوٹ چہرۂ تاباں کی دور تک

لکھتا ہوں وصفِ زلفِ شہنشاہِ کائنات
خامہ جو مُشک کا ہو تو نافہ کی ہو دوات
حقّا کہ اس کے آگے شبِ قدر بھی ہے مات
شاید کہ پھیل کر یہی معراج کی تھی رات

وہ لب کہ جس کو دیکھ کے قالب میں روح آئے
رنگ اس طرح کا لعلِ بدخشاں کہاں سے پائے
اعجاز کب یہ عیسیٰ گردوں جناب لائے
گر دیکھ لے تو رشک سے الماس زہر کھائے
اس لب کی خوبیوں کا بھلا کیا شمار ہے
حقاّ کہ اس پہ جانِ فصاحت نثار جائے

پنجہ وہ اور ساعدِ سیمیں و دستِ پاک
رخشاں و نور بخش و ضیا بار و تابناک
پشتِ سمک سے جس کی چمک جائے تا سماک
موسیٰ اٹھا کے ہاتھ کہے روحنا فداک

سینہ کا نور چھَن کے نکلتا ہے بار بار
روشن شعاعِ مہر ہے یا پیرہن کے تار
سینہ یہ وہ ہے مخزنِ اسرارِ کردگار
جس پر خدا کا روزِ ازل سے ہے اعتبار
سارے رموزِ حق کے ذخیرے اسی میں ہیں
گاہک خدا ہے جس کا وہ ہیرے اسی میں ہیں

وہ رکنِ دیں ہیں پائے مبارک حضور کے
شمعیں ہیں دونوں نور کی سانچے میں نور کے
ساقَین میں ضیا نہیں جلوے ہیں طور کے
آئے کہاں سے تاب یہ چہرے میں حور کے
عکسِ قدم سے راہ نہ کیوں کہکشاں بنے
یہ پاؤں جس زمیں پہ چلے آسماں بنے

عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَزْهَرَ اللَّوْنِ ، کَأَنَّ عَرَقَهُ اللُّؤْلُؤ وَلَا شَمِمْتُ مِسْکَةً وَ لَا عَنْبَرَةً أَطْيَبَ مِنْ رَائِحَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآلہ وسلم . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ . وفي رواية عنه للبخاري : قَالَ : وَلَا شَمِمْتُ مِسْکَةً وَلَا عَبِيْرَةً أَطْيَبَ رَائِحَةً مِنْ رَائِحَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه و آله و سلم .

( بخاري شریف ، کتاب المناقب ، باب صفة النبي صلی الله عليه واله وسلم / مسلم شریف ، کتاب الفضائل ، باب طيب رائحة النبي صلی الله عليه و آله و سلم )

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا رنگ مبارک سفید چمک دار تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پسینہ مبارک کے قطرے موتیوں کی طرح چمکتے تھے ۔ میں نے کسی مشک یا عنبر کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ( کے پسینہ مبارک کی خوشبو ) سے زیادہ خوشبو دار نہیں پایا ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں اور بخاری شریف کی ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جسمِ اطہر کی خوشبو سے بڑھ کر کسی مشک یا خوشبو کو نہیں سونگھا ۔ اسی لیے تو شادؔ کہتے ہیں :

خوشبو میں عود و مشکِ ختن سے کہیں زیاد
حلقوں میں دیکھیے چمنِ خلد کا سواد
بگرفت از سیاہیِ زلفش قلم مداد
بر لوحِ کُن نوشت و بِنائے جہاں نہاد
ہر مو سے اس کے رشتۂ جاں ہے بندھا ہوا
ہے سلسلہ اسی کا ابد سے ملا ہوا

مندرجہ بالا نعتیہ مسدّس / اشعار میں فکری و فنی اور خالص ادبی لحاظ سے جو خوبیاں ہیں ، وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں ۔ شادؔ کی نعتیہ شاعری اپنے اندر بڑی معنویت رکھتی ہے ۔ ان کے نعتیہ کلام میں فکری تموج ، معنوی گہرائی ، رفعتِ خیال ، تقدیسی اندازِ بیان ، والہانہ اسلوب ، شعری لطافت اور طہارتِ فکر و قلم جیسے قابلِ قدر عناصر پائے جاتے ہیں ۔ ان کا شعری لہجہ نکھرا ہوا ، تراشیدہ اور منفرد و مؤثر ہے ۔ زبان کی چاشنی ، بیان کی شیفتگی اور صفائی و برجستگی اس پر مستزاد ہے ۔ ان کی نعتیہ شاعری میں شعری جمالیات اور فنی محاسن کا وہ گلزار نظر آتا ہے ، جس کی عطر بیزیاں مشامِ جاں کو معطر کرتی ہیں اور ان کے با کمال نعت گو ہونے کی گواہی دیتی ہیں ۔ ڈاکٹر احمد علی جوہرؔ کا یہ صداقت آمیز تبصرہ ملاحظہ کریں :

شادؔ عظیم آبادی کا شمار اردو کے کلاسیکی شعرا میں ہوتا ہے ۔ ان کا شعری لہجہ منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ مؤثر بھی ہے ۔ انہوں نے قدیم شعری لہجے کی پیروی بھی کی ہے اور وہ اپنے دور کے جدید طرزِ اظہار سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں ۔ شادؔ عظیم آبادی کی شاعری کا خاص وصف زبان و بیان کی صفائی و سادگی ہے ۔ ان کے ہاں بندش میں روانی ، چستی اور ہمواری پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ جذبات کی پاکیزگی اور لطافت بھی شادؔ عظیم آبادی کی اہم شعری خصوصیت ہے ۔ شادؔ عظیم آبادی نے غزل میں وارداتِ قلبی کے اظہار کے ساتھ ساتھ اخلاقی ، فلسفیانہ ، عارفانہ اور توحید سے متعلق موضوعات کو بھی غزل میں سمویا ہے ۔ ان کی شاعری میں داخلی رنگ کے ساتھ ساتھ خارجی رنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں حمد ، نعت اور منقبت کے مضامین کو اس طرح جگہ دی ہے کہ اس سے ان کی غزلوں میں انفرادیت اور ایک نئی معنویت پیدا ہوگئی ہے ۔

غرض کہ ” ظہورِ رحمت ” اردو کے چند اہم اور کامیاب ترین ” میلاد ناموں ” میں سے ایک ہے ، جس میں مواد و ہیئت کی دل آویزی قارئین کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ صلوٰۃ و سلام اور استغاثہ و استمداد سے متعلق دو بند ذکر کر کے میں اپنا مضمون ختم کرتا ہوں ۔ قارئین اس بیش قیمت نعتیہ مجموعے کا مطالعہ کر کے اپنے عشق و ایمان کو تازہ کریں :

اے راز دارِ پردۂ اسرار السلام
اے اعتبارِ رحمتِ غفار السلام
اے آفتابِ مطلعِ انوار السلام
اے ہم سے عاصیوں کے مدد گار السلام
ہے التجا کہ دولتِ دارین دیجیے
اے رحمتِ خدا مری تسلیم لیجیے

امت کے اپنی دیکھیے احوال یا رسول
غفلت ہر ایک بات میں ہر کام میں ذہول
جو لا جواب آپ نے قائم کیے اصول
کرتے ہیں جان بوجھ کے اس میں غضب کی بھول
اے سرگروہِ مجلسِ وحدت ! دہائی ہے
ٹولی جدا ہر ایک نے اپنی بنائی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *