شیر بیشۂ اہل سنت مولانا حشمت علی خان تعارف

Spread the love

شیرِ بیشئہِ اہل سنت مولانا حشمت علی خان : تعارف

 

 

✍️ محمد شہاب الدین علیمی

 

 

 

اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں بہت سے انسانوں کو پیدا فرمایا ، مگر کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو ایسے ایسے عظیم کام انجام دے دیتے ہیں کہ دنیا انہیں بُھلا نہیں پاتی اور وہ تاریخ کا ایک روشن باب بن جاتے ہیں ۔ شیر بیشہ اہل سنت ، تلمیذ و مرید اعلی حضرت رضی اللّٰہ تعالی عنہ ، سلطان المناظرین مولانا حشمت علی خان علیہ رحمة الرحمن کی ذات بھی انہیں انسانوں میں سے ایک تھی ۔ انہوں ایسے ایسے عظیم کارہاے نمایاں انجام دیے کہ دنیا آج انہیں بُھلانے سے قاصر ہے ۔

 

 

ولادت و تعلیم :

 

آپ کی ولادت ١٣١٩ھ میں لکھنؤ میں ہوئی ، اور ابتدائی کتابیں دیوبندی مولویوں سے پڑھی ، مگر عالم یہ تھا کہ بچپن میں ہی ان سے بحث کرتے اور درس کا وقت بحث میں ختم کر دیتے اور انہیں لاجواب کر دیتے تھے ۔ دس سال کی عمر میں حفظ مکمل کیا ۔ اللّٰہ پاک نے عظیم ذہانت و فطانت عطا فرمائی تھی ۔ ١٣٣٦ھ میں اعلی حضرت رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے مرید ہوۓ ۔ مدرسہ میں اعتراضات کی بھرمار ہونے لگی مگر مجدد اعظم حضور اعلی حضرت رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے فیضان سے تمام اعتراضات کا دندان شکن جواب دیتے تھے ۔ درس کا وقت انہیں سب چیزوں میں ختم ہو جاتا تھا اور دیوبندی مولوی چاہتے کہ کسی طرح آپ کو دیوبندی بنایا جاۓ ، جب آپ نے دیکھا کہ تعلیم کا نقصان ہو رہا ہے تو حضور اعلی حضرت رض اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں ایک خط لکھا اور سارا واقعہ اس میں بیان فرما دیا۔ ادھر سے جواب آیا کہ یہیں آ جاؤ انتظام ہو جاۓگا۔ چنانچہ ١٣٣٦ھ میں آپ بریلی شریف تشریف لے گئے اور منظر اسلام میں آپ کی تعلیم شروع ہو گئی ، اور ساتھ ہی ساتھ شیخ سے فیض بھی حاصل کرنے لگے۔

 

پہلا مناظرہ :

 

 

١٣٣٨ھ کا واقعہ ہے۔ ایک دن اعلی حضرت رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو خطوط پڑھ کر سنا رہے تھے تو ایک خط میں لکھا تھا کہ یہاں ایک دیوبندی مولوی جو اشرف علی تھانوی کا مرید خاص اور خلیفہ ہے ، اس نے سنیوں کو مناظرہ کا چیلنج دیا ہے ، آپ ایک سنی مناظر عالم کو بھیج دیں۔ شیر بیشۂ اہل سنت مولانا حشمت علی خان رحمة اللّٰہ تعالی علیہ نے کہا : حضور اس فقیر کو ہی بھیج دیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا بہت مناسب ہے۔ اور تھانوی کی حفظ الایمان والی کفریہ عبارت کے بارے میں کچھ ارشاد فرمایا۔ پھر آپ کو دعا دے کر رخصت کیا۔ حضرت پہنچے اور تھانوی کی کفریہ عبارات پر مناظرہ شروع ہوا۔ حضرت نے تقریر فرمائی اور ایسے دلائل دیے کہ وہ تجربہ کار مولوی تیسری ہی تقریر میں ڈھیر ہو گیا اور پانچ منٹ تک خاموش بیٹھا رہا۔ حضرت بار بار جواب کا مطالبہ کرتے رہے مگر وہ فَرَّ یَفِرُّ کی گردان کرتے ہوئے فرار ہو گیا۔( ماشاء اللّٰہ زمانۂ طالب علمی میں ہی یہ حال تھا ) سنیوں نے نعرۂ تکبیر و رسالت بلند کیا اور صلٰوة و سلام پڑھا گیا۔اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا ماشاء اللہ آپ “ابوالفتح” ہیں۔ آپ کو قریب بلایا اور خود کھڑے ہوکر سینئہ اقدس سے لگایا ، اپنا عمامہ مبارک شیر بیشۂ اہل سنت کے سر پر رکھ دیا اور پانچ روپے نقد انعام دیا ، اس کے بعد قلم سے تحریر فرمایا کہ آج سے میں ان کا پانچ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کرتا ہوں۔

 

 

اعلی حضرت کے ساتھ نینی تال :

 

39۔1338ھ میں رمضان شریف کے مہینے میں سخت گرمی پڑتی تھی مئی اور جون کا مہینہ پڑتا تھا تھا۔ اعلی حضرت رضی اللّٰہ تعالی عنہ ضعف و نقاہت کی وجہ سے اتنی گرمی میں روزہ نہ رکھ سکتے تھے۔ تو آپ نے نینی تال کا سفر کیا اور دونوں سال کا رمضان شریف آپ نے وہیں گزارا اور روزہ رکھا اور روزے کا فدیہ دےکر چھٹکارا حاصل نہ کیا ( سبحان اللّٰہ العظیم کیا تقوٰی تھا! )

 

ان دونوں سفر میں شیر بیشۂ اہلسنت حضور اعلی حضرت کے ساتھ ان کی خدمت میں تھے۔ اس مدت میں آپ نے ان سے کتنا فیض حاصل کیا ہوگا اس کا کون اندازہ کر سکتا ہے!

 

 

 

آپ نے سنیت کا جو کام کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔زندگی بھر باطل فرقوں کا رد کیا۔ تقریر بھی کرتے رہے اور تصنیفی کام کو بھی نہیں چھوڑا۔منظر اسلام میں درس بھی دیتے رہے۔

 

ماہ شعبان المعظم 1340ھ میں منظر اسلام میں آپ کی دستار بندی ہوئی اور اسی میں پڑھانے لگے۔ جماعت رضاۓ مصطفی کے مفتی تھے۔درس سے تمام بچوں کو مطمئن کر دیتے۔ سمجھانے کا انداز نرالا تھا۔

 

تدریس :

 

ایک بار تین علمائے کرام مدرسے کا جائزہ لینے کے لئے آۓ ، آپ کو نوعمر دیکھ کر آپ کے کمرے میں رک گئے ، آپ نے سلام اور حال دریافت کرنے کے بعد پھر درس شروع کردیا۔ چنانچہ تینوں علمائے کرام نے باری باری آپ سے اعتراضات کیے اور آپ نے ان کا تسلی بخش جواب دیا ، ان کے شکوک رفع کئے اور انہیں مطمئن کر دیا ، وہ حضرات بہت خوش ہوئے۔

 

جس طریقے سے اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے رد بدعات و منکرات کیا اسی طرح سے شیر بیشۂ اہل سنت نے بھی رد بدعات و منکرات کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ مظہر اعلی حضرت تھے۔

 

 

بسڈیلہ ( خلیل آباد ) کا مناظرہ :

 

شیر بیشۂ اہل سنت کا بسڈیلہ ( خلیل آباد ) میں مناظرہ ہوا ، جس میں وہابیوں کا ایک بہت ہی خراٹ اور مشہور مناظر تھا۔ حسام الحرمین ( مصنفہ اعلی حضرت ) میں علماء عرب نے جو دعائیہ کلمات اور تعریفیں لکھی تھیں وہی عبارت آپ پڑھ رہے تھے۔ عربی میں ایک جگہ تھا *أَدَامَ اللّٰہُ بَرَکَاتِہٖ*( اللہ پاک ہمیشہ ان کی برکتیں جاری رکھے ) اس پر وہابی مولوی نے کہا مولانا حشمت علی اَدَامَ اللّٰہُ بَرَکَاتَہٗ ہے آپ بَرَکَاتِہٖ پڑھ رہے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: میرا اعراب پکڑ رہے ہو ، برکات جمع مؤنث سالم ہے اس کا اعراب حالت نصب میں کسرہ کے ساتھ آتا ہے۔ بھول گئے ہو کیا؟

 

 

حفظ الایمان کی عبارت پر مناظرہ :

 

راندیر ضلع سورت میں ایک دیوبندی مولوی سے مناظرہ ہوا۔ یہ مناظرہ اشرف علی تھانوی کی حفظ الایمان والی کفریہ عبارت پر ہوا ۔ عبارت یہ ہے

 

*پھر یہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس غیب سے بعض غیب مراد ہیں یا کل ، اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی کیا تخصیص ایسا علم غیب تو ہر صبی و مجنوں بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کو بھی حاصل ہے*۔

 

آپ نے فرمایا اس عبارت میں حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سخت توہین ہے ، اور یہ یقینا قطعا کفر ہے۔ اور جو اس کفر قطعی پر مطلع ہونے کے بعد بھی انہیں مسلمان جانے وہ بھی کافر ہے۔ پھر دیوبندی مولوی کھڑا ہوا اور کہا کہ ہرگز ہرگز توہین نہیں، اس عبارت میں اگرچہ تشبیہ ہے مگر وہ تشبیہ من بعض الوجوہ ہے جو کہ توہین نہیں ہے۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور تبسم کناں فرمایا مولوی محمد حسین صاحب آپ کے چہرے کی کیا تخصیص آپ کا چہرہ تو خنزیر کی طرح ہے ، اور مولوی احمد بزرگ تمہارے دانت کتے جیسے ہیں۔غرض ایک ایک دیوبندی وہابی جو سامنے مناظر تھے سب کا نام لے لے کر بیان فرمایا اور بیٹھ گئے۔ وہ لوگ آگ بگولہ ہوگئے بولے کہ انسپکٹر صاحب کو کہو کہ گالیاں دے رہے ہیں ، وہ آئیں اور مناظرہ بند کروائیں۔ اسپیکٹر صاحب نے حضرت کو مخاطب کیا تو حضرت نے فرمایا بس صرف پانچ منٹ رک جائیے۔ حضرت نے کھڑے ہوکر فرمایا سنی بھائیوں مناظرہ ختم ہوگیا آپ کو فتح مبارک۔اس پر دیوبندی اچھلنے کودنے لگے اور بولے: گالیاں دے کر مناظرہ ختم کرو گے۔ جب ان کا جوش ٹھنڈا ہوا تو پھر حضرت کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تھانوی نے اپنی عبارت میں حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے علم وسیع وعظیم کو رذیل اشیاء سے تشبیہ دی اور یہ تشبیہ توہین ہے۔ مولوی محمد حسین نے کہا کہ یہ تشبیہ من بعض الوجوہ ہے جو کہ توہین نہیں۔ میں نے بھی جو تشبیہ دی ہے چہرے ، کان ، دانت وغیرہ کی۔ تو یہ تشبیہ ضرور ہے مگر تشبیہ من بعض الوجوہ ہے جو کہ توہین نہیں۔ مگر اسے سن کر کر آپ لوگوں کا اچھلنا کودنا ، شور مچانا کوتوال صاحب سے شکایت کرنا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اسے توہین سمجھ رہے ہیں ؛ لہذا تھانوی کی عبارت میں بھی ضرور ضرور توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ تو مناظرہ ختم ہوا ، سنی بھائیوں کو فتح مبارک ہو۔ کوتوال صاحب نے بھی کہا کہ سنیوں کو مبارک۔ سلام پڑھا گیا اور حضرت تشریف لائے۔ دوسرے دن عشاء کی نماز کے بعد اس فتح کی خوشی میں جلسہ تہنیت منعقد ہوا اور علماء و مشائخ اور عوام و خواص کی اتفاق سے آپ کو شیر بیشۂ اہلسنت کا خطاب دیا گیا۔ رب تعالیٰ کے کرم سے اس لقب کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ آپ کی ذات کا علم بن گیا ۔ نام نہ لیجئے صرف خطاب زبان سے ادا ہو دنیا سمجھ جائےگی کہ کس کا ذکر ہو رہا ہے ، آپ کے وصال کو تقریبا 65 سال سے زائد ہو چکے مگر اس خطاب کی تازگی اور شادابی آج بھی برقرار ہے۔

 

وصال :

 

آپ دو سال صاحب فراش رہے۔ وہابیوں دیوبندیوں نے آپ کو زہر دے دیا تھا ؛ جس سے آپ کے حلق میں تکلیف ہو گئی تھی۔ وصال سے تھوڑی دیر پہلے کاٹھیاواڑ کے رہنے والے ایک صاحب کو داخلۂ سلسلہ فرمایا اور سورہ یٰس شریف پڑھی ، آخری وقت تک کلمہ شریف پڑھتے رہے اور 8 محرم الحرام 1380ھ کو جوار رحمت میں جا بسے۔

 

 

 

اللّٰہ پاک ان کے مزار پاک پر رحمت و نور کی بارش فرماۓ اور ان کے صدقے میں ہماری دنیا و آخرت سنوار دے۔ آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *