اب پسماندہ مسلمانوں پر پڑی بی جے پی کی نظر
اب پسماندہ مسلمانوں پر پڑی بی جے پی کی نظر !
تحریر: جاوید اختر بھارتی
حال ہی میں بی جے پی کی طرف سے کچھ ایسے بیانات آئے ہیں اور خود وزیراعظم نریندرمودی نے مسلمانوں سے متعلق کچھ ایسی باتیں کہی ہیں کہ جس سے کبھی کبھی یہ لگتا ہے کہ کیا بی جے پی کا نظریہ، اصول و ضابطہ تبدیل ہوگیا ہے کہ وہ مسلمانوں اور پسماندہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی باتیں کررہی ہے یا کہ جو نعرہ دیا تھا بی جے پی نے اور مودی جی نے کہ سب کا وکاس، سب کا ساتھ اور سب کا وشواس تو کیا اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے اقدامات کئے جانے والے ہیں۔
حال ہی میں وزیراعظم نریندرمودی نے تلنگانہ میں کہا کہ پسماندہ مسلمانوں کی ترقی کے لئے کام کرنا ہے اور ان کے حالات کو بہتر بنانا ہے انہوں نے اپنی پارٹی کے لیڈران اور کابینہ کے وزراء اور ممبران پارلیمنٹ سے بھی کہا کہ وہ پسماندہ مسلمانوں کے لیے کام کریں کیوں کہ پسماندہ مسلمان تعلیمی و سیاسی اور سماجی اعتبار سے آج بھی حاشئے پر ہے اسے آج بھی وہ حقوق نہیں مل سکے جو انہیں ملنے چاہیے تھے،، ۔
اس بات سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بی جے پی کی اور وزیراعظم نریندرمودی کی نظر پسماندہ مسلمانوں پر اس لئے پڑی ہے کیوں کہ ان کی آبادی بالکل ویسے ہی ہے جیسے ہندو میں پندرہ اور پچاسی ہے۔
اسی طرح مسلمانوں میں بھی پندرہ اور پچاسی ہے چاہے ہندو میں ہو یا مسلمان میں بہار میں لالو پرساد یادو کا جلوہ تھا تو پسماندہ مسلمانوں سے تھا اور آج نتیش کمار کا جلوہ ہے تو وہ بھی پسماندہ مسلمانوں کی ہی وجہ سے ہے اور اترپردیش میں ملائم سنگھ یادو سے لے کر اکھلیش یادو تک کا بول بالا تھا تو وہ بھی پسماندہ مسلمانوں کی ہی وجہ سے تھا اور آج بھی سماجوادی پارٹی کا وجود بچا ہے تو وہ پسماندہ مسلمانوں کے ہی بل بوتے پر بچا ہے۔
اور کانشی رام نے بہوجن سماج پارٹی بنائی تو انہیں بھی کام یابی اسی وقت حاصل ہوئی جب پسماندہ مسلمان ان کے ساتھ جڑا لیکن ہاں یہ بھی ایک سچائی ہے کہ پسماندہ مسلمانوں کو خود اپنی شناخت قائم کرنے کی فکر نہیں ہوئی اور اپنی طاقت کا کبھی احساس نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ بہت سی سیاسی پارٹیاں انہیں ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی رہیں اور بدلے میں جھنجھنا تہماتی رہیں جس کے نتیجے میں پسماندہ مسلمانوں کی سیاسی شناخت گم ہو گئی۔
مولانا علی حسین عاصم بہاری اور عبد القیوم انصاری نے پسماندہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے تحریکیں چلائیں لیکن پسماندہ مسلمانوں نے خود انہیں بھلادیا لمبے عرصے کے بعد انڈین مسلم بیک ورڈ کانفرنس بنی، بیک ورڈ مسلم مورچہ بنا اور ڈاکٹر شکیل صمدانی، انصاری الیاس انجم، اشفاق حسین انصاری، نعیم اللہ انصاری، اعجاز علی انصاری، اختر انصاری وغیرہ نے پسماندہ مسلم سماج کو سیاسی طور پر بیدار کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی کارآمد نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بہار سے اکثر و بیشتر پسماندہ مسلمانوں کے حق میں آواز بلند ہوتی رہی لیکن کوئی مضبوط پلیٹ فارم نہیں بن سکا جب ساری آوازیں خاموش ہونے لگیں تو بہار سے ہی پھر علی انور انصاری نے پسماندہ مسلمانوں کی آواز بلند کی اس سلسلے میں علی انور انصاری نے پٹنہ میں ایک پروگرام کرایا جس میں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار دونوں کو مدعو کیا اور دونوں باری باری اس پروگرام میں آئے اور اپنے خیالات ظاہر کئے جس میں نتیش کمار نے اپنی بات بہت واضح طور پر کہی۔
جس کا اثر یہ ہوا کہ بہار میں پسماندہ مسلمانوں نے نتیش کمار کا ساتھ دیا اور ان کی حکومت بنی تو نتیش کمار نے بھی علی انور انصاری کو راجیہ سبھا تک پہنچایا اور علی انور نے راجیہ سبھا کے اندر پسماندہ مسلمانوں کے حق میں آواز تو ضرور اٹھائی مگر انہوں نے جو آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ بنایا تھا اس کو وہ ممبر راجیہ سبھا رہتے ہوئے بھی ملک میں پھیلا نہیں سکے
یہاں تک کہ بہار اور یوپی میں بھی مکمل طور پر عوام کو جوڑ نہیں سکے جس سے نقصان یہ ہوا کہ بہت سے علاقوں میں کمیٹیاں بنی تھیں تو وہ بھی ختم ہو گئیں اور آج صرف صدر اور نائب صدر کا نام آتا ہے جبکہ یہ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ سیاسی و سماجی پلیٹ فارم بنتے بنتے لاپرواہی کا شکار ہوتا ہے تو پھر دوبارہ عوام کو جوڑنا انتہائی مشکل ہوتا ہے
اور آج وہ حالت ہے انفرادی طور پر بھلے ہی چاہے جو کچھ بھی ہو لیکن اجتماعی طور پر آج کوئی حقیقت نہیں ہے۔ حال ہی میں اترپردیش میں جو اسمبلی انتخابات ہوئے اس میں اکھلیش یادو نے مسلمانوں اور پسماندہ مسلمانوں کا نام لینے سے پرہیز کیا کہ کہیں ہندو مذہب کے لوگ ناراض نہ ہوجائیں اور حالت یہ ہوئی کہ جسے خوش کرنے کی کوشش کی جارہی تھی وہ ساتھ آئے ہی نہیں اور بی جے پی اسی موقع کی تلاش میں تھی
جس کا اظہار حیدرآباد میں وزیراعظم نریندرمودی نے کیا اور میڈیا نے کوریج کیا اور اس انداز سے خبر چلایا کہ سب کچھ واضح ہوگیا کہ کس کی کتنی آبادی ہے اور کس کی کتنی نمائندگی ہے اور کس کے ساتھ کس نے دھوکا کیا ہے اور کس کو کس نے اندھیرے میں رکھا ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے پسماندہ مسلمانوں کی فکر بی جے پی کو ایسے وقت میں ہوئی ہے جب لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بی جے پی کا ایک بھی مسلم ممبر نہیں، مرکزی کابینہ میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں، پورے ملک میں بی جے پی کے تقریباً تیرہ سو ممبران اسمبلی میں سے ایک بھی مسلم ممبر اسمبلی نہیں تو آخر بی جے پی اور مودی جی پسماندہ مسلمانوں کو کہاں حصہ داری دیں گے؟۔
یہیں سے بی جے پی کی نیت پر شبہ ہوتا ہے کہ دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح اب یہ بھی پسماندہ مسلمانوں کو ووٹ بینک بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے اور اگر بی جے پی کی نیت صاف ہے تو رنگ ناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی ان دونوں نے جو سفارشات کی ہیں اور جو رپورٹ تیار کی ہیں اور پیش کی ہیں ان رپورٹ اور سفارشات کو پہلے نافذ کیا جائے، دفعہ 341 پر سے مذہبی پابندی ہٹایا جائے تاکہ پسماندہ مسلمانوں کے اندر کچھ امید جگے تبھی سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ سچ ہوگا۔
ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ بہت پہلے ایک بات یہ کہی گئی تھی کہ آج پسماندہ کی بات ہوتی ہے تو مزاق اڑایا جاتا ہے لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ بات دور تک جائے گی اور لفظ پسماندہ گونجے گا،، آخر آج وہ دن آہی گیا اور وزیراعظم کے اسٹیج سے لیکر نیوز چینلوں تک پسماندہ مسلمانوں کا ذکر شروع ہوگیا کل تک مخصوص مراعات و سہولیات کے موقع پر کہا جاتا تھا کہ مسلمانوں میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے۔
لیکن جب روٹی بیٹی اور ووٹ کی بات آتی تھی تو معاملہ اس کے برعکس ہوتاتھا اور ہوتا ہے اب نیوز چینلوں پر کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں میں تین طبقات ہیں اشراف، اجلاف، ارذال تو کیوں نہیں مخالفت کی جاتی آخر نیوز چینلوں نے تو یہاں تک کہا کہ ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک تقریباً ساڑھے چار سو سے زیادہ مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ ہوئے ہیں
جس میں پسماندہ مسلمانوں کی تعداد پچاس تک بھی نہیں پہنچی ہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی کا پچاسی فیصد طبقہ پسماندہ مسلمانوں کا ہے
اب آگے دیکھنا ہے کہ بی جے پی پارٹی سطح پر اور حکومتی سطح پر کون کون سے اقدامات کرتی ہے اور خود پسماندہ مسلمانوں کو بھی اب آگے آنا چاہئے سیاسی، تعلیمی، سماجی بنیاد پر بیدار ہونا چاہئے اور بیداری مہم بھی چلانا چاہئے کیونکہ یہ ایک موقع آیا ہے تو ہرگز پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔
جاوید اختر بھارتی
سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی