ایم اے ظفر مردم سازی کے فن سے بخوبی واقف تھے

Spread the love

ایم اے ظفر مردم سازی کے فن سے بخوبی واقف تھے : مفتی ثناء الہدیٰ

موجودہ حالات میں اخبارات نکالانا بہت مشکل امر ہے : اشرف فرید

ارد و میڈیا فورم کے زیر اہتمام اردو گوریمنٹ لائبریری میں تعزیتی نشست کا انعقاد ‘ دانش وران ادب و صحافت کی شمولیت

پٹنہ : (اسٹاف رپورٹر)

ایم اے ظفر مردم سازی کا فن جانتے تھے مسائل کے وقت حالات سےنبرد آزما ہونا جانتے تھے وہ ایک انتظامی صحافی تھے

یہ باتیں اردو میڈیا فورم کے زیر اہتمام منعقد تعزیتی نشست سےمفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم اے ظفر نے صحافیوں کے قلم کو کبھی پکڑا نہیں بلکہ انہیں آزادی کے ساتھ لکھنے اور پڑھنے کا موقع دیا‘ وہ کارکن صحافیوں کی عزت نفس کا بہت خیال کرتے تھے ان کے اندر انکساری تواضع کوٹ کوٹ کر بھری تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں یہ اونچا مقام عطا کیا۔ ایم اے ظفر جھکنے کا فن جانتے تھے جس کی وجہ سے لوگوں میں مقبول ہوئے ۔

وہیں نشست خطاب کرتے ہوئے فورم کے سرپرست و قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ ایس ایم اشرف فرید نے کہا کہ ظفر کا جلدی چلاجانا صحافت کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ انہوں نے اخبارات کے ذریعے اردو کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ اس وقت اخبارات نکالنا بہت مشکل کام ہے ۔اردو اخبارات کا مستقبل تابناک نہیں ہے ہم سب کو احساس کمتری سے نکل کر اردو کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔

مشہور و معروف کالم نگار و ناقد صفد ر امام قادری نے کہا کہ ایم اے ظفر کی شخصیت میں توازن تھا جس کی بنیاد پر انہوں سخت مزاج صحافیوں کو اپنے اخبار میں جگہ دی اور ان کے کالم کو بھی شائع کیا۔

اجمل فرید کے ساتھ وہ نظر آتے تھے انہوں نے بڑی مشقت کے ساتھ اخبار کو کھڑا کیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ اخبارات کو تکنیک کے ذریعے آگے بڑھایا جائے جہاں سے ایم اے ظفر نے چھوڑا ہے اسے آگے بڑھانے کی ذمہ داری ان کے فرزند پر ہے اسے بہتر طریقے سے آگے بڑھائیں اور ایم اے ظفر کی خدمات کو کتابی شکل میں منظر عام پر لائیں۔

مشہور فکشن نگار مشتاق احمدنوری نے کہا کہ ظفر فاروقی کے چہرے پر مالکانہ سرور نہیں تھا وہ عام آدمی کی طرح سب کے ساتھ مل کر چلنا پسند کرتے تھے ۔ آج صحافیوں کے قلم کو روکا جاتا ہے لیکن ایم اے ظفر نے ہمیشہ صحافیوں کو لکھنے کی پوری آزادی دی تھی۔ انہوں نے خورشید پرویز جیسے دھار دار صحافی کو موقع دیا جو ہمیشہ اپنے قلم کا جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔

صحافی سید شہباز نے کہا کہ ایک بڑے صحافی نے دنیا ئے فانی سے رحلت کی ہے جو صحافت کیلئے خسارہ ہے وہ بہت ہی ملنسار اور اخلاق کے بلند پایے پر تھے ۔اسحاق اثر نے کہا کہ ایم اے ظفر جیسے صحافی بہت کم ہی پیدا ہوتے ہیں جو اپنے کارکن کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے۔

امتیاز احمد کریم نے کہا کہ ایم اے ظفر نے اردو صحافت کو بام عروج عطا کیا ہے انہوں نے جھارکھنڈ میں ایسے وقت میں اخبار نکلا جب اردو کا جنازہ نکل رہا تھا اور آج تک وہ اخبار جھارکھنڈ سے نکل رہا ہے۔ ہمارا نعرہ کے مدیر اعلیٰ انوار الہدیٰ نے کہاکہ ظفر مرحوم نے تین اخبار نکالے پہلا اخبار ہمالہ نکالا جبکہ دوسرا اخبار فاروقی تنظیم اور تیسرا اخبار نوید نکالا ۔

آغاز انجام کے ذریعے صحافت میں قدم رکھا۔ وہ کم عمری میں ہی اخبار کے مدیر ہوگئے کیونکہ والد کا سایہ جلد اٹھ گیا۔انہوں نے دھیرے دھیرے مضبوط قدم کے ساتھ آگے بڑھتے رہے بالاخر انہیں بڑی کامیابی ملی اور آج ہم سب کے سامنے فاروقی تنظیم ایک تناور درخت کی طرح کھڑا ہے۔

وہیں اسلم جاویداں نے کہا کہ ایم اے ظفر خوبصورتی کے ساتھ خوب سیرت بھی تھے منکسرالمزاج تھے۔ کم عمری میں اخبار سنبھالا اور کارکن صحافیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے انہوں نے لوگوں کے دلوں میں تاج محل بنایا ہے ظفر فاروقی پر ایک دستاویز نکالاجانا چاہیے۔

ایم اے ظفر مرحوم کے صاحبزادے اقبال ظفر نے کہا کہ والد محترم کے نقش قدم پر چل کر اردو صحافت کی خدمت کرتا رہوں گا آپ سب کے مشورے کی ضرورت آج بھی فاروقی تنظیم کو ہے ۔ فاروقی تنظیم نے ہمیشہ صحافیوں کا خاص خیال رکھا ہے ۔

مرحوم صحافی کی خدمات کو دستاویز ی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی۔فاروقی تنظیم کے نمائندہ ہارون رشید نے کہا کہ ایم اے ظفر کی رحلت ہم سب کیلئے بڑا صدمہ ہے اردو صحافت کو تکنیک کے ذریعے آگے بڑھانے میں ایم اے ظفر کا کوئی ثانی نہیں ان کے طریقہ کار سے دوست تو دوست دشمن بھی گرویدہ ہو جاتا تھا ۔

بزرگ شاعر ناشاد اورنگ آبادی نے کہا کہ میری ملاقات تو نہیں رہی ہے لیکن ہماری غزلیں فاروقی تنظیم میں ہمیشہ شائع ہوتی رہی ہیں یہ ان کی محبت کا ثمرہ تھا۔ مشہور شاعر اثر فریدی نے کہا کہ وہ مخلص انسان تھے خورشید پرویز جیسے صحافی کے ساتھ اخبار کو بہتر کرنے کی کوشش کی انہوں نے منظوم خراج عقیدت بھی پیش کیا۔

اس موقع پر عبد الواحد انصاری ‘ سیف اللہ شمسی ‘ سید اقبال امام ‘ آصف عطا ‘ عظیم الدین انصاری ‘ امتیاز انصاری ‘ فیروز منصوری ‘ وثیق الزماں ‘ مبین الہدیٰ‘ اظہر الحق ‘عبید اللہ ‘ منوج کمار نے بھی خطاب کیا ۔ نشست کا آغاز عبد الدیان شمسی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا

جب کہ نظامت کے فرائض عزیز تنظیم کے مدیر انوار اللہ نے بحسن و خوبی انجام دیے۔اس موقع پر ‘ توقیر عالم ‘ نثر عالم ‘ عارف انصاری ‘ رضیہ سلطانہ ‘ فضل احمد خان ‘ محمد حسنین ‘ آفتاب خان ‘ معین گریڈیوی ‘ عزیز الحسن‘ شبیر احمد و دیگر معززین علم واو ادب بھی موجودتھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *