وہ ایک سانحہ نہیں تھا
وہ ایک سانحہ نہیں تھا
نیاز احمد سجاد
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جانے والا ملک ہندوستان جس کی ایک عظیم تاریخ رہی ہے ، کثرت میں وحدت جس کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔
ملک بھارت میں تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جس کے اثرات انسانی زندگیوں میں ایک وقتی طور رہے ، لیکن اسی دوران ملک ہندوستان میں ایک ایسا سانحہ بھی پیش آیا کہ جس نے ملک کی آب و ہوا کو ہی بدل کر رکھ دیا ۔
ہندوستانی سماج کی اعلی قدریں جس کی نظیر پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی ہے۔ حالات کے ساتھ ساتھ اس میں بھی نمایاں تبدیلیاں آتی جا رہی ہیں جس سے ہر روز نت نئے فتنے اور تنازعات پیدا ہو رہے ہیں ۔ انسانی زندگیوں میں زندگی معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ انسان صرف حیوان ناطق کی شکل میں اپنی زندگی بسر کر رہا ہے ۔
آج دنیا جتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور گلوبل وارمنگ میں جس قدر اضافہ ہوا ہے۔
آسمان و زمین کے درمیان واقع زندگی کی تلاش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور نت نئے زاویے روز بروز وجود میں آ رہے ہیں اور مستقبل میں بھی آنے کی امیدیں ہیں ۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ زندگی جس میں قدرت نے جان رکھی ہے تاکہ وہ حرکت کر سکے اور اگر جان نکال لی جائے یا جان نکل جائے تو وہ مردہ اور بے جان ہو جاتی ہے۔
زیست و حیات کا صرف متحرک ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس سے رونما ہونے والے اثرات و نتائج پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
ہوا کے دوش پہ اگر ہم چراغ رکھ دیں اور چراغ کو نہ بجھنے کی تمنا کرتے رہیں اور ہوا سے امید وفا رکھیں تو ایسی ذہنیت کے حامل لوگوں کو آپ کیا نام دیں گے ۔ سر زمین ہندوستان میں رونما ہونے والا اکیسویں صدی کا وہ سانحہ صرف ایک سانحہ نہیں تھا ۔ جسے ہم فراموش کردیں بلکہ وہ ایک آزاد ہندوستان میں نئے باب کے اضافے کی بنیاد تھی۔
جس کے فیصلے میں خود سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ 6 دسمبر 1992 میں بابری مسجد کا گرایا جانا غیر قانونی تھا اور مزید اپنے فیصلے میں وضاحت کی کہ جہاں مسجد بنی ہے وہاں مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
اس کے باوجود عدلیہ کا حزب مخالف کے حق میں فیصلہ آنا وہ دنیا کی تاریخ میں عدلیہ کا وہ واحد فیصلہ تھا جسے بقول ہندوستان کے سابق چیف جسٹس چندر چوڑ کے ” بابری مسجد کے قضیہ کا فیصلہ انہیں بگھوان نے لکھوایا تھا جس کے لیے انہوں نے بگھوان سے پراتھنا کی کی تھی اور ججوں نے فیصلے کی صرف نقل تیار کی تھی ” جسٹس چندر چوڑ کا یہ بیان ملک کے انصاف پسندوں میں پیدا تشویش کے لئے اکسیر سے کم نہ تھا اور جسٹس چندر چوڑ کی چاروں طرف سے ان کے اس بیان کی مذمت کی گئی ۔
لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کہیں اور اپنی حیرانی کا اظہار کیا۔ سپریم کے ریٹائرڈ جج ماکنڈے کاٹجو نے یہاں تک کہ دیا کہ جسٹس چندر چوڑ کا “بگھوان سے پراتھنا” جھوٹ کا پلندہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
لوگوں کے تاثرات اور رایوں سے اتنا ضرور واضح ہو گیا کہ آستھا اور اکثریت کا خیال رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کا اس فیصلہ پر سوالیہ نشان لگنا ضروری ہوگیا اور مسجد کے انہدام سے ٹھیک ایک برس پہلے پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا تھا کہ 15 اگست 1947 میں جو عبادت گاہ جس جگہ اور جس شکل میں تھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی . جسے ہم 1991 کا مذہبی ایکٹ سے موسوم کرتے ہیں ۔
بہرحال ایک عظیم جمہوری ملک میں اس فیصلہ کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ رفتہ رفتہ سماج میں انارکی ، رواداری کا فقدان اور گنگا جمنی تہذیب کی خوشبوئیں مدھم ہوتی جارہی ہیں۔ نفرتوں اور عداوتوں کا سلسلہ مزید دراز ہوتا جارہا ہے ۔ ملک کا سماج عجب سی کشمکش اور تذبذب میں مبتلا ہو گیا ہے۔ انسانوں کے اندر چین و سکون ناپید ہوتے جارہے ہیں ۔ ہر طرف خوف و ہراس کا بادل چھایا ہوا ہے ۔
بے چینی اور غیر یقینی کا جال وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے ۔ صدیوں پرانے زخموں پہ نمک پاشی کی ناپاک حرکتیں کی جا رہی ہیں ۔ گڑے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں ۔
صدیوں سال پرانی تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے ۔عداوتوں اور انتشار کی مسموم فضا سے ملک کو مکدر کیا جا رہا ہے ۔مذہب کے نام پہ عدل وانصاف کی پامالی اب عام سی بات ہو گئی ہے ۔ انسانیت سوز مظالم کی انتہاء ہو رہی ہے ۔ ملکی سطح پر نفرتی سیاست کا بول بالا ہے ۔ موجودہ سنبھل کا واقعہ جس میں کئی جانیں گئیں خواہ وہ کسی فرقے یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ۔تھے وہ وہ انسان ۔ تھے تو وہ ہندوستانی خطا کس کی تھی اور کون مجرم اور کون ہے ملزم ۔یہ تو عدلیہ اور انتظامیہ طے کریں گے ۔ آخر یہ نوبت کیوں آئی۔
عبادت گاہیں، خانقاہیں جو مانوتا ، انسانیت اور خیر سگالی کے مضبوط قلعے سمجھے جاتے ہیں آج فرقہ پرست عناصر کے رداڑ پہ ہیں۔ جس نے جمہوریت کی جڑوں کو کمزور کرنا شروع کر دیا ہے ۔ ابھی حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کی لائیبریری میں بیٹھے سینیر وکیلوں کی آپسی گفتگو جو حالات حاضرہ اور ملک کی موجودہ صورتحال پر مشتمل تھی ۔ بہت تیزی سے سوشل میڈٰیا پہ وائرل ہو رہی ہے ۔
جس میں یہ کہا گیا کہ موجودہ ہندوستان بہت نازک دور سے گزر رہا ہے اور جمہوریت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے ۔ای وی ایم سے لے کر بیلٹ پیپر تک پر چرچا ہوا اور کہا گیا کہ پورے دیش میں ای وی ایم کے خلاف ایک آکروش ہے ۔اور مزید یہ بھی کہا گیا کہ یہ سرکار مٹھی بھر لوگوں کی سرکار ہے جو پیرامیڈ کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں ۔
ہندوستان کے موجودہ دور کی نزاکتوں کے لحاظ سے عدلیہ خواہ وہ نچلی سطح کی ہوں یا اپر کلاس کی عدالتیں ہوں ، قانون کے رکھوالے چاہے وہ کسی سطح کے ہوں ۔ ان کی ذمے داری دو چند ہو جاتی ہے اور قانون کی بالادستی قائم کرنے میں ان کا رول اہم ہو جاتا ہے۔
وہ قانون کی پاسداری کرکے وہ ملک و ملت اور معاشرے کو انارکی سے نجات دلا سکتے ہیں اور ملک دشمن عناصر سے نبردآزما ہو کر پاک وصاف معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں ۔ نفرتی سیاست جس نے جمہوریت کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے۔ اس میں وہی جوش و جذبہ جو 77 سال پہلے تھا دوبارہ بحال کر سکتے ہیں اور چمن میں روٹھی بہار دوبارہ پھر آ سکتی ہے بشرطیکہ اس کی آبیاری ہم سب مل کر کریں ۔
یہ ملک ہم سبھوں کا ہے ۔ اس کی ترویج و ترقی ، اس کی سلامتی کی ذمے داری ہم سب پر یکساں عائد ہوتی ہے ۔ ہم کسی قیمت پر ملک کو یرغمال اور کٹھ پتلی نہیں ہونے دیں گے ۔