میزائل مین آف انڈیا ڈاکٹراے پی جے عبد الکلام
میزائل مین آف انڈیا ڈاکٹراے پی جے عبد الکلام
خواب وہ نہیں ہوتاہے جو آپ نیند میں دیکھتے ہیں
خواب تو وہ ہوتاہے جو آپ کو سونے نہیں دیتاہے
یہ تلخ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں و بیاں ہے کہ زمانہ کروٹیں بدلتا رہتا ہے، نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، کبھی اجالا کبھی اندھیرا، کبھی اندھیرا کبھی اجالا، زمین پر بسنے والے جب نور کو ترستے ہیں، ظلمت کے پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں، مٹتے مٹتے نقوش ابھرتے چلے آتے ہیں، روشنی پھیلتی چلی جاتی ہے، ہر طرف اجالا ہی اجالا نظر آتا ہے، راستہ صاف و شفاف ہو جاتا ہے، نظروں سے اوجھل منزل نظروں کے سامنے نظر آنے لگتی ہے، ڈگمگاتے ہوئے قدم جمنے لگتے ہیں،پست حوصلے بلند ہونے لگتے ہیں، قافلے والے دھیرے دھیرے جمع ہونے لگتے ہیں
پھر وہی کو سِ رحیل پھر وہی بانگِ درا پھر وہی پرواز پھر وہی دھوم دھام ہر سو پھیل جاتی ہے۔ ایک زمانہ گزرتا نہیں ہے کہ غبار چھا نے لگتا ہے، زمانے کا عمل جس طرح اجسام کو متاثر کرتا ہے، افکار کو بھی بالکل اسی طرح متاثر کرتا ہے،افراد کے احوال بدلتے رہتے ہیں،افکار کی چمک دمک ماند پڑنے لگتی ہے، ملت کا حال دیگر گوں ہونے لگتا ہے، تو پھر خالق کائنات دلوں کو منور کرنے والا اور پورے عالم کو چمکانے والا چمکانے والوں کو بھیجتا ہے جو اندھیروں میں اجالا کرتے ہیں اور لوگوں کو راہ مستقیم پر گامزن کرتے ہیں۔
اور سماج کی فلاح و بہبودی کی خاطر پوری زندگی صرف اس وجہ سے گزار دیتے ہیں کہ معاشرہ ترقی کی راہیں ہموار کرے اور ہر میدانِ عمل میں نمایاں کامیابی حاصل کر ے۔ اس ملکِ ہندوستان میں بے شمار عہد ِسازشخصیتوں نے جنم لیا، انگنت مایہ ناز امرا،علما، فصحا اور حکما نے ہمارے اس چمنستان کو اپنے قیمتی خدمات سے ترقی کی راہ پر گامزن کیا
ہندوستان کی اقتصادی، سیاسی، سائنسی اور سماجی حالات کو بہتر سے بہتر بنایا۔سماج میں جو برائیاں پھیلی ہوئی تھیں اس کا جڑ سے خاتمہ کیا اور ملک کو تمام تر مذہبی اختلافات او رتنازعات سے پاک کر کے اس عزیز وطن کے طلبا اور لوگوں کی فلاح و بہبودی کا سامان مہیا کرایا جس کی وجہ سے آج ہم سب کا پیارا ملک ملکِ ہندوستان ترقی کی راہیں ہموار کرتا دکھائی دے رہاہے۔
یہ تمام تر ترقیاں اور سماجی سدھار ہمارے ملک کے ان امراء اور علماء ہی کی وجہ سے ہے جن میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر، جواہر لال نہرو، ڈاکٹر رادھا کرشن، چندر شیکھر آزاد، مولانا جوہرعلی، ڈاکٹر ذاکر حسین او رمولانا ابو الکلام آزاد کا نام قابل ِستائش ہے جنہوں نے ایک ایسے خواب کی بنیادر کھی جو قوم و ملت کے لیے صبح ِ قیامت تلک سونے کے اوراق پر چاندی کے دوات سے لکھے جانے کے مترادف ہے۔
مگر ان علما، امرا اور عظیم ہستیوں میں سے ایک ایسی عظیم المرتبت ذاتِ بابرکات کا نام ہمارے کانوں سے ٹکراٹی رہتی ہے جس نے اپنے اسلاف کے خوابوں کوپائے تکمیل تک پہونچایا
سماج کی تمام برائیوں کو ختم کر کے سماج کے لوگوں کو اعلی ترین منصب پر فائز کیا اور ملک کو اپنے اعدا سے لڑنے اورتحفظ کے واسطے ایک ایسا اسلحہ بناکر پیش کیا جس سے آج بھی ہمارا ملک استفادہ کررہاہے اور جس عظیم ذات کی سائنسی خدمات ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتی ہے اور جس نے ہندوستان کی تکنیکی عزائم کو پنکھ دیا وہ ذاتِ بابرکات کوئی اور ذات نہیں بلکہ وہ صدر جمہوریۂ ہند میزائل مین آف انڈیا ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کی عظیم ذات ہے۔
پیدائش :
ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کی پیدائش سابق ریاستِ مدراس کے جزیرہ نما قصبے رامیشورم (تامل ناڈو)کے ایک متوسط تامل گھرانے میں 15اکتوبر 1931 کو ہوئی۔ آپ کی توانائی اور صبرحیرت انگیز تھی،آپ ایک بامروت انسان تھے اور طلبہ کی ادنی سے ادنی ضرورتوں کاپوراخیال رکھنے والے مہان شخص تھے۔
اسمِ مبارک :
آپ کا پورا نام ابو الفاخر زین العابدین عبد الکلا م ہے لیکن آپ نے لوگوں کے دلوں کو کچھ اس طرح جیت لیاہے کہ آج بھی تمام باشندگانِ ہند وستان آپ کو میزائل مین آف انڈیا ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں اورآپ کی ذات کسی بھی تعریف و توصیف کی محتاج نہیں کیوں کہ آپ نے خلوصیت کے ساتھ قوم و ملت کے کا م کا بیڑا اپنے سر اٹھایا اور آپ خود ایک حمالے پربت کے مانندتھے ۔
ابتدائی زندگی :
آپ نے ابتدائی زندگی اپنے علاقے رامیشورم میں گزاری۔ آپ کے والد محترم ماہی گیروں کو اپنی کشتیاں کرائے پر دیا کرتے تھے۔
اگرچہ آپ کے پدرِ نیک ان پڑھ تھے لیکن آپ کی زندگی میں ان کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں ان کے دیئے ہوئے عملی زندگی کے اسباق آپ کو بہت ہی زیادہ کام آئے اور غربت کا عالم تھا کہ آپ ابتدائی تعلیم کے دوران بھی اپنے علاقے میں اخبار تقسیم کیا کرتے تھے اور تعلیم کے سلسلے کو قائم و دائم رکھتے تھے۔
تعلیم و تربیت :
آپ نے ابتدائی تعلیم شوارٹس ہائی اسکول جو رام ناتھ پورم میں واقع تھا وہاں سے حاصل کیا۔
آپ نے اپنے سائنس ٹیچر شیو سبرا منیار ایّر جو ایک کٹر برہمن تھے ان سے سائنس کا علم خوب ذوق و شوق سے حاصل کیا اور سائنسی تعلیم میں آپ نے انتہائی نظر تک اعلی تعلیم حاصل کیا۔
رام ناتھ پورم کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرس میں بھی خوب اچھی طرح علم حاصل کیا پھر آپ نے اپنے پیارے اور مخلص استاد آیا دورائی سولومن سے خوب محنت سے تعلیم حاصل کیا اور آپ خود اپنی کتاب ”پرواز” میں لکھتے ہیں کہ آیا دور آئی سولومن کہا کرتے تھے کہ ”زندگی میں کام یابی حاصل کرنے اور بہترین نتائج برآمد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تین عناصر خواہش، یقین اور توقع کو سمجھو اور ان پر غالب آجاؤ” اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آپ نے دل جمعی کے ساتھ علم حاصل کیا یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جس میں آپ کو میزائل مین آف انڈیا کا ایوارڈ دیا گیا۔
عزم و استقلال :
آپ کا عزم استقلال کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اپنے خود نوشت سوانح نگاری میں لکھتے ہیں ” بچپن ہی آسمان کے اسرار و رموز و غوامض اور پرندوں کی پرواز میرے لیے کشش رکھتی تھی۔میں اکثر سارسوں اور سمندری بگلوؤں کو اونچا اڑتا دیکھ کر میرا بھی جی چاہتا تھا کہ میں بھی اس طرح آسمان میں اڑا کروں۔
ہر چند کہ میں ایک سیدھا سادہ لڑکا تھا مگر مجھے اس بات پر کامل یقین تھا کہ میں بھی ایک دن ترقی کی تمام تر مشکلات کو کو کاٹ کر کامیابی کی راہوں کو ہموار کرتا چلا جاؤں گا اور مجھے اپنی ذات پر پختہ یقین ہے کہ ایک دن میں ایک بڑا مشہور سائنسدان بنوں گا”۔
اسی ہمت اور اسی جذبے کے ساتھ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام محنت کرتے رہے اور ہر میدان میں آگے بڑھتے رہے۔ اسی وجہ سے آج ہم ہندوستانی اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں کہ ہمارے مابین ایک ایسی عظیم ہستی کا وجود آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔
ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کے سماجی اور سائنسی خدمات
ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے جن کی پوری زندگی خدمت دین اور خدمت سماج میں گزری۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ سائنسی پروگرام اور اصلاح معاشرہ میں گزرا۔ آج دور جدید میں جس سمت بھی دیکھا جائے یا تو جس طرف بھی نگاہ دوڑائی جائے ہر سوسائٹی اور ہر چھوٹے بڑے علاقے میں اے پی جے عبدالکلام کے تاثرات دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے سماج کی فلاح و بہبودی کے خاطر ہر وہ کارخیر خدمت انجام دیے جو سماج اور ملک کے لیے فخر کا باعث بنے۔
ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے قوم و ملت کے لیے بے شمار ایسے ایسے کارنامے چھوڑ کر مالک حقیقی کی طرف صرف لبیک کہتے ہوئے چل بسے جن کی سوانح نگاری سونے کے اوراق پر چاندی کے دوات سے لکھے جانے کے مترادف ہے۔
ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ملک ہندوستان کے سب سے مشہوو معروف سائنسدانوں میں سے ایک عظیم سائنسداں اور اس ملک کے سماجی کا ر کن شمار کیے جاتے ہیں۔2002 ء سے لے کر 2007ء تک جمہور ہند کے صدر رہ کر اصلاح معاشرہ اور سائنسی میدان میں خدمات انجام دیے۔
زیادہ مشق کے ذریعے ایک ایروناٹیکل انجینئر ڈاکٹر کلام نے ہندوستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ قائم کرنے اور اس کی قیادت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
آپ نے 1998 میں ہندوستان کو دوسرا پکھران جوہری تجربے میں ایک اہم تنظیمی تکنیکی اور سیاسی کردار ادا کیا جو کہ 1974 میں ہندوستان کے اصل جوہری تجربے کے بعد پہلا تجربہ تھا اور ساتھ ہی آپ نے 1992 سے لیکر 1997تک وزیر دفاع کے سائنسی مشیر اعلی بن کر ملک کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔
آپ نے خود اپنی خود نوشت سوانح نگاری میں لکھا ہے کہ ” میرے اس کامیابی کے پیچھے میرے چند اہم اساتذہ کرام کا اہم کردار رہا ہے جس کی بنا پر میں جمہوری ہند کا صدر منتخب کیا گیا۔ سائنسی میدان میں ایئر فورس اور ایئر کرافٹ اور ملک کے تحفظ کی خاطر مختلف قسم کے مزائیل بنانے کا کام بے حد شوق سے کیا۔
ملک کو اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کا ایک اسلحہ بناکر پیش کیا۔اگر صحیح معنوں میں میرے ایجاد کردہ میزائل کا استعمال کرنا سیکھ لیا جائے تو ملک رہتی دنیا تک محفوظ رہے گا۔ میرے بے شمار اساتذہ کرام میں سے چند اساتذہ کا نام میں یہاں ذکر کرتا ہوں
جنہوں نے مجھے اول تا آخر ہمت اور جذبہ دیا اور مجھے آگے بڑھانے میں ایک جبل طور کی طرح میرے سامنے کھڑے رہے۔ ان میں آیا دورائی سولومن، راما کرشنا ایر،رو رینڈ فادرٹی سکوائرا، پروفیسر چنا دورائی، پروفیسر کرشنا مور،پروفیسر اسپانڈر،پروفیسر کے اے وی پنڈلائی، پروفیسر نرسنگھ راؤ اور پروفیسر سری نواس کا نام قابل ذکر ہے۔
ویسے تو سبھی اساتذہ نے اہم کردار ادا کیا ہے مگر پروفیسر اسپانڈر،پروفیسر کے اے وی پنڈلائی، پروفیسر نرسنگھ راؤ اور پروفیسر سری نواس نے مجھے ہوائی ڈھانچے بچے اور اس کی حرکات کی تعلیم اور میزائل کاردن میں وہ اساسی اور بنیادی تعلیم دی جس سے مجھے ملک کی خدمت بطور سماج اور سائنس کرنے کا شرف حاصل ہوا اور میں صدر جمہوریہ ہند بن کر لوگوں کی خدمت میں مصروف رہا”۔
ڈاکٹر کلام کی سائنسی خدمات جس نے ہندوستان کی تکنیکی عزائم کو پنکھ دیا۔ ایک عظیم سائنسدان، عوام کے صدر، اور ایک غیر معمولی استاد، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ہندوستان میں بہت سی جدید ٹیکنالوجیز کے پیچھے محرک رہے ہیں۔
سیٹلائٹس سے لے کر مقامی صحت کی دیکھ بھال تک، جب ہم ہندوستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بات کریں گے تو ان کی خدمات ہمیشہ قابل ذکر رہیں گی۔ وہ ہندوستان کی پہلی دیسی سیٹلائٹ لانچ وہیکل تیار کرنے میں مدد کرنے کے لیے اسرو میں پروجیکٹ ڈائریکٹر تھے۔
وہ دو میزائل منصوبوں کے پروجیکٹ ڈائریکٹر بھی بن گئے جن کا مقصد کامیاب SLV پروگرام کی ٹیکنالوجی سے بیلسٹک میزائل تیار کرنا تھا۔ انہوں نے ڈی آر ڈی او (DRDO)میں دیسی گائیڈڈ میزائل تیار کرنے کی ذمہ داری لی۔
1998 میں پوکھران میں کیے گئے متعدد جوہری تجربات کے پیچھے ان کا دماغ تھا جس نے ہندوستان کو جوہری ہتھیاروں کی حامل ریاست بنا دیا۔
انہوں نے ایک لاگت سے موثر کورونری اسٹینٹ کے ڈیزائن میں مدد کی جسے ‘کلام راجو اسٹینٹ’ کہا جاتا ہے تاکہ صحت کی دیکھ بھال سب کے لیے قابل رسائی ہو۔وہ ملک کے لائٹ کامبیٹ ایئر کرافٹ پروجیکٹ میں گہرا حصہ لے رہے تھے۔
ڈاکٹر کلام اور ڈاکٹر سوما راجو، 2012 میں دیہی ہندوستان میں پسماندہ لوگوں کی صحت کا خیال رکھنے کے لیے ایک ناہموار ٹیبلٹ کمپیوٹر لے کر آئے تھے۔ وہ موٹر معذوری والے مریضوں کے لیے ہلکے وزن والے کالیپرز کی ترقی کے پیچھے محرک تھے۔
وہ ایک ایرو اسپیس سائنسدان تھے جنہوں نے ہندوستان کے 11ویں صدر (2002 سے 2007 تک) کے طور پر بھی خدمات انجام دیں اور انہیں وسیع پیمانے پر ‘عوامی صدر’ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ انہوں نے بحیثیت سائنسدان اور صدر دونوں ملک کی ترقی میں بہت زیادہ حصہ لیا۔
انہیں سائنس اور سیاست میں کام کرنے پر 1981 میں پدم بھوشن، 1990 میں پدم وبھوشن اور 1997 میں بھارت رتن سے نوازا گیا۔
ڈ اکٹر اے پی جے عبدالکلام کی قابل ذکرخدمات انہیں پورے ملک کے لیے ایک زندہ لیجنڈ بنا دیتی ہیں۔ ڈاکٹر کلام نے ہندوستان میں سماجی کاموں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پہلے ہی دن سے جب ڈاکٹر کلام 25 جولائی 2002 کو ہندوستان کے 11 ویں صدر ِ جمہوریہ بنے، انہوں نے نوجوان ذہنوں کو مثبت خیالات سے روشناس کرنے اور ”2020 تک ترقی یافتہ ہندوستان” کا پرچار کرنے کی سماجی و اقتصادی ترقی کی اسکیم کی سربراہی کی۔
آئیے ان کی 10 بڑی کام یابیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں
ہندوستان کی پہلی سیٹلائٹ لانچ وہیکل
(SLV) راجو سٹینٹ (یونیورسل ہیلتھ کیئر پلان)
(Universal Healthcare Plan)
فائبر گلاس ٹیکنالوجی میں سرخیل
سیٹلائٹ لانچ وہیکل (SLV-3)
دیسی گائیڈڈ میزائل تیار کئے
ٹیکنالوجی وژن 2020
طبی اور صحت کی دیکھ بھال
ہلکے جنگی طیارے کا منصوبہ
بھارت کو ایٹمی طاقت بنانا۔
کلام راجو ٹیبلٹ بنانا۔
لاگت سے موثر سٹینٹ بنانا۔
ڈاکٹر کلام ذہانت، عزم، دور اندیشی اور عاجزی کا نادر امتزاج شخص تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ تمام لوگ برابر ہیں اور انسانیت کے یکساں درجے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لوگوں کے درمیان مساوات ان کی نسل، رنگ، عقیدہ اور ثقافت سے قطع نظر ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر کلام کا خیال ہے کہ معاشرہ اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب وہ زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو یکساں مواقع فراہم کرے۔ وہ خواتین کو بااختیار بنانے کے حامی تھے۔ ان کے مطابق خواتین قومی ترقی میں برابر کی شریک ہیں۔
وہ کہتے ہیں: جب خواتین کو بااختیار بنایا جاتا ہے، تو ایک معاشرے کے استحکام کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ خواتین معاشرے کا نصف حصہ ہیں۔ خواتین معاشرے کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر کلام ایک ماہر تعلیم تھے اور جن کے لیے جب بچے کی تعلیم کی بات آتی ہے تو خود مختار حدود سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
انہوں نے اپنے ذاتی، تکنیکی اور سماجی شعبوں کو روح کے آئینہ کے طور پر ایک انسانی نظریہ پیش کیا۔ ان کی رائے تھی کہ سائنس قوانین فطرت میں سخت محنت اور تحقیق کے ذریعے سوالات پوچھنے اور درست جوابات تلاش کرنے کا نام ہے۔
سائنس بہتر مادی زندگی کے لیے حل فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے، جبکہ روحانیت اس بات کے جوابات کو دیکھتی ہے کہ صالح زندگی کیسے گزاری جائے۔ ان کے مطابق، سائنس اور روحانیت لوگوں کی بھلائی کے لیے یکساں الہی نعمتوں کی تلاش ہے۔
ڈاکٹر کلام کا ایک ترقی یافتہ ہندوستان کا وژن تھا جس میں غذائی پروسیسنگ، صلاحیتوں کے ساتھ موجودہ زرعی پیداوار کو دوگنا کرنا، ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرنا، خواندگی، سماجی تحفظ، اور مجموعی صحت کو یقینی بنانا اور غربت کی سطح کو کم کرنا شامل ہے۔
پورہ (دیہی علاقوں میں شہری سہولیات کی فراہمی) ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے صدر کے خواب کا ایک بڑا جزو ہے۔PURA (Provision of Urban Amenities in Rural Areas) رہائش گاہ کا ڈیزائن دیہی ہندوستان کے ہر کونے میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر منحصر ہے۔ PURA کا مقصد کسانوں، کاریگروں وغیرہ کے لیے تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت، اور کاروباری تربیت کے ذریعے علمی رابطہ فراہم کرنا ہے۔ اس کا مقصد ان گاؤں کے کلسٹروں میں صحت کی دیکھ بھال اور صفائی کی سہولیات کو بہتر بنانا بھی ہے۔
ڈاکٹر کلام ایک دور اندیش انسان تھے۔ انہوں نے 2020 کے سال تک ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بننے کا خواب دیکھا۔ وہ ایک ویژن والے آدمی تھے، جو ہمیشہ ملک کی ترقی کے مقصد کے خیالات میں بھرے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج انہیں ہندوستان کا میزائل مین بھی کہا جاتا ہے۔
لوگ ڈاکٹر کلام کو ان کے صدر کے دور میں اس قدر پیار اور عزت دیتے تھے کہ انہیں عوام کا صدر کہا جاتا تھا۔
عالمی سطح پر ترقیاتی کاموں میں مصروف نئے دور کے لیڈروں کی رہ نمائی کے لیے ڈاکٹر کلام کا بصیرت مندانہ قیادت کا انداز مضمر ہے۔ وہ ملکیتی حل پر اوپن سورس سافٹ ویئر کا حامی ہے اور ان کا خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر اس کا استعمال انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فوائد کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائے گا۔
اس طرح ہمارے 11ویں صدر جمہوریۂ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے سماج اور سائنس کے لیے بے شمار خدمات انجام دئیے جسے تا قیامت فراموش نہیں کیا جاسکتاہے۔ ڈاکٹر کلام کی زندگی، کام اور وژن واقعی ہم سب کے لیے ایک سبق ہے۔
وہ اب نہیں رہے لیکن ان کی تعلیمات اور پیغام ہمارے دل کو متاثر کرتے رہیں۔ انہیں ہندوستان کے سب سے بڑے سائنس دان، عظیم معلم، متاثر کن اور بصیرت کے طور پر یاد رکھا جا رہاہے اور یاد رکھا جائے گا۔
وفات پرآہِ حسرت :
صدر جمہوریۂ ہند میزائل مین آف انڈیا ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کی عظیم ذات 27جولائی 2015 کو سیلونگ میں وفات پائی۔
آج پورا ملک آپ جیسا ڈھونڈنے سے قاصر ہے۔آپ کی ذات نے ہمیشہ ملک ِ ہندوستان کو فائدہ دیا۔ آپ اگر چہ ہمارے مابین نہیں ہیں لیکن آج ہم سب کے دلوں میں آپ زندہ ہیں اور تاصبح قیامت زندہ رہیں گے۔
از قلم: محمد فداءالمصطفے
9037099731
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی
ہدایہ نگر چماڈ،ملاپورم، کیرالا
معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش
مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضلِ حق خیرآبادی
جنگ آزادی 1857ء کا روشن باب : قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی
جنگ آزادی میں علماے کرام کی سرگرمیاں
جنگ آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری