ایک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو
اقبال۔ ایک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو
شبیع الزماں
جس شخصیت نے امت مسلمہ کو بیسویں صدی میں سب سے زیادہ متاثر کیا بلا شک و شبہ وہ اقبال ہی کی شخصیت ہے۔اقبال کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ اقبال کی شاعری انکی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ ۔ اقبال کی شاعری ، فکر ہے،فلسفہ ہے، تاریخ ہے ،علمی حقائق ہے ،امت کی زبوں حالی پر تبصرے ہیں ، انکا حل ہیں۔ عموما جن لوگوں نے شاعری کو پیغام کے لیے استعمال کیا انکے یہاں پیغام تو واضح ہوگیا لیکن ادبی پہلو دب کر رہ گیا اسکے برعکس پیام اقبال میں پیغام کی عظمت کے ساتھ ادبی پہلو بھی اعلی درجے کا ہے اتنا اعلیٰ کے دنیا کےبہترین ادب کے بالمقابل اسے پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس میں سوز ، ساز،نغمگی، آہنگ کلام، الفاظ، خیالات ،جملہ بندی ہروہ عنصر موجود ہے جو ایک اعلیٰ درجہ کے ادب کے لیے درکار ہے ۔انکی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک مفکر ہیں مسلمانوں کے مسائل کو ایک خاص زاویہ نطر سے دیکھتے ہیں۔ وہ انھیں پھر سے ایک زندہ قوم کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ انکے علوم میں ریفارم چاہتے ہیں، علم کو مسلمانوں کی زندگی میں جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ مسلمانوں کو جگاتے ہیں، انھیں جھنجوڑتے ہیں کہ یہ جہاں تم ہی سے آباد ہے۔خدائے لم یزل کا دستِ قُدرت تُو، زباں تُو ہےیقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گُماں تو ہےپرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کیستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہےمکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیراخدا کا آخری پیغام ہے تُو، جاوداں تو ہےحنا بندِ عروسِ لالہ ہے خُونِ جگر تیراتری نسبت براہیمی ہے، معمارِ جہاں تو ہےسخن ور تو دنیا میں بہترے گزرے لیکن جو چیز اقبال کو ان سے ممتاز کرکے ایک اعلیٰ مقام پر لے جاتی ہے اسکا تذکرہ مولانا علی میاں ندوی نے نقوش اقبال میں کیا ہے ۔”اقبال کی شخصیت کے وہ تخلیقی عناصر جس نے اقبال میں ایک مخصوص قسم کی گوناگونی رنگا رنگی پیدا کردی اور جس نے اقبال کو اس کے ہم عصروں سے زیادہ دل آویز، باعث کشش اور جاذب نظر بنا دیا چند ایسے عناصر ہیں جن کا تعلق اقبال کی علمی و ادبی اور تعلیمی کوششوں سے بہت کم ہی ہے۔ اقبال کی شخصیت میں جو جامعیت ، بلندی فکر و خیال ، سوز و کشش اور جاذبیت نظر آتی ہے ان کا تعلق اقبال کی زندگی کے اس رخ سے ہے جسے ہم یقین و ایمان کہتے ہیں”اقبال نے جہاں فرد کی خودی( اسرار خودی) کو بیدار کیا وہیں اجتماعی خودی(رموز بے خودی) کے احساس کو بھی پروان چڑھایا۔ اقبال کی شاعری میں انقلاب اور بغاوت کے ساتھ ساتھ شکوہ بھی ہے اور شکایت بھی، خالق سے بھی اور مخلوق سے بھی، اور آج کئی دہائیوں بعد بھی انکا یہ شکوہ بجا ہی ہے۔اک ولولۂ تازہ دیا مَیں نے دلوں کولاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقندلیکن مجھے پیدا کیا اُس دیس میں تُو نےجس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند!