شہر مئو میں فتنئہ ارتداد کے دردناک مناظر
شہر مئو میں فتنئہ ارتداد کے دردناک مناظر
نورجہاں بیگم نے تو اپنی دوسری شادی کے لیے ہندومت اختیار کرلیا لیکن قارئین دل تو خون کے آنسو روتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ مسلمان لڑکیاں اپنی پہلی شادی کے لیے بھی ہندو لڑکوں کا انتخاب کر رہی ہیں۔
شہر مئو کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے پردیپ کمار فیس بک پر 21؍ جون 2021ء کو اپنی محبت کی کہانی لکھتے ہیں کہ سال2010ء میں میری تبسم بانو نام کی مسلمان لڑکی سے پہلی ملاقات ہوئی تھی وہ ابھی پڑھائی کر رہی تھی۔ اس کے گھر والوں نے اس کی شادی طے کردی تھی۔ لیکن میری اس سے بات چیت ہوتی تھی۔ میں نے ایک موبائل فون اس کو تحفہ میں دیا۔
اب ہماری روز بات ہونے لگی میں ایک ہندو تھا اور تبسم بانو ایک سنی مسلمان لڑکی تھی سال2015 میں تبسم بانو کے گھر والوں کو میری اور اس کی دوستی کا پتہ لگ گیا۔تبسم بانو کے گھر والوں نے میرے بابو جی سے شکایت کی اور اس کا فون چھین لیا گیا۔
کچھ دنوں بعد مجھے تبسم بانو کا فون آیا۔ اس نے بتلایا کہ اس کے گھر والے اس کی شادی کر رہے ہیں۔ میری عمر 22سال تھی اور تبسم بانو 17 برس 3 مہینے کی۔ ہم لوگ گھر سے بھاگ گئے۔ تبسم بانو کے گھر والوں نے پولیس میں شکایت کی۔ تبسم بانو اپنے والدین کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی۔
پولیس نے تبسم بانو کو جون پور کے ایک شیلٹر ہوم میں رکھا۔ پھر ایک دن مجھے پتہ چلا کہ اس کے گھر والے دوبارہ اس کی شادی کرنے جا رہے ہیں۔ میں اب کی بار ایس پی کے ہاں شکایت درج کروائی کہ تبسم بانو ابھی 18 سال کی نہیں ہوئی اور اس کے گھر والے اس کی شادی کر رہے ہیں۔ پولیس نے ایک مرتبہ پھر سے تبسم بانو کو جونپور کے ایک گھر میں منتقل کردیا۔ جب تبسم بانو 18 سال کی عمر کو پہنچی تو ہم دونوں نے کورٹ میرج کرلی۔ ہم دونوں اب خوش ہیں۔ میرے گھر والے میری ہر قدم پر مدد کرتے رہے۔ تبسم بانو کے گھر والوں نے اس سے بات چیت بند کردی۔
ہمارے یہاں بھیلو پاکڑ بچلا پورہ سے کچھ دور پر ایک غیر مسلموں کا گاؤں ہے جس کا نام آدے ڈیہہ ہے وہاں پر بھی مسلم بچیاں غیر مسلموں سے شادی کر کے رہ رہی ہیں میں نے ان سے جاننے کی کوشش کی کہ آخر کار مسلم بچیاں غیروں کے ساتھ کیوں اتنی زیادہ شادیاں کر رہی ہیں تو میں نے ان میں سے ایک سے پوچھا جس کا نام بشریٰ تھا کہ آپ نے اپنے والدین کو کیوں چھوڑ دی اور آپ اپنے ہسبینڈ کے ساتھ کیسے رہتی ہیں اور آپ کو دین اسلام کے بارے میں کچھ معلومات بھی ہے
نہیں تو فوراً اس کی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے اور اس نے کہا کہ میرے والدین مجھے طعنہ بہت دیتے تھے جب مجھ سے کوئی غلطی ہو جاتی تھی تو مارتے اور طرح طرح کی گالی بھی دیتے تھے یہ سب دیکھ کر محلے کے لڑکے مجھے گندی نظر سے دیکھتے تھے طرح طرح کے گندہ کمنٹ کرتے تھے جس کے سبب میں نے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کر لیا پھر اس نے کہا کہ مولانا صاحب آپ نے پوچھا کہ آپ اپنے ہسبینڈ کے ساتھ کیسے رہتی ہیں تو سنیے پہلے میرے ہسبینڈ مجھے بہت پیار سے رکھا کرتے تھے لیکن اب بہت دشواری ہوتی ہے بہت مارتے اور ستاتے ہیں کبھی کبھی تو جہیز کا مطالبہ بھی کرنے لگتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں خود کشی کر لوں اتنا بتانے کے بعد اس کی ہچکی بندھ گئی اور زور سے رونے لگی پھر میں نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ اللہ آپ پر رحم کرے تھوڑی دیر کے بعد جب اس کی ہچکی بند ہوئی تو اس نے کہا کہ مولانا صاحب آپ نے پوچھا ہے کہ آپ کو دین اسلام کے بارے میں کچھ معلومات بھی ہے کہ نہیں تو سنیے دین اسلام کے بارے میں مجھے کچھ بھی معلومات نہیں ہے جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اسی وقت سے میرے والدین نے مجھے اسکول میں بھیج دیا اور یہ جو میں یہاں پر ہوں یہ اسی کا نتیجہ ہے (یعنی ہماری محبت اسکول ہی سے ہے )میں مدرسے میں کبھی بھی نہیں پڑھی ہاں اتنا ضرور کہوں گی کہ شادی سے پہلے میں مدرسے اور مدرسے میں پڑھنے والے اور پڑھانے والوں سے نفرت بہت رکھتی تھی آج افسوس بہت کرتی ہوں کہ کاش میں بھی مدرسے سے لگاؤ رکھتی تو مسلمان اور دین اسلام کے بارے میں ضرور جانتی۔
نوٹ: اس سے پتہ چلتا ہے کہ آج ہم علماے کرام اور مدارس سے جتنی دوری اختیار کر رہے ہیں اتنا ہی زیادہ ہماری بچیاں فتنۂ ارتداد کا شکار ہو رہی ہیں دوستوں یہ ہنسنے کا مقام نہیں ہے بلکہ یہ خون کے آنسوں رونے کا مقام ہے۔
قارئین کرام یہ تو وہ واقعات ہیں جو میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچ رہے ہیں۔ حقیقی تعداد اور اصل صورت حال اور بھی سنگین ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ اس بات کو سمجھ لیں کہ نکاح کرنا سنت ہے اور اپنے بچوں کی دینی تربیت کرنا فرض ہے۔ جب ہم اپنے بچوں کی دینی تربیت کو نظر انداز کریں گے تو یہ فرائض سے پہلو تہی ہے اور اس غفلت کی ایک بڑی قیمت ہم لوگ ادا کر رہے ہیں۔
اس سال ابھی تک شہر مئو میں جو بچیاں فتنۂ ارتداد کی شکار ہوئی ہیں اور اس کے علاؤہ مئو کے قریب کے ضلع میں جو بچیاں فتنئہ ارتداد کی شکار ہوئی ہیں میری یاد داشت کے مطابق ان کی فہرست یہ ہیں
ضلع مئو میں55/ضلع اعظم گڑھ میں 62/ضلع بلیا میں88/ضلع غازی پور میں 57/ضلع بنارس میں 76/ضلع جونپور میں 93/ضلع گورکھپور میں 57/وغیرہ۔
اب رہی بات یہ کہ اس کو روکا کیسے جائے تو فتنئہ ارتداد روکنے کا سب سے بہتر اور اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی بچیوں کے دل میں عشق رسول اکرم ﷺ بھر دیں یعنی اپنی بچیوں کو عاشق رسول ﷺ بنادیں،اپنے بچیوں کے دل میں محبت رسول اکرم ﷺ کا جزبہ پیدا کردیں، اتنا زیادہ عشق ومحبت پیدا کردیں کہ ان کی نظر سے جلوہ جہاں آرا نظر آنے لگے اور آقا ﷺ کی محبت کے سوا کسی غیر کی چاہت میں گرفتار نہ ہوں اور یہ اس وقت ہوگا جب آپ اپنی بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں گے۔
اس سارے واقعہ میں کوئی بھی پہلو اور زاویہ ایسا نہیں کہ ہم مسلمان اطمینان کی سانس لیں۔ اب بھی وقت ہے کہ مسلم ماں باپ ہوش کے ناخن لیں۔ سماج کی رہبری کرنے والے آگے معاشرے کو صحیح راہ پر گامزن کریں کہ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری صرف بچوں کی شادیاں کرنے تک محدود نہیں۔ اصل ذمہ داری تو بچوں کی تربیت کرنے کی ہے اور یہ فرائض میں شامل ہیں۔ نکاح کو بھی جتنی سادگی سے انجام دینے کی ہدایت تھی۔ ہم نے اس کو اتنا ہی بڑا تماشہ بنادیا۔ اور جو لڑکیاں اللہ کو ،اپنے گھر والوں کو ناراض کر کے غیر مسلم نوجوانوں سے شادیاں کر رہی ہیں ان کا انجام بھی کیسا ہو رہا ہے۔ وہ بشریٰ کی کہانی سے واضح ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو صحیح ہدایت نصیب فرماۓ۔ قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر بطور دستورِ حیات عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔ (آمین یارب العالمین)
ازقلم۔ محمد غیاث الدین مصباحی بھیلو پاکڑ بچلا پورہ پوسٹ سرواں ضلع مئو موبائل نمبر 9621005655