امارت شرعیہ کی عصری تعلیمی پالیسی

Spread the love

از قلم : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ امارت شرعیہ کی عصری تعلیمی پالیسی

امارت شرعیہ کی عصری تعلیمی پالیسی

امارت شرعیہ نے بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے فروغ پر بھی زور دیا ، اس نے ایسے اداروں کی حوصلہ افزائی کی جنہوں نے عصری تعلیم کو بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ اسلامی ماحول میں دینے کا کام کیا، جو ادارے مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جا رہے ہیں

اس میں امارت شرعیہ نے بنیادی دینی تعلیم اور اسلامی ماحول کو ادارہ کی ترجیحات کے طور پر پیش کیا، تاکہ ڈاکٹر، انجینئربننے والے طلبہ وطالبات اسلام پر باقی رہیں، اور دیگر اداروں کا غیر اسلامی ماحول ان پر اثر انداز نہ ہو سکے، جو اسکول سرکاری ہیں ان کے نصاب ونظام کے سلسلے میں امارت شرعیہ کی پالیسی رہی کہ وہاں کے نصاب میں دیومالائی قصے اور اسکول کے ماحول میں کسی خاص تہذیب وثقافت کے فروغ کے لیے راہ ہموارنہ کی جائے، جب حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے تو تعلیمی اداروں میں بھی اس کی جھلکِ دکھنی چاہیے

اسی لیے جب ۱۹۳۸ء میں اس وقت کے وزیرتعلیم بہار ڈاکٹر سید محمود نے دیہات کی اصلاح کے لیے ایک اسکیم بنائی اور اس کے تربیتی کیمپ میں گاندھی جی کی سوانح عمری اور تعلیمات کو بھی موضوع تدریس بنایا تو بانی امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد نے وزیر تعلیم کے نام لکھے ایک خط میں واضح کر دیا کہ’’ یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے ، اہنسا دھرم، گاندھی جی کی تعلیمات اور ان کی سوانح عمری جو زیادہ تر ان کے مخصوص مذہبی معتقدات وتخیلات اور تلاش حق کی سرگردانیوں کا آئینہ دار ہیں، ہندوؤں کے لیے دلآویز اور بصیرت افروز ہوسکتے ہیں

لیکن یہ تمام چیزیں مسلمانوں کے مذہبی ، اخلاقی اور تمدنی بنیادوں کو کھوکھلی کرنے والی ہیں، اس لیے مسلمان اس قسم کی تعلیم وتربیت ایک لمحہ کے لیے بھی بر داشت نہیں کر سکتے ‘‘۔ (مکاتیب سجاد: ۸۴)

مولانا نے آگے لکھا : ’’ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ آپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ للہ مسلمانوں کی دماغی تربیت کے لیے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اور خلفاء راشدین کی سوانح عمریاں رہنے دیجیے اور ’’اہنسا دھرم‘‘ اور گاندھی جی کی ’’تلاش حق‘‘ کی سرگردانی مسلمان طلبہ پر مسلط کرکے غیر اسلامی تعلیم وتربیت نہ پھیلائیے(ایضا)

بانی امارت شرعیہ کے یہ خیالات ہی عصری وسرکاری اداروں کے سلسلے میں امارت شرعیہ کا لائحہ عمل اور نصب العین ہیں ، امارت شرعیہ نے اس سے کبھی سر مو انحراف نہیں کیا، اور نصاب ونظام تعلیم میں جب بھی اس قسم کی بات آئی اس سے اختلاف کیا اور ضرورت پڑی تو سرکار کو میمورنڈم دے کر اسے بدلوانے کا کام کیا

ابھی جب نئی تعلیمی پالیسی آئی تو امارت شرعیہ نے ماہرین تعلیم کے ساتھ کئی میٹنگیں کرکے ترمیمات پیش کیں اور آج بھی امارت شرعیہ کی کوشش ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں جو ایک خاص مذہب کو فوقیت دینے اور ان کی کتابوں کو نصاب کا جز بنایا جا رہا ہے ، اسے حکومت واپس لے؛ تاکہ ملک میں سیکولر اقدار کے ساتھ تعلیمی ادارے جاری رکھے جا سکیں۔

جو ادارے مسلمانوں کے ہیں ان کے بارے میں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کا نظریہ یہ تھا کہ ’’ابتدائی تعلیم کی عصری درسگاہیں اپنے نصاب اور نظام تعلیم کے اعتبار سے ایسی ہوں کہ بچہ وہاں سے پڑھ کر جو بھی نکلے وہ راسخ العقیدہ مسلمان ضرور ہو ‘‘ (تعلیم ترقی کی شاہ کلید : ۳۷)

اسی نظریہ کے تحت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سید نظام الدین رحمہما اللہ کی تحریک پر حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی ؒ کے حکم سے قاضی نور الحسن میموریل اسکول کا قیام پھلواری شریف میں عمل میں آیا اور ابتدا میں جب اس کا رخ اورمنہج متعین کرنا تھا ، خود قاضی صاحب اس کے سکریٹری رہے ۔ حضرت امیر شریعت رابعؒ کے ہی عہد میں ایم ایم یو ہائی اسکول کا قیام عمل میں آیا، جو آسنسول کے معیاری تعلیمی اداروں میں شمار کیا جا تا ہے ۔

امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی کے عہد میں عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی گئی ، گریڈیہہ اور رانچی میں امارت پبلک اسکول کے نام سے ادارہ قائم ہوا، اور جلد ہی اس نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی، اربا میں امارت انٹرنیشنل اسکول کی بنیاد حضرت نے ڈالی

جس کی عمارت کی تعمیر اور اس پر کام ہونا ابھی باقی ہے ، موجودہ امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم اس سلسلہ کو اور آگے لے جانا چاہتے ہیں اس کی روشنی میں امارت شوریٰ کی مجلس شوریٰ نے رواں سال میں کم از کم دس اسکول کے قیام کا فیصلہ کیا ہے اور کٹیہار ، پورنیہ ، کٹک وغیرہ میں اس حوالہ سے کام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

ابھی ابتدائی تیاری چل رہی ہے اور انفراسٹیکچر کی فراہمی پر پوری توجہ مرکوز ہے۔حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی جو تعلیمی پالیسی تھی اس میں وہ صرف سیدھے طور پر ایم اے، بی اے وغیرہ کرنے کو بہت اہمیت نہیں دیتے تھے، وہ میڈیکل کالج کے قیام سے زیادہ ٹکنیکل انسٹی چیوٹ کے قیام کو اہمیت دیتے تھے، چنانچہ حضرت امیر شریعت رابعؒ کے دور میں ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ کا خاکہ بنا ، نقشے وغیرہ پاس ہوئے

کہنا چاہیے کہ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے حضرت امیر شریعت رابعؒ کے حکم پر اس کام کے لیے طویل اور کامیاب منصوبہ بندی کی جس کی وجہ سے آج ہزاروں طلبہ ان اداروں سے کسب فیض کرکے رزق حلال حاصل کر رہے ہیں۔

حضرت کے وصال کے بعد پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب کے عہد میں حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب نائب امیر شریعت اور ناظم امارت شرعیہ کے مشورہ اور تعاون سے امارت شرعیہ میں پیشہ وارانہ تعلیم کا آغاز ہوا

اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ خود ہی زمانہ تک اس کے جنرل سکریٹری رہے ، امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے زیر اہتمام ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ کا قیام عمل میں آیا اور آج الحمد للہ اس میدان میں امارت شرعیہ کی خدمات انتہائی عظیم اور وقیع ہیں

ان دنوں پانچ ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ، ایک پارا میڈیکل اور ایک لڑکیوں کے لیے بی سی اے اور بی بی اے کالج چلا یا جا رہا ہے ، جس سے بڑے پیمانے پر طلبہ وطالبات مستفیض ہو رہے ہیں۔

حضرت امیر شریعت سابع کے دور میں ارریہ میں میڈیکل کالج کے قیام کی تجویز بھی آئی تھی ، لیکن اس کے لیے زمین کی فراہمی نہیں ہونے کی وجہ سے کام آگے نہیں بڑھ سکا

حضرت کے عہد میں عصری تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے بہار وجھارکھنڈ کے دورے بھی کیے گیے۔ موجودہ امیر شریعت نے مسلمان بچے اور بچیوں کے نو یں دسویں کلاس کے لیے کوچنگ کا بھی آغاز کیا ہے، اور الحمد للہ بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات اس سے فیض یاب ہو رہے ہیں ، دوسری جگہوں پر بھی اس سلسلہ کو دراز کرنے کی تجویز زیر غور ہے ۔

امارت شرعیہ ، تنفیذ شریعت کا ادارہ ہے ، اس لیے یہاں لڑکے لڑکیوں کے لیے مخلوط تعلیم کے بجائے پڑھنے پڑھانے کاالگ الگ انتظام ہے، یہ امارت شرعیہ کی تعلیمی پالیسی کا اہم حصہ ہے

اس لیے جہاں کہیں بھی امارت شرعیہ کے تعلیمی ادارے قائم ہیں ان میں تیسرے کلاس کے بعد سے لڑکے لڑکیوں کی تعلیم کا الگ انتظام موجود ہے ، کہیں شفٹ الگ ہے اور کہیں الگ راستے کے ساتھ الگ کلاس روم کا انتظام ہے، موجودہ بے راہ روی کے دور میں اس انتظام کی اہمیت وافادیت کافی بڑھ گئی ہے، اور لوگوں میں بھی اس طریقۂ کار کی کافی پذیرائی ہو رہی ہے ۔

امارت شرعیہ کی تعلیمی پالیسی کا بڑا اہم جز معیاری تعلیم ہے، اس معاملہ میں امارت نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، جس کی وجہ سے امارت کے اداروں میں امتحان میں کامیابی کا تناسب بڑھانے کے ساتھ تعلیم کے معیار کی برقراری ہے

اسی لیے یہاں پڑھنے والے طلبہ وطالبات درجات میں حاضری کے پابند ہوتے ہیں، اور مطلوبہ حاضری ہونے پر ہی امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فارغین اس مقابلہ جاتی دور میں مختلف محکموں میں اپنی جگہ بنانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں

ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کوالٹی ایچ ہے، کمپٹیشن کے اس دور میں ڈگری سے زیادہ اس کے پیچھے صلاحیت کا ہونا ضروری ہے، اس لیے امارت شرعیہ کے تمام تعلیمی ادارے کو الٹی کے معاملہ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔

امارت شرعیہ کی تعلیمی پالیسی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ اس نے تعلیم کو تجارت نہیں بننے دیا

آج بڑے بڑے تعلیمی ادارے تجارتی نقطۂ نظر سے کام کر رہے ہیں، طلبہ وطالبات سے وصولی جانے والی بڑی بڑی فیس نے غریبوں کے لیے ان اداروں تک رسائی کونا کام بنا دیا ہے

امارت شرعیہ نے اپنی تعلیمی پالیسی میں اس بات کو ملحوظ رکھا کہ فیس اس قدر رکھی جائے کہ ادارہ کو نہ زیادہ نفع ہو اور نہ زیادہ نقصان، انگریزی میں اسے No profits no lossکہتے ہیں

الحمد للہ امارت شرعیہ کی اس پالیسی کی وجہ سے غریب طلبہ وطالبات بھی اعلیٰ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں، امارت شرعیہ کی سوچ یہ ہے کہ ہمیں تعلیم کو سستا اور عام انسانوں کی پہونچ کے لائق بنانا چاہیے۔

از قلم : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

11 thoughts on “امارت شرعیہ کی عصری تعلیمی پالیسی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *