ایک مثالی شادی میں شرکت

Spread the love

ایک مثالی شادی میں شرکت

✍️ محمد ہاشم رضا مصباحی (قسط اول)

اسلام میں نکاح انسانی ضروت ہونے کے ساتھ ساتھ عبادت بھی ہے،اسلام میں تو بیاہ شادی کا تصور آسان ہے

لیکن آج کل نمود و نمائش کے لیے فضول خرچی،سودی قرضے،رشوت اور غیر شرعی رسوم و رواج عام ہوچکے ہیں،جن کی وجہ سے نکاح کو بہت مشکل بنادیا گیا ہے۔ایسے نمائشی اور اسراف و تبذیر والے دور میں بھی عزیز مکرم حضرت مولانا مفتی جمشید مصباحی صاحب نے بے جا اور فضول رسوم و رواج کی پابندیوں کو اپناۓ بغیر سنت نکاح کو ادا کیا۔ان کی پہلے ہی سے یہ خواہش تھی کہ کسی با اخلاق اور دینی تعلیم و تربیت یافتہ لڑکی سے فضول رسوم و رواج کی پابندیوں کے بغیر نکاح ہو۔چناں چہ ان کی دعائیں اور نیک خواہشات جلد ہی رنگ لے آئیں اور مرحوم جناب اکبر علی صاحب (شہباز پور سنبھل) جو دونوں خاندانوں کو ملوانے کے بعد گذشتہ سال فروری کے مہینے اللہ کو پیارے ہوگئے،اللہ ان کی بے حساب مغفرت فرماۓ اور ان کو جزاے خیر عطا فرمائے۔ ان کی ہی کوشش اور واسطے سے ان کے حسب منشا رشتہ طے قرار پایا۔چوں کہ دونوں خاندان دینی مزاج رکھنے والے ہیں،اس لیے نا جائز و فضول رسوم و رواج کو اپناۓ بغیر رشتہ چلتا رہا،نہ جہیز کا مطالبہ کیا گیا،نہ منگنی کے نام پر نمود و نمائش اور دعوت پر ہزاروں لاکھوں خرچ کیے گئے، نہ ہی دن تاریخ مقرر کرنے کے لیے مہنگے پکوان اور چالیس پچاس لوگ جمع ہوۓ۔ورنہ ہمارے معاشرے میں جہیز کے نام پر بڑے بڑے مطالبے کیے جاتے ہیں،جن کی وجہ سے دلہن والے لاکھوں لاکھ کے قرض مند ہوجاتے ہیں۔یوں ہی منگنی کے نام پر نمائش اور پر تکلف دعوتیں اور دن تاریخوں میں اچھی خاصی تعداد میں لوگوں کی بھیڑ جمع ہوتی ہے۔نکاح کی مقررہ تاریخ آن پہنچی،ہم بھی حسب وعدہ عزیزم سہیل رضا گنوری کے ساتھ روانگی بارات سے پہلے پہنچ گئے۔مفتی صاحب نے ناشتہ سے ہماری ضیافت کروائی،اس کے بعد محفل سہرا خوانی کا انعقاد کیا گیا جس میں پہلے نعت پڑھی گئی اور پھر ہم نے سہرا پڑھا آخر میں مفتی صاحب کی دعا پر محفل کا اختتام ہوا۔اس کے بعد جلد ہی تقریباً پچیس تیس افراد پر مشتمل بارات کا قافلہ روانہ ہوا،کم افراد پر مشتمل ایسی بارات میں ہم پہلی بار شریک ہوۓ حالانکہ تیس چالیس لوگ تو دن تاریخ مقرر کرنے کے نام پر جاتے ہیں اور باراتیوں کی تعداد کا کیا پوچھنا عموما دو تین سو لوگوں سے کم بارات میں بھی نہیں لے جاۓ جاتے ہیں۔ایک ڈیڑھ گھنٹہ میں بارات پہنچ گئی،باراتیوں کے ٹھہرنے کے لیے کوئی عالیشان شادی ہال بک نہیں کیا گیا تھا،بلکہ ایک گھر میں رکنے کا انتظام تھا جہاں زمین پر نیچے بیٹھ کر مٹی کے برتن کھانے کے لیے پیش کیے گئے۔ورنہ عموما شادیوں کے لیے شادی ہال (Marriage Hall) بک کیے جاتے ہیں اور کچھ لوگ بینکوئیٹ ہال (Banquet Hall) کی طرف تیزی سے منتقل ہورہے ہیں جس نے اخراجات میں اِضافہ کر دیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *