مولانا عبد الصمد رحمانی کی حیات کا نقش نا تمام 

Spread the love

مولانا عبد الصمد رحمانی کی حیات کا نقش نا تمام 

غالب شمس قاسمی

نقش اولیں 

    کچھ شخصیتیں لا زوال ہوتی ہیں، وہ  تاریخ کے صفحات میں گم نہیں ہوا کرتیں، ان کے کارنامے زندہ ہوتے ہیں، وہ لاکھوں تشنگان علوم کی علمی سیرابی کا ذریعہ ہوتی ہیں، ایسی ہی ایک شخصیت مولانا عبد الصمد رحمانی کی تھی، وہ ایک وسیع النظر فقیہ، عظیم المرتبت محقق، عہدوں سے بیزار، قوم کے محسن، سینکڑوں علمی تصانیف کے مصنف، معقولات  کے امام، احقاق حق، ابطال باطل جس کا شیوہ، خانقاہ رحمانیاور امارت شرعیہ کی ترقی میں جن کا لہو شامل ہے، امارت شرعیہ ان کی خدمات اور کارناموں کی گواہ ہے، اس کی علمی، فکری سرمائے کا جو جامع ہے، جس کی دریافت میں علم و تحقیق اور فقہ و قضا کے بہت اہم مضامین شامل ہیں، جن کی کتابوں میں اجتہادی شان اور تفہیمی بلند پروازی ہے، فکر و نظر کے نئے اکتشافات اور قرآنی ترجمانی ہوتی ہے، جس نے ابو المحاسن محمد سجاد کے نظریۂ امارت کو نئی وسعتوں سے ہم کنار کیا، جس کی ”قرآن محکم “اجتہادی اور ولی اللہی فکر کی تکمیل ہے، جو ”ہندوستان اور مسئلہ امارت “حضرت ابو المحاسن محمد سجاد  کی دیرینہ خواہش، ابو الکلام آزاد کے خواب پریشاں کی حسیں تعبیر اور مخالفین کے آرزؤں کی تشریح ہے، جس کا اسم با مسمی ہے، جو یکتائے روزگار ہے، جو باطل کے خلاف آہنی تلوار ہے، جس نے پوری عمر بے نیازی سے گزار دی، جس کا وطیرہ تھا ”گوشے میں قفس کے آرام بہت ہے“۔ جو کسی کے لئے نائب صاحب، اور ناظم صاحب تھا، اور قوم کے درمیان مغتنم العلماء بقیۃ السلف حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے۔

آپ امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے دوسرے نائب امیر شریعت، امارت کے ناظم اور مفتی، قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری کے مسترشد، حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد کے شاگرد رشید، اور ان کی زندگی بھر کے رفیق تھے، آپ جمعیۃ علماء ہند کے نائب ناظم اور مسلم انڈپنڈنٹ پارٹی کے نگران عام اور دارالعلوم دیوبند کے رکن شوری تھے، آپ کو قرآن و حدیث سے بے حد شغف، امارت شرعیہ سے فکری و جذباتی وابستگی، اس سے والہانہ عشق اور تہذیبی و سیاسی تاریخ سے غیر معمولی لگاؤ تھا، علامہ سید سلیمان ندوی کی زبان میں ” فقہی مسائل میں بصیرت رکھتے ہیں، اور تفقہ فی الدین کی دولت خدا داد سے بھی سرفراز ہیں“، ( ہندوستان اور مسئلہ امارت۔ :  ) آپ نے علمی تحقیق اور اسلامی علوم میں کارہائے نمایاں انجام دیے،  علمی تحریکات کے ذریعہ ملت اسلامیہ کی گراں قدر خدمات انجام دیں اور  اکابر علماء کے ہمراہ آزادی ہند کی جنگ میں شریک رہے۔ بقول شاہد رام نگری: ”آپ کی زندگی علم اور سیاست کا ایک شاندار مرقع تھی،اور آپ کی شخصیت جامع کمالات تھی“۔(نقیب 17 ربیع الثانی 1393ھ مطابق۔ 21مئی 1973ء)

سیرت کی پختگی، کردار کی استقامت، علم و فضل کی وسعت، جمعیۃ علماء ہند، مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی جیسی بڑی تنظیموں سے انسلاک و ارتباط کی بناء پر آپ کی خدمات حد درجہ متنوع ہیں، آپ کی شخصیت فقید المثال اور نادر روزگار تھی، آپ کی کتابیں دراصل امارت کی روح ہیں، افکار ابوالمحاسن محمد سجاد کی آئنیہ دار ہیں، آپ کی کتابیں پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی ذات میں انجمن تھے، قادیانیت، اور آریہ سماج کی رد میں لکھی گئی آپ کی کتابیں علمی و تحقیقی شاہکار ہیں، علمی گہرائی و گیرائی، اور وسعت فکر و نظر کا اندازہ لگانا ہو تو مولانا کی تحقیقی، تصنیفی اور علمی کارناموں کو پڑھیے، تنہا آپ بے حساب علمی شخصیات کے برابر کام کرگئے، اور آپ اپنی انہیں کتابوں اور تحریروں کے ذریعے آج بھی زندہ و تابندہ ہیں، آپ کے بارے میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیوبند کی بات حرف بہ حرف سچی ہے کہ : ”حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی نائب امیر شریعت بہار، و رکن مجلسِ شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، مولانا ممدوح کا علمی فضل و کمال، عالمانہ رخ، اور انتھک علمی خدمات علمی حلقوں میں مسلم ہے، ان کے تعارف کے لئے خود انہی کی علمی شہادتیں کافی ہیں، جو انہیں علمی ذہنوں میں متعارف بناتی رہی ہیں، اور بناتی رہیں گی، کسی بیرونی قلم کو کبھی بھی اس تکلیف و تکلف کی ضرورت نہ ہوگی، کہ وہ ان کے تعارف کے لئے کاغذ پر سرنگوں ہو“۔ (قرآن محکم ص 1) 

یہی وجہ ہے کہ ماہ و سال کے تھپیڑوں اور تاریخ کی بے رحمانہ بے التفاتی کے باوجود آپ کی شخصیت اب بھی علمی حلقوں میں جگمگا رہی ہے، اور اپنا فیض پہنچا رہی ہے ۔

المیہ یہ ہے کہ ایسی نابغہ روزگار شخصیت، ہندوستان گیر شہرت یافتہ فقیہ و محقق، اور قوم کے محسن و مربی  کی وفات پر پانچ دہائی گذرنے کے بعد بھی ان کی سوانح حیات و علمی خدمات کے جائزے پر اب تک مستقل کتاب نہیں آسکی، یہ حق تو امارت و خانقاہ رحمانی کا ہے کہ ان کی زندگی پر سیمینار کرائے، اور کماحقہ ان کو خراج عقیدت پیش کرے، میری نظر میں یہ فرض بھی ہے، اور قرض بھی، حسب کی ادائیگی ابھی باقی ہے ۔

شہر باڑھ 

 گنگا کے جنوبی کنارے پر واقع قصبہ باڑھ تاریخی اہمیت کا حامل رہا ہے، مغل اور برطانوی دور میں باڑھ پٹنہ کا ایک بڑا تجارتی شہر تھا، اور یہ پٹنہ و کولکاتا کے درمیان تجارتی مرکز اور گزرگاہ کی حیثیت اختیار کر گیا تھا، اسی شہر میں محمد علی وردی خان نے مراٹھوں کو شکست دی، سکندر لودی نے بنگال کی طرف پیش قدمی کی، اور معاہدہ میں طے ہوا کہ باڑھ  کا مشرقی علاقہ بنگال کے حکمران کے زیر نگیں ہوگا، جب کہ مغرب کا علاقہ دہلی سلطنت کے زیر تسلط  ہوگا۔ 

یہ پٹنہ شہر  سے ستر کلومیٹر کے فاصلے پر اور بیگو سرائے سے متصل واقع ہے، اسی شہر باڑھ سے  ساڑھے چار کلومیٹر دور ایک چھوٹی سی بستی ہے بازید پور، (جو پہلے ایک مضافاتی قریہ تھا،اب گاؤں ہے) اسی گاؤں میں ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے شیخ سخاوت حسین، مولانا عبد الصمد رحمانی انہیں کے صاحب زادے تھے ۔

حلیہ: طویل قد و قامت، گندمی رنگ، چھریرا بدن، آنکھیں چھوٹی، داڑھی اور سر کے بال گھنے، رعب دار خوبصورت، توانا چہرہ، چھوٹی آنکھیں، گال  دھنسا ہوئے،  آہستہ گفتگو فرماتے ،  اور معمولی کپڑے زیب تن کرتے۔

ولادت: آپ کی ولادت بازید پور قصبہ باڑھ ضلع پٹنہ میں ایک معزز گھرانے میں ہوئی، ( نقیب 21 مئی 1973ء ص 16) یہی آپ کا آبائی وطن ہے، شادی کے بعد یہاں سے  مانڈر ضلع مونگیر ( موجودہ ضلع کھگڑیا) میں بس گئے، شاہد رام نگری نے ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ ( 17 ربیع الثانی 1393ھ مطابق 21 مئی 1973ء) میں آپ کی  سن ولادت 1300 فصلی لکھی ہے، اس کے مطابق  1890 عیسوی اور 1308 ہجری سنہ پیدائش ہوا، حضرت مفتی ظفیر الدین مفتاحی نے بھی ”مشاہیر علماء ہند کے علمی مراسلے “ اور  ”امارت شرعیہ: دینی جد و جہد کا روشن باب“ میں یہی تاریخ پیدائش لکھی ہے، لیکن مفتی صاحب نے ”قرآن محکم“ میں لکھا ہے کہ  آپ کی سن پیدائش 1307 فصلی ہے۔ جو عیسوی اور ہجری کلینڈر کے لحاظ سے  1897ء مطابق 1315ھجری ہوگا۔ یہ والی تاریخ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ خود مفتی صاحب کی دیگر دو کتابوں میں 1300فصلی درج ہے، اور قرین قیاس بھی یہی ہے کہ پہلی بات راجح ہے۔

یتیمی 

آپ کی عمر پانچ سال کی ہوئی، تو آپ کے والد محترم  شیخ سخاوت حسین کا سایہء عاطفت سر سے اٹھ گیا،(قرآن محکم۔ص 8) آپ کی والدہ محترمہ بی بی صغریٰ نے پرورش و پرداخت کی، آپ کی تعلیم کا عمدہ انتظام کیا، اور انہیں کی توجہات اور دعاؤں نے وہ تاثیر دکھائی کہ آپ دین کے خادم اور امارت کے نائب امیر بن گئے ۔

ابتدائی تعلیم 

آپ کی تعلیم کا آغاز گھر پر ہوا، نورانی قاعدہ اور ناظرہ قرآن گھر پر ہی پڑھا، آپ حافظ نہیں تھے، تھوڑے بڑے ہوئے، تو آپ روز اپنے گھر بازید پور سے قصبہ باڑھ تک پڑھنے کے لئے مولانا حکیم محمد صدیق صاحب کے پاس جاتے، عربی کی ابتدائی کتابیں ہدایہ النحو تک حضرت مولانا حکیم محمد صدیق صاحب سے ہی پڑھی، حکیم صاحب قصبہ باڑھ میں مطب چلاتے تھے،۔( حیات سجاد ص۔27  )

کانپور کا سفر

 ہدایۃ النحو کا سال 1909ء مطابق 1327 ھ تھا، اسی سال درمیان میں تنہا گھر سے نکلے، کانپور کا ٹکٹ لے کر جامع العلوم کانپور پہنچ گئے، اور یہاں تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن اجنبیت نے ستانا شروع کیا، چوں کہ بہاری طلباء کم تھے، اسی لئے آپ کا دل نہیں لگا۔( حیات سجاد.ص:27  ) ( ہمارے امیر ص42)

الہ آباد کا سفر

قدرت کی جانب سے دل میں الہ آباد کا  القاء ہوا، چنانچہ کانپور سے الہ آباد کا رخ کیا، اور مدرسہ سبحانیہ الہ آباد میں وسط سال میں پہنچ گئے،جہاں اس وقت حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد کی تدریس کے سلسلے میں بڑی شہرت تھی، حضرت ابو المحاسن نے امتحان لے کر مدرسہ سے باہر ان کی تعلیم کا نظم فرمادیا، کافیہ تک  پڑھنے کے بعد شرح جامی سے مولانا کے حلقہ درس میں شامل ہوگئے، ( حیات سجاد28) حضرت ابو المحاسن محمد سجاد امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے بانی اور جمعیۃ علماء ہند کے بانیین میں سے تھے( تفصیل کے لیے دیکھیں حیات ابو المحاسن،  امارت شرعیہ: دینی جد و جہد کا روشن باب ) مولانا ابو المحاسن محمد سجاد کا سیاسی کارنامہ اور خدمات میں سائمن کمیشن کے بائکاٹ کی تائید، مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کا قیام، انجمن علماء بہار، اور جمعیۃ علماء بہار کا قیام قابل ذکر ہے( تحریک آزادی میں علمائے کرام کا حصہ۔ص: 220) 1911ء میں مولانا ابو المحاسن محمد سجاد کے ساتھ مولانا رحمانی گیا تشریف لائے،(  حیات ابو المحاسن. محاسن التذکرہ ص: 142؛حیات سجاد. ص: )1915ء میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہوئے۔( قرآن محکم ص 12 کے حاشیہ میں) 

مفتی اختر امام عادل قاسمی نے محاسن التذکرہ کے حاشیہ میں لکھا ہے: مدرسہ سبحانیہ الہ آباد میں حضرت مولانا محمد سجاد کے حلقہء تلمذ میں داخل ہوگئے، یہاں کے بعد دیوبند تشریف لے گئے، اور 1332ھ یا 1333ھ مطابق 1913ء یا 1914ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی. ( حیات ابو المحاسن ص 254) 

مولانا طلحہ نعمت ندوی کی مرتب کردہ کتاب ”مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ “کے صفحہ نمبر 203 کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ  ”مدرسہ سبحانیہ الہ آباد میں حضرت مولانا محمد سجاد سے استفادہ کرکے تکمیل کی“۔

مذکورہ بالا دونوں باتیں بعید از صحت ہیں، کیوں کہ  1913/ 1914 ء   بلکہ اس کے بعد کے کئی سال کے فارغین و فضلاء دار العلوم دیوبند میں کہیں بھی مولانا عبد الصمد رحمانی کا نام موجود نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ اگر فاضل  دیوبند ہوتے، تو مفتی ظفیر الدین مفتاحی اور دیگر قلمکار اس بات کو جلی حروف میں لکھتے، حالاں کہ کہیں بھی ایسا موجود نہیں ہے، اس میں لکھا ہے کہ فراغت 1913 یا 1914 میں ہوئی ہے، یہ بھی درست معلوم نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ قرآن محکم کے حاشیہ میں درج ہے کہ ”1915 ء میں آپ صحاح ستہ کے دورہ حدیث شریف کے درس میں مصروف و مشغول تھے“ ( ص:15)  

حضرت مونگیری کی حلقہ ارادت میں

مروجہ نصاب کی تکمیل کے بعد  اصلاح قلب کی خاطر مولانا نے خود کو قطب الارشاد، عالم ربانی حضرت مولانا محمد علی مونگیری سے وابستہ کرلیا، اور انہیں کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا،  اور روحانی فیض حاصل کیا ۔( کتاب الفسخ و التفریق ص26) ( نقیب 21 مئی 1973ء ص 16) 

معقولات کی تعلیم

  اس زمانے میں ہر طرف معقولات کا غلغلہ تھا، آپ بھی اس سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکے، صوبہ سرحد( موجودہ مغربی پنجاب پاکستان) کے مشہور قصبہ ” غور غشتی“  میں معروف معقولی عالم حضرت مولانا قطب الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے فن کے امام سمجھے جاتے تھے، اور ہندوستان بھر میں ان کو شہرت و مقبولیت حاصل تھی، جب آپ درسیات سے فارغ ہوئے، تو ان کی علمی شہرت سن کر  1916ء میں غور غشتی اپنے مسترشد کے اجازت و اطلاع کے بغیر ہی چلے گئے، اور ان کے پاس  رہ کر اپ نے ان سے شرح اشارات، شرح مطالع اور محاکمات جیسی اونچی کتابیں بالاستیعاب پڑھیں، ممکن ہے اس ذوق کی تکمیل میں سالوں مصروف رہتے لیکن آپ کے مرشد قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کی خواہش تھی کہ معقولات میں زیادہ وقت نہ لگایا جائے، مولانا عبد الصمد رحمانی تک ان کا یہ جملہ پہونچا کہ ، کیا اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ جو ان کتابوں کے پڑھنے کے لئے وہ وہاں گیا ہے، مرشد کامل کا یہ جملہ سنتے ہی آپ نے کتاب بند کردی، آپ سمجھ گئے کہ مرشدِ کامل کو یہ پسند نہیں ، فورا اپنے مشفق استاذ مولانا قطب الدین صاحب کی خدمت میں پہنچ کر درخواست کی کہ اب میں گھر جانا چاہتا ہوں، کیوں کہ مجھے پاگل نہیں ہونا ہے، اور  استاذ گرامی قدر کی اجازت و رضا مندی سے وہاں سے سیدھے خانقاہ رحمانی مونگیر حضرت شیخ کے پاس آگئے، آپ کے اس جذبہ طاعت سے حضرت مونگیری بہت خوش ہوئے۔( قرآن محکم) قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے یہی واقعہ تھوڑے الگ انداز میں رقم کیا ہے، ان کے بقول ” فراغت کے بعد مولانا رحمانی حضرت مونگیری سے بیعت ہوئے، ابتداء میں علوم معقولہ کی طرف رجحان زیادہ تھا، (محاسن التذکرہ ۔ص: 254) لہذا شیخ کی اجازت و اطلاع کے بغیر منطق کی بعض کتابیں پڑھنے صوبہ سرحد میں کابل سے قریب غور غشتی چلے گئے، یہ مولانا شمس الحق معقولی کا گاؤں تھا، مولانا اپنے وقت میں معقولات کے امام مانے جاتے تھے، مولانا رحمانی نے کچھ کتابیں معقولات کے امام سے پڑھیں، اور مونگیر تشریف لے آئے۔

فرماتے تھے کہ میں نے اپنے مرشد سے ڈرتے ڈرتے کہا کہ معقولات کی بعض کتابیں پڑھنے غور غشتی گیا تھا، حضرت مونگیری نے فرمایا لا حول ولا قوہ الا باللہ، اس سے کیا حاصل؟ معقولی کے مزار پر جاکے دیکھو، تاریکی محسوس ہوگی، اور ایک محدث یا فقیہ کی قبر پر جاؤ، انوار ہی انوار نظر آئیں گے۔مرشد کی رائے سامنے آئی، تو مرید نے ارادہ بدل دیا، اور منطق و فلسفہ سے دلچسپی ہٹا کر ساری توجہ قرآن و حدیث اور فقہ پر لگادی۔(کتاب الفسخ۔ ص: 26) ۔

قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کا یہ مضمون مولانا عبد الصمد رحمانی کی وفات کے اٹھائیس سال بعد لکھا گیا ہے، جس میں درج ہے کہ مولانا رحمانی کے معقول کے استاذ مولانا شمس الحق معقولی ہیں، جب کہ مفتی ظفیر الدین مفتاحی کا مقالہ قرآن محکم کا جزء بنکر مولانا رحمانی کے زمانہ حیات میں 1956ء مطابق 1386ھ میں طبع ہوا، یقیناً آپ نے اسے پڑھا ہوگا، اگر غلط ہوتا تو ضرور تصحیح کراتے، اسی لئے درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کے معقولات کے استاد جامع المعقول و المنقول شیخ العلماء حضرت علامہ مولانا قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ غورغشتی تھے، ”مشاہیر علماء سرحد “میں مرقوم ہے کہ مولانا گل حسن ہزاروی، مولانا قاضی عبد السبحان ہزاروی، مولانا نیاز محمد بنوی، مولانا فضل ربانی متھراوی پشاوری وغیرہم جیسے بہت سے اہل علم نے مولانا قطب الدین غورغشتوی سے استفادہ کیا۔

خانقاہ رحمانی

1916ء میں اپنے پیر و مرشد قطب عالم حضرت مونگیری کی خواہش پر معقولات کی تعلیم چھوڑ کر اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ابتداء میں آپ کو کتب خانے کی ذمہ داری ملی، کتابوں کے درمیان شب وروز گزارنے سے فکر و نظر میں وسعت پیدا ہوئی، دنیائے علم کے مخفی راز آپ پر مزید روشن ہوگئے، پھر افتاء کا اہم شعبہ آپ نے سنبھالا، اور فقہ و فتاویٰ کا کام احسن طریقے پر انجام دیا،  عرصے تک اپنے شیخ و مرشد کے نام آنے والے خطوط کی پیشی کی خدمت آپ ہی انجام دیتے تھے۔ آپ انتہائی فعال، ذمہ دار، اور اپنی ذمہ داریوں کے معیار پر پورا اترنے والے انسان تھے۔( قرآن محکم ) 

مولانا رحمانی نے خانقاہ رحمانی کو اپنا دوسرا گھر بنایا، ” کتب خانہ رحمانیہ“ ہی میں رہتے، صرف پڑھنا لکھنا ہی ان کا کام تھا، اور بقیہ وقت مرشد کی صحبت اور خدمت میں گزارتے۔ ( کتاب الفسخ. ص: 27)

درس قرآن: مولانا رحمانی جامع مسجد مونگیر کے امام بھی رہے، حضرت مولانا کی زمانۂ امامت میں مونگیر  کے تعلیم یافتہ طبقہ میں قرآن پڑھنے اور سمجھنے کا ایک ذوق پیدا ہوگیا تھا، مونگیر والوں میں دین کا ذوق، اچھی تقریریں سننے اور اچھی تحریریں پڑھنے کا مذاق مولانا ہی کا پیدا کردہ ہے۔ ( کتاب الفسخ۔ص: 27) 

خانقاہ رحمانی میں تدریسی خدمات : 1927ء میں جب جامعہ رحمانی قائم ہوا، تو مولانا رحمانی علیہ الرحمہ اس میں مدرس مقرر ہوئے، مولانا رحمانی نے انجمن حمایت اسلام مونگیر میں بھی درسی خدمات انجام دیں۔( کتاب الفسخ۔ ص:27) 

1917ء میں حضرت مولانا مفتی عبد اللطیف صاحب رحمانی صدر شعبہ دینیات عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد کی حیثیت سے مونگیر سے حیدرآباد تشریف لے گئے اور ان کے بعد مولانا مونگیری کے صاحبزادگان حضرت مولانا نور اللہ رحمانی صدر جمعیۃ علماء بہار اور مولانا منت اللہ رحمانی امیر شریعت رابع بہار و اڑیسہ کی تعلیم کی بات آئی تو یہ خدمت تدریس آپ ہی کو تفویض ہوئی، ۔ اسی زمانے میں مولانا عبد الصمد رحمانی نے انہیں صرف و نحو اور منطق کی متعدد کتابیں بھی پڑھائیں، آپ ایک اچھے مدرس، اور نرم دل مربی تھے، آپ اپنے ہر کام کو محبت، خلوص، انہماک اور تدبر کے ساتھ کرتے۔ ( کتاب الفسخ 27)

ماہنامہ الجامعہ کی ادارت 

ایک عرصہ تک خانقاہ رحمانی مونگیر سے شائع ہونے والے مشہور علمی ماہنامہ ” الجامعہ” کے مدیر بھی رہے۔ (       ؟)

     فتنوں کا تعاقب

ان دنوں بہار میں قادیانیت کا فتنہ زوروں پر تھا، پورا صوبہ قادیانیوں ،اور  عیسائی مشنریوں کی فتنہ انگیزی سے لرز رہا تھا، ایسے وقت میں آپ نے مجدد العلم و العرفان حضرت مولانا مونگیری کی زیر نگرانی ان باطل تحریکوں کے خلاف تحریری و تقریری جہاد میں حصہ لیا، اور اپنی بے بہا علمی و فکری صلاحیتوں سے قرآن و حدیث کی تبلیغ و ترویج بھی فرماتے رہے، (نقیب 28 مئی 1973ء) انہیں مخلصانہ اور پیہم کوششوں کا نتیجہ مشرقی ہندوستان سے ان فتنوں کا قلع قمع ہونا ہے۔( نقیب 21مئی 1973ء ) جب آریوں کی تحریک چلی، اس وقت مولانا عبد الصمد رحمانی خانقاہ رحمانی مونگیر میں تھے، ” رد آریہ“ میں بارہ رسائل لکھے، ”وید کا بھید“، اور ”آریہ دھرم کا انصاف” وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔ ( کتاب الفسخ۔ص: 28) 

امارت شرعیہ میں آمد

جب مولانا سید محمد علی مونگیری 1927ء میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے، اور  ملک کی سیاسی تحریک نے پلٹا کھایا، آر پار کی جنگ شروع ہوئی تو اس نازک وقت میں آپ اپنے استاد و رفیق، ہندوستان کے مشہور مفکر عالم دین حضرت مولانا ابو المحاسن سید محمد سجاد کی ایماء پر خانقاہ رحمانی سے  امارت شرعیہ پھواری شریف پٹنہ منتقل ہوگئے، ( نقیب 21مئی 1973ء) 

حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد نے مولانا رحمانی کو امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کا ناظم نامزد کیا، اور دفتری امور کی ذمہ داری آپ کے سپرد ہوئی۔ آپ نے یہاں آتے ہی تنظیم امارت قائم کی، ہر علاقے میں امارت کے نقیب منتخب کئے، مسلم آبادی کو باہم مربوط کرنے کے لئے اور مقامی مسائل و معاملات حل کرنے کے لئے نقباء کی ذہن سازی کی، انہیں بانئ امارت کی فکر کو آگے بڑھانے کے لئے اور وحدت امت کے لئے تیار کیا، آپ نے اس شرعی تنظیم کی ترقی و استحکام کے لئے اپنی ساری توانائیاں اور صلاحیتیں وقف کردیں، اس کی تحریک کو زیادہ منظم و فعال بنانے کے لئے دونوں ریاستوں کے اہم علاقوں کا دورہ کیا،اور زبان و قلم کے ذریعے فکر امارت کی اشاعت میں اہم کردار کیا، ہر ہر علاقے میں دین و دعوت کا پیغام، اور امارت کے مقاصد کو عام کرنے کے لئے جہد مسلسل کیا ۔( ہمارے امیر ۔ص 44)( نقیب 21 مئی 1973ء) 

جمعیۃ علمائے ہند کے نائب ناظم 

جب جمیعۃ علماء ہند نے سول نافرمانی( حرب سلمی) کی تجویز پاس کی، اور اکابر علماء کی گرفتاری شروع ہوئی تب آپ 14 اکتوبر 1930 ء کو جمیعۃ علماء ہند کے نائب ناظم اور مرکزی دفتر کے ذمہ دار اعلیٰ مقرر ہوئے، اس وقت کے سہ روزہ الجمعیۃ 23 جمادی الاولی 1349ھ مطابق 16 اکتوبر 1930 ء میں یہ خبر شائع ہوئی کہ حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب صدر جمعیۃ علماء ہند نے اپنی گرفتاری کے وقت حضرت مولانا حسین احمد مدنی صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کو اپنا قائم مقام نامزد فرمایا اور مولانا نور الدین صاحب نائب ناظم جمعیۃ علماء ہند کی جگہ مولانا عبد الصمد رحمانی کو نائب ناظم مقرر فرمایا، قائم مقام ناظم اس وقت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد تھے،  آپ حضرت مولانا ابو المحاسن ، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ،مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی  رحمہم اللہ کی قیادت میں ملی و سیاسی خدمات انجام دیتے رہے، اور بڑی تندہی سے ملک و ملت کے پیچیدہ مسائل میں جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے عظیم خدمات انجام دیں۔( نقیب 28 مئی 1973ء ص 9 )حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں” صدیق محترم مولانا مولوی عبد الصمد صاحب مونگیری صوبہ بہار کے متدین اور پرجوش کارکن ہیں“. ( کتاب العشر. ص 41) 

تھانہ بھون کے فتویٰ کا جواب:

جب آپ جمعیۃ علماء ہند کے نائب ناظم کی حیثیت سے ملی و سیاسی قیادت فرمارہے تھے، اس سیاسی شور و شغب کے بیچ بھی آپ کا قلم رواں دواں تھا، الجمعیۃ کے اس زمانے کے شمارے آپ کی تحریروں کے محافظ ہیں، دو قومی نظریہ پر تھانہ بھون سے فتاویٰ جاری ہوا، ،آپ نے اس فتویٰ کا مدلل جواب لکھا، جو الجمعیۃ دہلی میں بیس پچیس قسطوں میں شائع ہوا، آپ نے ادب واحترام کے دائرہ میں رہ کر اختلاف و مخالفت میں فرق ملحوظ رکھا،  جواب میں آپ نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مقام بلند، اور عظمت کا بھی خیال رکھا،  یہی وجہ ہے کہ مولانا رحمانی کی اس خوبی اور حسن ادب کو تھانوی مکتب فکر سے وابستہ حضرات  نے خوب سراہا۔( قرآن محکم ص 11) یہ مقالات دیکھنے یا پڑھنے کا مجھے موقع نہیں مل سکا، لیکن ان کی دیگر تصانیف کے انداز تحریر، اور قوت استدلال کی وجہ سے یقین کامل ہے کہ ان کی یہ کتاب سیاسی فراست  کا آئینہ دار ہوگی۔

مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے ناظم 

1935 ء کے ایکٹ کے تحت جب1937ء میں الیکشن ہوا، تو مولانا ابو المحاسن محمد سجاد نے  مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے نام سے ایک جماعت بنائی، اور اس کے نام پر الیکشن لڑا، جیت گئے ، اور ساڑھے تین ماہ کی وزارت بھی بنائی، اس مختصر عرصے میں بہار کی سرکاری عدالتوں اور دفتروں میں اردو کو اس کا حق دلایا، اس پورے زمانے میں مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کا پورا دفتر مولانا عبد الصمد رحمانی کے سپرد رہا، جسے آپ نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ چلایا۔( قرآن محکم ص 12) ( ماہنامہ رفیق علمائے بہار نمبر۔ص 142)

 جس سے آپ کی سیاسی دقت نظری اور انتظامی صلاحیت کا خوب مظاہرہ ہوا۔ 

الہلال پٹنہ

 انڈیپنڈنٹ پارٹی کا ترجمان  اخبار الہلال ( پٹنہ) جاری ہوا،تو آپ  مولانا مسعود عالم ندوی کے ساتھ اس کے مدیر بھی رہے۔(مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد:ص 204) ( حیات سجاد ص 1) 

نائب امیر شریعت ثانی

   17 شوال 1359ھ مطابق18 نومبر 1940ء میں  حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی وفات ہوئی، تقریباً چار سال تک نیابت کا یہ عہدہ خالی رہا، مولانا عبد الصمد رحمانی اس منصب کے تمام فرائض اور ذمہ داریاں بحسن وخوبی انجام دیتے رہے، چار سال بعد 8 ربیع الثانی 1364 ھ مطابق مارچ 1945ء کو امیر شریعت ثانی نے آپ کو امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کا نائب امیر شریعت  منتخب کیا۔اس وقت حضرت امیر شریعت ثانی مولانا شاہ محی الدین قادری نے یہ فرمان لکھا:”مولانا سجاد رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد سے ادارہ امارت شرعیہ میں نائب امیر شریعت کی جگہ خالی تھی،  عملاً اگرچہ مولانا عبد الصمد صاحب رحمانی ناظم امارت شرعیہ نیابت کے بعض امور کو انجام دیتے رہے تھے لیکن ضابطہ کے طور پر وہ اس منصب کے لیے مامور نہیں کئے گئے تھے، ان چار سال کے کام نہایت اطمینان بخش ہیں اس وقت بجز اس کے کہ مولانا مرحوم کی مجمع الکمالات ذات سے ادارہ امارت شرعیہ محروم ہے، اور جس کا بدل بظاہر ہندوستان میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بحمد اللہ تعالیٰ ادارہ امارت شرعیہ اپنے ہر شعبہ میں بہتر حالت میں ہے، جو مولانا رحمانی کی اہلیت اور ان کی مخلصانہ کارگذاری کا عملی ثبوت ہے۔ ضرورت داعی تھی کہ اس منصب نیات کا جلد ہی اعلان ہوتا مگر مشیت الہی کے ہاتھوں مختلف وجوہ کی بناء پر تعویق پر تعویق ہوتی رہی، آج 8ربیع الثانی 1364 ھ یوم جمعہ کو مولانا عبد الصمد رحمانی کا تقرر عہدہ نیابت امارت پر کر دیا گیا۔ کل سنیچر کے دن سے کار ہائے مفوضہ کی طرف متوجہ ہو کر عمل شروع کردیں ۔ ایده الله تعالیٰ بنصره وبارك في امرہ“ ( امارت شرعیہ: دینی جد و جہد کا روشن باب.ص 115)

مولانا رحمانی بانئ امارت شرعیہ حضرت ابو المحاسن محمد سجاد کے مزاج شناس اور حقیقی جانشیں تھے، قیام امارت کے ابتدائی زمانے سے ہی مولانا کے ساتھ رہے، نظام امارت شرعیہ کو منتشر ہونے سے بچانے کے لئے آپ کی جد و جہد اور اخلاص و ایثار نے بڑا سہارا دیا، آپ کی حکمت عملی اور وسعت ظرفی نے اس ادارہ کو کئی مقامات پر انتشار سے بچایا، آپ کی زندگی امارت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں گزری، ملت کو در پیش مسائل اور اس کے حل کے لئے جہد مسلسل اور سعی پیہم کا اندازہ لگانا ہو تو مولانا کی تصانیف دیکھئے، لگتا ہے قوم کا درد مولانا کے سینے میں ہر وقت ٹیس مارتے رہتا تھا۔ (دینی جد وجہد ۔۔۔ص: 114)

آپ 33 سال تک نائب امیر شریعت کی حیثیت سے قوم و ملت کی خدمت کرتے رہے، آپ نے نائب امیر شریعت کی حیثیت سے تین امراء کے دور پائے،  فراخ دلی اور خلوص کے ساتھ ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں مصروف رہے۔

دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ: 1954 ء میں آپ دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ منتخب ہوئے، اور تا حیات اس منصب پر فائز رہے، اور  اکابر کے اس قیمتی اثاثہ کی حفاظت و خیر خواہی میں سرگرم رہے۔( دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ۔ص: 756) 

  تصنیفی خدمات 

مولانا کا اصل ذوق تصنیف و تالیف کا تھا، آپ کی تمام تصانیف علمی جواہر پاروں، اور تحقیقات پر مبنی ہیں، آپ فقہ اسلامی پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے، مولانا کی ناقابل فراموش ایثار وقربانی، بلند و پاکیزہ افکار،اور صالح خصوصیات ،دینی ، علمی،ادبی سیاسی، تاریخی، سماجی اور تحقیقی کارنامے جو ہزاروں صفحات پر بکھرے پڑے ہیں، وہ ارباب علم و فن کے ذوق کی تشنگی بجھانے اور شیدائیان دین متین کی روح کو تسکین دینے کے لئے بڑی حد تک کافی ہیں، ( نقیب 28مئی 1973ء ص 9) مولانا کی علمی و تحقیقاتی افکار آپ کی تمام تصانیف میں چمکتی نظر آئیں گی، آپ کے فقہی نکات بے حد اہم اور آپ کی آراء مناسب و موزوں  ہوا کرتی تھی، اصابت رائے علمی حلقوں میں مسلم تھی، ( نقیب 21مئی 1973ء ص 16) آپ اونچے درجے کے فقیہ، اور روحانی کمالات کے حامل تھے،( نقیب  جون 1973)

آپ کا قلم حق پرستوں پر ہونے والے حملوں کے بالمقابل ایک سنگ گراں اور چٹان تھا، آپ زبان و قلم کے ایک جری سپاہی تھے، آپ کے قلم سے عوام کے دلوں میں عمل کا جذبہ پیدا ہوا۔

حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی اپنے وقت کے بڑے علماء اور اصحاب تحقیق میں تھے، اور مخلتف علوم اسلامی میں دستگاہ رکھتے تھے، علوم القرآن، فقہ اسلامی، مذاہبِ باطلہ، اور فرق ضالہ کا رد آپ کی تحریر کا خاص موضوع تھا، فکر سجاد سے نہ صرف یہ کہ آپ کو والہانہ تعلق تھا، بلکہ آپ اس فکر کے نقیب و ترجمان تھے، چنانچہ حضرت مولانا کے ایماء پر آپ نے ” مسئلہ امارت اور ہندوستان “ لکھی، جو دار الکفر میں قیام امارت پر بحث و تحقیق کے باب میں حرف آخر کہی جاسکتی ہے، فسخ و تفریق کے احکام کی بابت آپ کا مختصر رسالہ ”کتاب الفسخ و التفریق “ قضاۃ و مفتیان اور علماء و عوام سبھوں کے لئے دلیل راہ ہے۔( کتاب العشر و الزکوۃ۔ ص 22)۔

نظام قضاء کے سلسلہ میں آپ کی تالیف ”آداب قضاء ‘‘ نہایت اہم ہے، ”کتاب العشر و الزکوۃ “ میں عشر و زکوٰۃ کے شرعی احکام تفصیلی انداز میں بیان کئے گئے ہیں، یہ کتاب بجائے خود آپ کے وسعت مطالعہ، عمق نظر، اور غیر معمولی فقہی بصیرت کی آئینہ دار ہے،  ”تلخیص الاتقان“ اور ” تیسیر القرآن“ آپ کی نہایت مفید نصابی کتابیں ہیں، جو بہت سے مدارس اسلامیہ میں داخل نصاب ہیں، مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی بورڈ سے ملحق مدارسِ عربیہ کے وسطانیہ چہارم کے نصاب میں تیسیر القرآن داخل تھی، یہ کتاب مبتدی طلباء کو بتدریج عربی ترکیب سمجھنے اور پڑھنے کے لئے اچھی کتاب ہے،( کتاب العشر و الزکوۃ۔ ص 25)  

”تلخیص الاتقان“ علامہ جلال الدین سیوطی کی ایک مقبول و جامع کتاب الاتقان فی علوم القرآن کی تلخیص ہے،  امارت کی فکر تو مولانا ابو المحاسن محمد سجاد کی ہے، لیکن حضرت مولانا اپنے فکر کو قلم بند نہ کرسکے، حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی نے ”ہندوستان اور مسئلہ امارت“ اور کتاب العشر و الزکوۃ لکھ کر اس فکر کو قلمبند کیا۔( کتاب الفسخ۔ ص 28) 

مولانا مودودی کے نظریات اور دعاوی سامنے آئے تو آپ نے ان کے رد میں مدلل علمی گفتگو کی، جو کئی جلدوں میں دارالعلوم دیوبند سے شائع ہوئی، ”جماعت اسلامی پر تبصرہ میں،مولانا مودودی کے دعاوی، ہندوستانی اسلام اور ان کے دار الاسلام اور جدید معنی اسلام اور بنیادی عقیدے پر تنقید ہے۔

”جماعت اسلامی کا دینی رخ“ چار جلدوں میں ہے، اس میں مولانا نے مولانا مودودی کی واقعی اور سندی حقیقت، پھر ارتقائی حالت، ان کے مجتہدانہ دعاوی، ان کی مہذب گالیوں، اور قائدانہ اور داعیانہ نوازشات کا نمونہ، اور ان کے ”اصل اسلامی نصب العین “ اور اس کی طرف پیشقدمی کے سیدھے راستہ پر تنقید و تبصرہ۔

ایک جلد میں مولانا مودودی کے تین اصولی نظرئیے اور عقائد پر بحث کی گئی ہے، (1)قرآن مجید کے متعلق ان کا کیا عقیدہ ہے ؟ (2) انبیاء علیہم السلام کے متعلق ان کا کیا عقیدہ ہے ؟ (3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور امت مسلمہ کے مشن کے متعلق ان کا کیا عقیدہ ہے ؟  اس سلسلہ میں ان کی گمراہیوں اور کتاب و سنت کی مخالفت پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کو کس سمت کی لے جارہے ہیں ۔

( ادارہ نشر و اشاعت دار العلوم دیوبند نے کتاب کے سر ورق پر یہ خلاصہ درج کیا ہے)

” تاریخ امارت “اسلامی ہند کے سیاسی دور اور اس کے انقلابی اور آئینی ماحول کے کیا اثرات مرتب ہوئے ، ہندوستان پر امارت شرعیہ کا فریضہ کب عائد ہوا، کس طرح عائد ہوا، اور اکابر امت علماء کرام نے اس فریضہ کی ادائیگی میں کیا قربانیاں پیش کیں، نظام امارت کا لائحہ عمل کیا ہے، اس سلسلہ کی تمام باتیں  اس کتاب میں آگئی ہیں، مختصر یہ کہ ”تاریخ امارت“ 1803ء سے 1941ء تک کی اسلامی ہند کی انقلابی اور آئینی جد وجہد کی تاریخ ہے، اور اپنے موضوع پر پہلی کتاب ہے۔

( تاریخ امارت کی پشت پر یہ لکھا ہوا ہے، اور راقم نے بھی کتاب دیکھی ہے، انتہائی جامع اور مفصل تاریخ ہے)

مولانا عبد الصمد رحمانی نے اپنے اخیر زمانے میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح پر ایک خاص جہت سے قلم اٹھایا، اور خوب لکھا، خانقاہ رحمانی مونگیر ہی کے کتب خانہ میں بیٹھ کر لکھتے تھے، جب تھک کر باہر نکلتے، تو کبھی کبھی علامہ شبلی کا یہ قطعہ پڑھتے ۔

عجم کی مدح کی عباسیوں کی داستاں لکھی

مجھے چندے مقیم آستان غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتم

خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا ( کتاب الفسخ…ص 28) 

سیرت پر آپ کی کتاب ” پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم “ کے نام  سے  موسوم ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی بعثت اور آپ کی عالمی دعوت کا تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے، اسی طرح آپ کی ایک کتاب ہے،” تذکرۃ النبی“ صلی اللہ علیہ وسلم اس کتاب میں محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نرالے انداز میں صفحات کی زینت بنایا گیا ہے، آپ نے انبیاء علیہم الصلاۃ و التسلیم، حضرت آدم علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام کے تذکرہ اور ان کی زندگیوں کو عام فہم انداز میں لکھا ہے ، قوم میں صالح فکر پیدا  کرنے کے لئے اس طرح کے بیسیوں رسائل لکھے، ” فاطمہ کا چاند“ ، ”صحابہ کی انقلابی جماعت“، ایمان کی باتیں”نماز کی باتیں “ اور حج کی باتیں اسی سلسلے کی اہم ترین کتابیں ہیں۔

 اسلو ب تحریر: حضرت مولانا رحمانی کی تحریر بہت شگفتہ، رواں دواں اور عام فہم ہوتی ہے، ( ص 26) آپ کا اسلو ب تحریر عام ہونے کے علاوہ عالم پسند بھی تھا، کسی تحریر میں مذکورہ بالا دونوں خصوصیات کا جمع ہوجانا نہایت نادر الوقوع ہے، یہ خدا داد ملکہ حق تعالیٰ نے مولانا کو عطا فرمایا ہے، مولانا رحمانی کا طرز استدلال حضرات اہل علم کی تسکین خاطر کا بھی موجب ہوگا۔ ( کتاب العشر ص 37) 

تعداد تصانیف: مفتی ظفیر الدین مفتاحی کے مطابق آپ کی کل تصانیف کی تعداد سڑسٹھ (67)ہے، کچھ لوگوں نے رسائل کو جوڑ کر سوسے زیادہ تعداد بتائی ہے۔

فن فقہ پر

کتاب الفسخ و التفریق،( سنہ اشاعت: 1387ھ مطابق 1967ء صفحات کی تعداد:240.) کتاب العشر و الزکوۃ( سنہ اشاعت 1361ء 1941ء) ازالہ شبہات از مسئلہ عشر و زکوٰۃ  (سنہ اشاعت  15 رجب  1364 مطابق   1945 صفحات کی تعداد 131) رہبری زکوٰۃ

زکوٰۃ کا مصرف اور اس کا شرعی نظام قضا کے چند اہم مسائل نئے تقاضوں کا حل شریعت کی روشنی میں

آداب قضا، 

کتاب القضاء

   قضاء کیا ہے؟  ( مولانا عبد الصمد رحمانی اور مولانا منت اللہ رحمانی کے مقالوں کا مجموعہ۔ یہ رسالہ امارت شرعیہ کی لائبریری میں موجود ہے)  غیر مسلوں کے جان و مال کے متعلق اسلامی نقطہء نظر فتاویٰ رحمانیہ ( فتاوی حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی)

اسلامیات  و سیاسیات 

(13) اسلامی حقوق اور مسلم لیگ ( سن اشاعت:  1938ء۔صفحات :66۔ )

(14) ایمان کی باتیں( سنہ اشاعت: 1979ء۔ صفحات کی تعداد 239)

(15) نماز کی باتیں ( سنہ اشاعت  1954ء۔صفحات کی تعداد 184)

(16) حج کی باتیں 

(17) ہندوستان اور مسئلہ امارت ( سنہ شاعت: 1940ء۔صفحات 130)

(18) خطبات 

(19) قتل مرتد

20) خطبات جمعہ

(21) مقالات امارت شرعیہ ( اول)

مقالات امارت شرعیہ ( دوم)

(22) اسلام میں عورت کا مقام۔

(23) شرکت کونسل

قرآنیات 

(24)  قرآن محکم ( سنہ اشاعت

1966مطابق  1386ھ صفحات کی تعداد 120) 

(25) قرآن محکم پر تبصرے اور ان کا جائزہ 

(26) تیسیر القرآن  (27) کلید تیسیر القرآن

(28) تلخیص الاتقان

 رد باطل

(29) وید کا بھید، حصہ اول

         وید کا بھید حصہ دوم

(31) رویائے حقانی

(32) آریوں کا خوفناک ایشور

(33) قدامت اسلام

(34) ابدی نجات

(35) حدوث مادہ

(36) حدوث روح

(37) ابطال تناسخ حصہ اول

      ابطال تناسخ ( حصہ دوم)

(38) نیست سے ہست تک 

(39) آریہ دھرم کا انصاف 

(40) علامہ مشرقی

رد مودودیت 

(41) جماعت اسلامی پر تبصرہ ( حصہ اول) 

جماعت اسلامی پر تبصرہ ( حصہ دوم) ( سنہ اشاعت 1371ھ مطابق 1952ء صفحات کی تعداد 32)

( 42) جماعت اسلامی کا دینی رخ ( اول)

جماعت اسلامی کا دینی رخ ( دوم )

جماعت اسلامی کا دینی رخ ( حصہ سوم) (سنہ اشاعت 1375ھ مطابق 1954ء۔صفحات کی تعداد 72)

جماعت اسلامی کا دینی رخ ( حصہ چہارم)

(43) جماعت اسلامی کے نظریات و افکار

(44) جماعت اسلامی کے دعاوی، طریقہء کار، اور خدمات کا جائزہ 

تاریخ و  سیر

(45) پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم (؛آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی بعثت اور آپ کی عالمی دعوت کا تحقیقی جائزہ ( سن اشاعت: 1961ء۔ صفحات کی تعداد 346 )

(46) تذکرۃ النبی

(47)تذکرۃ آدم علیہ السلام

(48) تذکرہ نوح علیہ السلام

(49) تذکرۂ ہود علیہ السلام

(50) تذکرہ صالح علیہ السلام

(51) صحابہ کی انقلابی جماعت( سنہ  اشاعت :1969۔صفحات :160)

(52) فاطمہ کا چاند

(53)  حیات سجاد  (  سنہ اشاعت 1360مطابق 1941ء  صفحات کی تعداد 158) 

 (54) تاریخ امارت( سنہ اشاعت 1944ء مطابق 1363ھ صفحات کی تعداد 208)

(55) انتخاب امیر رابع

مفتی ظفیر الدین مفتاحی نے لکھا ہے کہ ان کتابوں اور رسائل کے علاوہ ابھی بہت سے مسودات ہیں، جو زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوسکے ہیں، (قرآن محکم) مفتی صاحب نے تین (۳) مقامات پر لکھا ہے کہ مولانا عبد الصمد رحمانی کی کل تصانیف سڑسٹھ ہیں، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے بھی کہا کہ : آپ کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد سڑسٹھ ہے“۔ اور قرآن محکم میں کتابوں کی فہرست بھی دی ہے، اس میں ترپن کتابوں کےنام ہیں، اور راقم کو اب تک چونسٹھ ۶۴ کتب کے اسماء معلوم ہوسکے ہیں، اور یہ اس صورت میں ہوں گے، جب ایک  کتاب کی تمام جلدوں کو الگ الگ شمار کیا جائے، ایک کتاب کی تمام جلدوں کو ایک شمار کرنے کی صورت میں کل ۵۶ تصانیف ہوں گی، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے لکھا ہے کہ ”رد آریہ میں بارہ رسالہ لکھے، ” وید کا بھید“ اور ”آریہ دھرم کا انصاف“ وغیرہ مقبول ہوئے“، اگر ” آریہ دھرم کا انصاف“ اور ” آریوں کا خوفناک ایشور“ ان دونوں ناموں کو الگ الگ رسالہ مان لیا جائے، اور ”ابطال تناسخ“ کے دو جلدوں کو ایک شمار کریں تو بارہ رسالے ہوجائیں گے، اور اگر آریہ دھرم اور آریوں کا خوفناک ایشور ایک ہی رسالہ مان لیں تو اس وقت ابطال تناسخ کے دوجلدوں کو دو شمار کرنے کی صورت میں  بارہ رسالے ہوں گے۔

آپ  کی تصنیفات و تالیفات پر ایک نظر ڈال کر سوچیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو کن کمالات سے نوازا تھا، اور آپ کن خوبیوں کے مالک ہیں، جن علماء کو آپ کے نزدیک رہنے کا موقع ملا ہے، وہ اچھی طرح سے واقف ہیں کہ حضرت مولانا رحمانی کی نظر فقہ پر کس قدر وسیع، دور رس اور گہری ہے، اور آپ کتنی جلد مسائل کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں“ ۔( قرآن محکم ۔ص 14)

 آپ کی چند کتابوں کے علاوہ اکثر کتابیں یا تو نایاب ہیں، یا کمیاب ہیں، قوم کو اس قیمتی علمی ذخیرہ کی حفاظت ،اشاعت اور ترویج کی کوشش کرنی چاہیے۔

آپ کے تلامذہ 

مولانا سید روح اللہ رحمانی سابق صدر جمعیۃ علماء بہار 

امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی

مولانا فضل الرحمان صاحب رحمانی سہرسا، مبارک پور

مولوی عبد اللہ صاحب بازید پوری صاحب زاہ حکیم محمد صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ 

مولانا سید محمد ولی رحمانی امیر شریعت سابع 

وسعت ظرفی اور حکمت عملی 

 علم و فضل کے اعلی مقام پر فائز ہوتے ہوئے بھی مولانا کے مزاج میں حد درجہ سادگی، اور خاکساری تھی، ان کی شفقت و محبت کا انداز  ہر کہ و مہ پر برابر تھا، ( نقیب 21 مئی 1973ء) مولانا درویش صفت، متواضع مزاج، اور خلوت پسند تھے، شریعت اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پابند، سادگی کے پیکر تھے، ( نقیب 21 مئی 1973ء ص 16) اعلی ظرفی اور کشادہ قلبی میں اپنی مثال آپ تھے، فراخ دلی، عالی ہمتی میں منفرد مقام پر فائز تھے، جب امیر شریعت ثانی حضرت مولانا شاہ محی الدین قادری کا انتقال ہوا، اور امیر شریعت ثالث کے انتخاب کا مسئلہ سامنے آیا،  تو آپ نے بڑی حکمت و مصلحت سے انتخاب کا مسئلہ حل کردیا، اور حضرت مولانا شاہ قمر الدین قادری تیسرے امیر شریعت منتخب ہوئے۔

”جب امیر شریعت ثالث حضرت مولانا شاہ قمر الدین قادری کا انتقال ہوا، اور انتخاب امیر رابع کا مسئلہ سامنے آیا، دعوتی خطوط کی تعداد سات سو تھی، ہندوستان کے ممتاز علماء کو بھی دعوت دی گئی، جن میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیوبند، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، حضرت مولانا فخر الحسن مرادآبادی صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند قابل ذکر ہیں، اسی طرح دار العلوم دیوبند کے دو مصری اساتذہ شیخ عبد المنعم النمر، شیخ عبد العال العقباوی بھی اجلاس میں مدعو تھے، انہوں نے شرکت بھی فرمائی، یہ دونوں شیوخ جامعہ الازہر مصر کی طرف سے دار العلوم دیوبند میں ادب عربی کی تدریسی خدمت پر مامور تھے۔

 24 مارچ 1957ء کو سات سو مدعوئین، ارکان جمعیۃ علماء بہار، اور ارکان شوری امارت شرعیہ کا اجتماع حضرت مولانا ریاض احمد صاحب کی صدارت میں ہوا، سب سے پہلے نائب امیر شریعت حضرت مولانا عبد الصمد صاحب رحمانی علیہ الرحمہ نے اجلاس کے انعقاد کی غرض اور اس کا مقصد بتلاتے ہوئے اعلان کیا کہ ” آپ حضرات آزادی کے ساتھ امیر شریعت جیسے اہم منصب کے لئے ایسے بزرگوں کا نام پیش کریں جو اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی سنبھال سکیں۔

حضرت نائب امیر شریعت کے اعلان پر چار نام پیش ہوئے:(1) حضرت مولانا شاہ امان اللہ صاحب سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف  پٹنہ (2) حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ صاحب رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر۔(3) حضرت مولانا شاہ نظام الدین صاحب خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف (4) حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی نائب امیر شریعت۔

حضرت نائب امیر شریعت نے اپنا نام واپس لے لیا، اور فرمایا کہ اسے خارج از بحث سمجھاجائے، پھر آپ نے اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ سب نام ایسے پیش کئے گئے ہیں جن کا احترام صوبہ بہار میں ہر طبقہ کرتا ہے، اس لئے اس اجلاس میں ناموں کی وجہ ترجیح پر بحث نہ کی جائے، اور ایک سب کمیٹی بنادی جائے، جو اس مسئلہ پر بحث کرکے اور متفق ہوکر ایک نام آپ کے سامنے پیش کردے، کمیٹی کی طے کردہ رائے آپ کی رائے ہوگی۔اور اس کا متفقہ طور پر تجویز کیا ہوا نام اس مشترکہ اجلاس کو منظورہوگا۔“( امارت شرعیہ : دینی جد وجہد کا روشن باب۔ص 127)

بظاہر یہ چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے کہ مولانا نے اپنا نام واپس لے لیا، دو دو امیر آپ کی نیابت میں امیر شریعت منتخب ہوئے، مولانا منت اللہ رحمانی کی بچے سے جوانی تک علمی و فکری سرپرستی کی تھی، یہ آپ کی  وسعت ظرفی کا اعلیٰ ثبوت ہے  کہ آپ نے ادارہ کی حفاظت کے لئے اکابر کی روایت زندہ و تابندہ رکھی ، آپ کے یہی وہ مخلصانہ محاسن و کردار ہیں، جو آپ کی مقبولیت عامہ کا سبب بنا, امارت شرعیہ کی نیو مضبوط کرگیا،

انہوں نے صرف اپنی ہی قوم و ملت کی خدمت نہیں کی، بلکہ وہ عالم انسانیت کے لئے شمع ہدایت بن کر  سامنے رہے، انہوں نے صرف دنیاوی مسائل کے حل ہی پیش نہیں کئے، بلکہ دین کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے تبلیغ و اشاعت کا کام بھی انجام دیا۔

شادی: آپ نے تین شادی کیں، پہلی شادی مانڈر ضلع کھگڑیا میں ہوئی، اور  عقد نکاح کے بعد یہیں سکونت اختیار کرلی، ان سے ایک لڑکا ابو صالح، اور ایک لڑکی صالحہ ہوئی، بیٹی صالحہ کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا، مولانا ابو صالح رحمانی جید عالم دین تھے، وہ بھی جواں عمری میں چل بسے، مولانا ابو صالح رحمانی کو دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں، ابو خطیب اور ابو امجد، اور تین بیٹیاں (1)عالیہ خاتون، (2) رابعہ خاتون، (3)راشدہ خاتون. یہ پہلے محل سے اولاد کی تفصیل ہے۔  یہ سب مانڈر میں ہی سکونت پذیر ہیں۔

  دوسری شادی واجد پور، شیخ پورہ ضلع نالندہ میں مریم سے ہوئی، اس محل سے دو بیٹے محمد عیسیٰ رحمانی اور موسی رحمانی ہوئے، ایک بیٹی صالحہ ہوئی۔ محمد عیسیٰ رحمانی کو چار بیٹی اور دو بیٹے ہوئے، ( 1)اسد رحمانی (2) ارشد رحمانی ۔

 بیٹیاں ( 1) شگفتہ (2) شائستہ (3) عظمی (4) شگوفہ۔ دوسری محل کی اولاد باڑھ ضلع پٹنہ میں سکونت پذیر ہیں، اور پھل پھول رہے ہیں۔

تیسرا نکاح لکھنؤ کی بی بی فاطمہ سے ہوا، ان سے صرف ایک لڑکی بی بی عزیزہ خاتون ہوئی، جن کی شادی ماسٹر نہال اختر سے ہوئی ہے۔

آپ کے تمام بچے اور بچیاں خوش و خرم اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

بیماری:  23 محرم 1388 ھ مطابق 1968 ء میں آپ نے مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی کو خط لکھا، اور فرمایا کہ ” مدتوں کے بعد نئی زندگی پاکر یہ خط لکھ رہا ہوں، خونی بواسیر کا اتنا سخت دورہ تھا کہ اس نے زندگی سے مایوس کردیا تھا، بدن میں خون نہیں رہنے کی وجہ سے ہاتھ پاؤں چہرہ پر ورم آگیا، تمام بدن سوج گیا، نشست و برخاست بمشکل ہوتی تھی”۔  

اس زمانے میں ضعف و نقاہت اس درجہ ہوگئی کہ لکھنا پڑھنا کم ہوگیا، مفتی صاحب کو خط میں مخاطب کرکے کہا کہ ” اب تو تصنیف و تالیف کے کام کا ہی نہ رہا، 

__ جڑ کٹ گئی نخل آرزو کی۔

بس اب یہ حال ہے کہ

بھروسہ نہیں اب بجھا تب بجھا

دم اپنا چراغ سر راہ ہے۔” 

اس کے بعد آپ کی طبیعت سنبھل گئی، آئندہ سال پھر طبیعت گڑبڑائی، 11 مارچ 1969ء میں مفتی صاحب کو خط لکھا کہ ” ایک ماہ پر مونگیر سے آیا ہوں، آپریشن کے سلسلے میں داخل اسپتال تھا، چوں کہ ہسپتال میں بے ہوش کیا گیا تھا، اور تیز دوا سونگھائی گئی تھی، دماغ پر اس کا اچھا اثر نہیں ہے، خلا محسوس ہوتا ہے، بس یوں سمجھ لیجئے کہ اب علمی کام کا نہ رہا، نسیان غالب ہے، رکعت بھول جاتا ہوں، اور یاد نہیں رہتا ہے کہ پہلی رکعت میں کون سی سورت پڑھی تھی”۔ ( مشاہیر علماء ہند کے علمی مراسلے. ص 295_299) 

مرض کے اسی سرد و گرم میں حیات کٹتی رہی، 20 فروری 1973 ء کو آپ مغرب کی نماز ادا کررہے تھے، کہ کپڑے میں آگ لگ گئی، آپ لمبی کرتی پہنتے تھے، خوف خدا سے معمور، عبادت میں مشغول، محبوب کے خیال میں گم، پیچھے سے آتشدان کی آگ نے کپڑوں کو جلایا، اس کی لپٹوں نے بدن کو جھلسا دیا اور آپ عبادت میں کھوئے رہے، جب کچھ حصہ جل گیا،پیر ہاتھ اور کمر کا بہت سا حصہ بھی لپیٹ میں آگیا، پھر معلوم ہوا،  اللہ اللہ کیا محویت ،فنائیت  تھی۔( نقیب 21مئی 1973ء ص 15) 

تقریبا چار ماہ بستر علالت پر رہے، علاج ہوا، اور زخم بھرنے لگے، لیکن کمزوری روز بروز بڑھتی گئی، 29 اپریل کو حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی نے خانقاہ رحمانی مونگیر بلالیا، ڈاکٹروں نے نقاہت کا سبب خون کی کمی کو قرار دیا، چنانچہ خون چڑھایا گیا، جس سے حالت کافی سدھر گئی تھی، لیکن 14 مئی 1973ء کو دفعۃ حالت بگڑنے لگی، اور 10  ربیع الثانی 1393ھ مطابق 14مئی 1973ء روز پیر ساڑھے گیارہ بجے دن خانقاہ رحمانی میں آپ کا وصال ہوگیا،  15 مئی 1973 ء کو ساڑھے نو بجے دن میں نماز جنازہ حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نے پڑھائی، اور خانقاہ رحمانی کے قبرستان میں اس یادگار سلف کو سپرد خاک کردیا گیا۔ نور اللہ مرقدہ، ثقَی اللہ ثراہ و جعل الجنۃ مثواہ۔ (نقیب 17 ربیع الثانی 1393ھ مطابق۔ 21مئی 1973ء) 

شاعری کا ذوق: وفات سے قبل آپ کی لائبریری میں یہ شعر لٹکا ہوا تھا، جو آپ کے اعلیٰ ادبی ذوق پر دلالت کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے مولانا صمد تخلص فرماتے تھے۔ 

محروم کرکے شرف شہادت سے اے صمد 

شعلوں نے میرے جسم کو جھڑکا کے رکھ دیا۔(نماز کی باتیں۔ ص 12) 

منظوم خراج عقیدت و تاریخ وفات

آپ کی وفات کے بعد بہت سے عقیدت مندوں نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا، اور قطعہ وفات لکھا۔جو درج ذیل ہے۔

مراثی بر وفات نائب امیر شریعت ثانی

از جناب شہاب شمسی باڑھوی تھانہ مسجد باڑھ

آفتاب علم و حکمت چل بسے     ایک ہمدرد امارت چل بسے

یعنی جن کا نام تھا عبد الصمد   یادگار خیر امت چل بسے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *