فضائل حج بیت اللہ قرآن و احادیث کی روشنی میں

Spread the love

فضائلِ حجِ بیت اللہ قرآن و احادیث کی روشنی میں

محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ

اللہ کے محبوب دانائے غیوب منزہٌ عن العیوب محمد مصطفی ﷺ کا فرمانِ عظمت نشان ہے : ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیںاور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا،رمضان کے روزے رکھنا،حج کرنا اور زکاۃ ادا کرنا‘‘۔دین اسلام میں نماز اور روز ہ کے بعد اگر کسی چیز کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے تو وہ ہے

حجِ بیت اللہ یعنی اللہ رب العزت کے حضور بنیتِ حج حاضر ہوکر اس کی نعمت کا شکریہ بجا لانا ۔ دین ِ اسلام کی سب سے اہم اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسلامی سال کا پہلامہینہ علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے لخت ِ جگر شہید کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی سے شروع ہوتا ہے جسے ہم اسلامی اصطلاح میں محرم الحرام کہتے ہیں وہیں دوسری جانب اسلامی سال کا آخری مہینہ بھی حضرت ابراہیم واسماعیل علہما السلام کی قربانی سے ختم ہوتا ہے جسے ہم ذوالحجہ کے نام سے منسوب کرتے ہیں ۔اور قرآن پاک میں اس بات کا مدلل جواب موجو د ہے جیسا کہ فرمان ِ باری تعالی ہے: ’’ فلما بلغ معہ السعی قال یا بنی انی اری فی المنام انّی اذبحک فانظر ماذا تری قال یأبت افعل ما تؤمر ستجدونی ان شاء اللہ من الصابرین‘‘۔

ترجمہ: پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے کہا اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے(کنز الایمان،پ: 23،سوئہ الصافات ،آیت:102)۔

شیخ الحدیث والتفسیر مفتی ابو صالح محمد قاسم قادری عطاری مد ظلہ العالی اس آیت کے تحت رقم طراز ہیں : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرزندعطا فرمایا،وہ پلتے بڑھتے جب اس عمر تک پہنچ گئے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حاجت اور ضروریات میں ان کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو گئے تو ان سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا’’اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اور انبیاے ِکرام علیہم السلام کے خواب حق ہوتے ہیں اور ان کے افعال اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا کرتے ہیں، اب تو دیکھ لے کہ تیری کیا رائے ہے؟

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ اس لئے کہا تھا کہ ان کے فرزند کو ذبح ہونے سے وحشت نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کے لئے رغبت کے ساتھ تیار ہوجائیں، چنانچہ اس فر زند ارجمند نے اللہ تعالیٰ کی رضا پر فدا ہونے کا کمالِ شوق سے اظہار کرتے ہوئے فرمایا’’اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیاجارہا ہے۔اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے ذبح پرصبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔(صراط الجنان فی تفسیر القرآن ،جلد:1،صفحہ :332)۔

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

اور دوسری جگہ فرمانِ باری تعا لی ہے :’’ ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت أواعتمرفلا جناح علیہ أن یطوف بہما فمن تطوع خیرا فان اللہ شاکر علیم‘‘۔ترجمہ : بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے چکر لگائے اور جو کوئی اپنی طرف سے بھلائی کرے تو بیشک اللہ نیکی کابدلہ دینے والا، خبردار ہے۔(کنز الایمان،پ: 2،سورئہ بقرہ ، آیت:158)۔

حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تفسیر نعیمی میں اس آیت کے تحت قلم طراز ہیں :اے مسلمانوں! تم صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے سے اس لئے نہ ڈرو کہ اس میں مشرکین کی مشابہت یا بت پرستی کا شائبہ ہے ان کفار نے تو بعد میں وہاں بت پرستی شروع کر دی یہ پہاڑ تو اول ہی سے اللہ کی نشانیاں ہیں جس سے تمہارے بزرگوں کی قربانی کی یادگاریں قائم ہیں اور یہاں بہت سے دینی کام ہوتے ہیں ان کی عزت و عظمت ذاتی ہے عارضی بتوں کی گندگی سے ان کا جو ہر ذاتی کہاں جائے گا

خاص خانہ کعبہ میں بھی بت رہے اور بیت اللہ بت خانہ بنارہا تو کیا اس گندگی سے اس کی عزت گھٹ گئی یا اس کا طواف اور اس کی طرف نمازبت پرستی کی مشابہ ہو گیا نہیں ایسے ہی یہاں بھی سمجھ لو لہذا ہم تمہیں آگاہ کرتے ہیں کہ جو بھی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دوڑنے میں اس پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ وہ رضاء الہی کے لئے یہ کر رہا ہے نہ کہ پوجا کی نیت سے اور رب کا یہ دستور ہے کہ جو کوئی نیت خیر سے کوئی بھی اچھا کام کرے اسے اچھا بدلہ عطا فرماتا ہے۔ ایسے ہی تمہاری یہ سعی بے فائدہ نہ جائے گی۔(تفسیر نعیمی ، جلد :2،صفحہ: 103)۔

جس طرح قرآنی آیات میں کثرت کے ساتھ صاحب استطاعت کو حج کرنے کا حکم دیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی را ہ میں خلوص نیت سے حج کرنے کے لیے نکلتے ہیں ان کے گناہ اللہ معاف فرمادیتا ہے اور حج کے بعد گناہوں سے پاک ہوکر اس طرح لوٹتا ہے گویا اس کی ماں نے اسے آج جنم دیا ہے ۔ بالکل اسی طرح احادیثِ نبوی ﷺ میں بھی کثرت کے ساتھ حج بیت اللہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ تو اب احادیث ِ مصطفوی کی روشنی میں فضائل حج سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے پس تم حج کرو۔ ایک آدمی کہنے لگا اے اللہ کے رسول! کیا ہر سال فرض ہے آپ چپ رہے اس نے تین مرتبہ کہا آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہ دیتا

حج واجب ہو جاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے پھر فرمایا جب تک میں تم کو چھوڑوں تم مجھ کو چھوڑ دو پہلے لوگ اپنے نبیوں پر کثرت سے سوالات کرنے اور اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے جس وقت میں تم کو کسی کام کا حکم دوں جس قدر تم کو طاقت ہو کرو اور جس وقت تم کوکسی بات سے روکوں رک جاؤ۔ (مشکوۃ المصابیح ،ج:1،صفحہ:785) ۔

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کون سا عمل افضل ہے فرمایا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ایمان لانا ،کہا گیا۔ پھر کون سا فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، کہا گیا پھر کون سا فرمایا مقبول حج (متفق علیہ)

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ کے لئے حج کرے اور اپنی عورت سے محبت کی باتیں نہ کرنے اورگناہ کا کام نہ کرے وہ لوٹ آتا ہے اور گنا ہوں سے اس طرح پاک ہوتا ہے گو یا اس کی ماں نے اسے آج جنم دیا ہے۔ (متفق علیہ)۔ اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک عمرہ دوسرے عمرے تک درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت ہے (رواہ مسلم و بخاری)۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان کے مہینہ میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہو جاتا ہے (رواہ مسلم و بخاری)۔ اسی طرح ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روحاء میں ایک قافلہ سے ملے آپ نے فرمایا تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا ہم مسلمان ہیں، انہوں نے کہا آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں۔ ایک عورت نے ایک بچہ آپ کی طرف اٹھایا اور کہا کیا اس کے لئے حج ہے فرمایا ہاں اور اس کا ثواب تیرے لیے ہے۔ (مشکوۃ المصابیح،ج:1،786)۔

اسی طرح ابن عباس سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا میری بہن نے حج کی نذر مانی تھی اب وہ مرگئی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس پر قرض ہوتا کیا تو اس کو ادا کرتا اس نے کہا ہاں تو رسول اللہ ﷺ فرمایا :اللہ کے قرض کو ادا کر وہ ادا کرنے کا زیادہ حقدار ہے (رواہ مسلم و بخاری)۔

اسی طرح ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے اور کوئی عورت سفر نہ کرے مگر اس کے ساتھ محرم ہو ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول میں فلاں فلاں جنگ میں لکھ دیا گیا ہوں اور میری بیوی حج کے لئے نکلی ہے آپ نے فرمایا جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کہ (رواہ مسلم و بخاری)۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا جہاد حج ہے (متفق علیہ)۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل للہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی عورت ایک دن اور رات کی مسافت کا سفر نہ کرے مگر اس کے ساتھ محرم ہو۔ (متفق علیہ)

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے احرام باندھنے کے لئے جگہ مقرر فرمائی ہے۔ اہل مدینہ کے لیے ذو الحلیفہ، اہل شام کے لئے حجفہ، اہل سنجد کے لئے قرن منازل ،اہل یمین کے لئے یلمیلم یہ ان میں رہنے والے لوگوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے ہیں جو ان پر سے گزریں اور ان میں رہنے والے نہ ہوں اس شخص کے لئے جو حج اور عمرہ کا ارادہ کرے جو شخص ان کے اندر رہتا ہے اس کے لیے احرام باندھنے کی جگہ اس کا گھر ہے اور اسی طرح اور اسی طرح یہاں تک کہ اہل مکہ مکہ سے احرام باندھیں گے (رواہ مسلم و بخاری)۔

ابور ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اہل مدینہ کے احرام باندھنے کی جگہ ذو الحلیفہ ہے اور دوسری راہ سے حجفہ ہے، اہل عراق کے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق ہے، اہل نجد کے احرام باندھنے کی جگہ قرن ہے اور اہل یمین کی یلمیلم ہے (رواہ مسلم)۔

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مرتبہ عمرہ کی تمام عمر سے ذو القعد میں کئے مگر وہ عمرہ جو آپ نے حج کے ساتھ کیا۔ ایک عمرہ حدیبیہ سے ذیقعدہ میں، دوسرا عمرہ آئندہ سال ذیقعدہ میں، ایک عمرہ جعرانہ سے جہاں جنین کی غنیمتیں تقسیم کیں ذوالقعدہ میں اور ایک عمرہ حج کے ساتھ۔ (رواہ مسلم و بخاری)

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے حج کرنے سے پہلے دو مرتبہ ذوالقعدہ میں عمرہ کیا ۔(مشکوۃ المصابیح ،ج:1صفحہ: 788)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے۔ اقرع بن حابس کھڑا ہوا اس نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺکیا ہر سال فرض ہے آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا فرض ہو جا تا اگر فرض ہو جا تا تم اس پر عمل نہیں کر سکتے تھے اور نہ تم کو اس بات کی طاقت تھی حج فرض ایک مرتبہ ہے جو زیادہ کرتا ہے وہ نفل ہے۔ (رواہ احمد ،نسائی و دارمی) ۔ 

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص زاد راہ اور سواری کا مالک ہے جو اس کو بیت اللہ تک پہنچا دے وہ حج نہ کرے اس پر کوئی فرق نہیں ہے یہ کہ وہ یہودی مرے یا عیسائی اور یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے اللہ کے واسطے لوگوں پر حج فرض ہے جو شخص اس کی طرف راستہ کی طاقت رکھے (مشکوۃ المصابیح ،ج:1صفحہ: 789)۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ضرورۃ (با وجود طاقت رکھنے کے حج نہ کرنا اسلام میں نہیں ہے (مشکوۃ المصابیح ،ج:1صفحہ: 789)۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو شخص حج کرنے کا ارادہ کرے وہ جلدی کرے (مشکوۃ المصابیح ،ج:1صفحہ: 789)۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پے در پے حج اور عمرہ کرو اس لئے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لو ہے سونے اور چاندی کی میل دور کر دیتی ہے۔ حج مقبول کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں ہے(مشکوۃ المصابیح ،ج:1صفحہ: 789)۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ایک آدمی کو سنا وہ لبیک کہتے ہوئے کہ کہہ رہا ہے لبیک شہرمہ کی طرف سے۔ آپ نے فرمایا شہرمہ کون ہے اس نے کہا میرا بھائی ہے یا کہا میرا ایک قریبی عزیز ہے آپﷺ نے فرمایا تو نے اپنی طرف سے حج کر لیا ہے اس نے کہا نہیں آپ ﷺنے فرمایا اپنی طرف سے حج کر لے پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔(رواہ امام شافعی،ابودائود و ابن ماجہ )۔

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ کیا عورتوں پر جہاد ہے ؟فرمایا ہاں ان کا جہاد ایسا ہے جس میں لڑائی نہیں ہے وہ حج اور عمرہ ہے۔

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے ورایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص کو صبح سے کوئی ظاہری ضرورت یا ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری نہ رو کے پھر وہ حج نہ کرے اور مر جائے وہ چاہے یہودی مرے یا عیسائی۔(مشکوۃ المصابیح ،ج:1،صفحہ : 792)۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں اگر اس سے دُعا کریں ان کی دُعا قبول کرتا ہے اگر اس سے بخشش طلب کریں ان کو بخش دیتا ہے۔ (مشکوۃ المصابیح ،ج:1،صفحہ : 792)۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص حج کرنے یا عمرہ کرنے یا جہاد کرنے کے لئے نکلا پھر وہ اپنے راستہ میں فوت ہو گیاتو اللہ تعالٰی اس کے لیے حج کرنے والے عمرہ کر نے و الے اور جہاد کرنے والے کا ثواب لکھ دیتا ہے۔(رواہ نسائی ،بہیقی فی شعیب الایمان)۔ اس طرح متعدد احادیث میں فضائل حج بیان کیے گئے ہیں ۔

تو جو بھی شخص حج کرنے کی قدرت رکھتاہے اسے چاہیے کہ وہ بیت اللہ کا حج کرے اور اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرے اور یقینا حج کرنے سے سارے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح ایک سوکھے درخت کو ہلانے کے بعد اس کے پتے جھڑتے ہیں۔ اور ساتھ میں عمرہ کرنے کی نیت بھی کر کے جائیں کیوںکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد عالی شان ہے :’’ من زار قبری وجبت لہ شفاعتی ‘‘ ترجمہ : کہ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہر صاحبِ استطاعت کو حج کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بھی مکہ مکرمہ میں حاضر ہونے اور رسول اللہ ﷺ کی قبر کی زیارت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ

رابطہ نمبر:9037099731

ڈگری اسکالر : دارالہدی اسلامک یونیورسٹی ، ملاپورم ،کیرالا

2 thoughts on “فضائل حج بیت اللہ قرآن و احادیث کی روشنی میں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *