سیرت سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللّٰه تعالیٰ عنہا
سیرت سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللّٰه تعالیٰ عنہا
✍🏻محمد یونس رضوی مصباحی،کولکاتا
خادم:جامعہ غوثیہ رضویہ،کولکاتا رکن:صفہ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن آف جامعہ اشرفیہ،مبارک پور اعظم گڑھ
ولادت:
حضرت فاطمہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہا حضور صلی الله علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروزجمعہ بعثت کے پانچویں سال مکہ میں ہوئی۔
القاب اور کنیت:
آپ کے مشہور القاب میں زھرا، سیدۃ النساء العالمین(تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار) اور بتول ہیں۔ مشہور کنیت ام الائمہ، ام السبطین اور ام الحسنین ہیں۔ آپ کا مشہور ترین لقب سیدۃ النساء العالمین ایک مشہور حدیث کی وجہ سے پڑا جس میں حضرت محمد نے ان کو بتایا کہ وہ دنیا اور آخرت میں عورتوں کی سیدہ (سردار) ہیں۔ اس کے علاوہ خاتونِ جنت، الطاہرہ، الزکیہ، المرضیہ، السیدہ وغیرہ بھی القاب کے طور پر ملتے ہیں۔
حالاتِ زندگی:
بچپن: آپ کی ابتدائی تربیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کی۔ اس کے علاوہ آپ کی تربیت میں اولین مسلمان خواتین شامل رہیں۔ بچپن میں ہی آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔
آپ کے بچپن ہی میں ہجرتِ مدینہ کا واقعہ پیش آیا۔ ربیع الاول میں بعثت کی دس تاریخ کو ہجرت ہوئی۔ مدینہ پہنچ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ اور ابو رافع کو 500 درھم اور اونٹ دے کر مکہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا چناں چہ وہ کچھ دن بعد مدینہ پہنچ گئیں۔
بعض دیگر روایات کے مطابق انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ بعد میں لے کر آئے۔ 2 ہجری تک آپ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کی زیرِ تربیت رہیں۔ 2ھ میں رسول اللہ نے حضرت ام سلمیٰ سے عقد کیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ان کی تربیت میں دے دیا۔
حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میرے سپرد کیا گیا۔ میں نے انہیں ادب سکھانا چاہا مگر خدا کی قسم فاطمہ تو مجھ سے زیادہ مؤدب تھیں اور تمام باتیں مجھ سے بہتر جانتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت محبت کرتے تھے۔
شادی:
بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے علی!خدا کا حکم ہے کہ میں فاطمہ کی شادی تم سے کر دوں۔ کیا تمہیں منظور ہے۔ انہوں نے کہا ہاں!چناں چہ شادی ہو گئی۔ یہی روایت صحاح میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے کی ہے۔
ایک اور روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے کردوں۔
بعض روایات کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود خواہش کا اظہار فرمایا تو حضور نے قبول فرمالیا اور کہا: مرحباً و اھلاً۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شادی یکم ذی الحجہ 2ھ کو ہوئی۔ کچھ اور روایات کے مطابق امام محمد باقر و امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ نکاح رمضان میں اور رخصتی اسی سال ذی الحجہ میں ہوئی۔شادی کے اخراجات کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زرہ 500 درھم میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچ دی اور بعد ازاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہی زرہ تحفۃً انہیں لوٹادی۔
یہ رقم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ کے حوالے کر دی جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر قرار پایا۔ جب کہ بعض دیگر روایات میں مہر 480 درھم تھا۔
شادی کے بعد:
آپ کی شادی کے بعد زنانِ قریش انہیں طعنے دیتی تھیں کہ ان کی شادی ایک غریب سے کردی گئی ہے۔ جس پر انہوں نے رسالت مآب سے شکایت کی تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ پکڑا اور تسلی دی کہ اے فاطمہ!ایسا نہیں ہے بلکہ میں نے تیری شادی ایک ایسے شخص سے کی ہے جو اسلام میں سب سے اول، علم میں سب سے اکمل اور حلم میں سب سے افضل ہے۔
کیا تمہیں نہیں معلوم کہ علی میرا بھائی ہے دنیا اور آخرت میں؟۔ یہ سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہنسنے لگیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ بابا جان میں اس پر راضی اور خوش ہوں۔
شادی کے بعد آپ کی زندگی طبقہ نسواں کے لیے ایک مثال ہے۔ آپ گھر کا تمام کام خود کرتی تھیں مگر کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں آیا۔ نہ ہی کوئی مددگار یا کنیز کا تقاضا کیا۔ 7ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک کنیز عنایت کی جو حضرت فضہ کے نام سے مشہور ہیں۔
ان کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے باریاں مقرر کی تھیں یعنی ایک دن وہ کام کرتی تھیں اور ایک دن حضرت فضہ رضی اللہ عنہا کام کرتی تھیں۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ بچے کو گود میں لیے چکی پیس رہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک کام فضہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دو۔ آپ نے جواب دیا کہ بابا جان آج فضہ کی باری کا دن نہیں ہے۔
آپ کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی مثالی تعلقات تھے۔ کبھی ان سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہابیمار پڑیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ۔ آپ نے کہا کہ میرے پدر بزرگ وار نے تاکید کی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں، ممکن ہے کہ آپ اس کو پورا نہ کرسکیں اور آپ کو رنج ہو۔اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب قسم دی تو انار کا ذکر کیا۔
آپ رضی اللہ عنہا نے کئی جنگیں دیکھیں جن میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمایاں کردار ادا کیا مگر کبھی یہ نہیں چاہا کہ وہ جنگ میں شریک نہ ہوں اور پیچھے رہیں۔ اس کے علاوہ جنگ احد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سولہ زخم کھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا مگر آپ نے کسی خوف و ہراس کا مظاہرہ نہیں کیا اور مرہم،پٹی، علاج اور تلواروں کی صفائی کے فرائض سرانجام دیے۔
اولاد:
اللہ نے آپ کو دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔دونوں بیٹوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بیٹا کہتے تھے اور بہت پیار کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ ان کے نام بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی رکھے تھے۔
واقعہ مباہلہ:
مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے اور ان چند واقعات میں سے ایک ہے جس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنگ کے علاوہ گھر سے نکلنا پڑا۔ نجران کے مسیحی جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئے اور بحث کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور کسی طرح نہ مانے تو اللہ نے قرآن میں درج ذیل آیت نازل کی:
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَھِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿سورہ:آل عمران،آیت:٦١﴾
’’اے پیغمبر! علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے بحث کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں‘‘۔
اس کے بعد مباہلہ کا فیصلہ ہوا کہ عیسائی اپنے برگزیدہ لوگوں کو لائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے برگزیدہ بندوں کے ساتھ آئیں گے اور مباہلہ کریں گے اور اسی طریقہ سے فیصلہ ہوگا۔ اگلی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ حضرت حسن وحسين رضی اللہ عنھما کو چادر میں لپیٹے ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لیے ہوئے آئے۔ ان لوگوں کو دیکھتے ہی عیسائی مغلوب ہو گئے اور ان کے سردار نے کہا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے بد دعا کریں تو روئے زمین پر ایک بھی عیسائی سلامت نہ رہے۔
ایام وصال مصطفی:
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وصال سے قبل مرض وصال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نزدیک بلا کر ان کے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں۔اس کے بعد آپ نے پھر سرگوشی کی تو آپ رضی اللہ عنہا مسکرانے لگیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میرے بابا نے اپنی موت کی خبر دی تو میں رونے لگی۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے میں ان سے جاملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔
وفات: رسول اللہ کا وصال ایک عظیم سانحہ تھا جو حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے لئے کوہ گراں ثابت ہوا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے کچھ ماہ بعد آپ سلام اللہ علیہا کی وفات ہوئی۔ اس کی تاریخ 3 رمضان المبارک 11ھ ہے۔ آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں جہاں پر ایک روضہ بھی بنا ہوا تھا جسے سعودی حکومت نے 8 شوال 1344ھ کو شہید کردیا۔ احادیث میں فضائل: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اور یہ خوش خبری دے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہے اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں۔
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ رضی اللہ عنہا میری جان کا حصہ ہے۔ اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے۔