اسلام کی بنیاد اجتماعیت پر ہے اور امارت اسی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے

Spread the love

امارت کی فکر، قیادت کا سوال اسلام کی بنیاد اجتماعیت پر ہے اور امارت اسی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے

آبادی کے تناسب میں اپنے امیدواروں کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی سے امیر شریعت بہار، جھاڑکھنڈ و اڑیسہ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے عوام کو کرایا روشناس اور عام عوام میں زبردست بیداری مہم کی کر دی شروعات

محمد رفیع

قیادت کے سوال پر، مسلمانوں کی سیاسی ناکامی پر کوئی بھی خاموش نہیں ہے، مسلم رہنما، مسلم تنظیمیں، سبھی سرگرم ہیں، فکر مند ہیں لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ سیاسی منصوبہ ساز پرشانت کشور نے بہار کے ضلع دربھنگہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہوئے ایک نشست میں کہا کہ انڈیا میں 18 فیصد کی ایک قوم ہے جس کا ملک میں کوئی رہنما نہیں۔ کوئی تو وجہ ہوگی کہ آپ کا ملک میں رہنما نہیں ہے؟ 18 فیصد کے حساب سے آپ انڈونیشیا کے بعد انڈیا میں سب سے بڑی قوم ہیں۔ اتنی بڑی آبادی اور آپ کا کوئی رہنما نہیں؟ کوئی سماج سے کھڑا ہی نہیں ہوا، تو کہیں نہ کہیں آپ کی سیاسی سوچ میں کمی ہے بھائی! پرشانت کشور نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ جدو جہد نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

آپ سوچ رہے ہیں کہ کوئی راہل گاندھی مل جائے، کوئی تیجسوی یادو، کوئی پرشانت کشور مل جائے، کوئی ممتا بنرجی کھڑی ہو جائے جس کے پیچھے ہمارا بیڑا پار ہو جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے، جب تک کہ آپ جدو جہد کے لئے کھڑے نہیں ہوں گے، تب تک آپ کا بھلا نہیں ہو سکتا ہے، آپ اگر ہمارے ساتھ جڑیں گے تو ہم بھی آپ کا بھلا نہیں کریں گے۔ جس قوم کو، جن لوگوں کو اپنی فکر نہیں ہے اس کی فکر دوسرا کیوں کرے۔ پرشانت کشور کی باتوں میں دم ہے، ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن ہمارے پاس حل کیا ہے؟

انتہائی اعلی فکر کے مالک، قوم و ملت کے سچے ہمدرد امیر شریعت بہار، جھارکھنڈ و اڑیسہ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی منگیر قیادت کے سوال پر جہاں مسلمانوں کی نادانیوں کا ذکر کرتے ہیں وہیں اس مرض کا حل بھی بتاتے ہیں۔ پٹنہ میں انہوں نے امارت کے ایک خصوصی اجلاس بعنوان ” موجودہ حالات و ہماری ذمہ داریاں ” سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ” ہم لوگ پچھلے بہت سالوں سے امید لگائے بیٹھے ہیں ایک مسیحا کے آنے کا۔ ایک مسیحا، جو ہمیں فرعون سے بچا کر کے دریا پار کرا دے گا۔

فرعون ختم ہو گیا، موسیٰ علیہ السّلام جا چکے۔ آپ کے پاس قرآن موجود ہے، جو یقیناً آپ کو دریا پار کرا سکتا ہے۔ اگر میں ہاتھ اٹھوا دوں کہ آج کتنے لوگوں نے قرآن پڑھا ہے تو بہت مشکل ہو جائے گی۔ دو صفحہ قرآن؟ دو رکوع؟ مشکل ہو جائے گی۔ یہ بتاتا ہے کہ ہم ناکامیاب کیوں ہیں۔ تو کامیابیوں کی راہ محمد صل اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے طریقے میں پوشیدہ، ایسا کچھ نہیں ہے جو ہمیں معلوم نہیں۔ کسے معلوم نہیں ہے کہ تمیز پیدا کرنا پڑتا ہے؟

کسے معلوم نہیں ہے کہ تعلیم میں تمیز پیدا کئے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی؟ کسے معلوم نہیں ہے کہ اتحاد کے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی؟ کسے معلوم نہیں ہیں یہ باتیں؟ بنیادی باتیں ہیں، سب کو پتہ ہے۔ ہم نے بچپن میں پڑھا ہے کہ جھاڑو کا تنکا تنکا اگر جوڑ دیا جائے تو جھاڑو پھیر سکتے ہیں، اکیلے اکیلے بہتا رہتا ہے۔ لیکن ہم متحد نہیں ہو رہے۔ جبکہ ہمارے پاس کلمہ ہے، لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم۔ سال 2019 کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں آبادی کے حساب سے نمائدگی کی بات ہوتی ہے تو پہلے اس گراف پر غور کر لینا ضروری ہے۔ مسلم آبادی۔ 22 کروڑ 50 لاکھ (16٪) ہے اور ممبر آف پارلیمنٹ 27 (4.9٪) ہیں عیسائی آبادی 2.3 فیصدی ہے اور ممبر آف پارلیمنٹ 19 (3.5٪) ہیں سکھ آبادی 1.7 فیصدی ہے ممبر آف پارلیمنٹ 13(2.3٪) ہیں بدھسٹ آبادی 0.7 فیصدی ہے ممبر آف پارلیمنٹ 1 (01.0٪) ہے شیڈول کاسٹ آبادی 16.6 فیصدی ہے اور ان کے لئے 84 سیٹ ریزرو ہیں شیڈول ٹرائب آبادی 8.6 فیصدی ہے جبکہ 47 سیٹ ان کے لئے ریزرو ہیں حضرت امیر شریعت بتاتے ہیں کہ سال 2019 میں ایوان زیریں میں مسلم نمائندوں کی تعداد 27 ہے جبکہ ساڑھے 14 فیصدی آبادی کے مطابق ہمارے نمائندوں کی تعداد 77 اور 16 فیصدی آبادی کے مطابق 86 ہونے چائے تھے۔ پرشانت کشور کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 18 فیصدی ہے تو مسلمانوں کے نمائندوں کی تعداد 98 ہونی چاہئے۔

حضرت امیر شریعت نے سال 1952 سے اب تک تمام انتخابات میں مسلم نمائندوں کی تعداد اور اس آبادی کے تناظر میں کل نمائندوں کی تفصیل بھی بتائی ہے۔ انہوں نے گراف کے ذریعہ بتایا کہ سب سے کم مسلم نمائنے جو ہندوستان کے پہلے انتخاب سال 1952 میں کامیاب ہوئے تھے ان کی تعداد 11 ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ سال 1980 میں 49 (9 فیصدی) ممبر آف پارلیمنٹ مسلم تھے۔ لیکن اس کے بعد گرتے گرتے مسلم ممبر آف پارلیمنٹ کی تعداد 27 (4.9 فیصدی) پر سمٹ گئی ہیں۔ اس کے ذمہ دار خود مسلمان ہی ہیں۔ پوری وضاحت کے ساتھ وہ بتاتے ہیں کہ کل 60 سیٹیں چند 100 ووٹ سے ہاری اور جیتی گئی ہیں‌، مسلمان 16 سیٹ پر آمنے سامنے لڑے ہیں ان میں سے 16 نہیں تو 9 سیٹ پر بھی کامیابی ملتی لیکن صرف 6 سیٹوں پر ہی کامیابی ملی یعنی 10 سیٹوں کا سیدھے سیدھے نقصان ہوا۔ اتر پردیش کے دیوبند سیٹ کی مثال پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جیتنے والے کو جتنی ووٹیں ملیں اس سے زیادہ ووٹ ان دو ہارنے والوں کو ملے تھے

جو ایک ہو سکتے تھے اور دوسرے لوگ بھی انہیں ووٹ کرتے۔ اس کے علاوہ ایوان زیریں میں مسلم نمائندوں کی کم ہوتی تعداد کے کئی اور وجوہات کا وہ ذکر کرتے ہیں اور پھر سب کا ریمیڈیز بھی بتاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق قریب 30 فیصدی مسلم آبادی ووٹ کے لئے رجسٹرڈ نہیں ہے اور جو رجسٹرڈ ہیں ان میں قریب 50 فیصدی مسلمان ووٹ نہیں ڈالتے۔

جس کا نتیجہ ہے کہ 40 فیصدی ممبر آف پارلیمنٹ پر فوجداری کے مقدمے ہیں، ایسا انہوں نے اس لئے کہا کیونکہ مسلمانوں کا ووٹ حق و بدعنوانی کے خلاف شفافیت کے لئے ہوتا ہے۔ یہاں ہم اپنی غلطیوں کا محاسبہ کر کے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم صد فیصد رجسٹرڈ ہو جائیں اور ووٹ کاسٹ کرنے کو ترجیح دیں تو ہمارے نمائندوں کی تعداد خودبخود بڑھ جائے گی اور بدعنوان ممبر آف پارلیمنٹ کی تعداد کم ہو جائے گی۔

دوسری طرف حکومت کی جانب سے جو مسلمانوں کے ساتھ کھیل ہوا ہے اس کا بھی اثر ہماری نمائندگی پر پڑا ہے۔ درجہ فہرست ذات و قبائل کے لئے جو 84+47 سیٹیں ریزرو کی گئی ہیں اس میں اچھی تعداد ویسے سیٹوں کی ہے جہاں پر مسلم آبادی 30 فیصدی تک ہے اور مسلمان وہاں سے انتخاب نہیں لڑ سکتے۔ اسمبلی حلقہ میں بھی یہی سب کھیلا ہوا ہے۔ دوسرے یہ کہ انتخابی حلقوں کے ڈی لیمیٹیشن (حد بندی) کے معاملے میں بھی مسلمان سازش کا شکار ہوئے ہیں۔

حضرت امیر شریعت بتاتے ہیں کہ ڈی لیمیٹیشن ضروری ہے لیکن ڈی لیمیٹیشن کے نام پر جیری مینڈرنگ کی گئی ہے یعنی غیر منصفانہ طریقے سے ڈی لیمیٹیشن کی گئی ہے۔ رول آف لاء کے خلاف جاکر مسلم آبادی کو نشانہ بنا کر ایسا کام ہوا ہے جس سے ہمارے نمائندوں کی تعداد پر برا اثر پڑا ہے۔ امارت اس کا تجزیہ و ایسے حالات سے نمٹنے کے لئے ایک دفتر قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

بہار میں 72 فیصدی سیٹوں پر، آسام میں 14 سیٹوں پر اور لگ بھگ تمام ریاستوں میں بڑے پیمانے پر جیری مینڈرنگ کی گئی ہے۔ ڈی لیمیٹیشن کا جو معاملہ ہے اس میں بڑے پیمانے پر غیر ضابطگی ہوئی ہے جس کا اندازہ ہم اپنے پاس پروس میں مقامی ادارہ یعنی پنچایت، ضلع پریشد و کونسلر کے لئے مختص علاقوں کا جائزہ کے ذریعہ لے سکتے ہیں۔ جان بوجھ کر مسلم آبادی کو اس طرح سے تقسیم کیا گیا ہے کہ کوئی بھی مسلم امیدوار کامیاب نہ ہوسکے۔ اس میں بھی لعنت ایسی کہ ایک مسلم امیدوار کو ہرانے کے لئے دوسرا اور تیسرا بھی میدان میں کود پڑتا ہے۔

ایوان زیریں میں مسلم نمائندوں کی تعداد کم ہونے کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان کی سیاسی جماعتیں کم تعداد میں مسلمانوں کو امیدوار بناتے ہیں۔ امیدوار بنانا بڑی بات نہیں بلکہ ہمارا دباؤ سیاسی جماعتوں پر یہ ہونا چاہئے کہ جیتنے والی سیٹوں پر مسلمانوں کو امیدوار بنایا جائے۔ حضرت امیر شریعت نے کہا کہ بنارس سے اگر مسلمان کو امیدوار بنا دیا جائے تو رزلٹ کیا ہوگا؟ کیجریوال تو اپنی ضمانت بھی نہیں بچا پائے تھے،

مسلم امیدوار کا کیا ہوگا؟ وہ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی نے 100 کے نمبر میں مسلمانوں کو امیدوار بناتی ہیں لیکن رزلٹ صفر۔ اس لئے جیتنے والے سیٹوں پر ہی مسلمانوں کو امیدوار بنایا جانا چاہئے۔ حضرت امیر شریعت نے بار بار اشارہ کیا ہے کہ ہمارے ناکامی کا اصل اور واحد وجہ ہے کہ ہم متحد نہیں ہیں۔ حضرت امیر شریعت ایک بات مظبوطی کے ساتھ کہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ جمہوریت فٹبال کا کھیل ہے۔ اس لئے ہر ایک کو ہر وقت کھیلنا ہے‌، گول کھانا ہے اور پھر اٹھ کر گول کرنا بھی ہے۔

وہیں وہ بتاتے ہیں کہ کچھ کام انتخاب کے قبل اور کچھ انتخاب کے بعد جبکہ کچھ کام ہمیشہ کرنے کے ہیں۔ ابھی جو کام مضبوطی کے ساتھ کرنا ہے اس کی تحریک امارت شرعیہ نے چھیڑ دی ہے۔ پہلے تو ضلع اور پنچایت تک کے رہنماؤں کو بلاکر ان باتوں سے روشناس کرایا پھر اب لیٹر جاری کر عوام کے درمیان تین کام خوب کرنے کی ترغیب دی ہے، اول جیری مینڈرنگ کا ہر ذمہ دار اپنے علاقہ کا تجزیہ کر کے امارت شرعیہ کو مطلع کریں کی حد بندی غیر منصفانہ ہوئی ہے۔ دوسرے یہ کہ ووٹر رجسٹریشن مہم چلائیں اور تیسرے ” ووٹ ڈالنے نکلیں ” مہم چلائیں۔

اس سلسلے میں امارت ذریعہ سب سے ووٹر ہلپ لائن ایپ ڈاؤنلوڈ کرایا جارہا ہے تاکہ ووٹر لسٹ میں رجسٹریشن کرنا اور ووٹ ڈالنا بھی آسان ہو سکے۔ ووٹ کیسے ڈالیں اس سلسلے میں بھی امارت نے بوتھ کا نمونہ بنا کر اس کا ویڈیو عام کر رہی ہے۔

جہاں تک مسلمانوں کے رہنما کا سوال ہے تو اس سلسلے میں کوئی کسی کو رہنما ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اویسی مسلم قیادت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو ان پر بھاجپا کی بی ٹیم ہونے کا تہمت لگایا جاتا ہے اور انتخاب کے میدان میں ان کے امیدوار کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بہار جھاڑکھنڈ و اڑیسہ میں شرعی اعتبار سے مسلمان متحد ہیں تو جھاڑکھنڈ میں علاقائی اعتبار سے امارت کے خلاف جھنڈا بلند ہو جاتا ہے۔ حضرت امیر شریعت اپنی باتوں کے درمیان کہتے ہیں کہ یہ بات نہیں ہے کہ میں صرف مسلمان مسلمان کر رہا ہوں، میں دراصل اس لئے کر رہا ہوں کہ انسانوں کو انصاف ملے۔ وہ اشارہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے ووٹ کرنے کا عمل بھی شرعی ہو یعنی اللہ کو راضی کرنے والا ہو۔

وہ صاف صاف بتاتے ہیں کہ ووٹ گواہی ہے، شہادت ہے، امانت ہے اور ووٹ سفارش ہے۔ اگر آپ کی سفارش اچھی ہے تو اس میں آپ کا حصہ ہے اور اگر خرابی ہے تو اس میں بھی آپ کا حصہ ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ووٹ ایڈوکیسی بھی ہے۔ ایک مرتبہ میں نے کٹیہار میڈیکل کالج و الکریم یونیورسٹی کے بانی، چیئرمین، رکن ایوان بالا ڈاکٹر احمد اشفاق کریم کی کارکردگی پر قلم اٹھایا تو مجھے جو کھٹے میٹھے تاثرات حاصل ہوئے اس کا ذکر جب میں نے ڈاکٹر کریم سے کیا تو انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ جب مولانا حشرت موہانی اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت کو مسلمانوں نے اپنا رہنما نہ مانا تو بھلا وہ اور کسے اپنا رہنما تسلیم کرسکتے ہیں؟

قیادت اور رہنمائی کو سمجھنا ہے تو اسلامی نظام کی بنیاد کو سمجھنا ہوگا۔ امیر شریعت سابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ بتا گئے ہیں کہ ” نظام اسلام کی بنیاد دو چیزوں، جمیعت اور اجتماعیت پر ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اسلامی مسائل میں یہی دو چیزیں کارفرما نظر آتی ہیں‌ عداوت یا انفرادیت خواہ وہ اشخاص و افراد کی ہوں یا ملک و قوم کی یہی دو چیزیں دنیا کے امن و سکون کو برباد کرنے والی ہیں۔ اسلام نے جہاں اپنے حق کا حاصل کرنا ضروری بتایا ہے وہاں اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق سے غفلت کو بھی بڑا جرم قرار دیا ہے۔ اس لئے اسلام ہی کے ذریعہ دنیا میں اچھی اور صالح سوسائٹی تیار کی جا سکتی ہے اور سچا مسلمان ہی دنیا کو آمن و سکون کا راستہ بتلا سکتا ہے۔ “

محمد رفیع9931011524

rafimfp@gmail.com

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *