پروفیسر اسلم آزاد حیات و خدمات

Spread the love

پروفیسر اسلم آزاد حیات و خدمات

عدنان احمد پرسونی

بنت پروفیسر عقیل احمد ،پرسونی اردو زبان کے نامور شاعر، افسانہ نگار، ادبی نقاد، معلم، مصنف و سیاستدان نام #محمداسلمآزاد اور تخلص #اسلمؔ ہے۔

12؍دسمبر 1948ء کو مولا نگر، ضلع سیتامڑھی، بہار میں پیدا ہوئے۔ والدین نے ابتدا میں ان کا نام عطاء ﷲ محمد اسلم رکھا تھا مگر بعد میں اسے بدل کر اسلم آزاد کر دیا۔

ان کے والد کا نام محمد عباس تھا۔ انہوں نے پوپری ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد 1966ء میں ملت کالج دربھنگہ سے بی اے (اردو آنرز) اور 1969ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کا امتحان پاس کیا۔

1974ء میں پی ایچ ڈی کیا۔ فروری 1975ء میں پٹنہ یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرار مقرر ہوگئے۔ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کے عہدے تک پہنچے۔ ادب کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی سرگرم رہے۔ وہ 2006ء میں چھ برسوں کے لیے بہار قانون ساز کونسل کے ممبر نامزد کیے گئے۔ انہوں نے دو شادیاں کیں۔ ان کی دوسری بیوی فرزانہ خود بھی علم وادب کا ذوق رکھتی ہیں اور نثرنگار ہیں۔ اسلم آزاد شاعر، ناقد اور افسانہ نگار تھے۔

شعر و شاعری کا شوق انہیں اوائل عمر ہی سے تھا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ نشاطِ کرب (1968ء) طالب علمی کے دور ہی میں شائع ہوا تھا۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ مختلف کے نام سے شائع ہوا۔ ان کی پہلی تنقیدی کتاب اردو ناول آزادی کے بعد دسمبر 1981ء میں نکھار پبلی کیشن کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ ان کا تحقیقی مقالہ ہے جو ترمیم و اضافہ کے ساتھ کتابی شکل میں شائع ہوا۔

ان کی دیگر کتابیں عزیز احمد بحیثیت ناول نگار، آنگن ایک تنقیدی جائزہ اور قرۃ العین حیدر بحیثیت ناول نگار (2003ء) بھی اردو فکشن کی تنقید سے متعلق ہیں۔ پروفیسر اسلم آزاد 08؍جون 2022ء کو کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر پٹنہ ایمس اسپتال میں انتقال کر گئے۔

ان کی تدفین ان کے آبائی گاؤں مولا نگر سیتامڑھی، بہار میں ہوئی۔ معروف شاعر پروفیسر اسلمؔ آزاد کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ تحسین

ہماری یاد انہیں آ گئی تو کیا ہوگا

گھٹا ادھر کی ادھر چھا گئی تو کیا ہوگا

ابھی تو بزم میں قائم ہے دو دلوں کا بھرم

نظر نظر سے جو ٹکرا گئی تو کیا ہوگا

دھڑک رہا ہے سر شام ہی سے دل کم بخت

وصال یار کی صبح آ گئی تو کیا ہوگا

یہ سوچتا ہوں کہ دل کی اداس گلیوں سے

تمہاری یاد بھی کترا گئی تو کیا ہوگا

سرور آ گیا رندوں کو دیکھتے ہی سبو

جو میکدے پہ گھٹا چھا گئی تو کیا ہوگا

وہ بات جس سے دھواں اٹھ رہا ہے سینے سے

وہ بات لب پہ اگر آ گئی تو کیا ہوگا

وفا کا دم نہ بھرو دوستو تم اسلمؔ سے

تمہیں جو وقت پہ جھٹلا گئی تو کیا ہوگا ۔

کوئی دیوار سلامت ہے نہ اب چھت میری

خانۂ خستہ کی صورت ہوئی حالت میری

میرے سجدوں سے منور ہے تری راہ گزر میری

پیشانی پہ روشن ہے صداقت میری

اور کچھ دیر یوں ہی مجھ کو تڑپنے دیتے

آپ نے چھین لی کیوں ہجر کی لذت میری

یہ الگ بات کہ میں فاتح اعظم ٹھہرا

ورنہ ہوتی رہی ہر گام ہزیمت میری

میں نے ہر لمحہ نئی جست لگائی اسلمؔ

مجھ سے وابستہ رہی پھر بھی روایت میری

کوئی دیوار سلامت ہے نہ اب چھت میری

خانۂ خستہ کی صورت ہوئی حالت میری

میرے سجدوں سے منور ہے تری راہ گزر میری

پیشانی پہ روشن ہے صداقت میری

میں نے ہر لمحہ نئی جست لگائی اسلمؔ

مجھ سے وابستہ رہی پھر بھی روایت میر

عدنان احمد پرسونی

پرنسپل:نیو دہلی پبلک اسکول پرسونی

رابطہ نمبر 7283092279 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *