سلطان الہند عطاے رسول خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ

Spread the love

سلطان الہند عطاے رسول خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ

از قلم: محمد فداء المصطفے

خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلی تیرا

کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا

ہے تری ذات عجب بحر حقیقت پیارے

کسی تیراک نے پایا نہ کنارا تیرا

اللہ رب العزت نے اس خاکدانِ گیتی پر انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام مبعوث فرمایا، حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کرتا جدار کائنات ﷺ تک جتنے بھی انبیا تشریف لائے سب نے انسانوں کے ساتھ خیر خواہی کا بھر پور مظاہرہ فرمایا اور راہ بھٹکے انسانوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی دعوت دیتے رہے۔ ظاہری بات ہے کفر کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے اور ظلم وعصیاں کے سمندر میں ڈوبے ہوئے انسانوں کے لئے راہ راست پر جلدی آنا آسان تو نہ تھا

چناں چہ دعوت دین دینے والے مقدس انبیاء کرام پر نصیحت کے جواب میں پتھر برسائے گئے اور کبھی ناشائستہ جملوں کے تیر برسا کر ان کے کلیجے کو چھلنی کیا گیا۔ لیکن اللہ کے فرستادہ پیغمبر ہر ظلم سہتے رہے اور لوگوں پر شفقت و مہربانی کے بادل بن کر برستے رہے۔

رسول معظم ﷺ نے اپنی شفقت، رحمت اور بے غرضی سے انسانوں کے دلوں کا تزکیہ فرمایا اور دیکھتے دیکھتے۳۲ سال کی قلیل مدت میں ایک لاکھ سے زائد انسانوں کو شربت اسلام پلا کر نشہ اسلام میں مخمور کر دیا اور وہ لوگ جن کے دل اتنے سخت تھے کہ جنہیں بچیوں کے زندہ درگور کرنے پر احساس جرم تک نہ تھا ان کے دلوں میں یتیم بچیوں کی پرورش کرنے کا جذبہ پیدا فرما کر یہ واضح کر دیا کہ اسلام ہی وہ سچا مذ ہب ہے جس کے ایک ایک حکم میں ہزار ہا بھلائیاں اللہ نے رکھی ہیں۔

اور جب کہ حضور ﷺ اللہ کے آخری نبی بن کر تشریف لائے تھے اس لیے حضور ﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا تو ممکن نہ تھا تو اللہ عزوجل نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ فروغ اسلام کا کام لیا، ان کے بعد تابعین نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور پھر تبع تابعین نے۔

غرض کہ خلافت راشدہ کے بعد چوں کہ ملوکیت کے دور کا آغاز ہو چکا تھا لہذا جو کام خلیفہ وقت کیا کرتے اور مضطرب انسانوں کو قانونِ اسلام کا پابند کر کے اطمینان و چین کی دولت سے مالا مال فرماتے، وہ کام آہستہ آہستہ ملوکیت کے عروج کے ساتھ ساتھ مدھم پڑتا رہا۔ اسلام خیر خواہی کا مذہب ہے اس لیے بھٹکے ہوئے انسانوں کی خیر خواہی کے لیے اللہ کے وہ بندے جن کو رب نے اپنی دوستی کا تاج عطا فر مایا وہ میدان عمل میں کود پڑے اور اپنے پاکیزہ کردار اور بے لوثی کے ذریعہ مخلوق خدا کی ایسی خدمت کی اور ایسا بھلا چاہا کہ دنیا ان کے حسنِ اخلاق و خیر خواہی سے متاثر ہو کر دامن اسلام میں پناہ لینے لگی۔

انہیں بندوں میں ایک ایسی بابرکت ذات اور مکرم ہستی سلطان الہند، عطائے رسول ﷺ، خواجہ خواجگاں معین الدین چشتی علیہ الرحمہ ہیں جن کے وصال کو آج صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی دکھی انسانوں کی خیر خواہی اور مضطرب انسانوں کو چین کی دولت اپنے مزار پر انوار سے بانٹتے نظر آتے ہیں۔

ولادتِ مبارک :

آپ کی جائے ولادت میں اختلاف ہے، مؤلف سیر العارفین نے آپ کا مؤلذ سجستان لکھا ہے۔ بعض نے سنجار متصل موصل لکھا ہے۔ بعض نے متصل اصفہان سنجر لکھا ہے۔

مگر صحیح یہ ہے کہ حسب سیر الاقطاب آپ کا آبائی وطن سنجرستان (صو بہ بجستان یعنی سنجر یا سیسان ہے اور جائے ولادت صفاہان (اصفہان) ہے لیکن آپ کی بود و باش سنجان میں رہی جو سنجر کے نام سے مشہور ہے بقول ابو الفضل یہ قصبہ سنجر سیسان سے متعلق ہے۔ یہاں آپ کے خاندان کے افراد اب تک موجود ہیں، اس کے گرد پہاڑ ہیں پھل بکثرت ہوتے ہیں باشندگان نیک خصلت ہیں۔

خواجہ غریب نواز خلفاے عباسیہ سادات پر مظالم کرتے تھے اس لئے غالب گمان ہے کہ آپ کے اجداد نے ان کے مظالم سے تنگ آکر دار الخلافت بغداد سے دور سنجر (جس کو ابوالفضل نے سنکر یا سنگر لکھا ہے اور گاف کو جیم سے بدل کر آپ کو سجری لکھا ہے) میں اقامت اختیار کر لی تھی مگر آپ کی ولادت کے موقع پر آپ کی والدہ اصفہان میں تھیں تاہم سابقہ نسبت مکانی کی وجہ سے اصفہان میں بھی آپ کی نسبت سنجری ہی رہی۔

آپ کی ولادت کے مختلف سنین ۵۲۳ھ اور ۵۳۷ھ کے درمیان لکھے گئے ہیں مگر بحوالہ(کلمات الصادقین مؤلف مرات الاسرار)نے آپ کا بعمر ۹۷ سال ۶۲۷ ھ میں وصال پانا لکھا ہے ۶۲۷ میں سے ۹۷ سال عمر کے کم کر دینے سے آپ کا سنہ ولادت ۰۵۳ھ برآمد ہوتا ہے یہی سال ولادت مؤلف (مرات الانساب،ص:۱۶۰).

اور خاندان زبیر کینوی (جلد اول ص:۳۱۶) وغیرہ نے لکھا ہے۔

مرقعہ خواجگان نے ص ا ا پر بحوالہ آئینہ تصوف اور بعض دوسرے تذکرہ نویسوں نے آپ کی تاریخ ولادت 9 جمادی الآخرہ لکھی ہے۔ ۵۳۰ ھ کی یہ تاریخ ۱۵ مارچ ۱۳۷ ء روز یکشنبہ سے مطابقت کرتی ہے۔ (۱)

اسم گرامی اور خطابات و القاب:

بعض کے نزدیک آپ کا پورا نام معین الدین حسن ہے مگر بعض کے نزدیک معین الدین ہے اور والدین کے پکارنے کا مختصر نام حسن ہے۔ بعد وصال آپ کی پیشانی پر بخط نور ہذَا حَبِیبُ اللہِ مرقوم تھا۔ اس لئے یہ دربار ایزدی سے عطا کردہ خطاب سمجھا جاتا ہے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر جب آپ نے دربارِ رسالت میں سلام پیش کیا تو جواب سلام کے ساتھ قطب مشائخ بر و بحر کا خطاب عطا ہوا۔ عام طور سے لوگ آپ کو عطائے رسول، خواجہ اجمیر، خواجہ بزرگ ہندالولی،غریب نواز، سلطان الہند، نائب رسول فی الہند وغیرہ کے خطابات سے یاد کرتے ہیں۔ (۲)

نسب نامہ پدری :

معین الدین بن خواجہ غیاث الدین بن خواجہ نجم الدین ظاہر بن سید عبدالعزیز بن سید ابراہیم بن سید ادریس بن سید امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سید نا حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔ (۳)

نسب نامہ مادری :

بی بی ام الورع المعروف بہ بی بی ماہ نور و خاص الملکہ بنت سید داؤد بن خواجہ غریب نواز حضرت عبد اللہ احسنبلی بن سید زاہد بن سید مورث بن سید داؤد بن سیدنا موسیٰ جون بن سیدنا عبد اللہ بن سید نا حسن مثنی ابن سید نا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سید نا حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔ (۳)

اور مکمل شجرۂ طریقت کچھ اس طرح ذکر کیا جاتاہے:

حضرت خواجہ معین الدین چشتی مرید حضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتی مرید حضرت شریف زندنی مرید حضرت خواجہ قطب الدین چشتی مرید حضرت خواجہ ناصر الدین ا بو یوسف چشتی مرید حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی مرید حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی مرید حضرت خواجہ ممشاد علودینوری مرید حضرت شیخ امین الدین ہبرۃالبصری مرید حضرت سیدید الدین حدیفۃ المرعشی مرید حضرت سلطان ابراہیم بن ادہم بلخی مرید حضرت ابو فضیل بن عیاض مرید حضرت خواجہ عبدالواحد بن زید مرید حضرت خواجہ حسن بصری مرید امام الاولیاء سیدنا علی کرم اللہ وجہہ۔

خاندان :

حضرت خواجہ خاندان رسالت کے وہ روشن چراغ ہیں جس کی نورانی شعاعوں نے نہ صرف سرزمین ایشیا میں ہزاروں قلوب کو نو ر تو حید وضیائے معرفت سے منور کر دیا بلکہ تمام عالم میں اپنی لازوال روشنی پھیلا دی

آپ کے آبا واجداد کو علم وفضل، زہد و تقویٰ اور حق شناسی و خدا رسی میں طرہ امتیاز حاصل رہا ہے، حضور سرور عالم ﷺ کا شجرہ نسب حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور ﷺ تک نہ صرف جاہلیت سے پاک وصاف ہے بلکہ ہدایت خلق کے لیے بعض انبیا علیہم السلام کا بھی حامل ہے، اس کا فیض حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے نسب نامہ کو یہ ملا کہ آپ کا نسب نامہ رسول خدا ﷺ سے لے کر آپ کی ذات اقدس تک نہ صرف دینداری اور پر ہیز گاری میں ممتاز ہے بلکہ اس میں مخلوق کی رہبری کے لیے بعض اماموں کی مقدس شخصیتیں بھی نظر آتی ہیں

یہ حضرات فقر و درویشی اور بزرگی میں یگانہ روزگار ہوئے ہیں۔ آپ کے شجرہ میں بہت سے اختلافات ہیں مگر یہ امر مسلم ہے کہ آپ بلحاظ نسب نامہ پدری حسینی ہیں اور بموجب شجرہ مادری حسنی ہیں۔(۴)

نشود نما اور ابتدائی تعلیم :

آپ کا نشو و نما خراسان میں ہوا، ابتدائی تعلیم کے متعلق کتابوں میں تفصیلات نہیں ہیں مگر حال کے ایک تذکرہ میں لکھا ہے کہ ابتدائی تعلیم آپ نے گھر پر حاصل کی۔ نو سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کیا بعد از آں آپ سنجر کے مدرسے میں داخل ہو گئے یہاں آپ نے تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور تھوڑے عرصے میں بہت علم حاصل کر لیا۔(۴)

معین الہند کا لقب:

ایک دفعہ آپ حج سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور عرصہ تک قیام پذیر رہنے کے بعد آپ نے مدینہ شریف ہی میں مستقل قیام کرنے کا ارادہ کیا تو ایک رات در بار رسالت مآب ﷺ سے آپ کو یہ بشارت ہوئی معین الدین اتم میرے دین کے معین ہو، میں نے ولایت ہندوستان تمہیں عطا کی۔ وہاں ظلمتِ کفر پھیلی ہوئی ہے تم اجمیر جا کر قیام کرو تمہارے وہاں جانے سے ظلمتِ کفر دور ہو جائے گی اور اسلام رونق پذیر ہوگا“

نبی کریم ﷺ کے ارشاد پر آپ بہت خوش ہوئے اور متحیر بھی کہ اجمیر کدھر ہے اسی سوچ میں مبتلا تھے کہ آپ پر غنودگی طاری ہوئی، اسی حالت میں عالم رؤیا (خواب) میں سرور کائنات ﷺ تشریف لائے، باقی واقعہ خود حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:” حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، معین الدین دیکھو! تمام مشارق و مغارب کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں“ اس کے بعد آپ کو اجمیر شریف،قلعہ اور تمام پہاڑ دکھائے گئے اور ایک انار عطا کیا اور ارشاد فرمایا خدا نے تمہیں تحفہ عطا کیا ہے چنانچہ اس کے بعد آپ ہندوستان تشریف لائے اور بالآخرا جمیر شریف جلوہ افروز ہوئے۔(۵)

غوث الاعظم سے قرابت :حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی المعروف بہ غوث پاک حضرت عبداللہ الحنبلی کے پوتے ہیں اور غریب نواز کی والدہ ماجدہ بی بی ماہ نور حضرت عبداللہ السنبلی کی پوتی ہیں۔ ان ہر دو کے والد آپس میں بھائی ہیں۔

اس رشتہ سے غریب نواز کی والدہ غوث الاعظم کی چچازاد بہن ہیں اور غوث پاک غریب نواز کے ماموں ہیں۔ ایک دوسرے رشتہ سے غریب نواز اور غوث پاک آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں، تیسرے رشتہ سے غریب نواز غوث الاعظم کے ماموں ہوتے ہیں۔ ان رشتوں کی مطابقت اس طرح ہو جاتی ہے کہ غوث پاک کی والدہ غریب نواز کی نہالی رشتہ میں خالہ اور ددھیالی رشتہ میں بہن ہیں۔

چشتی کہلانے کی وجہ :

یہ خیال غلط ہے کہ چشتی سلسلہ حضرت خواجہ غریب نواز سے شروع ہوا بلکہ اس کی ابتدا حضرت خواجہ ابو اسحاق سے ہوئی، مبداو منشا چشتیاں حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی جب بقصد حصول بیعت حضرت خواجہ ممشا دعلود مینوری کے یہاں بغداد میں حاضر ہوئے اور شرف بیعت وارادت سے مشرف ہوئے تو حضرت خواجہ ممشاد علود مینوری رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت فرمایا تیرا نام کیا ہے؟ عرض کیا اس عاجز کو ابو اسحاق شامی کہتے ہیں۔

آپ نے فرمایا آج سیہم تجھ کو ابو اسحاق چشتی کہیں گے اور جو تیرے سلسلہ ارادت میں تا قیام قیامت داخل ہوگا وہ بھی چشتی کہلائے گا۔ پس حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی حسب فرمانِ مرشد چشت (شاقلان جو ہرات سے تمہیں کوس ہے) میں تشریف لائے اور رشد و ہدایت میں مصروف ہوئے۔

آپ کے سلسلہ کے بزرگوں میں سے حضرت خواجہ ابواحمد چشتی، حضرت خواجہ محمد چشتی، حضرت خواجہ ابو یوسف چشتی اور حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی بھی چشت میں قیام پذیر ہو کر مدفون ہوئے بایں وجہ یہ سلسلہ چشتی کے نام سے مشہور ہوا چوں کہ مذکورہ بالا حضرات حضور خواجہ غریب نواز کے پیرانِ سلسلہ ہیں اس لیے حضرت خواجہ غریب نواز بھی چشتی کہلائے۔ (۶)

ایک مجذوب سے ملاقات

ایک دن آپ اپنے باغ کو سیراب کر رہے تھے کہ اپنے وقت کے مشہور مجذوب حضرت ابراہیم قندوری کا وہاں سے گزر ہوا۔ حضرت خواجہ نے نہایت عزت و احترام کے ساتھ انہیں بٹھایا اور خوشۂ انگور سے ان کی تواضع کی۔ خواجہ کے حسن سلوک سے مجذوب کا دل خوش ہو گیا انہوں نے اپنی بغل سے سوکھی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور دانت سے چبا کر حضرت خواجہ کو دیا، اسے کھاتے ہی دل کی حالت بدل گئی، کیف و سرمستی کے عالم میں باغ و پن چکی فروخت کر کے ساری قیمت فقراء اور مساکین میں تقسیم کر دی اور خراسان کی طرف نکل گئے۔ (۷)

خواجہ غریب نواز اور اشاعت اسلام: خواجہ خواجگان حضور معین الدین حسن چشتی سنجری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کفرستان ہند میں اسلام کی شمع فروزاں کرنے والے ہیں، آپ سے پہلے اس خطہ میں تبلیغ اسلام کے لئے تشریف لانے والے صوفیاء میں شیخ اسماعیل محدث، شیخ صفی الدین گزرانی، شیخ حسین زنجانی، شیخ علی ہجویری اور سلسلہ چشتیہ کے بزرگ خواجہ ابو محمد ابن ابی احمد چشتی کے اسمائے گرامی آتے ہیں مگر اس علاقہ کی روحانی سیادت خواجہ اجمیر کے لیے مقدر تھی۔

والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، ترکہ میں ایک باغ ملا اس کی نگہداشت کے دوران ابراہیم قلندر نامی ایک بزرگ کا پس خوردہ منہ میں پڑا اور دل انوار الہی سے منور ہو گیا۔ دنیا کی محبت مردہ پڑ گئی۔

راہ حق میں نکل پڑے، سمرقند میں کلام اللہ حفظ کیا اور دینی علوم حاصل کئے، عراق کا رخ کیا جس کے ایک قصبہ ہارون میں ایک خدا رسیدہ بزرگ ان کے حصہ کی نعمت سرمدی کے لیے منتظر تھے، حضرت شیخ المشائخ خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے شرف بیعت پایا۔ مرشد کامل نے اپنے سلسلہ میں داخل فرمانے کے بعد چہرہ مبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور مرید صادق کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ” تر ابخدا رسانیدم و مقبول حضرتِ اوست گردانیدم میں نے تجھے خدا تک پہونچا دیا اور حق تعالیٰ کا مقبول بنا دیا۔

حضرت خواجہ اجمیری کا سلسلۂ طریقت چودہ واسطوں کے بعد سیدنا مولائے کائنات علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے جاملتا ہے۔ حضرت سلطان الہند غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں کم و بیش ہیں سال رہے، مرشد کامل نے گوہر شب تاب کی تراش خراش میں کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھا۔

روحانیت کی اعلیٰ قدروں سے روشناس کرایا، خود اپنے ہمراہ اکناف عالم کے اولیا اللہ اور شناوران راہ طریقت سے ملاقاتیں کرائیں، تا آنکہ رحمتہ للعالمین سید نا محمد رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ رحمت میں لے کر حاضر ہوئے، در بایر رسول میں مرشد کامل نے مرید فاضل کو پیش کیا تو آقاؤں کے آقا کے مرقدِ مبارک سے آواز آئی’ معین الدین مجھے پیارا ہے میں نے اسے قبول کیا اور اپنا بنایا“ حضرت خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے اس بیگانہ روز گار مرید پر ناز تھا۔ بے حد پیار فرماتے تھے۔ آپ کا فرمان ہے۔ معین الدین خدا کا پیارا ہے اور مجھے اپنے اس مرید پر فخر ہے“۔ (۸)

خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کی کرامتیں مردہ زندہ ہو گیا ایک روز آپ کی خدمت میں ایک عورت روتی ہوئی آئی، عرض کی کہ میرے بیٹے کو حاکم شہر نے قتل کر دیا، آپ کو رحم آگیا اور خدام کے ساتھ عصا لیے ہوئے قتل گاہ جا پہنچے۔ مقتول کا سر دھڑ سے ملا کر فرمایا کہ اے شخص اگر واقعی تو بے گناہ مارا گیا ہے تو اللہ کے حکم سے اٹھ ک

ھڑا ہو۔ زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکلنے تھے کہ مقتول کی نعش کو حرکت ہوئی، زندہ ہو گیا اور اپنا سر اٹھا کر خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے پاؤں پر رکھ دیا اور خوشی خوشی اپنی ماں کے ساتھ چلا گیا حاکم شہر یہ سن کر لرز گیا اور اس نے آکر معافی مانگی۔

چھ روٹیاں

ایک شخص نے خواجہ فرید الدین گنج شکر کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ میری زندگی بڑی ہی تنگ دستی میں گزر رہی تھی میں نے خواجہ غریب نواز کی طرف رجوع کیا، خواب دیکھا کہ آپ نے تشریف لا کر مجھے چھ روٹیاں عنایت کیں۔

وہ دن ہے اور آج کا دن ساٹھ برس گزر چکے ہیں ہر روز مجھے ضرورت کے مطابق خرچ مل جاتا ہے اور میں اور میرے تمام گھر والے آرام و آسودگی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ بابا صاحب نے فرمایا کہ وہ خواب نہ تھا فضل الہی تھا کہ سر (سردار) حلقہ اولیا نے تجھ پر کرم فرمایا اور تیری عسرت رفع ہو گئی۔ غیب کی خبر

ایک روز آپ مشاہدہ حق میں مصروف تھے کہ ایک مرید نے آکر عرض کی کہ حضور حاکم شہر نے مجھے بہت تنگ کر رکھا ہے اور میری جلا وطنی کا حکم بھی صادر کر دیا۔ پوچھا حاکم ہے کہاں؟ کہا: سوار ہو کر کہیں باہر گیا ہے۔ فرمایا تو جاوہ گھوڑے سے گر کر مر گیا۔ واپس گیا تو یہ خبر مشہور تھی۔

ظالم حاکم تائب ہو گیا جب آپ ہرات سے سبز وار تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ یہاں کا حاکم شیعہ ہے اور ظالم ہے، جو شخص اپنے بچوں کا نام ابوبکر یا عمر رکھتا ہے قتل کرا دیتا ہے، بے حد متعصب ہے، نام یادگار مرزا ہے اور یہ اسی کا باغ ہے جس میں لب حوض آپ مقیم ہوئے۔

لوگوں نے منع بھی کیا کہ آپ یہاں نہ بیٹھیں، سخت ظالم ہے مگر آپ نے پرواہ نہ کی اتنے میں حاکم بھی بڑے شکوہ و طمطراق کے ساتھ آپہنچا منع کرنا تو کجا نظر جو پڑی لرزنے لگا اور بیہوش ہو کر گر پڑا۔

نہ صرف اس پر بلکہ اس کے تمام امراء و ملازمین پر دہشت طاری ہو گئی آپ رحم دل بھی بہت تھے اور کس کی جرأت تھی آپ نے خود ہی اٹھ کر اس کے منہ پر پانی چھڑکا، ہوش میں آیا، تو بہ کی اور اس کے تمام امراء وغیرہ بھی تائب ہو کر مرید ہو گئے اور یادگار مرزا نے تو بہ کر کے اپنا تمام خزانہ اور زر و جواہر اللہ کی راہ میں لٹا دئے، غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کر دیا۔

اللہ کے دین اور رحمن کریم کا کرم ملاحظہ کیجئے کہ یہی شخص جس کا نامہ اعمال پورا کا پورا سیاہ تھا آن کی آن میں قدوسیوں کی جماعت میں شامل ہو گیا۔ باغی، دوست بن گیا اور خلافت پا کر ہرات کا صاحب ولایت ہوا۔

اونٹ بیٹھے ہی رہ گئے

حضور خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ اجمیر شریف میں بالکل نو وارد تھے جا کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے، ایک شخص نے روکا کہ یہاں مہاراج کے اونٹ بیٹھتے ہیں۔

آپ اٹھ کر تالاب انا ساگر پر جا بیٹھے، جہاں صدہابت خانے تھے، اگلے روز اونٹوں کو اٹھانا چاہا تو وہاں سے نہ اٹھ سکے بادشاہ کے عملہ بہت پریشان ہوئے کہ آخر ماجرا کیا ہے، آخر کار وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ کل ہم نے ایک فقیر کو یہاں سے زبردستی اٹھا دیا تھا شاید یہ اس کی بد دعا کا نتیجہ ہے، تمام لوگوں نے آپ کو تلاش کیا اور انا ساگر پر بیٹھا ہوا پایا، آپ سے معافی مانگی اس کے بعد اونٹ اپنی جگہ سے اٹھ سکے۔

جوگی جے پال سے عبداللہ تک

راجہ پرتھوی راج بالکل گھبرا چکا تھا اسی عالم میں اس نے جے پال جوگی کو جو ارض ہند کا سب سے نامور اور بڑا جادوگر تھا بلوایا، وہ مرگ چھالا (ہرن کی بالوں سمیت کھال جس پر بیٹھ کر درویش لوگ عبادت کرتے ہیں) پر ڈیڑھ ہزار چیلوں کو ساتھ لئے ہوئے یہ سرعت اجمیر پہنچ گیا اور ایک خوف ناک قوت کے ساتھ مقابلہ کے لیے بڑھا اس طرح کہ جادو کے شیر، اثر د ہے ساتھ ہیں اور سب آگ کے چکر پھینکتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے مخلوق عظیم ساتھ تھی، ہمراہی جادو کا یہ دہشت خیز سامان دیکھ کر گھبرائے۔

آپ نے سب کے گرد حصار کھینچ دیا، اب ایک طرف سے سانپ بڑھنے شروع ہوئے، دوسری طرف سے شیر چلے اوپر سے سامنے سے آگ برسنی شروع ہوگئی۔ دہشت ناک سا تھا، اہلِ شہر تک لرز رہے تھے، کوئی حصار کے اندر قدم نہ رکھ سکتا تھا، آپ نماز میں مصروف تھے جس کے بعد آپ نے ایک مٹھی خاک جو پھونک کر چھینکی سارا طلسم فنا ہو کر رہ گیا۔ اب میدان صاف تھا اور جے پال ہزیمت زدہ شکست خوردہ کھڑا تھا، اسے پرواز کا پورا ملکہ تھا، چنانچہ اڑا تو فضاؤں کی بلندیوں میں جا داخل ہوا مگر حضور خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کھڑاؤں کو حکم فرمایا آپ کی کھڑاؤں اسے مارتے ہوئے زمین پر لا گرائی اب اس نے مطیع ہو کر، پاؤں پر گر کر معافی مانگی، مسلمان ہوا اور مرتبہ کمال کو پہنچا۔ اسلامی نام عبداللہ رکھا گیا۔ یہ اللہ کی دین ہے کہ وہ انتہائی شقاوت پسندوں اور بدبختوں کو بھی باذنہ تعالیٰ ہدایت دے کر آن کی آن میں انتہائی سعید بنا دیتا ہے۔ *بے جان ہو گئے* : کسی نے راجہ سے جالگائی کہ غیر مذہب کے کچھ لوگ ہماری پرستش گاہ کے قریب آٹھہرے ہیں، راجہ نے حکم دیا کہ پکڑ کر نکال دو۔ سر ہنگان راجہ جو پہنچے اور ہجوم کیا تو حضور نے آیتہ الکرسی خاک کی ایک چٹکی پر پڑھ کر پھینک دی جس پر پڑی وہ وہیں کا وہیں بے حس و حرکت ہو کر رہ گیا۔ تیسرا ہی روز تھا کہ راجہ اور تمام اہل شہر تالاب پر پوجا کیلئے جمع ہوئے، رام دیو مہنت ایک جماعت کثیر کے ساتھ آپ کو بجبر اٹھانے کے لئے بڑھا۔ نظر جو اٹھائی تو جسم پر لرزہ طاری تھا۔ اسی وقت قدموں پر گرا اور اسلام قبول کر لیا۔ یہ پہلا

مسلمان تھا جو آگے چل کر بڑے مرتبہ پر فائزہ ہوا

انا سا گر کا پانی ایک مشکیزے میں

راجہ پرتھوی راج کے ملازمین خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آئے اور انہوں نے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ بابا! آپ یہاں سے کہیں اور تشریف لے جائیں اور ہمارے تالاب سے آج کے بعد پانی وغیرہ بھی نہ لیا کریں اور ہاتھ وغیرہ بھی اس تالاب سے نہ دھویا کریں کیوں کہ ہمارا تالاب پاک ہے اور نعوذ باللہ جب آپ ہاتھ پیر اور جسم اس تالاب میں دھوتے ہیں تو یہ ناپاک ہو جاتا ہے، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے راجہ کے ملازمین دیکھو سارے لوگ اس تالاب میں نہاتے ہیں، پانی لے جاتے ہیں اور کپڑے وغیرہ دھوتے ہیں، اگر ہم نے پانی لے لیا تو کیا ہو گیا؟

راجہ پرتھوی راج کے ملازمین نے کہا کہ بابا! وہ لوگ جو یہاں نہاتے ہیں، ہاتھ پیر دھوتے ہیں، کپڑے دھوتے ہیں وہ سب ہمارے دھرم، ہمارے مذہب، ہمارے مسلک کے لوگ ہیں۔ لہذا آپ ان لوگوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتے، آپ آج کے بعد اس تالاب سے پانی نہیں لے سکتے۔ جب راجہ پرتھوی راج کے ملازمین نے بد تمیزی کی باتیں شروع کیں تو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا قطب الدین! عرض کی جی حضور فرمایا بیٹا اٹھو، مشکیزہ اٹھا لو اور وہ مشکیزہ اس تالاب کے پانی سے بھر لاؤ تا کہ پانی کی تکلیف وغیرہ نہ ہو۔ شاید یہ ہند و پھر ہمیں اس تالاب سے پانی بھرنے دیں یا نہ دیں۔

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ اٹھے، مشکیزہ اٹھایا اور انا ساگر کے کنارے پر پہنچے اور سیڑھیوں پر بیٹھ کر آپ نے فرمایا کہ اے راجہ کے ملازمین کیا ہم یہاں سے یہ مشکیزہ پانی کا بھر لیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہاں اب تو یہ مشکیزہ یہاں سے بھر لو لیکن یاد رکھو! آئندہ کے لئے اس تالاب سے پانی نہ لینا۔

خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ نے مشکیزہ کو پانی میں ڈبویا، جب مشکیزہ پانی سے اچھی طرح بھر گیا تو خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ نے اوپر اٹھایا تو انا ساگر کا سارا پانی اس مشکیز ہے میں آگیا اور انا ساگر خشک ہو گیا، گویا حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے کمالات اور تصرفات سے سارے پانی کو مشکیزے میں بند کر لیا اور زمین نے اپنے مسام کھول دئے اور سارا پانی زمین اپنے اندر جذب کرگئی اللہ پاک کی قدرت سے۔(۹) وصال شریف : شب وصال چند اولیاء اللہ نے رسولِ خدا ﷺ کو عالم رؤیا (خواب) میں یہ فرماتے ہوئے دیکھا معین الدین حق تعالیٰ کا دوست ہے، ہم آج اس کے استقبال کے لیے آئے ہیں۔

6 رجب المرجب ۱۲۷ھ مطابق ۲۱ رمئی ۱۲۲۹ء بروز شنبہ بعد نماز عشاء آپ نے حجرہ شریف کا دروازہ بند کر لیا اور خدام کو اندر آنے کی ممانعت کردی۔ خدام حجرہ کے باہر موجود رہے، رات بھر کانوں میں طرح طرح کی آوازیں آتی رہیں، پچھلے پہر آواز موقوف ہوگئی۔

جب نماز صبح کا وقت ہوا اور حجرہ شریف کا دروازہ حسب معمول نہ کھلا تو تو ڑ کر دیکھا گیا کہ آپ واصل بحق ہو چکے ہیں اور جبینِ مبارک پر بخط قدرت ہَذَا حَبِیبُ اللَّہِ مَاتَ فِی حُبِّ اللَّہِ منقوش ہے ، انا للہ و انا الیہ راجعون۔(۱۰)

چمنے کہ تا قیامت گل او بہار بادا

صنمے کہ بر جمالش دو جہاں نثار بادا

مصدر و مراجع:

۱)۔ (حیاتِ سلطان الہند خواجہ غریب نواز،ص:۱۸) ۔

  ۲) ۔(حیاتِ سلطان الہند خواجہ غریب نواز،ص:۱۹)۔

   ۳)۔ (فیصانِ خواجہ غریب نواز،ص:۱۷)۔

  ۴   )۔(فیصانِ خواجہ غریب نواز،ص:۱۷)۔

   ۵)۔(حیاتِ و خدمات حضرت خواجہ غریب نواز،ص:۲۲)۔

   ۶)۔(فیضانِ خواجہ غریب نواز،ص:۲۳)۔

۷)۔(ماہنامہ استقامت ِ اولیاء، جولائی، ص:۶ ۳)۔

  ۸)۔(حیاتِ سلطان الہند خواجہ غریب نواز،ص:۲۵،۲۶،۲۷) ۔

  ۹)۔(حیاتِ سلطان الہند خواجہ غریب نواز،ص:۳۲،۳۳،۳۴،۳۵) 

 ۱۰)۔(حیاتِ سلطان الہند خواجہ غریب نواز،ص:۳۷)۔

از قلم: محمد فداء المصطفے

(9037099731)

ڈگری اسکالر: جامعہ دارالہدی اسلامیہ،ملاپورم،کیرالا

mohammedfidaulmustafa938@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *