سارا بدن ہے لہو لہو پھر بھی عید منائیں
سارا بدن ہے لہو لہو پھر بھی عید منائیں
فیاض احمدبرکاتی مصباحی
جنرل سکریٹری ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ بلرامپور
عید ، تو پھر سے آگئی ہے ۔۔تو بندے کے لیے رب کا انعام ہے ، تو نوید مغفرت ہے ، تیری دید ہی امن ہے ، تیرا حسن ازل نے سنوارا ہی اس لیے ہے کہ تو غموں کو کافور کردیتی ہے ۔ دنیاوی حزن وملال پر پردہ ڈال کر انعام آخرت پر دلی فرحت کے حصول کی ایک خاموش صدا ہے تو ۔ تیرے انوار کی تجلی سے سارا سنسار منور ہے ۔ فرحت کے نغموں کی میٹھاس میں امت ڈوب جاتی ہے ۔
رمضان ، جو انسانیت کی تربیت کا مہینہ ہے ، اس ٹریننگ کے مہینے کو ایمان داری. محنت اور خلوص کے ساتھ گزارنے کے بعد تیری آمد ہوتی ہے ۔ لیکن تجھے پتہ ہے نا کہ ہم اللہ کی وہ مخلوق ہیں جو ہر لمحے عید میں ڈوبی رہتی ہے ۔ تم تو یہ بھی جانتے ہو کہ اس امت کے اسی فیصد افراد تیرے حسن لازوال کے اسیر اس لیے ہیں کہ ان کو عید صرف ایک روایت معلوم ہوتی ہے ۔
جس میں کھانا کھایا جاتا ہے ۔ کپڑے پہنے جاتے ہیں ۔ سوئیاں حلق میں انڈیلی جاتی ہیں ۔ یا لڑکے لڑکیاں آپس کی آنکھ مچولی کو جواز مکر شیطان کا نام دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ لیکن تجھے یہ بھی پتہ ہے اسی امت میں اللہ نے ان بںدوں کو بھی پیدا کیا ہے جو تیری حقیقی معرفت سے اشنا ہیں ، تجھے خوش کرنے اور حسن کی دید سے لطف اندوز ہونے کے خدائ گر سے بہرہ ور ہیں ۔۔ جب ساری کائنات بے ہنگم خوشی کے نغمے میں مست ہوتی ہے، تو ان کی بندگی کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتی ہے ۔۔ خدا کے وہ بندے یاد ہیں نا جو رات کی تنہائی میں اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے روتے ہیں اور دن کے اجالے میں اس کی مخلوق کی خدمت کو اپنا وطیرہ بناتے ہیں ۔۔
لیکن ہم یہ سب تجھے کیوں سنارہے ہیں ۔ تجھے کیا فرق پڑتا ہے ۔ تو آتی ہی ہے ہوا کے دوش پر سوار ہوکر اور برق تپاں کے کاندھے سے رخصت ہوتی ہے ۔ تجھے پتہ ہے کئی سالوں سے ہمارا بدن چھلنی چھلنی ہے ، روح مضطرب ہے ۔ جسم کا کوئ حصہ ایسا نہیں ہے جس سے تازہ خون نہ رس رہا ہو ۔۔ تو نے فلسطین کا نام تو سنا ہی ہوگا نا وہ ہمارے جسم کا ایک حصہ ہے ۔
جہاں جوان ختم ہونے کے کگار پر ہیں ۔ جوان بیٹیوں نے مورچہ سنبھال لیا ہے ۔ وہ ہمارے جسم کا ہی ٹکڑا ہے جہاں ایک معصوم سا چہرہ صبح اٹھتا ہے تو ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے ۔ ہماری بہنوں کی تباہ ہوتی جوانی تونے دیکھی ہے نا ۔۔ اب اور کیا دیکھنا ہے ۔ ؟ آٹھ سال کے بیٹے کے سینے پر دشمن کی گھڑگھڑاتی بندوق، تو نے نہیں دیکھی ۔ غزہ کے مجاہدین کو تو دیکھا ہوگا ۔
سر پر باندھے کفن وہ کس کے مشتاق ہیں ۔ کیا تو اسے موت کی خوشی سے بڑھ کر کوئ خوشی دے سکتی ہے ۔ سسکتی ماؤں کی آہیں تونے تو سنی ہی ہونگی ۔ ہماری ان ماؤں نے تو اب رونا بھی بند کردیا ہے ۔ ظلم کا مقابلہ سسکیوں سے نہیں کیا جاسکتا ،یہ بات بھی ہماری ان ماؤں کے سپوتوں نے تجھے بتایا ہی ہوگا ۔ ظالم چاہے جتنی قوت والا ہو مظلوم کا ایک اشارہ اس کے سینے پر ہزاروں دیو ہینکل طیاروں سے بھاری ہے ۔ تو نے خوب دیکھا ہے کہ ہم خوشیاں کیسے مناتے ہیں ۔
اسی کے بغل میں سیریا ہے اور ترکی بھی ہے یہ بھی ہمارے ہی جسم کا حصہ ہیں ۔ یہ ہمارے جسم کے قلب اور پھیپڑے ہیں ۔۔ ابھی چند دنوں پہلے کی بات ہے نا تونے تو دیکھا ہی ہوگا کہ اسی زمین پر بسنے والے علم وخرد کے خوگر انسان نما جانوروں نے کیسے زلزلے برپا کیے ۔۔ دسیوں منزلہ عمارتوں کے ملبے میں دبی انسانی چیخیں تم نے سنی ہیں نا وہ ہماری ہی دلدوز چیخین تھیں ۔ جن آہوں پر فرشتوں نے اپنا کلیجہ تھام لیا تھا وہ آہ توحیدی ہماری تھی
۔ کیا تیری آنکھوں نے وہ منظر نہیں دیکھا جب نیچے کھڑا ایک مجبور وبے کس باپ چھت کے ملبے میں پھنسے اپنے دس سالہ بیٹے کو کلمہ توحید کی تلقین کررہا تھا ۔ ہے تمہاری اتنی جرات کہ موت کے منہ میں کھڑے ہوکر بھی غلغلہ توحید بلند کرسکو ۔ ہماری خوشی یہی ہے کہ ہمارا خون اپنی قوم کے لیے کفارہ بن جائے ، ہماری عید اسی میں ہے ہم اپنے خون کا آخری قطرہ بھی اپنی سوتی ہوئی قوم کے لیے بہادیں
۔ سیریا یعنی ملک شام کے کھنڈرات پر تیری نظر کبھی گئی ؟ ذرا دیکھ آو ۔ دیکھو میرے جسم پر بموں کے کتنے نشان ہیں ۔ ہم امن والے ہیں اور امن سے جینا چاہتے ہیں لیکن تو جانتی ہے کہ ہم کیوں لہو لہان ہیں ۔
آ اور قریب آ ۔ تجھے اپنے گھر کی صورت دکھاتے ہیں ۔ کشمیر سے کنیا کماری تک ہمارا گھر ہے ، اروںاچل کی پہاڑیوں سے بحر عرب کے ساحل تک ہی ہم رہتے ہیں ۔ رمضان کے مہینے میں ہماری عیاشیان بھی تو نے خوب دیکھی ہے اور جلتے ہوئے مکان کانظارہ بھی تو نے خوب کیا ہے ۔ جلتا بہار، تیری نظر میں ہے ۔ اجڑتی دلی کے بے بس مکینوں کی پکار بھی تو نے خوب سنی ہیں ۔
راجستھان میں ہمارے کٹتے بازو پر تیری نظر پڑی ہوگی ۔ گجرات میں جلتے ہوئے جسموں کی خوشبو اج بھی فضا میں ہے, وہ ہمارا ہی جسم جل رہا تھا ۔ بنگال ، آسام ، کرناٹک ، مہاراشٹرا ، ممبئی ، سورت ۔ ان سب جگہوں سے نقاب پوش بیٹیاں کفر کے دل دل کی طرف جارہی ہیں، یہ ہے، تو، ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ لیکن ہمارے دل پر کیا گزری تو نے کبھی جانا ۔ ہم وہ لوگ ہیں کہ ، ہم سے ہمارے اپنے چھین لیے گئے اور ہم کھل کر رو بھی نہ سکے ۔ ہماری ہچکیاں سینوں میں ہی دفن ہوگئی ہیں ۔ ہماری لاچاری تو دیکھو کہ قتل بھی ہمارا ہوتا ہے اور قاتل بھی ہمیں گردانے جاتے ہیں ۔
اتنا کچھ تو ،تونے دیکھا ہی ہوگا کہ ہمارے ہی جسم کے الگ الگ حصے ہمیں کاٹنے کو دوڑتے ہیں ۔۔ ہماری تکہ بوٹی کرنے کا اعلان ہماری مساجد سے رات ودن ہوتا ہے ۔ ہمارے مدارس ہی ہمیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ کر زندگی جینے کا درس دیتے ہیں ۔ ہمارے اپنے ہوتے ہیں، جو ہمارے خون حلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں ان کا ایمان اصل میں کفر ہے ۔۔ وہ ہمارے ہی جسم کا ٹکڑا ہوتا ہے جس پر ہم اہل ایمان بن کر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ یقین نہیں آتا تو ہمارے محلوں کی سیر کرلو ۔
آو دیکھ لو یہ ہماری آبادیاں ہیں جہاں ہر طرف اپنا ہی جسم کاٹ کھانے والے بھیڑیئے کھڑے ہیں ۔ سفید کرتوں بائجاموں میں ملبوس بڑے بڑے ساہوکار اپنا جسم کاٹ کر اسی سے ٹپکتا ہوا خون نچوڑ کر پیتے ہیں ۔
اب بتا ! ہم کیا کریں ؟ کیا شہنائیاں بجائیں اور بے سودھ ہوکر سورہیں ۔ طبلے کی تھاپ لگائیں اور اپنی عقل کا کباڑا کرلیں ۔ مست نغموں کے سروں میں بد مست ہوکر اپنا گریبان پھاڑ لیں ۔ نہیں یہ نہیں ہوسکتا ۔ ہم ایسا نہیں کرسکتے ۔ ہم آہ بھی نہیں کریں گے ۔ بس تجھ سے اتنا کہیں گے کہ اب دوبارہ انا تو ہمارا غم کم کچھ کراکے آنا ۔ ہم کسی کو ناراض واپس نہیں کرتے ۔ ہماری روایت ہی کچھ الگ ہے ۔ آج تجھے بھی مایوس نہیں کریں گے