ایک آیت ہی کافی ہے اگر کچھ اثر کرے
ایک آیت ہی کافی ہے اگر کچھ اثر کرے
یہ نکتہ پہلے سِکھایا گیا کس اُمّت کو؟
وصال مُصطفوی، افتراق بُولہَبی!
(از علامہ اقبال)
__گھر، سماج ،گاؤں، ملک، قبیلہ،خاندان، مسلک، مشرب، مذہب ، برادری، حسب، نسب،مدرسہ، مسجد، خانقاہ، غرض کہ ہر جگہ، ہر ایونٹ اور یونٹ میں فساد ہے، تکرار ہے، پھوٹ ہے اور اختلاف ہے۔ اسی سقم سے ابھرنے کے لیے کچھ لوگ ڈیڑھ اینٹ کی اپنی الگ مسجد بنا لیتے ہیں کہ شاید پرسکون ماحول میں سانس لے سکیں، لیکن پھر کچھ ہی دنوں کے بعد اس میں بھی ٹوٹ پھوٹ اور اختلافات کے سُر بلند ہونے لگتے ہیں،اور اس انتشار در انتشار کے عمل میں شریک سارے لوگ گنہگار ہوتے رہتے ہیں۔ پہنچی وہیں پہ خاک،جہاں کا خمیر تھا۔ إلاماشاءالله!
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
(ثقب لکھنوی)
__اس سلسلے میں ناچیز نے بہت گہرائی کے ساتھ غور و فکر کیا،حالات کا جائزہ لیا،کئی لوگوں سے باتیں کیں اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی دو بنیادی وجہیں ہیں۔
(1) پہلی وجہ تکبر، گھمنڈ اور خود ستائی کا خونی مرض ہے۔ جسکا شکار ہو کر انسان حیوان بن جاتا ہے اور پھر وہ اپنی نفس امارہ کی تسکین کے لیے کسی کا مذاق اڑاتا ہے، کسی کو ذلیل کرتا ہے، کسی کو سر عام رسوا کرتا ہے، اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ اپنے ان نامناسب اور نازیبا حرکتوں کو حق گوئی کا نام دیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ میں حق گو ہوں،منہ پر اور اس کے سامنے اس کے عیبوں کو اور گناہوں کو بیان کرتا ہوں۔
جبکہ ایسے نازیبا عمل کرنے والے کو عربی میں”هُمَزَةٍ” کہتے ہیں، اور اللہ تعالی نے اس کے لیے جہنم کی بشارت دی ہے۔
(2) دوسری وجہ حسد یعنی دوسروں کی کامیابی دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہونا، اور پھر اپنی ناکامی اور نااہلی کو چھپانے کے لیے کامیاب لوگوں کی عیب جوئی کرنا، غیبت کرنا اور اسے نیچا دکھانے کے لیے اس کے چھپے عیبوں اور گناہوں کو اجاگر کرنا۔ ایسا کر کے وہ خود کو اونچا دکھانے کی کوششیں کرتا ہے اور جو ان سے اونچے ہیں ان کو نیچا درشانے پر زور لگاتا ہے۔ عربی میں ایسے لوگوں کو “لُّمَزَةِ” کہا جاتا ہے۔
فرمان ربی ہے:
وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ:
اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔
ویل جس کا معنی خرابی ہے،جہنم کے ایک طبقے کا نام ہے، یہ ہراس شخص کے لیے ہے جو لوگوں کی برائی اس کے منہ پر یا اس کے پیٹھ کے پیچھے کرتا ہے۔
اب ان دو لفظ همزه اور لمزه کے معنی اور مفہوم کو ملانے کے بعد جس شخص کا چہرہ اور ہیولہ نظر آتا ہے وہ موجودہ دور میں ہم میں سے زیادہ تر لوگ ہیں۔ لیکن شخصیت پرستی اور ہوسِ دنیا کا افیونی ٹکیہ کھانے کے بعد ہم پر ایسا خمار چڑھا ہوا ہے کہ ہمیں ہر نقشہ الٹا نظر آتا ہے۔ دعوت توحید اور اتحاد ہمیں صلح کلیت نظر آتی ہے۔اور فرقہ پرستی و فتنہ انگیزی میں نجات و فلاح کی صورت نظر آتی ہے، کسی شاعر کی زبان میں اس کی تعبیر یوں کی جاتی ہے کہ۔
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
الغرض ہم میں سے جو لوگ ہمزہ اور لمزہ کے مصداق ہیں،انھوں نے اپنی عاقبت کے ساتھ سماج و معاشرہ اور مذہب و مسلک کو بھی تباہ و برباد کیا ہے۔ ہم لوگوں کو اور علمائے کرام، و مفتیان عظام، کے ساتھ قائدین ملت، اور سجاد گان خانقاہ کو بھی غور وفکر کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہم میں سے کون کون لوگ ہمزہ اور لمزہ کے زمرے میں آتے ہیں۔خیال رہے کہ ہرگز ہرگز کسی کو نام لیکر ہمزہ اور لمزہ کہنا نہیں چاہیے کہ ایسا کرنا بھی تو ہمزہ اور لمزه کی صفت ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور غیبت،چغلی،فتنہ، فساد، اور ایک دوسرے کو ذلیل و رسوا کرنے کی هُمَزَةٍ اور لُّمَزَةٍ کی سی صفت خبیثہ اور گناہ کبیرہ سے محفوظ فرمائے۔ آمین
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584