دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

Spread the love

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

(موجودہ سیاست کے تناظر میں)

فرحان بارہ بنکوی 

’’سیاست‘‘ کسی زمانے میں خدمتِ خلق اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہنے کا نام تھا۔ ہر شخص ذاتی مفادات سے گریزاں ہو کر عمومی و عوامی مفادات، حقوق کی بازیابی اور قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے جفاکشی کرتا تھا؛ لیکن موجودہ وقت میں لوگ مفادات کی سیاست کرتے نظر آتے ہیں۔

کسی زمانے میں سیاست میں اختلافات ’’نظریات‘‘ کی بنا پر ہوتے تھے؛ مگر موجودہ وقت میں اختلافات ’’ذاتیات‘‘ پر مبنی ہوتے ہیں؛ چنانچہ لوگوں نے مفادات کے حصول کے لیے تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں قائم کیں اور حصولِ مفاد کے لیے ہر حربہ اپنایا۔ کسی نے مسلمانوں کی نمائندگی کا ٹھیکہ لے کر ملائی کھائی، کسی نے ان کو کسی کا خوف دلا کر مفادات حاصل کیے اور بر سرِ اقتدار ہوئے۔ 

حصولِ اقتدار تک جن مسلمانوں کی خیر خواہی کے وہ دم بھرتے تھے، حصولِ اقتدار کے بعد انہیں مسلمانوں کا خون انہیں ارزاں معلوم ہونے لگا۔ ان کی ناموس کی حفاظت کا دم بھرنے والے ہی ان کی ناموس کے لٹیرے بن گئے۔

عصرِ حاضر میں جس قدر سیاسی جماعتیں ہیں، ہر ایک سیاسی جماعت مسلمانوں سے مسیحائی کا دم بھرتی ہے۔ مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی کے نعرے بلند کرکے مسلمانوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے اور ان کے قیمتی ووٹوں کو حاصل کرکے بر سرِ اقتدار تو ہو جاتی ہے؛ مگر ان کے حقوق کی بازیابی کبھی نہیں ہوتی۔ ان کے پامال ہوتے ہوئے حقوق کی حفاظت کے لیے کوئی آگے نہیں آتا۔ 

انہیں تو مسلمانوں کی یاد اس وقت آتی ہے کہ جب انتخابات کا مرحلہ نزدیک ہو اور حقِ رائے دہی کا استعمال اپنے حق میں کرانا ہو۔

کہتے ہیں کہ دوست اور خیر خواہ ہمیشہ ہاتھ تھامے رہتے ہیں اور ان کو کسی بھی معاملے میں کبھی ضرر نہیں پہنچنے دیتے ہیں مگر یہ نام نہاد خیر خواہ تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں مسلمانوں کا ہاتھ تو تھامتی ہیں؛ لیکن ان کو کبھی تحفظ فراہم کرانے کا عندیہ نہیں کرتی۔ ان کے ہاتھ تھامنے کا مطلب فقط حصولِ مقاصد ہوتا ہے۔ گدی نشین ہوتے ہی وہ اپنا خیر خواہی کا جھوٹا لباس اتار پھینک دیتے ہیں اور منافقانہ روِش پر چلتے ہوئے، حقوق دینے کے بجائے فقط دلاسے دیتے رہتے ہیں۔

جن سیاسی جماعتوں کو مسلمانوں کی خیر خواہ جماعت سمجھا جاتا ہے، ان جماعتوں نے مسلمانوں کو آخر کیا دیا؟ کانگریس جیسی منافق جماعت نے ہمیشہ مسلمانوں کی پشت میں خنجر اتارنے کے موقع تلاش کیے ہیں۔ اسی کانگریس کے دورِ حکومت میں نہ جانے کتنے فسادات اور قتلِ عام ہوئے کہ جس نے مسلمانوں کو پس ماندہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ خواہ وہ ۱۹۶۹ء کا گجرات فساد ہو، ۱۹۸۰ء کا مرادآباد فساد ہو، ۱۹۸۷ء کا ہاشم پورہ قتلِ عام ہو، ۱۹۸۹ء کا بھاگلپور فساد ہو یا سماج وادی پارٹی کے دور اقتدار میں ہوئے ۲۰۱۳ء کا مظفر نگر فساد ہو۔ ان تمام فسادات نے مسلمانوں کو معاشی بحران کا شکار بنا دیا اور مالی اعتبار سے خستہ حال کر دیا۔ 

ان نام نہاد سیکولر جماعتوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو سیاسی غلام بنائے رکھنے کا عزم کر رکھا ہے؛ اسی بنا پر ان نام نہاد مسلمانوں کی خیر خواہ تنظیموں کو مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی بالکل بھی برداشت نہیں۔ مسلمانوں کی نمائندہ جماعتوں اور نمائندوں پر حزبِ مخالف کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر لوگوں کو بدگمان کرتے ہیں؛

تاکہ کبھی بھی ہند میں مسلم نمائندگی کے لیے کوئی سر نہ اٹھا سکے اور کوئی بھی مسلم سیاسی جماعت مستحکم نہ ہو سکے؛ لیکن اب وقت ہے کہ ضلعی سطح سے شروع کرکے، صوبائی اور پھر مرکزی سطح پر اپنی نمائندگی کے لیے افراد تلاش کیے جائیں۔ جلسے جلوس سے اجتناب کرکے، انفرادی طور پر افراد سازی کی جائے؛ مگر یہ کام جتنا کہنے اور سننے میں شیریں اورآسان معلوم ہوتا ہے، معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔

اس کے لیے ایک لمبا وقت درکار ہوگا اور جفاکشی کے تمام مراحل طے کرنے پڑیں گے۔ نیز سیاسی جماعت ایسی ہو کہ جس میں تمام انسانوں کے حقوق کی بات کی جائے اور تمام لوگوں کی شرکت کی راہیں ہموار ہوں؛ ورنہ پھر ’’دلی ہنوز دور است‘‘ کا مصداق ثابت ہوگی۔

Ansarimfarhaan@gmail.com

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *