سی ایم ابراہیم کے قرضے کی قسط ادا کر رہے ہیں کرناٹک کے مسلمان
!کنڑا روزنامہ وارتھا بھارتی کا اداریہ، ترجمہ مدثراحمد، شیموگہ۔ سی ایم ابراہیم کے قرضے کی قسط ادا کر رہے ہیں کرناٹک کے مسلمان
ودھان پریشد کے ایک اپوزیشن لیڈرکے عہدے سے اگر ایک سیاسی لیڈر چالیس کروڑ روپیوں کا قرضہ اداکرسکتاہے تو زیر اقتدار پارٹی کے لیڈرکتنے کروڑروپئے کماسکتے ہیں؟
یہ سوال اگر ایس ایس ایل سی کے علم الحساب کی کتاب میں شامل کیاجاتاہے تو کوئی بات نہیں۔اپنے اقلیتی کریڈیٹ کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے وقت اور تقاضے کے مطابق پارٹیوں کااستعمال کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر قبضہ حاصل کرنے والے لیڈرہیں سی ایم ابراہیم۔
حال ہی میں عوامی سطح پر آنکھوں سے پانی جاری کرنے کا ناٹک کرتے ہوئےکہاکہ میرے لیے دیوے گوڈابھی کم نہیں ہیں،اصل میں سی ایم ابراہیم نے جو آنسو بہائے ہیں وہ بھارت کے مسلمانوں کے حالات دیکھتے ہوئے نہیں ہیں،بلکہ انہیں ودھان پریشدکے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ نہ دینے پر کانگریس کے ناراضگی کے آنسوہیں۔
اتنے سال میں سیاسی حلقے میں رہنے کے باوجود مجھ پر40 کروڑ روپئے کا قرضہ ہے،شادی لائق پانچ بچے ہیں،کہہ کر اپنا دُکھ لوگوں کے سامنے سی ایم ابراہیم نے ظاہرکیاہے۔
ہمارے سامنے پہلا سوال
اب تک 40 کروڑ روپئے کا جو قرضہ ہے اُسے اور ودھان پریشدکے اپوزیشن لیڈر کے عہدے کو کیا تعلق ہے؟اگر ودھان پریشد کے لیڈر کا عہدہ دیاجاتاتو کیا 40 کروڑ روپئے کا قرضہ اُترجاتا؟۔
کیاودھان پریشد کے اپوزیشن کاعہدہ اتنا فائدہ مندہے؟۔
کیا ان کے پانچ بچوں کی خاطر اپوزیشن لیڈرجیسے اہم عہدے کو کانگریس پارٹی مہیا کرے؟۔
کیا کانگریس پارٹی کے سامنے سی ایم ابراہیم نے سینئر لیڈرہونے کے ناطے جو مطالبہ رکھاہے وہ ان کی کمزوری نہیں ہے؟۔
اقلیتوں کو سامنے رکھ کر سیاسی میدان میں آنے والے سی ایم ابراہیم صاحب نے کیا کبھی عوامی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے آنکھوں سے آنسو بہائے ہیں؟۔
۔40 کروڑ روپیوں کا جو قرض بتا رہے ہیں وہ قرض کس کیلئے کیاگیاہے؟۔
کیا وہ اپنے سماج کی خاطر اتنا بڑا قرضہ کئے ہوئے ہیں،یا پھر کانگریس پارٹی کی خاطر یہ قرضہ کیاہے یا ودھان پریشدکی کُرسی حاصل کرنے کیلئے کانگریس پارٹی کو دئیے ہیں؟۔
ان سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جس وقت سی ایم ابراہیم سیاست میں قدم رکھ رہے تھے،اُن کے پاس کتنی مال ودولت تھی،اب سیاست کے زاول کے موقع پر کتنے پیسے اور املاک رکھے ہوئے ہیں؟۔
یہ سب حساب ریاست کو چھوڑئیے ،کم ازکم ان پر جس مسلم سماج نے بھروسہ کیاہے کیا اُن کو حساب دینگے؟۔اگر حساب دینگے تو ان کے آنسوئوں پر بھروسہ کرسکتےتھے۔
سی ایم ابراہیم سمیت کئی مسلم اقلیتی لیڈروں نے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہ کر عہدوں کا سُکھ حاصل کیا ہے،یہ لوگ کم ازکم اپنے سماج کے حالات کو دیکھ کر اسے بہتر بنانے کیلئے آگے آتے تو آج ریاست کے مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی!۔
مسلمانوں کو انہوں نے اپنی سیاست کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں،نہ کہ ان پر بھروسہ کرنے والے لوگوں کی زندگی کوبدلنے میں کبھی بھی جدوجہد نہیں کی ہے۔
آج اقتدار چھوٹتے ہی مسلمانوں کا نام لیکر آنسوبہا رہے ہیں۔اگر ضرورت پڑی تو بی جے پی کے ساتھ مل کر بابری مسجدکے انہدام کی تائید کرینگے۔اپنا قرضہ چکانے کے لیے سی ایم ابراہیم بی جے پی کے درپر کھڑے ہونے کی نوبت میں آچکے ہیں۔
اسی دوران کانگریس پارٹی مسلم سماج کے ساتھ جس طرح کی ناانصافی کررہی ہے اُس کی بھی تائید نہیں کی جاسکتی۔مسلم سماج کو مذہبی سطح پر دیکھنے کے بجائے مظلوم طبقے کے مقام پر دیکھنے کیلئے کانگریس کو تیار ہونا پڑے گا
جسٹس سچرکمیٹی نے مسلمانوں کو نئے دلت کا لقب دیاتھا۔تعلیم ،سیاست اور اقتصادی حلقوں میں مسلمانوں کو مزید پسماندہ کیاجارہاہے۔
اس مظلوم سماج کی مکمل ترقی کے بغیر بھارت کی ترقی ناممکن ہے۔مسلمانوں کی دلجوئی کی بات جو آر ایس ایس کررہی تھی اُسے سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ظاہر کرنے کے باوجود کانگریس پارٹی نے مسلم سماج کی بازآبادکاری کے تعلق سے فکرمندنہیں ہے
اُسے صرف مسلمانوں کے ووٹ چاہیے،لیکن ان کی ترقی ضروری نہیں ہے یا پھر مسلمانوں کی ترقی کے تعلق سے بات کی جاتی ہے تو کانگریس میں موجود نرم ہندوتواکہیں منہ موڑ نہ لیں یا پھر آر ایس ایس اُسے کانگریس کے خلاف استعمال نہ کرلے،اس کا کانگریس کو خوف کھایاجارہاہے۔
یہ سوچ یہاں تک آچکی ہے کہ مسلمان کو ٹکٹ دیاجائے تو وہ نہیں جیتیں گے،لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج کانگریس پارٹی میں کسی بھی دھرم کے لوگ الیکشن میں امیدوار بنتے ہیں تو وہ جیتنے کی حالت میں نہیں ہیں
مگر کانگریس پارٹی کے مطابق الیکشن میں مسلمانوں کی جیت ناممکن ہے اور وہ شکست کھانے والے امیدوارہیں،ایسے وقت میں مظلوم پسماندہ طبقات کوموقع دیکر ودھان پریشد اور راجیہ سبھا میں بھیجاجاسکتاہے۔
ودھان سبھا میں جیتنے کی طاقت نہ ہو تو کیا ہوا کانگریس اگر واقعی میں مسلمانوں کو مظلوم طبقہ مانتی ہے تو انہیں ودھان پریشدمیں اعلیٰ مقام دیاجاسکتاہے۔اس بار سی ایم ابراہیم کےتاثرات سے خوف کھا کر کانگریس نے یو ٹی قادر کو اپوزیشن کا ڈپٹی لیڈر بنایاہے۔
ایک دور میں نذیر صاحب،عزیز سیٹھ،بی ایم محی الدین،جعفر شریف جیسے قابل وبزرگ لیڈران مسلمانوں میں تھے،ایسے قابل لیڈران اب صرف کانگریس میں ہی نہیں بلکہ اس کی کمی تمام سیاسی پارٹیوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
اس کی وجہ بس یہی ہے کہ صلاحیت جانکاری اور بڑکپن رکھنے والے مسلم لیڈروں کو بڑھنے کے حدمیں ختم کردیاجاتاہے اور انہیں غلامی کی سوچ میں مبتلا کیاجاتاہے۔دوراندیش اور باصلاحیت لیڈروں کو بڑھاکر کانگریس کے اعلیٰ عہدوں پر فائزہونے والے لیڈروں کی کمی کھل کر سامنے آرہی ہے۔
چھوٹے چھوٹے عہدوں کو دیکرمسلمانوں کو خوش کیاجارہاہے۔کانگریس کے مفادات کیلئے زندگیاں گھٹانے والے لیڈروں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور جنہوں نے حق مانگاہے وہ اب کنارہ کئے جارہے ہیں اور حالت یہاں آچکی ہے کہ وہ اب اپنے بچے،پوتے،نواسوں کے لیے ٹکٹ کامطالبہ کررہے ہیں۔
مسلمانوں کے لیڈروں نے اگر مسلم سماج کو بڑھانے کی کوشش کی ہوتی تو یہ حالت پیدا نہ ہوتی۔ مظلوم مسلم سماج کو کانگریس اور کانگریس میں موجود سینئرمسلم لیڈروں نے جو دھوکہ دیاہے اُس کے نتیجے میں آج بھارت سنگھ پریوارکی مٹھی میں تڑپ رہاہے،اس میں کوئی دوہری رائے نہیں ہے۔
سیکولر اچانک کمیونل بن جاتے ہیں
ارطغرل غازی اور یوپی کا الیکشن
Pingback: ووٹ ہماری طاقت ہے اور بھارتی ہونے کا ثبوت بھی ⋆ تحریر: نعیم الدین فیضی برکاتی