میری صدا کون سنے اس دور خود غرضی میں
میری صدا کون سنے اس دور خود غرضی میں
حکومت طاقت کے بل پر ہندوستان کے مسلمانوں کو بیک فٹ پر لانا چاہتی ہے۔ اسے دوسرے درجے کا شہری بنانا چاہتی ہے۔ اس کے وجود کو ناکارہ اور کالعدم کر دینا چاہتی ہے۔ سیاست، تعلیم، نوکری، تجارت و معیشت اور صنعت و حرفت سے دور کر دینا چاہتی ہے اور یہ ساری کاروائی ڈرا کر ، دھمکا کر، حکومت و اقتدار کا رعب دکھا کر، ظالمانہ طریقے اور ناجائز دفعات و مقدمات لگا کر، گھروں کو توڑ کر، آواز کو دبا کر، قانون کا ڈر دکھا کر، جیلوں میں بھر کر، ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑ کر، جئے شری رام کے نعرے لگوا کر، مسجدوں میں بھگوا جھنڈے لہرا کر، خوف و دہشت کا ماحول بنا کر مسلمانوں کو ، ملی تنظیموں کو اور انسانی حقوق کے محافظوں کو کمزور بلکہ ختم کر دینا چاہتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمان؛ جس کے وجود سے پورے یورپ پر کپکپاہٹ طاری ہو جاتی تھی، وقت کے سپر پاور سے بے خوف و خطر ٹکرا جایا کرتے تھے، جس کے پاس خالد بن ولید جیسے سپہ سالار ہوا کرتے تھے، علی بن ابی طالب جیسے شیر خدا ہوا کرتے تھے، صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم جیسے کمانڈر ہوا کرتے تھے آج وہ کتابوں میں گم ہوگئے۔ آج ان کے نام لیوا خوف و دہشت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملی تنظیمیں، دانشوران، علماء، خطباء، مفکرین و مجددین سب پر خوف کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ کوئی بولنا نہیں چاہتا ، آواز اٹھانا نہیں چاہتا ، کوئی آگے آکر امت کی باگ ڈور سنبھالنا نہیں چاہتا ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خاموش تماشائی بنے رہنے کو حکمت و مصلحت اور وقت کا تقاضا تصور کر بیٹھے ہوں۔
آج ہمارے مسلم نوجوان ، ہمارے محافظ و نگہبان ، امت کے مسائل کی خاطر آگے آنے والے ، امت مسلمہ کے حق کی خاطر لڑنے والے ، جیلوں میں بند ہیں ، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ وہی خالد سیفی جس نے سی اے اے کے خلاف اپنی جان و مال اور اہل و عیال کی فکر کئے بغیر مسلمانوں کے حق کی خاطر لڑ رہے تھے آج اسے دہلی فساد کا ماسٹر مائنڈ بتا کر اور اس پر یو اے پی اے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے جیسے دفعات لگا کر ڈھائی سال سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ آج ان کی بیوی قوم و ملت کے ذمہ داران سے فریاد کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ خالد سیفی کی حالت بہتر نہیں ہے۔
خالد سیفی جو یو اے ایچ ( یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ ) کے فاؤنڈر ہیں۔ سوشل ایکٹوسٹ ہیں۔ انسانی حقوق کے محافظ ہیں۔ امت مسلمہ کا درد رکھنے والے ایک سچے اور مخلص مسلمان ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ خالد سیفی اور عشرت جہاں وہ پہلے ایکٹوسٹ ہیں جن کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف گرفتار کیا گیا تھا۔ اور ہندوستان کے ان سرکردہ شخصیات میں سے بھی ایک ہیں جنہوں نے دہلی تشدد کے دوران دیگر ملی جماعتوں کے ساتھ مل کر امن و امان قائم کرنے اور طبی امداد فراہم کرنے میں سب سے آگے تھے، آج ایک ایسا شخص اپنی بیوی سے یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اگر میرے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو بچوں کا خیال رکھنا۔
سی اے اے تحریک میں ہمارے بہت سے نوجوان مشعل راہ بن کر سامنے آئے۔ نئی سوچ اور نئی امنگ لے کر اور قوم و ملت کا درد لے کر ، خالد سیفی، شرجیل امام اور عمر خالد جیسے ناجانے اور کتنے ایکٹوسٹ ہیں ،رہبر و رہنما ہیں ، لیکن آج ان کی اکثریت جیل کی سلاخوں میں بند ہے اور ان کے اہل خانہ گھروں میں بند ہیں۔ ہمارے پاس ملی تنظیمیں ہیں، جماعتیں ہیں، کچھ سیاسی ، سماجی و فلاحی افراد بھی ہیں اور اس کے علاوہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے لیکن ان کے حق میں صدا بلند کرنے کو کسے فرصت۔ مسلم تنظیموں و جماعتوں کے سربراہوں کو چاہئے کہ ان کے متعلقین کی خبر گیری کریں، ان کی پریشانی میں ان کے ساتھ کھڑے رہیں
ان کے دکھوں کا مداوا اور زخموں کی مرہم پٹی کریں اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس بارے میں لائحہ عمل تیار کریں ، بے قصور مسلم نوجوانوں کی جلد از جلد رہائی کے لئے اقدامات کریں ، انتظامیہ پر دباؤ ڈالیں ، اگر مناسب ہو تو عالم اسلام کی توجہات کو اس سنگین مسئلے کی جانب مبذول کرنے کی کوشش کریں ، انسانیت کا درد رکھنے والے غیر مسلموں کو بھی اس جد و جہد میں اپنے ساتھ شریک کریں اور عوامی سطح پر حکومت کی مسلم مخالف پالیسیوں ، ظالمانہ اقدامات اور ناجائز مقدمات کو لے کر بیداری مہم چلائیں اور اس مہم میں خاص کر ایسے لوگوں کو شریک کریں جو ملک میں ظلم و ستم کے شکار ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب اور برادری سے تعلق رکھنے والے ہوں۔
محمد طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جھارکھنڈ
رابطہ نمبر: 7667039936
حوصلہ افزائی کے لیے شکریہ
Pingback: بند آنکھ سے دیکھ تماشا دنیا کا ⋆ اردو دنیا محمد طاہر ندوی
Pingback: میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہونچے ⋆ اردو دنیا از: محمد طاہر ندوی