بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
تحریر : بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے بے آبرو
ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑے بے آبرو ہو کر تیر کوچے سے ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے بے آبرو ہوکر
کیا بات ہے بیٹے! ایک ہی مصرعے کی تکرار کیوں کی جارہی ہے؟ بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے …. بڑے بے آبرو ہوکر … آخر بتاتے کیوں نہیں؟ وہ کون ہے جو بے آبرو ہوکر نکالے گا ؟ کوئی غیر نہیں ، امی ، اپنے بالکل اپنے ، اپنوں کے ہاتھوں ہی نکالے جائیں گے۔
یہ کیا بات ہوئی؟ اپنے کہہ رہے ہو پھر ان کے ہاتھوں نکالے جانے کی بات کر رہے ہو۔
صحیح امی ! بالکل صحیح، غیروں کے ہاتھوں نہیں، اپنوں کے ہاتھوں نکالے جائیں گے بڑے بے آبرو ہوکر
یا یوں کے توں ہیں، کے کالے جا ئیں گے، بڑے بے آبرو ہو کر … ارے بھئی ! اس مصرعے میں ایسی کیا خاص بات ہے جو تمہارے دل کو چھو گئی؟ خاص بات نہیں بلکہ بہت ہی خاص بات ہے … بڑے بے آبرو ہوکر …
کل سے اس مصرعے کے سوا کچھ اور نظر نہیں آ رہا ہے ۔ جدھر دیکھو یہی مصرعہ ، اس مصرعے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ دنیا اس کی رنگینیاں اور انسان اس کی ساری ترقیاں، اس کے بلند بانگ دعوے سب کچھ بے حقیقت ۔
بتا بھی دو کہ اس مصرعے میں ایسی خاص بات ہے کیا کہ اس کے سامنے دنیا اور اس کی ساری رنگینیاں اور رعنائیاں نیچے نظر آ رہی ہیں ۔
بتا دوں گا امی بتا دوں گا ورنہ ساری زندگی غلط فہمی کی نذر کر کے دائمی نقصان مول لینا پڑے گا۔
کیا اس مصرعے کو سمجھ کر دائمی خسارے سے بچا جا سکتا ہے؟
ہاں امی ! حقیقت کو سمجھ کر ہی انسان دائمی وابدی خسارے سے بچ سکتا ہے ورنہ کون ہے جو جان بوجھ کر نقصان اور وہ بھی دائی نقصان اٹھانا پسند کرے گا ؟
ہر انسان کو سب سے زیادہ محبت اپنی ذات سے ہوتی ہے ۔ اس کی کوششوں کا مرکز اس کی اپنی ذات ہوتی ہے ۔ اس کی ساری بھاگ دوڑ کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کے نقصانات سے بچار ہے۔ دنیا کے سارے آرام و آسائش اس کو حاصل ہوں پھر وہ کیسے جان بوجھ کر نقصان اٹھانا پسند کرے گا ۔ بیٹے تمہید تو بہت طولانی ہو گی ، قصہ مختصر ہی ہے ، بڑے بے آبرو ہو کر تیرے. کوچے سے ہم نکلے ۔
بتانا پسند نہیں کر رہے ہو تو مت بتاو میں اصرار نہیں کروں گی ۔ ناراض ہوگئیں امی ! کل ہمارے ایک دوست کے والد صاحب کا اچانک انتقال ہو گیا تو انہیں آخری غسل گھر کے باہر گلی میں پردہ ڈال کردیا گیا۔
مجبوری ہوگی بیٹے! شاید گھر بہت چھوٹا ہوگا ، اس دور میں خوش حالی میں بھی اکثر گھر صرف ایک کمرے پر مشتمل ہوا کرتے ہیں جس میں صحن نام کی کوئی جگہ نہیں ہوتی
خاص بات تو یہی ہے بہت ہی عالی شان کشادہ وسیع اور کئی منزلوں والی بلڈنگ ہے ، اس گھر میں جو مرحوم کا تعمیر کردہ ان تھک محنت وکوششوں کا نتیجہ ہے ، مرحوم کو آخری غسل دینے کے لیے جگہ نہ مل سکی ۔ ان کے ورثا بہت دیر تک آپس میں مشورے کرتے رہے ۔ آخر میں سے یہ پایا کہ میت کو غسل گھر کے بازوکی گلی میں پردہ ڈال کر دیا جائے کیوں کہ گھر میں صحن نہیں ہے ۔
یہ وہ لوگ تھے جو مرحوم کے سامنے منہ کھولنے کی ہمت نہیں کر پاتے تھے۔ سر جھکا کر بے چوں و چہ اب ان کے احکامات کی تعمیل کیا کرتے تھے ۔
وہ لوگ فیصلہ کر تے ہیں چوں کہ گھر میں صحن نہیں ہے اس لیے میت کو گھر کے باہر غسل دیا جائے ۔ اس کٗی کمروں والے گھر میں جومرحوم کا اپنا تھا ان کو آخری غسل دینے کے لیے کوئی کمرہ نہ مل سکا مگر اب وہ گھر مرحوم کا کہاں رہا تھا وہ تو ان کی آنکھ بند ہوتے ہی ان کے وارثوں کا ہو گیا تھا ۔ وہ اس کے مالک بن گئے ، اب اس پر ان کا حکم اور مرضی چلے گی ۔
اور وہ لوگ یہ بات کیسے گوارا کریں گے کہ ان کے رہنے اور استعمال کے کمروں میں میت کو غسل دیا جاے ، چھوت نہ لگ جائے گی ۔ نحوست نہ پھیل جائے گی پھر بدشگونی کی بات بھی تو ہے ۔ کس قد ر عبرت کا مقام ہے وہ گھر جس کو ہم اپنا سمجھا کر تے ہیں جس کو تعمیر کرنے میں اپنا خون پسینہ ایک کر دیتے ہیں ، اپنی عمر عزیز کھپا دیتے ہیں ، اس گھر سے ہم کو یوں نکالا جا تا ہے ۔ کیا ہماری زندگی کا حاصل یہی ہے؟
کیا ہم ورثا کے لیے مال و دولت جائیداد چھوڑ جانے کے لیے محنت کر تے ہیں؟ کیا ہماری ساری تگ و دو اور بھاگ دوڑ صرف اس
لیے ہوتی ہے کہ ہمارے ورثا مال دار اور صاحب جائداد ہوں اور ہماری محنت پر عیش کریں اور ہم یہاں سے مفلس و قلاش اور تہی دست چلے جائیں گے۔
آخر یہ کیسی محبت ہے جو انسان اپنے آپ سے کرتا ہے اور یہ کون سی عقل مندی ہے کہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی ساری عمر کھپا دیتا ہے خود اپنی دائمی زندگی کےلیے کوئی سامان نہیں کرتا ہے اور نہ اس کو بہتر بنانے کی کوئی فکر کرتا ہے نہ اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت کرتا ہے جس میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ وہ اگر چہ قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ جمع کر لے یہاں سے خالی ہاتھ جائے گا ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں کون شخص ہے جس کو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال پسند ہے؟
“لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے ہر خص کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب و پسند یدہ ہے، آپ نے فرما یا: ”مجھو اس بات کو تمہارا مال تو وہ ہے جو تم نے (مرنے سے پہلے اپنی آخرت میں کام آنے کے لیے ) آگے پیج دیا اور تمہارے وارث کا مال وہ ہے جو تم نے (مرنے کے بعد اپنے پیچھے چھوڑ دیا“ ( بخاری مسلم )
امی! آخر اس حقیقت کو ہم کیوں نہیں سمجھ پاۓ کہ ہمارا مال تو بس وہی ہے جو راہ خدا میں خرچ کر کے آگے بھیجا ہو اور جو مال اپنے پیچھے چھوڑ اودوارث کا مال ہے ۔ بیٹے ! سمجھتے ہیں نہ صرف خود سمجھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سمجھاتے ہیں ، اسٹیج پر کھڑے ہوکر دھواں دھار تقریر کر کے الفاظ کے موتی لٹاتے ہیں یہ دنیاۓ آب و گل ہمارا مقام نہیں ہے ، ہمارا اصل ٹھکانہ آخرت ہے۔
یہ دنیا عارضی و فانی ۔ متاع قلیل ہے، یہ مال و دولت اور ساز و سامان ساتھ جانے والا نہیں ہے ۔ ہمارے کام آنے والا وہی مال ہوگا جو ہم راہ خدا میں خرچ کر کے آگے بھیجتے ہیں ۔ یہ دنیا دار اعمل ہے یہاں ہم کوعمل کے لیے بھیجا گیا ہے تا کہ ہم اس زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشش کر میں جو ہماری دائمی زندگی ہوگی ۔ ہے،
امی ! پھر ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی کیوں اس دنیائے فانی کے شب و روز میں الجھ کر رہ جاتے ہیں؟ کیا بتاؤں پکھ مجھ میں نہیں آ تا ، الجھ کر رہ جاتی ہوں ، ہم سا بیوقوف کوئی نہیں جو دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عمر عز یز لگا کر خودمفلس و قلاش رہے اور دائمی خسارہ مول لے۔
Pingback: بارش کا ڈر ⋆ اردو دنیا محمد ہاشم رضا مصباحی