بہارکے اوقاف اور ان کے تحفظ کا مسئلہ
بہارکے اوقاف اور ان کے تحفظ کا مسئلہ
اوقاف ملت اسلامیہ کا قیمتی سرمایہ ہیں، ماضی میں اسے ملت کے غیور، خود دار اور درد مند دل رکھنے والوں نے ملی ضرورتوں کے لیے وقف کیا تھا ، یہاں پر اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ بعض مخصوص حالات میں بعضوں نے وقف علی الاولاد کرکے اپنی جائیداد کے تحفظ کی کوشش بھی کی
لیکن عموما جو مقاصد تھے وہ وہی تھے؛جس کا ذکر اوپر کیاگیا؛ یعنی سماج کے غریب ومحتاج اور نادار لوگوں کی مدد، مدارس اسلامیہ کے طلبہ کی کفالت ، مسلم سماج کی اجتماعی، تعلیمی، اصلاحی اور فلاحی کاموں کی انجام دہی میں تعاون ، ان کاموں کے لیے بڑی بڑی جائیدادیں وقف کی گئیں
پھر دھیرے دھیرے لوگوںکے مزاج میں تبدیلی آنے لگی ، دینے کا مزاج کم ہوا،زمینوں اور عمارتوں کی قیمتیں آسمان چھونے لگیں تو بہت سارے واقفین کے وارثوں نے ہی وقف جائیدا کو خرد برد کرنا شروع کر دیا ، جو اپنوں کے خرد بردکی دسترس میں نہیں آیا ،اس پر غیروں نے قبضہ کر لیا ، اورہماری بے حسی کی وجہ سے آج اوقاف کی بہت ساری جائیداد پر باہو بلی اور دبنگوں کا قبضہ ہے ، عالی شان عمارتیں کھڑی ہیں، کڑوڑوں کی جائیداد ہے
لیکن ملت کو اس کا فائدہ نہیں پہونچ رہا ہے، مختلف ریاستوں کی سرکاریں بھی اس کام میں پیچھے نہیں ہیں، مرکزی حکومت نے بھی پارک وغیرہ بنوانے کے لیے اوقاف کی بہت ساری جائداد پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے
اس بات کا اعتراف اوقاف کے لیے قائم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے چیر مین لال جان پاشا نے کیا، ان کی رپورٹ کے مطابق ’’اوقاف کی زمین او رعمارتوں پر کئی جگہ حکومت بھی قابض ہے اور کئی جگہوں پر وقف کی زمین کے سلسلے میں حکومت ہند کے ساتھ مقدمات چل رہے ہیں‘‘۔ کہیں کرایہ کے نام کچھ رقم مل رہی ہے تو وہ بھی علامتی ہے
اسی جگہ واقع دو سرے دوکان اور مکان کا کرایہ ہزاروں میں ہے ؛ لیکن وہیں پر وقف کی جو جائیداد ہے، اس کا کرایہ سو دو سو سے زائد نہیں ہے ، حکومت بہار کے مطابق ’’وقف کی آدھی جائیداد سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی ، جن اثاثوں سے آمدنی ہوتی ہے،ا ن میں صرف تین فی صد ایسے ہیں ، جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ سے زائد ہے‘‘ ۔
اس صورت حال کا احساس وادراک بہتوں کو تھا ، لیکن بہار کی حد تک میری معلومات کے مطابق عملی اقدام کے لیے اللہ رب العزت نے جس عظیم شخصیت کا انتخاب کیا وہ ابو المحاسن مولانا محمد سجاد بانی امارت شرعیہ کی ذات گرامی تھی
بہار میں ۱۹۳۸ء تک اوقاف کی حفاظت اورنگرانی کے لیے ۱۹۲۳ء میں انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون کے علاوہ ریاستی سطح پر کوئی قانون موجود نہیں تھا ،انگریزوں نے بہت سارے اوقاف ضبط کر لیے تھے، اور ان کو اس طرح اپنی ملکیت بنا لیا تھا کہ اس کی وقفی حیثیت کلیۃ ختم ہو گئی تھی ، الناس علی دین ملوکہم کے تحت بہت سارے لوگ جو اصلاً اوقاف کی زمین اور مکان کے کرایہ دار تھے، مالک بن بیٹھے
اس طرز عمل نے اوقاف کو سخت نقصان پہونچا یا ،مسلمانوں نے انگریزوں سے اس کے تحفظ کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ کیا، انگریزوں کے نزدیک غلام ہندوستان کے اس مطالبہ کی حیثیت ہی کیا تھی، پھر بھی ۱۹۲۳ء میں انگریزوں نے مسلم وقف ایکٹ بنایا ، اور اسے نافذ کر دیا ، یہ ایکٹ ظاہر ہے اسلامی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھا، مولانا نے امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کی رہنمائی میںایک مسودہ قانون تیار کرایا اور اسے بہار مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کے ذریعہ اسمبلی میں پیش کرایا ،چونکہ یہ مسودہ مولانا کی نگرانی میں مرتب ہوا تھا ، اس لیے اس بل میں اسلامی قوانین وقف کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی تھی ، بعد میں حکومت بہار نے اسی مسودہ کی روشنی میں ایک وقف بل پیش کیا؛ جو بڑی حد تک اسلامی اصول وقف کے مطابق تھا ، یہ بل اسمبلی میں منظور ہوا ، اوقاف کے تحفظ کی یہ پہلی کوشش تھی؛ جو امارت شرعیہ کے ذریعہ بہارمیں قانون بنوا کر کی گئی ۔
اس طرح امارت شرعیہ نے مولانا کی نگرانی میں اوقاف کی جائیداد کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرانے کی کامیاب جد وجہد کی ، اسمبلی میں ’’زرعی جائیدادوں ‘‘ پر جب ٹیکس کا قانون لایا گیا اور اغراض حکومت کی تکمیل کے لیے ٹیکس لگایا گیا تو اس میں اوقاف کی جائیداد بھی شامل تھی
ظاہر ہے یہ اسلامی قانون وقف سے میل نہیں کھاتا تھا، مولانا محمد سجاد نے انڈی پنڈنٹ پارٹی کے ذریعہ اس میں ترمیمات پیش کرائیں ،مولانا نے صاف طور پر یہ بات کہی کہ
’’ اسلام میں وقف کی تقسیم خیراتی وغیر خیراتی قطعا نہیں ہے ، جتنے اوقاف ہیں سب ہی خالصتاً لوجہ اللہ ہیں اور اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وقف علی الاولاد والاقارب پر جدید زائد ٹیکس لگایا جا سکتا ہے ، جو وقف سے پہلے نہیںتھا، او ردوسرے اوقاف پر نہیں لگایا جا سکتا یہ تفریق اسلامی قانون میں مداخلت بے جا ہے،جو کسی طرح درست نہیں۔ ( قانوی مسودہ :۴۸)
مولانا نے آخر میں حکومت کو متنبہہ کیا کہ ’’ وہ زرعی ٹیکس سے تمام اسلامی اوقاف کو مستثنیٰ کرے اپنی دانش مندی کا ثبوت دیں ، اور یہ کہ وہ اپنے کو اور مجھ کو کسی آزمائش میں مبتلا نہ کرے، ‘‘ ( ایضا ۵۴)
چنانچہ تمام زرعی اوقاف کو اس قانون سے الگ رکھا گیا ۔
یہ دور انگریزوں کا تھا ، اس دورمیں بہار میں اوقاف کے کنٹرول اور تحفظ کی ذمہ داری ہر ضلع میں ضلع جج کی تھی، آزادی کے بعد بہار میں وقف ایکٹ ۱۹۴۷ء بنایا گیا ، جس کا نفاذ ۳؍ مارچ ۱۹۴۸ء سے ہوا ، بعد میں ۱۹۵۴ء میں مرکزی حکومت کی طرف سے وقف ایکٹ لایا گیا اور اسے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن مسلمان اس سے مطمئن نہیں ہوئے او رترمیم کے مطالبات جاری رہے ، ان مطالبات کے نتیجے میں ۱۹۵۴ء کے وقف ایکٹ میں ۱۹۵۹، ۹ ۱۹۶ء میں جزوی ترمیمات کی گئیں ، ۱۹۸۴ء میں اس ایکٹ میں وسیع پیمارے پر ترمیمات ہوئیں
مسلمانوں نے اس ترمیم کی مخالفت کی اور مسلم تنظیموں کے ذریعہ اسلامی اصولِ وقف کی روشنی میں سوالات اٹھائے گئے ، ان سوالات کی روشنی میں مرکزی حکومت نے وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء پاس کیا ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اوقاف کے تحفظ کے لیے موجودہ امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم کی قیادت میں ترمیمات کے لئے کامیاب جد وجہد کیا ،
اوقاف کی تعریف وغیرہ میں بھی بنیادی ترمیم کرائی گئی ، غیر رجسٹرڈ اوقاف کو بھی حکومت نے وقف کے زمرے میں رکھا ،یہ ایک بڑی کامیابی تھی جو اوقاف کے تحفظ کے لئے مسلمانوں کو حاصل ہوئی ، اس ترمیم سے قبل لال جان پاشا کی قیادت میں قائم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا ایک وفد مرکزی حکومت کی جانب سے مسلم اداروں کی ترمیمات اور وقف ایکٹ پر ان کے اشکالات جاننے اور اوقاف کی حالت کاجائزہ کے لیے تین روزہ دورہ پر پٹنہ وارد ہوا تھا
امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ کے حکم پر ترمیمات کا خاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے پیش کردہ ترمیمات کی روشنی میں احقر نے مرتب کیا تھا ، اور حضرت کے حکم کے مطابق وفد کے سامنے امارت شرعیہ کی نمائندگی احقر محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے ہی کی تھی جو ترمیمات پیش کی گئی تھیں، اس کی تفصیل درج ذیل ہے،میں نے لکھا تھا کہ
۱-۱۹۵۴ئ اور ۱۹۸۴ئ کے قانون وقف میں ہندوستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر کسی غیر مسلم کی جانب سے قائم کردہ وقف کو قف تسلیم کیا گیا تھا، لیکن ۱۹۹۵ئ کے قانون میں وقف کی تعریف میں صرف مسلمانوں کے قائم کردہ وقف کو ہی وقف تسلیم کیا گیا، (دیکھئے R وقف ایکٹ ۱۹۹۵ئ) البتہ ایک دوسری دفعہ کے تحت کسی وقف یعنی مسجد، عیدگاہ، امام باڑہ، درگاہ، مقبرہ، قبرستان یا مسافر خانہ کی مدد کے لئے غیر مسلم کی جانب سے قائم کئے گئے وقف کو تسلیم کرنے کی گنجائش نکالی گئی ہے۔ (دیکھئے دفعہ ۱۰۴؍ وقف ایکٹ ۱۹۹۵ئ ) ہماری تجویز یہ ہے کہ ۱۹۵۴ئ کی تعریفات کو بحال رکھتے ہوئے غیر مسلموں کی جانب سے قائم کردہ وقف بھی وقف، شمار کئے جائیں۔
۲-۱۹۸۴ئ کے وقف قانون میں ’’ معافیاں، خیراتی، قاضی خدمات اور امداد معاش، کو بھی وقف کی تعریف میں شامل کیا گیا تھا، کیونکہ یہ حکمرانوں، جاگیرداروں اور رئیسوں کی جانب سے مختلف علاقوں میں دیئے جانے والے مذہبی خدمات سے مشروط انعامات کی اصطلاحیں ہیں، اسے وقف قانون ۱۹۸۴ئ کے مطابق ہی سیکشن R 3میں باقی رکھنا چاہئے۔
۳-ایک تجویز تعریفات (Definations) میں منشاء وقف کو متعین کرنے کی ہے کہ اس سے مراد وہ مذہبی اور خیراتی مقاصد ہیں
جن کا ذکر وقف کی دستاویز ات میں کیا گیا ہے، یا جن کا اظہار وقف کی نوعیت اور اس کے استعمال سے ہوتا ہے، وقف کی دستاویز سے یا اس کی نوعیت سے منشاء وقف واضح نہ ہونے یا منشاء وقف ناقابل حصول ہوجانے کی صورتوں میں عام مسلمانوں کی عام بہبودی کو اس وقف کا منشاء تصور کیا جانا چاہیے۔
۴-وقف کے سروے سے متعلق دفعات میں ’’قانون کے نفاذ کے آغاز کے وقت موجود اوقاف‘‘ کے سروے کی بات کہی گئی ہے، اس سلسلہ میں ہماری تجویز یہ ہے کہ وقف سروے کمشنر کو ریاست میں پائی جانے والی تمام اوقاف کی جائداد کے سروے کا اختیار دے دیا جائے، اور سروے کو قانون کے نفاذ کے وقت موجودہ جائدادوں تک محدود نہ کیا جائے۔
۵-۱۹۹۵ئ کے قانون میں درج ہے کہ ایک مرتبہ سروے ہونے کے بعد کم از کم بیس سال بعد دوسرا سروے کیا جاسکتا ہے، ہماری تجویز یہ ہے کہ اس میں ترمیم کیا جائے اور لکھاجائے کہ جب ریاستی حکومت ضرورت محسوس کرے تو وہ ایک نئے سروے کا حکم دے سکتی ہے، تاکہ پہلے سروے کے نقائص کو دور کرنا جلد ممکن ہوسکے، ورنہ بیس سال تک وہی ناقص سروے نافذ رہے گا۔
۶-ریاستی وقف بورڈ کی تشکیل میں وقف بورڈ کے کم سے کم تین چوتھائی ارکان مسلمانوں کے مختلف شعبوں، جیسے مسلم ڈاکٹرس، چارٹر اکاؤنٹس، فینانشیل منیجرس اور ریاستی بار کونسل میں رجسٹرڈ ارکان میں سے منتخب کئے جائیں،بار کونسل کے’’ منتخب ارکان‘‘ کی قید ہٹالی جائے، کیونکہ صورت حال یہ ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں میں بار کونسل کے لئے ایک بھی مسلم ایڈووکیٹ منتخب نہیں ہوسکے ہیں۔
٭اوقاف پر ناجائز قبضہ کو ختم کرانے کے لئے وقف ایکٹ میں وہی دفعہ درج کی جائے جو سرکاری زمینوں کو خالی کرانے کے سلسلہ میں پہلے سے موجود ہے۔
٭بہار میں بہت ساری اوقاف کی جائداد پر غیر قانونی قبضہ ہے، اس سلسلہ میں مرکینٹائل بینک، رضوان بلڈنگ فریزر روڈ، اور بی بی جان کے احاطہ کا نام خصوصیت سے لیا جاسکتا ہے، غیر قانونی قبضہ کی زد میں مساجد، قبرستان، امام باڑہ، اور عیدگاہ کی زمینیں بھی شامل ہیں۔ اور یہ سلسلہ پوری ریاست میں پھیلاہوا ہے، اس قبضہ کو ہٹانے کے لئے فوری کوشش کی جانی چاہیے۔
٭بہت ساری ایسی مساجد جو سرکاری مفادات کی توسیع کی زد میں ہیں ، اور جن میں سے کئی کو مسمار کیاجا چکا ہے، کمیٹی سے میری درخواست ہے کہ ان مساجد کی بازیابی کے لئے بھی وہ سرکار پر دباؤ ڈالے، ایسی مسجدوں میں دمساجد کا تذکرہ مثال کے طور پر کررہاہوں، ایک دانا پور کینٹ کی مسجد اور دوسری بازار سمیتی حاجی پور کی مسجد، ان دونوں کی دیواریں منہدم کردی گئیںاور ان کا نام ونشان مٹادیا گیا ہے۔ہمیں خوشی ہے کہ ان تجاویز میں سے کئی کو نئے وقف ایکٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
قانونی اعتبار سے اوقاف کی جائیداد کے تحفظ کے لیے بہا راسٹیٹ میں سنی اور شیعہ اوقاف کے لیے الگ الگ بورڈ قائم ہے، ان کے ذمہ اوقاف کو رجسٹرڈ کرنے اور اوقاف کی جائیدا کے تحفظ کے ساتھ اسے واقف کی منشاء کے مطابق مفید اور بار آور بنانے کا کام ہے ، لیکن اس معاملہ میں دونوں بورڈ سست روی کا شکار ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہاں رجسٹرڈ اوقاف کی تعداد دوسری ریاستوں سے کم ہے، اس سلسلے میں عوامی بیداری بھی نہیں ہے ، رجسٹریشن کے کام سے قبل وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء کے سکیشن ۴ اور محکمہ اقلیتی فلاح کے نوٹی فیکیشن نمبر 843مورخہ 15/09/2008کے مطابق محکمہ اصلاحات آراضی کے پرسنل سکریٹری کو کمشنرکی حیثیت سے سروے کرانا تھا، اس کام کے لیے تمام اضلاع کے کلکٹر کو اسسٹنٹ کمشنر اور ڈ ی سی لارکو سروے کمشنر مقرر کیا گیا تھا ، لیکن ابھی سروے کا کام ہی مکمل نہیں ہو سکا ہے ، جہاں سروے سرکاری کا رندوں کے ذریعہ کرایا گیا ہے،ان میں سے کئی جگہوں پر متعصب سروے کرنے والوں نے قبرستان کو کبیر استھان اور گورستان کو گئو استھان لکھ دیا ہے ، اس وجہ سے ان جگہوں پر کبھی بھی تنازع کھڑا ہو سکتا ہے ۔
ریاست میں وقف ترمیمی ایکٹ ۱۹۱۳ء کے مطابق سروے کا کام ایک سال میں مکمل ہو جانا تھا ، لیکن دوسرے سرکاری کاموں کی طرح یہ معاملہ بھی التوا میں ہے ، چونکہ اس کے تمام اخراجات ریاستی حکومت ہی کو دینے ہیں، اس لیے کم از کم اس تاخیر کا سبب مرکزی حکومت کو نہیں قرار دیا جا سکتا ہے ،جب تک سروے کا کام مکمل نہیں ہو گا ، اوقاف کی جائیداد کی فہرست سازی اور درجہ بندی واقف کی منشا کے مطابق نہیں کی جاسکے گی؛ اس سلسلے میں ضرورت عوامی بیداری کی بھی ہے، اس کے بغیر نہ تو صحیح سروے ہو سکے گا اور نہ ہی وقف املاک پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کے خلاف کوئی داروگیر کیا جا سکے گا ، وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء ترمیم شدہ 2013سیکشن ۵۱ کے تحت وقف جایداد کی فروختگی ،رہن رکھنے اور بدلین کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، اوقاف پر غیر قانونی قبضہ اور منتقلی کو مجرمانہ اعمال کے دائرہ میں لایا گیا ہے اور نا جائز خرید وفروخت پر دو سال تک قید وبند کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔
اس کے با وجود خود بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ وقف املاک کی تقریبا ستر فی صدی جائیدادوںپر نا جائز قبضہ ہے اور زمین ما فیاؤں کے دسترس میں ہے۔‘‘
بہار اسٹیٹ سنی وقف کی سالانہ رپورٹ ۲۰۱۵۔۲۰۱۴ء کے مطابق بہار میں رجسٹرڈ وقف اسٹیٹ فی سبیل اللہ2274اوروقف علی الاولاد 182ہیں ، مقاصد اور منشاء واقف کے اعتبار سے دیکھیں تو وقف اسٹیٹ کی کل مساجد 833 عیدگاہ 57مزار ومقبرہ209، قبرستان6141مدارس ومکاتب 74، اسکول اور مسافر خانے 6,6،یتیم خانہ 4،اسپتال 2، درگاہ137، کربلا 55، خانقاہ 13، امام باڑہ224اور مکانات 194ہیں ، ان اوقاف میں آمدنی کے ذرائع والے وقف اسٹیٹ636ہیں، یہ وہ اعداد وشمار ہیں جس کا اندراج وقف بورڈ میں ہے ، اس کے علاوہ ہزاروں؛ بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے اوقاف ہیں ، جن کا سروے اب تک نہیں ہو سکا اور ان کا اندراج بورڈ میں نہیں ہے ،
واقف نے انہیں زبانی وقف کیا اور واقف کی منشاء کے مطابق اس کی آمدنی کا استعمال ہو رہا ہے یا ایسے ادارے اس پر قائم ہیں جو واقف کی منشاء کی تکمیل کرتے ہیں۔ بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ کے تحت جو بڑے اوقاف ہیں ، ان میں پٹنہ میں انجمن اسلامیہ ہال ، منو خانم جان وقف اسٹیٹ مراد پور، ارنڈا وقف اسٹیٹ کوتوالی ، جانکی بی بی وقف اسٹیٹ کر بگہیا ، پھول شاہ مزار ، ہائی کورٹ مزار شریف ، صغریٰ وقف اسٹیٹ بہار شریف ، یتیم خانہ بدریہ بتیا ، یتیم خانہ خادم الاسلام پٹنہ سیٹی، انجمن اسلایہ وقف اسٹیٹ کشن گنج ، خانقاہ معظم بہار شریف ، انجمن اسلامیہ جامع مسجد اورنگ آباد وغیرہ کا ذکر خاص طور سے کیاجا سکتا ہے ، ان اوقاف کے ذریعہ بہت سارے تعلیمی اور رفاہی ادارے چلائے جا رہے ہیں۔
بہار میں شیعہ وقف بورڈ الگ سے قائم ہے، اس کی سالانہ رپورٹ 2014-2015میں جو اعداد وشمار ذکر کیے گیے ہیں اس کے مطابق بہار میں شیعہ وقف بورڈ کے تحت کل وقف فی سبیل اللہ 130وقف علی الاولاد 68آمدنی والے اوقاف 68غیر آمدنی والے اوقاف 158ہیں ، مقاصد کے اعتبار سے دیکھیں تو مساجد 92قبرستان70، مدرسہ اور مکتب 1، ہاسپیٹل 2ہے، یہاں بھی بہت سارے اوقاف رجسٹرڈ نہیں ہیں، شیعہ وقف بورڈ کے تحت جو بڑے اوقاف ہیں
ان میں مظفر پور میں صغریٰ بیگم وقف اسٹیٹ مارکیٹ ، اکھاڑہ گھاٹ قبرستان ، مسجد اور مار کیٹ نواب محمد تقی خان وقف اسٹیٹ کمرہ محلہ اور پٹنہ میں جناتی مسجد ، مدرسہ سلیمانیہ نواب بہادر روڈ ، قمر النساء بیگم وقف اسٹیٹ نواب بہادر روڈ، نور جہاں بیگم وقف اسٹیٹ ، امام باندی بیگم وقف اسٹیٹ ، امام باڑہ سنگی دالان وقف اسٹیٹ، محمود علی شیعہ قبرستان ، فضل امام پبلک چیری ٹیبل اینڈ ریلی جیس ٹرسٹ ، فریزر روڈ، الطاف نواب وجیہہ النساء وقف اسٹیٹ، ملا شادمان وقف اسٹیٹ گولک پور ، بادشاہ نواب وقف اسٹیٹ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان کے علاوہ شیعہ وقف بورڈ کے تحت میر حسن عسکری وقف اسٹیٹ آرہ، حسینی بیگم وقف اسٹیٹ چھپرہ ، فضا علی وقف اسٹیٹ سیوان، کا اندراج بھی ہے ، جن میں سے کئی میں شیعہ وقف بورڈ نے انہیں بار آور بنانے کے لیے مار کٹنگ کمپلکس ، ریسٹ ہاؤس ، ہاسٹل اور میرج ہال بنانے کا کام کیا ہے ، شیعہ وقف بورڈ نے ۱۸؍ فروری ۲۰۱۴ء کو ایک بڑی کامیابی اس وقت پائی جب اس نے خورشیداحسین وقف اسٹیٹ کی 57کھٹہ زمین پر سے نا جائز قبضہ ہٹانے میں کامیابی حاصل کی ، اس زمین کی قیمت آج کی تاریخ میں پچاس کڑوڑ سے زائد ہے ۔
سارے قانونی دفعات کے با وجود واقعہ یہ ہے کہ بہار میں اوقاف کو تحفظ حاصل نہیں ہے ، عموما عوای سطح پر بورڈ کی کار کردگی پر بھی سوالیہ نشان لگتا رہا ہے ، تاریخ کے مختلف ادوار میں متولی اور وقف بورڈ کے خرد برد کرنے والوں کے ساتھ ہو جانے کی روایت بھی شاذنہیں ہے ، تبادلے اور مفید تر بنانے کے نام پر فروختگی کا بازار بھی گرم ہو تا رہا ہے ، اس صورت حال کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ اب لوگوں کی توجہ وقف کرنے کی طرف نہیں ہو رہی ہے؛ بلکہ کہنا چاہیے کہ وقف کرنے کا مزاج ہی سرے سے ختم ہو گیا ہے ، یہ بہت بڑا ملی خسارہ ہے ،اس لیے ضروری ہے کہ وقف ایکٹ کی روشنی میں خرد برد کرنے والوں کو سخت سزادی جائے، اس کام کے لیے اوقاف کے متولی صاحبان وقف بورڈ کے ذمہ داران اور سماج کے با شعور طبقے کو آگے آنا چاہیے؛ کیونکہ اوقاف مسلمانوں کی ترقی کا بہتر ذریعہ بن سکتے ہیں ، ریاست میں مسلمانوں کی بد حالی پر حکومت کے لیے رپورٹ تیار کرنے والے ادارے ، ایشین ڈولپمنٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اہل کار شیبالی گپتا کا خیال ہے کہ ’’ وقف کی جتنی جائیداد ہے اس کا اگر اچھے کار پوریٹ ہاؤس کی طرح استعمال ہو تو مسلمانوں کی بد حالی مٹانے میں اس سے کافی مدد مل سکتی ہے ‘‘۔
محمد شبیر عالم خان نے اپنے مضمون ’’ملت کی تعلیمی ، معاشی ترقی اور مسلم اوقاف‘‘ میں بجا لکھا ہے کہ ’’موجودہ ریکارڈ کی روشنی میں ملک کی مختلف ریاستوں میں رجسٹرڈ وقف جائدادوں کی تعداد چار لاکھ نوے ہزار سے زیادہ ہے، ان اوقاف سے فی الحال ایک سو باسٹھ کروڑ روپے کی سالانہ آمدنی ہوتی ہے، کمیٹی کا اندازہ ہے کہ ان جائدادوں کی بازاری قیمت (Market Value)آج کی تاریخ میں تقریبا ایک لاکھ بیس ہزار کڑوڑ روپے ہوگی، اگر اوقاف کی ان جادادوں کو آمدنی کے نئے امکانات کے ساتھ استعمال کیا جائے تو کم از کم دس فی صد سالانہ آمدنی کے لحاظ کل آمدنی بارہ ہزار کروڑ روپے ہونی چاہیے‘‘۔
اس لیے ضرورت وقف جائیداد کے تحفظ کی ہے، اس کو مفید اور بار آور بنانے کی ہے، اس سلسلے میں راجندرسنگھ سچر کمیٹی کی جو سفارشات ہیں، ان کو بھی سامنے رکھنا چاہیے اور اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق کام کو آگے بڑھانے کیلئے اسلامک فقہ اکیڈمی کے ذریعہ کرائے گئے مختلف سیمینار کی تجاویز کو اہمیت دی جانی چاہیے۔
Pingback: جھوٹ کی مَنڈی ⋆ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی