کسانوں کا آندولن حقائق کی روشنی میں سمجھیں
تحریر: بلال احمدنظامی مندسوی،رتلام مدھیہ پردیش کسانوں کا آندولن حقائق کی روشنی میں سمجھیں
کسانوں کا آندولن حقائق کی روشنی میں سمجھی
روکھا سوکھا کھا کر، دھوپ،تپش، سرد، گرم اور بارش برداشت کرکےایک چھوٹےبچےکی طرح پرورش اور نگاہ داشت کرکےملک بھرکے لیےاناج اوراشیاے ضروریہ کو پیدا کرنے والے کاشت کار(کسان)۔
ہمارے ملک بھارت میں گیارہ مہینےسےاحتجاج کی چادربچھائے اپنےحقوق کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن حکومتی مشنری کےلیےان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی جارہی ہے۔
اصل قضیہ یہ ہےکہ حکومت نے تین زرعی قوانین نافذ کرتےہوئےکہاکہ یہ تینوں قانون کسانوں کےحق میں ہےاور کسان مسلسل گیارہ مہینےسےکَہ رہےہیں کہ یہ تینوں قانون کسانوں کی خودکشی کےمترادف ہےاس لیےانھیں واپس کیاجائے۔اسی معاملےکولےکرحکومت اور کاشت کار دونوں آمنےسامنے ہیں۔
ستمبر 2020 کے تیسرےہفتےمیں،بھارتی حکومت نے زرعی مصنوعات، ان کی فروخت، ذخیرہ اندوزی، زرعی مارکیٹنگ اور زرعی اصلاحات سے متعلق تین بِل ایوان پارلی مینٹ میں منظوری کے لیے پیش کیےاور حزب اختلاف کی شدید مخالفت کے باوجود بھی جیسےتیسےکرکے لوک سبھا اورراجیہ سبھا سےمذکورہ بل منظورکروالیے۔
بعدازاں 28 ستمبر 2020 کو صدرجمہوریہ سےزرعی اصلاحات بلوں پر دستخط کرواکرانھیں قانون میں تبدیل کر دیا گیا۔
زرعی اصلاحات کےنام پربنےقوانین کےمنظورہوتے ہی بھارت بھرمیں خصوصی طور پر پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش میں احتجاجی مظاہرےشروع ہوے۔ ان قوانین کے خلاف ملک بھرکی کسان یونینوں نے 25 ستمبر 2020ء کو ملک گیراحتجاجی مظاہرےاورہڑتال کااعلان کیاتھا۔
اکتوبر2020ء سے کسانوں نے احتجاج شروع کیا۔ سب سے زیادہ احتجاج پنجاب، ہریانہ، اترپردیش، کرناٹک، تمل ناڈو، اڑیسہ اور کیرالہ میں ہوا نیزدیگر ریاستوں کےکسانوں نےبھی اپنااحتجاج درج کرایا۔
اکتوبر میں شروع ہونے والے کسان احتجاج کےسبب پنجاب میں ریلوے سروس دو ماہ سے زیادہ کے لیے معطل کردی گئیں۔
25 نومبر کے بعد، کسانوں نے زرعی قانون کے خلاف مختلف ریاستوں سے دہلی تک مارچ کیا۔ راستے میں، ہریانہ پولیس کے ایک گروپ نے آنسو گیس اور پانی کی توپوں سے اسے روکنے کی کوشش کی۔
مظاہرین کی جانب سے فوری مکالمہ کرنے کے مطالبے کے باوجود بھارت کی مرکزی حکومت نے ان نئے زرعی قوانین کے مستقبل پر تبادلہ خیال کے لیے 3 دسمبر 2020 کی تاریخ طے کی ہے۔ اس کے بعد کسان قوانین کے خلاف مختلف ریاستوں سے دہلی منتقل ہو گئے۔
کسان احتجاج کوغلط رخ دینےاور عوامی ذہن کومنتشرکرنےکےلیےہربار کی طرح اس باربھی میڈیانےاپنابکاؤ کردار بہ خوبی نبھایاجس کےسبب کسانوں کی جانب سےگودی میڈیا اور بکاؤ میڈیا جیسے نعرے لگائےگئے۔
26 جنوری کوکسانوں کی طرف سےاحتجاج کو مزیدطاقتور بنانےکےلیےٹریکٹر مارچ شروع کردہلی کارخ کیا۔پولیس کےذریعہ انھیں روکنےکےبہت ساری تدابیراختیارکی گئی لیکن پھربھی کسانوں نےدہلی میں قدم رکھااور لال قلعہ پرپہنچ کراپنااحتجاج درج کرایا۔
اسی اثنامیں کسی سازشی نےلال قلعہ پر سکھوں کاپرچم لہرادیا،جس کےسبب میڈیاکےذریعہ کسان آندولن کی شبیہ کوبگاڑ کرپیش کرنےکی کوشش کی گئی۔
کسان آندولن میں ملک بھرکےکسانوں کی کثیرتنظیموں نےشرکت اور حمایت کی۔
احتجاج کےسات ماہ مکمل ہونےپر26 جون 2021ء کوملک بھرکےراج بھونوں (گورنررہائش گاہ) پراحتجاج کرکےسیاہ جھنڈےلہرائے۔
۔ 3 اکتوبر 2021 ء کو یوپی حکومت کے وزیر داخلہ اجےمشرا کے بیٹے آشش مشرا کی گاڑی نےلکھیم پور کھیری میں احتجاج کررہےہیں کسانوں کو کچل دیا،جس میں 4 کسانوں کی موت ہوگئی۔
کسان آندولن میں تقریبا چھےسو/سات سو کسان آندولن کا حصہ بنتے ہوئےاپنی زندگی گنوا چکےہیں،لیکن پھر بھی ایک بڑی تعداد ابھی تک مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔
حکومت اورکسانوں کےمابین باربارمذاکرات کی مجلسیں جمی لیکن ہربارناکامی ہوئی،حکومت معمولی ترمیم پرراضی ہےلیکن کسان کلی طورپرزرعی قوانین کوقبول کرنےپرآمادہ نہیں ہے۔
حاشیہ ذہن پرباربار یہ سوال گردش کررہا ہے کہ کسان اس قدرمشقت اورسردی گرمی برداشت کرنےکےبعد بھی اپنےمورچےپرڈٹےکیوں ہے،آخروہ حکومت کی اصلاحات اورترمیمات قبول کرکےاپنےگھروں کی راہ لےکرراحت وسکون کی سانس کیوں نہیں لیتے؟۔
اس کاجواب معلوم کرنےسےقبل زرعی قوانین کوآسان لفظوں میں بیان کریں تویہ کہاجاسکتاہےکہ مجموعی طور پر زرعی قوانین برائےاصلاحات کاحکومتی مقصد یہ ہےکہ زرعی اجناس کی فروخت، ان کی قیمت کا تعین اور ان کے ذخیرہ کرنے سے متعلق طریقہ کار کو تبدیل کرناہے جو ملک میں طویل عرصے سے رائج ہے۔
نئے قوانین کے تحت نجی خریداروں کو یہ اجازت حاصل ہو گی کہ وہ مستقبل میں فروخت کرنے کے لیے براہ راست کسانوں سے ان کی پیداوار خرید کر ذخیرہ کر لیں۔
پرانے طریقہ کار میں صرف حکومت کے متعین کردہ کمیشن ایجنٹ ہی کسانوں سے ان کی پیداوار خرید سکتے تھے اور کسی کو یہ اجازت حاصل نہیں تھی۔ علاوہ ازیں ان قوانین میں ’کانٹریٹک فارمنگ‘ کے قوانین بھی وضع کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے کسانوں کو وہی اجناس پیدا کرنا ہو گی جو کسی ایک مخصوصی خریدار کی مانگ کو پورا کریں گی۔
زرعی قوانین کےسبب ایک تبدیلی یہ بھی آئے گی کہ کسانوں کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی پیداوار کو منڈی کی قیمت پر نجی خریداروں کو بیچ سکیں گے۔ ان میں زرعی اجناس فروخت کرنے والی بڑی کمپنیاں، سپر مارکیٹیں اور آن لائن پرچون فروش شامل ہیں۔
سابقہ طریقہ کارکےمطابق کسانوں کی اکثریت اپنی پیداوار حکومت کی زیر نگرانی چلنے والی منڈیوں میں ایک طے شدہ قیمت پر فروخت کرتی ہے۔
زرعی قوانین کےتعلق سے کسانوں کو سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ ان قوانین کےذریعہ سے منڈیوں سےآڑھت(کمیشن ایجنٹ)کاطریقہ کارختم ہوجائےگا اور ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ رہ جائےگاکہ وہ بڑی بڑی سرمایہ کارکمپنیوں کواپنی اشیاء فروخت کریں۔
اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر انھیں نجی خریدار مناسب قیمت ادا نہیں کریں گے تو ان کے پاس اپنی پیداوار کو منڈی میں فروخت کرنے کا راستہ نہیں ہو گا اور ان کے پاس سودے بازی کرنے کے لیے کوئی موقع باقی نہیں رہے گا۔
ایک کسان نےمذکورہ قوانین کےتعلق سےخدشات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں خدشہ ہے کہ ابتدا میں کسانوں کو اپنی اجناس نجی خریداروں کو فروخت کرنے کی ترغیب دی جائے گی اور چند برس میں منڈی ختم ہو جائیں گی جس کے بعد کسان ان نجی خریداروں اور کاروباری اداروں کے رحم و کرم پر ہوں گے اور وہ جو چاہیں گے وہ قیمتیں لگائیں گے۔
ایک سکھ کسان نےمذکورہ زرعی قوانین پرتشویش کااظہارکرتےہوئےکہا کہ”یہ چھوٹے اور درمیانی سطح کے کسانوں کے لیے موت کا پروانہ ہے۔ اس کا مقصد بڑی کارپوریشن کو زراعت اور منڈیاں حوالے کرنا ہے جس سے کسان ختم ہو جائیں گے۔ وہ ہماری زمین چھیننا چاہتا ہے لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے”۔
کسانوں کےخدشات پرغورکریں تونتیجہ یہ نکلتاہےکہ کسانوں کوبےدست وپاکرکےکارپوریشن،سرمایہ کاراوربڑی کمپنیوں کوسونپ دیناہے۔وہ جس طرح چاہیں معمولی قیمتوں میں زرعی زمین استعمال کرکے اپنے لیے من چاہی فصل پیدا کریں، اسےیوں بھی کہاجاسکتاہےکہ کسان اپنی ہی زمین پرغلام(نوکر)بن کرکام کرےگا۔
لیکن حکومت باربار مذاکرات کےذریعہ،ٹیوی چینلوں کےذریعہ کسانوں کویقین دہانی کروارہی ہےکہ آپ کےخدشات بےبنیادہیں۔حکومت نہ تو منڈی کےطریقہ کارکوختم کرےگی اور نہ کمپنیوں کومن مانی کرنے دے گی،بل کہ یہ اصلاحات کسانوں کی خیرخواہی اور بھلائی کےلیےہے۔
یہ تو وقت ہی طےکرےگا کہ کسان کےخدشات درست ہیں یاحکومت کی یقین دہانیاں یقینی ہیں۔
البتہ کسان ابھی بھی اپنےمطالبات لیےاحتجاج کررہےہیں اور احتجاج کےگیارہ ماہ مکمل ہونےپر26 اکتوبر 2021ء کو آندولن میں تیزی لاتےہوئے ملک بھرمیں ضلع مجسٹریٹ آفس کےباہر زرعی قوانین کےخلاف احتجاج کرتےہوئےصدرجمہوریہ کےنام میمورنڈم پیش کریں گے۔
لیکن اس وقت یہ بات یقین کی حدتک کہی جاسکتی ہےکہ موجودہ حکومت پر کسی بھی احتجاج اوردھرنےکاکوئی اثرنہیں ہوتاہے،حکومت جوچاہتی ہےوہ کرگزرتی ہےحالاں کہ یہ روح جمہوریت کے سرارخلاف ہے۔
تحریر: بلال احمد نظامی مندسوی
رتلام مدھیہ پردیش
فاؤنڈر:تحریک علمائےمالوہ
ان مضامین کو بھی پڑھیں
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی
عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے
افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں
مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز
۔ 1979 سے 2021 تک کی آسام کے مختصر روداد
ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں
Pingback: مظلومیت کا کھیل ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: بلال احمد نظامی مندسوری