علم وفن کے نیر تاباں ثاقب فکر ونظر کی حامل سوانح

Spread the love

علم وفن کے نیر تاباں ثاقب فکر ونظر کی حامل سوانح
مؤلف ومرتب: ڈاکٹر نورالسلا م ندوی

۔ ✍🏻: عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے

انسانوں سے آباد اس دنیا میں یوں تو بے شمار کمالات کے حامل انسان گذرے ہیں ،مگر ماضی قریب میں جن عظیم شخصیات نے اپنی ذہانت وذکاوت ، خدا داد انتظامی صلاحیت وصالحیت، علم وفضل ،زہد وورع اور متنوع امتیازات سے متآثر کیا ہے

ان میں ایک ممتاز نام ،فکر ولی اللہی کے امین، ریاست بہار کی معروف بزرگ شخصیت حضرت مولانا ہارون الرشید صاحب کی ذات عالی تھی

حضرت مولانا مختلف جہتوں کے مالک تھے ،وہ ملک کے کئی ممتاز اداروں میں رہ کر تدریس وتربیت اور انتظامی وروحانی فرائض انجام دیتے رہے، دینی خدمات کی راہ میں ایک لانبا عرصہ انہوں نے بتایا ،جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں شاگرد تیار ہوئے ،جو ملک کے مختلف حصوں میں مصروف کار ہیں ،قضائے الٰہی سے وہ گذشتہ 14/فروری2021 میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔اناللہ واناالیہ رٰجعون۔

ضرورت تھی کہ ان کی حیات وآثار کو سمجھنے،سمجھ کر برتنے اور آئندہ ان پر بہت کچھ لکھنے پڑھنے کی غرض سے مولانا مرحوم کی شخصیت و خدمات پر مشتمل ایک جامع “نقش اول” سامنے لایا جاتا اور یہ “زندہ خدمت “کسی ایسی شخصیت سے ہی ممکن تھی کہ جومولانا مرحوم کے خاص تربیت یافتہ بھی ہوں اور جنہیں علم وقلم سے گہری وابستگی بھی ہو۔

محترم ڈاکٹر نورالسلام ندوی ہم سبھوں کےشکریہ کے مستحق ہیں ،جنہوں نے اس طرف خاص توجہ دے کرمطلوبہ نقش اول” یعنی علم وفن کے نیر تاباں ” کو سامنے لانے میں انتہائی صبر آزما مرحلوں کو انگیز کیا اور بالآخر وہ “معیار “کو پالینے میں سولہ آنہ کامیاب بھی ر ہے ۔


ذاتی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا وطنی تعلق دربھنگہ کے “جمال پور ” سے ہونے کی وجہ سے صورت کے ساتھ ساتھ سیرت وکردار میں بھی “جمال وکمال ” پورے طور پر حلول کر گیاہے ،کم عمری کے باوجود تھوڑے وقت میں جس طرح سے انہوں نے ریاستی سطح پر ہر طبقے میں متعدد جہتوں سے اپنی پہچان بنائی ہے یہ ان کے سنجیدہ ،محنتی ،قابل اور صالح ہونےکی دلیل ہے ۔

لکھنے پڑھنے کے دھنی انسان تو ہیں ہی،منزل پانے کی جستجو اور لگن بھی جنون کی حد تک ہے ،نفیس ذوق کے مالک ہیں ،جس طرح وہ کسی کانفرنس اور سیمینار کے ڈائز پر اچھا بولتے ہیں ، بعینہ قلم میں بھی برجستگی ،شگفتگی صاف جھلکتی ہے ۔ ان کی کئی ایک کتابیں اس سے قبل کتب خانوں میں آچکی ہیں ۔راقم الحروف ان سے بہت پر امید ہے کہ آنے والے ہندستان میں ان جیسے جیالے ہی” امیدوں کے چراغ “ہوں گے

مگر سرکاری محکموں کے غیر مذہبی ماحول اور اطمینان بخش ملازمت نے مجبورا ہی سہی بہت سوں کو خاموش کردیا ہے ،اس پہلو سے ڈربھی لگتا ہے ،اللہ انہیں حوصلہ دے اور وہ ناخدائی کے جذبہ خدمت سے آشنا رہیں۔

” علم وفن کے نیر تاباں ” ان کے حسین ذوق اور فکر وفن کا خوبصورت مرقع ہے ،یوں تو یہ کتاب مولانا علیہ الرحمہ کی شخصیت پر لکھے گئےمتعدد اہل قلم کے مضامین کا بیش قیمت مجموعہ ہے

مگر خوبی کی بات یہ ہےکہ کتاب نہ عام قلم کا اثر خامہ ہے اور نہ ہی روایتی طریقے سے اسے محض “مجموعہ” بنا کر پیش کردیا گیا ہے ، بلکہ 256/ صفحے کی اس کتاب کو ظاہر بیں میں انتہائی نفاست آمیز سرورق کے ساتھ سامنے لایا گیا ہے

ایسا لگتا ہے کہ ٹائٹل پیج تیار کروانے میں مرتب موصوف نے زندہ دلی سے کام لیا ہے اور ایسے ہی کتاب کے باطن کو سنوارنے میں بھی کم ازکم شش جہت سے کام لیا ہے ۔کتاب کے مشمولات کا تعارف فاضل مرتب نے اپنے مبسوط اور دمدارمقدمے کے اخیر حصے میں جس طرح سےکرایا ہے وہ یقینا “ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات” کا مصداق ہے :


“کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ،پہلا باب نقوش حیات کے عنوان سے ہے ،اس باب میں مولانا کی زندگی کے ابتدائی احوال ،خاندانی پس منظر اور تعلیمی اداروں سے وابستگی پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

اس باب میں مولانا امیر معاویہ قاسمی ، مولا نا مفتی ثناء الہدی قاسمی ، مولانا رضوان احمد ندوی ، خاکسارنو رالسلام ندوی ، مفتی جمال الدین قاسمی، نسیم احمد رحمانی ندوی ،مولا نا مفتی سعید پالنپوری فلاحی ، مولا نا مفتی اشتیاق احمد قاسمی اور ابو معاو یہ محمد معین الدین ندوی قاسمی کے مضامین شامل اشاعت ہیں ۔ دوسرا باب ’ ’ مشاہدات و تاثرات ‘ ‘ کے نام سے ہے ، اس باب میں مضمون نگاروں نے اپنے مشاہدات و تاثرات پر قلم بند کئے ہیں ۔

ان میں مولانا بدرالحسن قاسمی ، مولانا عبدالرب قاسمی ، مولانا طارق شفیق ندوی ، مولانامفتی خالد نیموی قاسمی ، ڈاکٹر مولانا محمد عالم قاسمی ، مولانا احتشام الحق قاسمی رامپوری ، مولانا مفتی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سعد اللہ قاسمی کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔

تیسرا باب تدریس وخطابت ‘ ‘ پرمشتمل ہے ، اس باب میں مولا نا مفتی ظفر عالم ندوی ، مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی ، مولانامفتی مجاہد الاسلام قاسمی ، مولا نا اسعد ندوی ، مولا نا محمد علی اور مولانا امیر معاویہ قاسمی کے مضامین ہیں

جن میں مولانا کی تدریسی صلاحیت و تجربات اور خطابت کے انداز واسلوب کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ چوتھا باب ’ ’ تعلیمی تنظیمی و تحریکی خدمات ‘ پر محیط ہے

اس باب میں مولانا کی علمی مشغولیات تعلیمی کارنامے اور تنظیمی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے ، اس حصہ میں مولا نا خالد سیف اللہ ندوی ، مولانامفتی نافع عارفی ، مولا نامفتی عین الحق امینی قاسمی (بیگوسرائے)، حافظ مولا نا نعمت اللہ قاسمی ، احقر نورالسلام ندوی ، مولانا ابوعباده ، مفتی رضوان عالم قاسمی کے مضامین شامل اشاعت کئے گئے ہیں ۔ پانچواں باب مولانا کی تحریروں کے نمونے اور اخبارات کے تراشوں‘‘پر مشتمل ہے”

کتاب کے سرسری مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمام مضامین کو انہوں نے ازخود پڑھنے کے بعد ہی باب درباب تقسیم کیا ہے اور ہرممکن “بہتر سے بہتر ” بناکراپنے قارئین کی بارگاہ میں پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ تاہم پروف ریڈنگ کی بعض روایتی بھول چوک سے وہ ابھر نہیں سکے ہیں چوں کہ

غلطی سے مبرا کوئی انسان نہیں ہے
یہ ذوق کا دیوان ہے قرآن نہیں ہے

مجموعی اعتبار سے کتاب قابل حوصلہ ،طلب انگیز ،بصیرت افروز اور ثاقب فکر ونظر کی حامل ہے ، متعدد اہل تجربہ افراد کے پیش لفظ ، تقریظ ،دعائیہ کلمات ،تبریک ،حرف زریں اور خاص کر حافظ مولانا سفیان احمد ناظم مدرسہ رحمانیہ نسواں جمال پور دربھنگہ کے حرف چند نے کتاب کی اہمیت بڑھادی ہے ۔ کتاب کی عام قیمت 300/روپے رکھی گئی ہے ۔


فاضل مرتب(9504275151 ) کے علاوہ بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ ،مدرسہ رحمانیہ نسواں جمال پور ،اور ناولٹی بک ہاؤس اردو بازار دربھنگہ وغیرہ سے کتاب بسہولت حاصل کی جاسکتی ہے ۔

بے لگام تبصروں پر لگام

گورنروں کی رسہ کشی

 بدمزاجی انسانی رشتوں کے لیے زہر قاتل

  تذکرہ مشاہیرادب مشرقی مگدھ

ادب کو اعلیٰ اخلاقی اقدارکے فروغ کا ذریعہ ہونا چاہیے

تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *