اردو صحافت کا گوہر ڈاکٹر محمد گوہر
اردو صحافت کا گوہر ڈاکٹر محمد گوہر
عارف شجر
حیدرآباد( تلنگانہ)
8790193834
arifshajar1@gmail.com
ہندوستان کی اردو صحافت کا دائر کافی وسیع ہے اور جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ اس میں کئی بڑے نام آئے اور گئے یہی نہیں بلکہ اس دنیا میں بے شمار صحافی پیدا ہوئے اور اپنی گمنام زندگی گذار کر دنیا فانی سے رخصت ہو گئے۔ مگر انہی میںسے کچھ ایسی اہم شخصیات ہوتی ہیں جن کی موجودگی نہ صرف اپنے لئے بلکہ قوم، انسانیت اور معاشرے کے لئے ایک روشنی کا مینار ثابت ہوتی ہیں ۔ انکی سوچ، کردار، محنت ، لگن، اور ایثار دوسروں کے لئے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔ ایسی شخصیات میں سب سے نمایاں وصف ان کا اخلاق و کردار ہوتا ہے۔ وہ دیانت دار، مخلص، اصول پسند اور انصاف پر قائم رہنے والے ہوتے ہیں وہ صرف باتوں کے نہیں بلکہ عمل کے لوگ ہوتے ہیں۔ انکی زندگی میں مقصد ہوتا ہے، اور وہ مقصد محض ذاتی فائدہ نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی، خدمت اور ترقی ہوتی ہے۔جو آسمانِ صحافت میں گوہر بن کر چمکتا ہے جس سے دوسرے مستفیض ہوتے رہتے ہیں۔ میں آج ایک ایسی ہی اردو صحافت کی قیمتی اور نایاب گوہر جو ریاست بہار یعنی عظیم آباد کی راجدھانی پٹنہ کے جواں سال معتبر اور عظیم چیف ایڈیٹر کا ذکر کرنے جا رہا ہوں جو اپنی محنت، لگن دیانتداری اور ایمانداری سے قلیل مدت میں نہ صرف اپنے قومی اخبار ’’ روزنامہ تاثیر‘‘ کو بلندیوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے بلکہ وہ اردو کو بھی پروان چڑھانے میں کوئی کثر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ اس عظیم صحافی کا نام ڈاکٹر محمد گوہر ہے، جو آسمان َصحافت میں گوہر بن کر چمک رہے ہیں۔
مسرت کی بات یہ ہے کہ انکی ادارت میں ہندوستان کے 14 مقام سے ایک ساتھ شائع ہونے والا ملک کا واحد اردو روزنامہ ’’ تاثیر‘‘ کے مالک چیف ایڈیٹر اور پرنٹر پبلیشر ہیں۔ جن کا ذکر صحافت کے میدان میں بڑے ادب و احترام کے ساتھ ہوتاہے۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر محمد گوہر انہی معتبر اور قد آور صحافیوں میں شامل ہیں جنہوں نے اردو صحافت کو وقار، فہم و فراست اور شائستگی عطا کی۔ ان کی خدمات، قربانیاں اور استقامت صحافت کے طلبہ، نوجوان صحافیوں اور پوری قوم کے لئے ایک سبق ہیں۔ انکی شخصیت اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک صحافی اگر نیت صاف رکھے تو قوم کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد گوہر صاحب کی صحافتی خدمات کا دائرہ صرف اخبار تک محدود نہیں ہے، بلکہ انہوں نے مختلف سیمیناروں، کانفرنسوں اورتعلیمی اداروں میں بھی اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں۔ اور مختلف تنظیوں کے ذریعہ ایوارڈ سے سرفراز ہوتے رہے ہیں۔ جن میں خصوصی طور سے عالمی سطح پر امن اور شانتی کے لئے نمایاں کاکردگی کا مظاہرہ کرنے والی شخصیات کو دیا جانے والا ’’ قومی یکجہتی ایوارڈ برائے اردو صحافت نیشنل انٹر یگیشن فورم کولکاتا کی جانب سے دیا گیا ایواراڈ اہم ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہار ، ممبئی اور بیرون ملک قطر سے ملنے والے اہم ایوارڈ سے بھی ڈاکٹر محمد گوہر کو سرفراز کیا جا چکا ہے۔مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ ڈاکٹر محمد گوہر ایک ایسے دانشور، ایڈیٹر، محقیق اور انجینئرہیں جن کی بات میں علم ، تجربہ اور سچائی کی خوشبو ہوتی ہے۔
پہلی بار ڈاکٹرمحمد گوہر سے میری بات فون پر2013-14 کے درمیان ہوئی تھی جب میں نیوز 18 اردو کے شعبے میں سینئر کاپی ایڈیٹر کی حیثیت سے رامو جی فلم سٹی حیدرآباد میںکام کر رہا تھا۔ اس کے بعد میں نیوز18 سے استعفیٰ دے کر منصف ٹی وی حیدرآباد ہیڈ آفس میں سینئرکاپی ایڈیٹر اور سینئر نیوز اینکر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا تو دوبارہ ان سے بات ہوئی تھی۔ اس بات کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی کہ ڈاکٹر محمدگوہر صاحب جیسی عظیم شخصیت کا فون نمبر دینے والے اور ان سے تعلق استوار کرنے والے ’’ روزنامہ تاثیر ‘‘ کے انتظامی ایڈیٹر امتیاز کریمی صاحب تھے جو فی الوقت پٹنہ (بہار)میں مقیم ہیں ۔ امتیاز کریمی صاحب بڑے ہی مخلص انسان ہیں ان سے میرے تعلقات دیرینہ ہیں کبھی ان کے تعلق سے بھی ایک مضمون لکھوں گا ان شاء اللہ
بہر حال گوہر صاحب سے بات کرنے کا سلسلہ چل پڑا اور جب ان سے برائے راست ملنے کا شرف حاصل ہو ا تو میں نے انکے اندازِ گفتگو اور شائستگی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ گفتگو کے دوران مجھے ذرا بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ میں ایک ایسی شخصیت سے مل رہا ہوں جو ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک کا ایک جانا پہچانا نام ہے وہ ایک عام انسان کی طرح مجھ سے مل رہے تھے ان میں یہ خوبی ہی کہہ لیجئے کہ انہوں نے مجھے یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ وہ کتنا ہر اعتبار سے قابل شخص ہیں ۔ باتوں میں ذہانت، انکساری، نرم لحجہ اور آدبِ گفتگو دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ اتنی بڑی شخصیت اور اتنی خوبی کا مالک جنہیں اللہ نے مال و زر اور شہر ت ددنوں سے الحمداللہ نوازا ہے انکے اندر گھمنڈ، غرور اور حسد کا ذرا سا بھی عنصر نہیں۔ ہم نے جب اس عظیم شخصیت کا مطالعہ کیا تو پایا کہ اپنے اندر ڈگریوں کا ذخیرہ لیے ہوئے اس انسان کو اردو سے محبت اور اسے پروان چڑھانے کا جنون کس قدر بھرا ُ پڑا ہے اور اس کوشش میں وہ دن رات لگا ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں کہ ڈاکٹر گوہر جیسی شخصیت کی ڈگریوں کے بارے میں اگر لکھوں تو یہ صفحہ بھی کم پڑ جائے المختصر یہ کہ وہ ایک قابل انجینئرہیں اور کمپیوٹر سائنس میں انہوں نے ایم ٹیک کی ڈگری لی ہے اس کے علاوہ وہ ماسٹر آف آرٹس ان جرنلزم اینڈ ماس کامنیکیشن بھی ہیں ۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے ساتھ ہی ایم بی اے اور ایم سی اے کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔اتنے ڈگریوں کا ذکر کرنے کے بعد ہمارے قارائین کو یہ پتہ چل گیا ہوگا کہ ڈاکٹر گوہر کتنے قابل انسان ہیں۔ میں یہ بھی بتا تاچلوں کہ پڑھائی کے دوران بھی اور پڑھائی کے بعد بھی انہیں ملک اور بیرون ملک میں اسمارٹ سیلری کی نوکری کا آفر ملا لیکن انہوں نے سنگلاخ زمین یعنی اردو کاراستہ ہی منتخب کیا جہاں آج کے دور میں کوئی بھی اپنے بچوں کو اس راستے میں جانے نہیں دیتا ہے اسے معیوب سمجھا جاتا ہے یعنی اپنے بچوں کو والدین اردو پڑھانا نہیں چاہتے اور نہ ہی اردوسے کسی کو رغبت ہے اپنے بچوں کو کنونٹ اسکول میں پڑھا کر اچھی نوکری کی تلاش میں والدین لگے رہتے ہیں اور پریشان نظر آ تے ہیںلیکن ڈاکٹر محمد گوہر نے اردو جیسے مشکل راستے کو ہی اپنا ذریعہ معاش بنایا اور انہوں نے اپنی لگن ، محنت سے اس سنگلاخ زمیں کو ہموار کرتے چلے گئے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں اور دوسروں کے لئے مثال بھی ہیں۔ اگر ہم انکے اخلاق کی بات کریں تو یقینا دیگر اردو اخبار کے مدیران اور مالک سے مختلف ہیں انکے اندر اخلاقیات، انکساری اور ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ جھوٹ، فریب، لالچ ، کینہ، حسد اور خود غرضی انہیں چھو کر نہیں گذری ہے۔ میں نے دیکھا اور محسوس کیاکہ ڈاکٹر محمد گوہر بڑے ہی سادہ لو انسان ہیں، کم گو اور دوسروں کے لئے ہمدردانہ سلوک رکھنے والے شخص ہیں۔ ان میں سادگی، پڑھنے لکھنے اور کام کرنے کا جنون ہے ۔
بقول فخر الدین عارفی’’ ڈاکٹر محمد گوہر نیک شریف انسان ہیں۔ نظر یاتی اختلاف کبھی ٹٰٓختلاف نہیں تصور کرتے ہیں اور ہمیشہ یہ واضع داری کا پرچم بلند رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد گوہر اس لحاظ سے قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ ( عظیم آباد) سے صحافت کے میدان میں ایک ایسی صالح، مثبت اور تعمیری روایت قائم کی جس کی کوئی دوسری نظیر تا وقت تحریر موجود نہیں ہے۔ ’’ روزنامہ تاثیر‘‘ نے یقینا ایک ایسی مثال قائم کی ہے جس نے ریاست بہار میں صحافت کے شعبے میں ہماری ریاست کو سر بلندی عطا کی ہے اور ڈاکٹر محمد گوہر نے یقینا بہار کی اردو صحافت کو وہ بلند مقام اور وقار و معیار عطا کیا ہے ، جس پر ہم جتنا بھی فخر کریں وہ کم ہوگا۔ ڈاکٹر محمد گوہر کو اگر عالم صحافت کا ’’ ابنِ بطوطہ‘‘ کا نام دیا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔‘‘
یقینا ڈاکٹر محمد گوہر کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی انہوں نے جس طرح سے ایک کامیاب اردو اخبار نکال کر ملک کے سامنے پیش کیا اسکے لئے انہیں دل سے مبارکباد دینا میںضروری سمجھتا ہوں تاکہ انکی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو بھی ان سے ترغیب مل سکے۔ میں اپنے قارائین سے بھی کہوں گا کہ ایسی شخصیت کی حوصلہ افزائی ضرور کریں جو ایک انگریزی میڈیم سے تعلیم یافتہ شخص اردو کو فروغ دینے میں انگریزی کو بلائے طاق رکھ دیا جو ایک جرائت مندانہ قدم ہے۔ یقیناًہمارے ملک میں اس طرح کے انسان انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں ۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ ریاست بہار کے ایک متوسط گھرانے سے نکلا ہوا انسان اپنی محنت اور جدو جہد سے اس مقام پر پہنچا ہے اور بہار ہی نہیں بلکہ اپنی بہترین کارکردگیوں اور اچھی صلاحیتوں سے پورے ملک کا نام روشن کر رہا ہے۔ یقیناً یہ بات تاریخ کے اوراق میں لکھے جانے قابل ہے۔
آخرمیںمیںیہی کہوں گاکہ ڈاکٹر محمدگوہرجیسی عظیم شخصیات کسی بھی قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہیں یہ نہ صرف صحافت کے علمبردار ہیں بلکہ عوامی شعور کے محافظ بھی ہیں۔ ایسے ایڈیٹر کے وجود سے ہی صحافت کا وقار بلند ہوتا ہے اور سچائی کا چراغ جلتا ہے۔ان کی پیشہ وارانہ قیادت، اخلاقیات اور عوامی خدمت کا جذبہ انہیں ہر دور میں یاد رکھا جائے گا۔ ان کا نام سنجیدہ، معتبر اور متوازن صحافت کی پہچان بن چکا ہے وہ صحافیوں کے لئے ایک جیتی جاگتی مثال ہیں کہ کس طرح اصولوں پر قائم رہ کر ، تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اثر انگیز صحافت کی جا سکتی ہے۔ انکی شخصیات اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک مدیر اگر نیت صاف اور مقصد اعلیٰ رکھے تو قوم کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ آخر میںاپنی بات ایک شعر کے ساتھ ختم کررہاہوںکہ
صداقت کی صدف چہرے، گوہر جو لاتا ہے
نہ دولت کا وہ طالب ہے ، نہ شہرت کا پرستار