آبروئے غزل مومن خاں مومن صاحب کا یوم وفات
آبروئے غزل مومن خاں مومن صاحب کا یوم وفات
مومن اردو کے ان چند باکمال شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی بدولت اردو غزل کی شہرت اور مقبولیت کو چار چاند لگے۔
مومن نے اس صفن کو ایسا عروج بخشا اور ایسے استادانہ جوہر دکھائے کہ غالب جیسا خود نگر شاعر ان کے ایک شعر پر اپنا دیوان قربان کرنے کو تیّار ہو گیا۔ مومن صنف غزل کے صف اوّل کے شاعر ہیں۔انہوں نے اردو شاعری کی دوسری اصناف،قصیدے اور مثنوی میں بھی طبع آزمائی کی لیکن ان کا اصل میدان غزل ہے
جس میں وہ اپنی طرز کے واحد غزل گو ہیں۔مومن کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے غزل کو اس کے اصل مفہوم میں برتا اور خارجیت کا اظہار داخلیت کے ساتھ کرتے ہوئے ایک نئے رنگ کی غزل پیش کی۔ اس رنگ میں وہ جس بلندی پر پہنچے وہاں ان کا کوئی مدّمقابل نظر نہیں آتا۔
قدرت حاصل تھی۔قصیدے میں وہ سودا اور ذوق کے مرتبہ کو نہیں پہنچتے تاہم اس میں شک نہیں کہ وہ اردو کے چند اچھے قصیدہ گو شعراء میں شامل ہیں۔مثنوی میں وہ دیا شنکر نسیم اور مرزا شوق کے ہم پلہ ہیں لیکن مومن کی شاعرانہ عظمت کا انحصار ان کی غزل پر ہے۔
ایک غزل گو کی حیثیت سے مومن نے اردو غزل کو ان خصوصیات کا حامل بنایا جو غزل اور دوسری اصناف میں امتیاز پیدا کرتی ہیں۔مومن کی غزل تغزّل کی شوخی،شگفتگی ،طنز اور رمزیت کی بہتریں ترجمان کہی جا سکتی ہے
موصوف کے یوم وفات پر ان کے کچھ منتخب اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں
انتخاب و پیش کش….طارق اسلم
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی
کسی کا ہوا آج کل تھا کسی کا
نہ ہے تو کسی کا نہ ہوگا کسی کا
آپ کی کون سی بڑھی عزت
میں اگر بزم میں ذلیل ہوا
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومنؔ
رات کاٹی خدا خدا کر کے
رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح
اٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح
ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے
پیہم سجود پائے صنم پر دم وداع
مومنؔ خدا کو بھول گئے اضطراب میں
میرے تغییر رنگ کو مت دیکھ
تجھ کو اپنی نظر نہ ہو جائے
گو کہ ہم صفحۂ ہستی پہ تھے ایک حرف غلط
لیکن اٹھے بھی تو اک نقش بٹھا کر اٹھے
اب شور ہے مثال جودی اس خرام کو
یوں کون جانتا تھا قیامت کے نام کو
دشنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں
اے ہم نشیں نزاکت آواز دیکھنا
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں