سید سالار مسعود غازی رحمتہ اللہ علیہ
مختصر سوانحِ حیات: سید سالار مسعود غازی رحمتہ اللہ علیہ
یومِ وصال: 14/ رجب المرجب افتخار احمد. قادری
حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ حضرتِ علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم کی بارہویں پشت سے ہیں آپ کے والدِ ماجد کا نام حضرت سید ساہو سالار تھا- آپ سلطان محمود غزنوی کی فوج کے کمانڈر تھے- سلطان محمود غزنوی سے سید سالار ساہو کے فوجی اصولوں اور انتظام کی کارکردگی سے خوش ہو کر اپنی بہن ستر معلی کا عقد حضرتِ سید سالار ساہو سے کردیا
جس وقت سید ساہو سالار اجمیر میں ایک قلعہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے اسی دوران حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ ١٥/فروری ١٠١٥/عیسوی ٤٠٥/ہجری میں پیدا ہوئے- بہت زیادہ خوشیاں منائی گئیں
حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کی والدہ ماجدہ کا کہنا ہے: کہ دورانِ حمل مجھ کو جس چیز کے کھانے کی تمنا ہوتی مہیا ہوجاتی جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرتِ مریم کو الله رب العزت نے اپنی رحمت سے نوازا تھا وہ جس پھل دار درخت کے پاس پہونچ جاتی اس کی ڈالیاں خود بخود جھک جاتیں جب حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ چار سال چار ماہ چار دن کے ہوئے تو آپ کی بسم الله خوانی ہوئی- حضرتِ ابراہیم جیسا آپ کو استاد ملا آپ نے نو سال کی عمر میں فقہ و تصوف کی تعلیمات مکمل کرلیں اور ساتھ ساتھ فن سہ گیری میں بھی طاق ہوگئے
حضرتِ سلطان محمود غزنوی نے بھانجے کو دیکھنے کے لیے اپنا قافلہ بھیجا آپ اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ چند ہزار سواران لشکر کے ہمراہ اجمیر سے روانہ ہوئے- راستہ میں خواجہ احمد حسن وزیر کے سالے کے ذریعے شوکن نامی راجہ نے اپنے یہاں دعوت کی پیش کش کی آپ نے انکار کر دیا
وجہ یہ تھی کہ حضرتِ سالار ساہو سے شوکن کی جنگ ہوئی تھی جس میں اس کو شکست ہوئی تھی اور وہ مفلس ہوگیا اس کا شہر اجڑ گیا تھا اس نے سوچا باپ سے کچھ پیش نہ چلی بیٹے ہی سے کچھ انتقام لے لیا جائے
شوکن حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا (اس وقت آپ راول میں ٹھہرے ہوئے تھے) آکر آپ کی قدم بوسی کی اور کہا کہ آپ نے دعوت قبول نہ فرمائی تو یہ مٹھائی ہی نوش فرمائیں- آپ نے مٹھائی کو لے کر باورچی خانے میں بھجوا دی اور اس کو خلعت دے کر بخوشی رخصت کیا- کچھ دور جاکر حضرت نے اس مٹھائی کو کتے کو کھلوایا وہ کتا تھوڑی دیر کے بعد مر گیا آپ کی والدہ ماجدہ یہ حال دیکھ کر خدا کا شکر بجا لائیں اور صدقہ و خیرات کیا- حضرتِ مسعود نے شوکن کو گرفتا کیا اور اپنے ساتھ لے گئے- اس وقت حضرتِ ساہو سالار راستے میں کشوی ناظم کا ہیلیر سے نبردآزما تھے گرفتار شدگان کو والد ماجد کے حوالے کر کے احوال کہ سنایا یہ پہلی لڑائی اور فتح تھی- جو صرف دس سال کی عمر میں حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ نے حاصل کی- پھر سلطان محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوئے سلطان نے بھانجے کو گلے لگایا- حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ تقریباً تین سال تک لڑائیوں میں اپنے ماموں کے ساتھ شریک رہے- خواجہ حسن میمندی وزیر سلطان محمود حضرت سے شوکن کی وجہ سے پرخاش رکھتا تھا آپ نے وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھ کر ماموں سے ہند جانے کا ارادہ ظاہر کیا- سلطان نے بادل ناخواستہ اجازت تو دے دی مگر آپ کے والدِ ماجد کو ایک خط کے ذریعے ہدایت کی کہ حضرتِ سید سالار مسعود غازی کو اپنے پاس رکھنا ہند نہ جانے دینا- الغرض جب آپ روانہ ہوئے تو آپ کے ہمراہ گیارہ ہزار اشخاص تھے- کچھ عرصہ والد ماجد کے یہاں قیام کر کے ہند جانے کا ارادہ ظاہر کیا- والد ماجد نے ہند جانے سے منع فرمایا ( مگر خدا وند کریم کو کچھ اور ہی منظور تھا ان کو ہند آنا تھا اور شمالی بہرائچ کے ضلع میں تاقیامت خداوند قدوس سے بلا تفریق مذہب و ملت اپنے ماننے والوں کی شفارش اور مرادیں دلوانی تھیں) الغرض والد ماجد سے حالاتِ سلطنت محمود اور احوالِ خواجہ حسن وزیر سنا کر مصلحت اور دانائی اسی میں بتلائی کہ میں سلطنت غزنی سے دور ہوں- حضرتِ ساہو سالار نے بیٹے کی رائے مناسب جان کر ہند جانے کی اجازت دے دی اور سیر و شکار کھیلتے ہوئےدکھن اور یورپ کی طرف بڑھتے رہے- ایک دن آپ باز کے ذریعے شکار میں مشغول تھے باز اڑ کر پیڑ پر بیٹھ گیا آپ نے بلانے کی کوشش کی مگر قریب نہ آیا نماز کا وقت آگیا بعد نماز مراقبہ میں خزانہ غیب نظر آیا- آپ نے اس دفینہ کو کھود وایا اور اپنے پہلوانوں کو نو نو ماہ اور دیگر فوجیوں کو چھ چھ ماہ کی تنخواہیں تقسیم کردیں اور فوج جدید رکھی- آپ لوگوں سے بہت خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے اور ہر ایک سے کلماتِ سلوک و حقانی فرماتے تھے جس سے سب کو محبت الٰہی کا شوق ہوتا تھا- بعد عشاء جب آپ خلوت میں جاتے تو وضو کرتے اور عبادتِ الٰہی میں مشغول ہو جاتے- آپ پر ایسا غلبہ طاری ہوتا کہ کسی کو پہچان نہ پاتے آپ اپنے خاص ہمراہیوں میں سے چار آدمیوں کو سلطان محمود کے پاس چھوڑ آئے تھے سالار سیف الدین چھوٹے چچا، سلطان السلاطین مہی بختاور، سید اعزاز الدین، قدیم پہلوان لشکر میاں رجب سالار- جب سلطان محمود کو خدمت ایاز کی زیادہ پسند آئی تو دوسرے لوگ کچھ برہم رہنے لگے- ضعیفی اور ہمدردوں کی کمی کے سبب سے خواجہ حسن میمندی نے فائدہ اٹھاکر ان چاروں کو ملک سے نکلوا دیا- ( سوانحِ حیات سید سالار مسعود غازی/صفحہ/04) جب حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ دہلی پہونچے اس وقت رائے مہپال دہلی کا حکمراں تھا اس سے جنگ شروع ہوئی قریب ایک ماہ لگ گیا فتح نصیب نہ ہوئی آپ نے خدا وند کریم سے فتح و نصرت کی دعا مانگی دعا سے فراغت پاتے ہی مخبر نے خبر دی کہ آپ کے چاروں جاں نثار مع لشکر حاضر خدمت ہیں بہر حال چالیس دن تک جنگ جاری رہی آپ کے دو دانت اس جنگ میں شہید ہوگئے اور سید اعزار الدین نے اس جنگ میں شہادت پائی- بعد فتح آپ دہلی میں تشریف لے گئے لوگوں نے کہا حضور تخت پر بیٹھئے اور اپنا سکہ چلائیے کیونکہ مالک بارہ ہزاری شہر یار کہلاتا ہے- آپ نے فرمایا نہیں کوئی بندگی کے لائق نہیں سوائے الله کے- ہم تو خداوند قدوس کی وحدانیت کا اعلان کرنے آئے ہیں- ہم کو سلطنت سے کیا سروکار یہ تو ماموں جان ہی کو زیبا ہے- میر بایزید جعفر کو تین ہزار سوار کا سردار مقرر کرکے چھ ماہ دہلی میں قیام کیا بعدہ آپ برائے میرٹھ قنوج پہنچے وہاں کے راجہ کا سفیر دریا پار کرکے خدمت میں حاضر ہوا- عرض کیا جب سلطان محمود نے ہم پر فوج کشی کی تو آپ کے والدِ ماجد کی بدولت مجھ کو یہ جاگیر عطا ہوئی سالار مسعود نے اس کو گھوڑے اور خلعت سے نوازہ راجہ نے بڑی آؤ بھگت کی چند روز وہاں قیام کرکے براستہ ملیح آباد ستر پہنچے- ستر کی ضلع بارہ بنکی کی آب و ہوا آپ کو بہت پسند آئی کچھ دن قیام و انتظام درست کر کے سب سے پہلے سالار سیف الدین اور رجب کوتوال کو بہرائچ روانہ کیا یہاں بھڑ قوم آباد تھی- یہ لوگ سورج کی پوجا کرتے تھے اونچ نیچ ذات کا رواج تھا اکثر لوگ مویشی پالتے تھے مہی بختاور کو ملکفر دوست فتح کے لیے روانہ کیا آپ نے ملک فر دوست نے فتح کر کے کانپور میں شہادت پائی- مزار وہیں بنا ہے- امیر حسن عرب مہوبہ میں مامور ہوئے- میر سید علی معروف گوپا مئو میں آئے اور لال پیر کہلائے- اس وقت کے راجاؤں نے مل کر سازش کی اور ایک نائی کو ناخنگیری زہر میں بجھواکر حضرت سید سالار مسعود غازی کے پاس بھیجی آپ نے ناخنگیری رکھ لی اور نائی کو رخصت کر دیا جب آپ نے ناخون کاٹا ناخنگیری لگ گئی زہر نے فوراً اپنا اثر دکھایا آپ کو غش آگیا کئی دن تک آپ پر زہر کا اثر رہا- علالت کی خبر آپ کے والدِ ماجد کے پاس پہنچی آپ کی والدہ ماجدہ کو بہت صدمہ ہوا اس صدمے کے باعث آپ کی والدہ ماجدہ ستر معلی کا ٤٢٠/ہجری میں انتقال ہوا- جب آپ نے والدہ ماجدہ کے انتقال کی خبر سنی بہت صدمہ ہوا والدِ ماجد سے بہرائچ تک جانے سیر و شکار میں دل بہلانے کی اجازت طلب کی اس زمانہ میں سرحدی حکمراں نائی کو پکڑ لائے اور اپنے ہمراہ ایک خط مع تین سواروں کے لائے نائی کو قتل کروایا- جب خط کھولا گیا اس میں کڑہ مانگ پور کے راجاؤں نے بہرائچ کے راجہ کو تحریر کیا تھا کہ ہم تم مل کر مسلمانوں پر حملہ کردیں تو ان کو نکال کر باہر کر سکتے ہیں- خط دیکھ کر سالار ساہو کو بہت غصہ آیا- آپ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر کے کڑہ مانگ پور پر حملہ کردیا- خدا نے آپ کو فتح نصیب فرمائی یہ دیکھ کر بہرائچ کے راجاؤں نے سالار سیف الدین کو گھیر لیا- ایک دن حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ اور آپ کے والدِ ماجد شکار کو نکلے بعد نمازِ ظہر حضرتِ مسعود غازی نے بذریعہ شمشیر شیر کا مقابلہ کیا- شیر کی کلائی پکڑ کر ایک ہی ضرب میں کام تمام کردیا اسی رات کو بہرائچ سے سالار سیف الدین کی عرض داشت آئی کہ راجاؤں نے سرکشی کی ہے- آپ نے اپنے والدِ ماجد سے بہرائچ تک جانے کی اجازت طلب کی والدِ ماجد نے بچشمِ نم فرزند سے فرمایا ایک طرف تمہاری والدہ کا صدمہ ہے اور دوسری طرف تم بھی جارہے ہو آپ بھی آبدیدہ ہوئے اور فرمایا فی الحال رخصت کیجئے- والدہ ماجدہ کی رحلت کی وجہ سے دل پر سخت صدمہ ہے جاکر شکار ہی سے دل بہلاؤں گا- آپ شعبان المعظم ٤٢٣/ہجری کو بہرائچ آئے یہاں بہرائچ کے جنوبی و مشرقی سرحد سے داخل ہوئے- حضرتِ سالار ساہو اب جدائی فرزند کی وجہ سے اور بھی نڈھال رہنے لگے کسی طرح دل کو قرار نہ آتا تھا- ایک طرف شریکِ حیات کا غم دوسری طرف جدائی فرزند، انہی غموں کی وجہ سے آپ ١٥/شوال ٤٢٣/ہجری کو سر میں درد شروع ہوا اور پچیس شوال ٤٢٣/ہجری کو انتقال ہوا- ستر رکھ ضلع بارہ بنکی میں آپ کا مزار مبارک ہے- (سوانحِ حیات سید سالار مسعود غازی/صفحہ/06) جب سید سالار ساہو کے انتقال کی خبر بہرائچ پہونچی تو حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کو بہت صدمہ ہوا- دو دن تک آپ نے کسی سے بات نہیں کی کھانا پینا چھوڑ دیا- دنیا سے دل ٹوٹا- یاد الہٰی نے ڈھارس بندھائی جب رنج و غم کچھ کم ہوا تو عبد الملک فیروز کو حاکم سترکھ تحریر کرکے خلعت فاخرہ بھجوایا- سیر و تفریح میں دل بہلانے لگے- آپ لوگوں سے اکثر کہا کرتے تھے ہم نے ہندوستان آکر بہت تکلیف اٹھائی- والدہ ماجدہ کے غم اور والد ماجد کے انتقال نے یتیمی میں نام لکھوایا- بس اب مالک حقیقی سے ملنے کی تمنا ہے اور شہادت کی آرزو- بہرائچ اگرچہ جنگل ہے ویرانہ ہے مگر طبیعت بہل جاتی ہے اسی سرزمین سے وطن کی بو آتی ہے- محرم الحرام کا مہینہ تھا آغاز سال کی خوشی میں ارکانِ دولت کو خلعت و خدمات سے سرفراز فرمایا اور اندر خلوت میں تشریف لے گئے عبادت الہٰی میں مصروف ہو گئے کہ نیند نے غلبا کیا خواب میں دیکھا کہ ساہو سالار کا لشکر دریائے گنگا کے کنارے ٹھہرا ہے شادی کی تیاریاں ہورہی ہیں- جناب ستر معلی ہاتھ میں پھولوں کے ہار لیے کھڑی ہیں- دیکھتے ہی پکار اٹھتی ہیں ،،آ کہ تیری شادی رچانے کو دل بے قرار ہے،، ہار پھولوں کا گلے میں ڈال کر چھاتی سے لگا لیتی ہیں- خواب سے بیدار ہو کر آپ نے فقرا و علماء سے تعبیر دریافت کی تو ان لوگوں نے بتلایا: جو ابھی ایسا خواب دیکھے جلد شہادت پاوے- یہ سن کر آپ مسرور ہوئے اور دعا کی اے الله میرے دوستوں کو اس مرتبہ اسد الله الغالب سے ممتاز فرما- دوسرے دن وکیل رایان بہرائچ میں حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کے روبرو حاضر ہوا اور کہنے لگا: آپ بہرائچ فوراً خالی کردیں ورنہ کئی لاکھ کا فوجی دستہ آپ سے جنگ کے لیے تیار ہے- حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ نے ملک نیک دل کو فوج کی حقیقت دیکھنے مع سات آدمیوں کے روانہ کیا اور خط لکھ دیا کہ میں یہاں حکومت کی غرض سے نہیں آیا نہ مجھ کو حکومت کی طلب ہے کچھ دن اور سیر و شکار میں دل بہلاؤں گا- مگر اپنی موجودگی میں سنگ دلی اور ظلم برداشت نہیں کر سکتا- ملک نیک دل نے ہر ایک راجہ سے ملاقات کی اور خط کی بات دہرائی- چند کے علاوہ سب نے یہی جواب دیا کہ ہمارا لشکر تیار ہے ہم لوگ اب لڑے بغیر واپس نہیں جائیں گے- الغرض پہلی جنگ نانپارہ کے مغربی جنگلات میں دریائے گیروا کے کنارے ہوئی تمام راجاؤں نے شکست کا منہ دیکھا- دوسری جنگ دریائے بھلا کے کنارے شہر بہرائچ کے اتر جانب ہوئی اس جنگ میں راجاؤں نے آتشبازی چھوڑی جس سے گھوڑے بھڑک گئے اور لشکر کا کچھ حصہ اس معرکہ میں شہید ہوا جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ بغیر گھوڑے کے ہوگیے- بہر حال حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ وہاں تک پہنچے اور آپ نے فوج پر حملہ کیا سب کو مار بھگایا جو جہاں شہید ہوا اس کو وہیں دفن فرمایا- کچھ ماہ بعد پھر راجاؤں نے مل کر چڑھائی کی چاروں طرف سے گھیر لیا میر سید ابراہیم کی حفاظت کے لیے بہرائچ شہر سے فوج کے آگے روانہ کیا سید میت میر خضر کو جانب اتر، رجب کوتوال کو جانب پورپ، سید سر خرو سالار کو جانب دکھن اور جانب پچھم جھیل انار کلی کو مناسب جگہ سمجھ کر جنگ شروع کی جیٹھ کا مہینہ تھا سخت دھوپ اور سخت گرمی میں الله رب العزت کا نام لے کر حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کی فوج دشمن سے کثرت کا خیال نہ کرتے ہوئے دوپہر تک لڑتی رہی اس وقت تک آپ کی فوج کا کچھ حصہ شہید ہو چکا تھا- حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ دوپہر میں اپنے لگائے ہوئے باغ میں مہوہ کے پیڑ کے نیچے دھوپ سے بچنے کے لیے گھوڑی سے اتر پڑے، سکندر دیوانہ ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے آپ سے بڑی محبت کرتے تھے- باقی لوگوں کو حکم دیا کہ لڑنے سے زیادہ بہتر ہے کہ شہیدوں کو جہاں جگہ ملے دفن کردو اس وقت دھوپ کی تمازت کی وجہ سے لڑائی کچھ کم پڑ گئی تھی سہیل دیو چھپ کر آیا اور عصر کے وقت باغ کو چاروں طرف سے گھیر لیا آپ فوراً گھوڑی پر چڑھ گیے اور جنگ کے لیے تیار ہو گئے ناگاہ تیروں کی بوچھار ہوگئی غازی دشمنوں سے بھڑ گیے حضرتِ سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کے کئی تیر لگے ایک تیر جو سہیل دیو نے چلایا وہ آپ کے حلق میں لگا آپ کو سکندر دیوانہ نے فوراً گھوڑی سے اتار لیا اور اپنے زانو پر حضرت کا سر رکھ کر رونے لگا- باقی لوگوں نے یہ دیکھ کر دشمنوں پر سخت حملہ کردیا اور دشمنوں کو مارتے ہوئے دور ہٹا لے گیے سکندر دیوانہ کے کافی زخم آئے مگر زانو سے سر نہ ہٹایا آپ نے آنکھ کھو لی اپنا سر سکندر دیوانہ کی گود میں دیکھ کر تبسّم فرمایا کلمہ شہادت زبان پر لائے اور شہید ہوگیے- بوقتِ عصر و مغرب کے درمیان بتاریخ/ 14/ رجب المرجب شریف مطابق 10/ جون 1034/ عیسوی آپ کی روح مبارک نے اس جسم خاکی کو چھوڑ کر ابدی زندگی حاصل کی اور الله رب العزت نے تا قیامت اپنی قہاری و وحدانیت کا اعلان کرنے کے لیے آپ کو چن لیا- الغرض سکندر دیوانہ نے بھی زخموں کی تاب نہ لا کر شہادت پائی- دوسرے دن جب میر سید ابراہیم آپ کے جسد خاکی کے قریب پہونچے تو سکندر دیوانہ کا سر حضرت سید سالار مسعود غازی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کے پیروں پر تھا اس جنگ میں قریب قریب سارے ہی لوگوں نے شہادت پائی- * کریم گنج__پورن پور__پیلی بھیت iftikharahmadquadri@gmail.com