امیر لوگوں کے ہاتھوں میں طاقت کا آجانا خطرناک ہے

Spread the love

امیر لوگوں کے ہاتھوں میں طاقت کا آجانا خطرناک ہے

سرفراز احمد قاسمی

دنیا بھر میں دولت واقتدار کا غلط استعمال اوراس پر قابض مٹھی بھر افراد کی جانب سے ظلم وبربریت، حق تلفی اور ناانصافی کی وجہ سے جو نقصانات ہو رہے ہیں

سماج اور معاشرہ جس ہنگامی صورت حال سےگذر رہاہےاس سے کسی طرح کے انکار کی گنجائش نہیں ہے

لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسکے سدباب اور اسکی روک تھام کے لیے کوئی میکانزم یا سنجیدہ کوششیں نہیں کی جا رہی ہیں

پھر ایسے میں دنیاسے جرائم کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ امریکہ کے سابق صدر جو بائیڈن گذشتہ مہینے اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے،انہوں نے سبک دوشی سے قبل ایک الوداعی خطاب کیا

جس میں انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ چند انتہائی امیر لوگوں کے ہاتھوں میں طاقت واقتدار کا آجانا خطرناک ہے،اگر ان کے اختیارات کے غلط استعمال کو نہ روکا گیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، ان کے بقول امریکہ میں بہت زیادہ دولت،طاقت اور اثر و رسوخ ‘اولیگاریکی’ کی شکل اختیار کررہے ہیں

جس سے امریکہ میں پوری جمہوریت،بنیادی حقوق اور آزادیوں کو حقیقت میں خطرات لاحق ہیں،جوبائیڈن نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان کا ‘او لیگا ریکی’ سے کیا مراد ہے

انہوں نے اپنے خطاب میں سوشل میڈیا کے حوالے سے بڑی کمپنیوں کے فیصلوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا،جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ آزاد صحافت تباہ ہورہی ہے

ایڈیٹرز کا کردار ختم ہوتا جا رہا ہے، جبکہ سوشل میڈیا بھی فیکٹ چیک ختم کر رہا ہے، طاقت اور منافع کے لئے بولے جانے والے جھوٹ سے سچائی کو کچل دیا جاتا ہے

بائیڈن نے اپنے دور صدارت کا خاتمہ ایک سفارتی محاذ پر بڑی کامیابی کے ساتھ کیا ہے،انہوں نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کےدرمیان غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا ہے

اس معاہدے پر زیادہ تر عمل درآمد امریکہ میں آئندہ ہفتے آنے والی نئی انتظامیہ کے دور میں ہوگا،اپنے الوداعی خطاب میں انہوں نے اپنی ٹیم کو ہدایت کی تھی کہ وہ نئی انتظامیہ کو پوری طرح باخبر رکھے

جوبائیڈن نے ایک خط بھی جاری کیا جس میں انہوں نے اپنی انتظامیہ کے ساتھ دور صدارت کا 2021 میں آغاز کا تذکرہ کیا ہے،جب دنیا کو کورونا وبا کا سامنا تھا،اس وقت امریکہ کے دارالحکومت پر ان کے حریف کے حامیوں نے دھاوا بول دیا تھا،تاکہ نومبر 2020 میں ہونے والے الیکشن کے نتائج کو تبدیل کیا جا سکے

جس میں ڈونالڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کو کامیابی ملی تھی، بائیڈن نے کہا کہ چار سال قبل ہم خطرات اور امکانات کے موسم سرما میں کھڑے تھے

لیکن ہم نے بحیثیت امریکی اتحاد کا مظاہرہ کیا اور بہادری سے مقابلہ کیا ، ہم مزید مضبوط خوشحال اور محفوظ ہو کر سامنے آئے،یہ جو بائیڈن کا امریکی صدر کے دفتر اوول آفس سے پانچواں اورآخری خطاب تھا

بائیڈن نے رواں برس جولائی میں آخری بار اوول آفس سے خطاب کیا تھا، جس میں انہوں نے نومبر 2024 میں ہونے والے صدارتی الیکشن لڑنے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا

صدر بائیڈن نے اپنی نائب کملا ہیرس کی ریپبلیکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف ڈیموکریٹ امیدوار کی حیثیت سے توثیق کی تھی،ومی رائے عامہ کے سروے کرنے والی امریکی کمپنی گیلپ کے مطابق جو بائیڈن صدارت کا عہدہ ایسے موقع پر چھوڑ رہے ہیں جب ان کی امریکی عوام میں تائید صرف 39 فیصد ہے

امریکی ریاست ٹینیسی کی وینڈر بلٹ یونیورسٹی سے وابستہ صدارتی تاریخ داں تھامس شوارٹز کے مطابق موجودہ صدر کی میراث اس سے متاثر ہوگی کہ آئندہ چار برس ڈونالڈ ٹرمپ کس طرح کی طرز حکمرانی اختیار کرتے ہیں،وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹرمپ کا دور ایک آفت کے طور پر ختم ہوا یا ان کے دور میں معاشی افراتفری ہوئی یا مزید عالمی تنازعات نے جنم لیا تو جو بائیڈن کے دور کو زیادہ احسن انداز میں یاد کیا جائے گا

وائٹ ہاؤس نے بھی ایک وسیع حقائق نامہ جاری کیا ہے جس میں صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کے دور میں امریکا کے اندر اور خارجی سطح پر حاصل کی جانے والی کام یابیوں کا ذکر کیا گیا ہے،اس حقائق نامے میں واضح کیا گیا ہے کہ اس دور میں امریکہ میں ایک کروڑ 66 لاکھ نوکریوں کے مواقع پیدا کئے گئے

جب کہ جی ڈی پی 12.6 فیصد تک پہنچا، حقائق نامے میں جوبائیڈن کے دور میں ان کے دستخطوں سے جاری ہونے والے قوانین کا ذکر شامل ہے،جو بائیڈن نے 15 جنوری کی صبح اپنے الوداعی خطاب کا اختتام ، خدمت کا اعزاز دینے پر امریکی عوام کے شکریہ کے ساتھ کیا،جو بائیڈن نے کہا کہ میں آج بھی اس نظریے پر یقین رکھتا ہوں جس کے لیے قوم کھڑی ہے

ایک ایسی قوم جس کے لیے اداروں کی مضبوطی اور افراد کا کردار اہمیت کا حامل ہے’بائیڈن کے اس الودعی خطاب کو پھر سے پڑھئے اور اپنے ملک بھارت میں کیا ہورہاہے؟کیوں ہورہاہے،اسکا اندازہ لگائیے کہ ہمارا بھارت کس راستے پر جارہاہے؟ اور اس کا حل کیاہے؟

جب کہ کانگرس کا کہنا ہے کہ مودی حکومت گڈاینڈ سروس ٹیکس( جی ایس ٹی) کے ذریعے عام لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہی ہے اور عام لوگوں سے زیادہ ٹیکس وصول کرکے سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ کر رہی ہے

کانگرس کے لیڈر شکتی سنگھ گوہل نے آج پارٹی ہیڈ کوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں جی ایس ٹی کو عام لوگوں کےلیے دہشت گردانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کسانوں سے کپاس پرایڈوانس لے رہی ہے اور اس کے بدلے میں سود بھی نہیں دے رہی ہے،کاشتکاری میں استعمال ہونے والے آلات اور کیڑے مار ادویات پر بھاری ٹیکس لگائے جا رہے ہیں

اور سرمایہ داروں کو ٹیکسوں سے ریلیف دیا جا رہا ہے، جی ایس ٹی کی بنیاد آسانی پر مبنی تھی اور اس کی بنیاد بھی وہی ہونی چاہیے تھی لیکن مودی سرکار نے اس میں سلیب بڑھا کر جی ایس ٹی کی دہشت پیدا کر دی ہے،جس سے عام آدمی پریشان ہو گئے ہیں،پاپ کورن پر تین سلیب میں ٹیکس لگایا جا رہا ہے اور ایسا کر کے حکومت عام لوگوں پر ظلم کر رہی ہے

گوہل نے کہا کہ مودی حکومت میں غریبوں اور عام لوگوں سے جی ایس ٹی بہت زیادہ لیا جا رہا ہے لیکن اربوں اور کھربوں روپے کمانے والے سرمایہ داروں کو ٹیکس میں چھوٹ دی جا رہی ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج غریب اور امیر کے درمیان خلیج بہت بڑھ گئی ہے اور یہ انگریزوں کے دور سے بھی زیادہ وسیع ہو گئی ہے

انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے سرمایہ داروں کو دو لاکھ کروڑ روپے کی ٹیکس سے چھوٹ دی ہے،یہی نہیں حکومت نے بڑے صنعت کاروں کے 17 لاکھ کروڑ روپے کے این پی اے کو معاف کر دیا ہےاور اس معافی کے بدلے ان سرمایہ داروں نے الیکٹرانک بانڈ خرید کر بھارتی جنتا پارٹی اوربی جے پی کو چندہ دیا ہے، کانگرس کے لیڈر نے کہا کہ جی ایس ٹی کا مقصد ٹیکس وصولی کے نظام کو آسان بنانا تھا

لیکن مودی حکومت نے عجلت میں جی ایس ٹی کو نافذ کر کے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے اورعوام اس پر بنائے گئے سلیبوں میں پس رہے ہیں،اس ٹیکس کے ذریعے ملک کے غریبوں سے پیسہ چھینا جا رہا ہے، ٹیکسس جمع کرنے کا ایک نظام ہے اور اس کا مقصد سب کو فائدہ پہنچانا تھا، لیکن مرکزی حکومت سیس لگا کر بہت زیادہ آمدنی حاصل کر رہی ہے اور صرف سیس لگا کر اپنی جیبیں بھر رہی ہے

گوہل نے کہا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس کے نظام میں کسانوں سے بھی دھوکا کیا جا رہا ہے اور کسان اپنی فصلوں کو کیڑوں سے بچانے کے لیے جو کیمیکل استعمال کرتے ہیں،ان پر 28 فیصد جی ایس ٹی وصول کیا جا رہا ہے،صحت کے شعبے میں انشورنس سسٹم پر 18 فیصد جی ایچ ڈی وصول کی جا رہی ہے

حکومت عام آدمی سے بہت زیادہ ٹیکس لے کر اپنے چند سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ کر رہی ہے جوانتہائی خطرناک ہے، کانگرس کے لیڈر نے مودی حکومت کے ترقیاتی ماڈل کو راون کی ترقی کا ماڈل قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح لنکا میں کچھ محل سونے کےبنے تھے وہ سب راون کے پسندیدہ لوگوں کے تھے اور وہاں عام لوگ پریشان تھے

مودی حکومت رام راجیہ کی بات کرتی ہے لیکن ان کا ٹیکس وصولی کا نظام راون کے انداز میں کام کر رہا ہے ۔عام آدمی پارٹی کے سربراہ کیجریوال نے بھی مرکزی حکومت پر چند ارب پتی دوستوں پر ملک کے خزانے کو لٹانے کا الزام لگایا ہے اروندکیجری وال نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے آج ایک اہم معاملے پر وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے

جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت تمام دولت،چند لوگوں کو لٹا رہی ہے،انہوں نے کہا کہ وہ پہلے اپنے ارب پتی دوستوں کو قرض دیتے ہیں پھر قرض معاف کر دیتے ہیں،اب تک تقریبا 500 ارب پتی دوستوں کے 10 لاکھ کروڑ روپے کے قرضے معاف کئے جا چکے ہیں

کیجری وال وال نے کہا کہ اگر حکومت قرضے معاف کرنا چاہتی ہے تو متوسط طبقے اور کسانوں کے قرضے معاف کرے، متوسط طبقہ سالانہ 12 لاکھ روپے کماتا ہے اور اس کی نصف آمدنی مختلف قسم کے ٹیکس ادا کرنے میں چلی جاتی ہے اور اس کے بدلے میں اسے کچھ نہیں ملتا ،دہلی کے سابق چیف منسٹر نے مطالبہ کیا ہے کہ کسی بھی ارب پتی کا قرضہ معاف نہ کیا جائے

انہوں نے کہا کہ میں نے حساب لگایا ہے کہ اگر امیروں کے قرض معاف نہ کئے گئے تو ٹیکس کی شرح آدھی رہ جائے گی، جی ایس ٹی کو آدھا کیا جاسکتا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء پر سے جی ایس ٹی کو بھی معاف کیا جا سکتا ہے۔

گاندھی جی کہتے تھے اور بالکل ٹھیک کہتے تھے کہ معاشی غربت،عدم مساوات ہمارے معاشرے کا اخلاقی زوال ہے جو معاشرہ لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کو بے روزگار رکھتاہو اسکے معاشی نظام کو بالکل قبول نہیں کیاجاسکتا

پھر بھلے ہی وہ شرح نمو کی بلند ترین سطح کی مظہر کیوں نہ ہو،صنعت کی فطرت دوسروں کی قیمت پر ترقی کرنے کی ہے،صنعت کاری استحصال کو کم نہیں کرتی،استحصال کے اس عمل میں معاشرہ اپنی آزادی بھی کھوبیٹھتاہے۔

راجیہ سبھا میں صدرکانگریس کھڑگے نے بےروزگاری،مہنگائی،نوٹ بندی اور کسانوں کی آمدنی جیسے اہم ایشوز سے متعلق سوال اٹھائے اور مودی حکومت کو پرانے وعدے یاد دلائے

پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس جاری ہے،اسی درمیان صدرکانگریس نے کہاکہ وزیراعظم نے عوام سے بڑے بڑے وعدے کئے تھے لیکن ان میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیاگیا،انھوں نے حکومت سے جواب مانگتے ہوئے کہا کہ عوام کو سچائی بتائی جائے کہ ان سے جووعدے کئے گئے تھے ان وعدوں کا کیا ہوا؟

کھڑگے نے راجیہ سبھا میں مودی حکومت کو11اہم وعدے یاد دلائے،وہ کچھ اسطرح ہیںبلیک منی واپس لانے کا وعدہ:پی ایم مودی نے کہا تھا کہ بیرون ملک سے بلیک منی لاکر ہرشہری کے اکاؤنٹ میں جمع کئے جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

روزگار دینے کا وعدہ:2014 کے انتخابات میں کہاگیاتھا کہ ہرسال دوکروڑ ملازمتیں دی جائیں گی

لیکن آج شرح بے روزگاری اپنی اعلی سطح پرہے۔پٹرول ڈیزل کی قیمتیں کم کرنے کا وعدہ:مودی حکومت نے دعوی کیاتھا کہ پٹرول وڈیزل کو سستا کیاجائے گا لیکن آج اسکی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں۔

گنگاکی صفائی کا وعدہ:حکومت نے گنگا کو پوری طرح صاف کرنے کا وعدہ کیا تھا،لیکن آج بھی گنگا کی حالت جوں کی توں بنی ہوئی ہے،وہیں کمبھ میں سیاسی لیڈران جاکر گندگی پھیلارہے ہیں جسکی صفائی بہت مشکل ہے۔

انفراسٹرکچرپروجیکٹس کو تیزی سے نافذ کرنے کا وعدہ: انفراسٹرکچر پروجیکٹس کو تیزی سے نافذ کرنے کا وعدہ پی ایم مودی نے کیا تھا،لیکن کئی پروجیکٹس اب بھی ادھورے ہیں۔

میک ان انڈیا سے دس کروڑ ملازمتوں کا وعدہ: حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ 2022 تک مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 10کروڑ ملازمتیں دی جائیں گی۔

کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ

مودی نے کہا تھا کہ 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی ہوجائے گی،لیکن ابھی کسانوں کی کیا حالت ہے یہ سبھی کو معلوم ہے۔

نوٹ بندی کےدوران کیاگیا وعدہ

نوٹ بندی کے دوران پی ایم مودی نے وعدہ کیاتھا کہ پچاس دنوں میں حالت بہتر نہیں ہوئی تو وہ کسی بھی سزا کےلئے تیار ہیں،لیکن عوام کوابھی تک اسکا جواب نہیں ملا۔

بلٹ ٹرین چلانے کا وعدہ

حکومت نے 2022 تک ممبئی۔ احمدآباد بلٹ ٹرین شروع کرنے کا وعدہ کیاتھا،لیکن یہ وعدہ اب تک پورا نہیں ہوا۔

پی ایم کسان منصوبہ

حکومت نے کہاتھا کہ ہر کسان کو پی ایم کسان منصوبہ سے معاشی فائدہ پہونچایاجائے گا،لیکن زمینی حقیقت کچھ الگ ہی ہے۔

بھگوڑے معاشی مجرموں کو واپس لانے کا وعدہ

مودی حکومت نے معاشی جرائم پیشوں کو بیرون ممالک سے واپس ہندوستان لانے کا وعدہ کیا تھا،لیکن وہ آج بھی واپس نہیں لائے گئے ہیں۔کیاان چیزوں سے آپ کو لگتا نہیں ہے کہ مجموعی طورپرحکومت کی معیشت اور ترقیاتی فریم ورک میں اجتماعی معاشرہ تو ہے ہی نہیں،وہ اپنے حصوں کو علیحدہ علیحدہ اٹھاتی ہےاور ترقی کے اپنے خاکوں میں اسطرح فٹ کرتی ہے کہ اس کے اپنے اور کارپوریٹ ورلڈ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات پورے ہوتے رہیں

چوں کہ یہ ان حصوں کو ان مفادات کے اندر پنپنے کی محدود آزادی دیتی ہے اسلئے وہ کبھی بھی کھل کر توسیع نہیں کرپاتے،چاہے وہ زراعت ہو،یا نوجوان،یا تعلیم اور روزگار،کیا حکومتوں کی اسطرح کی پالیسیاں خطرناک نہیں ہیں ذراآپ بھی سوچئے!

مضمون نگار: سرفراز احمد قاسمی

معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری

sarfarazahmemadqasmi@gmail.com

Leave a reply

  • Default Comments (0)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *