ایک عظیم عالم مفتی حبیب اللہ خان صاحب نعیمی کا انتقال
ایک عظیم عالم مفتی حبیب اللہ خان صاحب نعیمی کا انتقال
انا للہ وانا الیہ رٰجعون
جب کسی عالم با عمل کی موت کی خبر سننے کو ملتی ہے تو سمجھ دار انسان پر سکتے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آج ہم کسی قریبی عزیز یا سرپرست کی شفقتوں سے محروم ہو گئے ہیں۔
چلچلاتی ہوئی دھوپ میں بادلوں کا سایہ ہم سے ہٹ گیا ہے، زمین قدموں کے نیچے سے سرک گئی ہے،بہاریں ہم سے روٹھ گئی ہیں، اور دل میں خیال ابھرتا ہے کہ اب ہم روحانی توانائی کہاں سے حاصل کریں گے۔
سینہ غم سے تنگ ہو جاتا ہے، آنکھیں پُر نم ہو جاتی ہیں، یوں سمجھیں کہ ان کے چلے جانے کے بعد دنیا ویران نظر آتی ہے۔
مگرجب عالم باعمل کی وفات پر ان کے ہم عصروں اور شاگردوں کے خوب صورت الفاظ اور دعائیں سننے کو ملتی ہیں تو دل گواہی دیتا ہے کہ بامقصد زندگی تو انہی کی تھی اور سعادت کی موت بھی انہی کی ہے کہ جو مرتے دم تک رب کا قرآن اور نبی ﷺکا فرمان سنا گئے اور اپنے رب کے فضل اور نیک اعمال کے ذریعے دنیا کی نیک نامی کے ساتھ ساتھ آخرت کی کام یابیوں کو سمیٹ گیے۔
اس موقع پر نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی ذہن میں آتی ہے کہ” اللہ تعالی علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں ( کے سینوں ) سے ہی چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علما کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔
حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔
چناں چہ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (بخاری شریف)میں نے اپنی زندگی میں بہت سے عظیم علما کو دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا اور ہر عالم کی موت کے بعد محسوس کیاکہ مدتوں تک ان کا خلاء پورا نہیں ہو سکے گا۔
یہ لکھتے ہوۓ کلیجہ منھ کو آتا ہے آج 25/ ذوالقعدہ 1445ھ بتاریخ 3/جون بروز پیر 2024 فقیہ بے مثال فقہ و فتاوی کا عظیم شاہکار جامع معقول منقول حضرت علامہ مولانا مفتی حبیب اللہ خان صاحب نعیمی علیہ الرحمہ (صدر شعبہ افتاء وشیخ الحدیث دارالعلوم فضل رحمانیہ پچپڑوا بلرامپور) کا وصال پر ملال ہو گیا
مفتی صاحب کا اچانک چلا جانا اہل سنت وجماعت کے لیے بڑی تکلیف دہ خبر ہے مفتی صاحب بزرگوں کی عظیم یادگار تھے
اللہ تعالٰی مفتی صاحب کے درجات کو بلند فرماۓ اور آپ لواحقین و پسمندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین بجاہ النبي الکریم صلی اللہ علیہ وسلم شریک غم . فیض احمد امجدی