آخرکار میری دلی خواہش پوری ہو ہی گئی

Spread the love

آخرکار میری دلی خواہش پوری ہو ہی گئی

سہیل لقمان تیمی

استاد کلیہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا للبنات شری کنڈ ،صاحب گنج، جھارکھنڈ وطن عزیز ہندوستان میں فی الحال جماعت اہل حدیث کے کئی ایک قابلِ فخر تعلیمی و تربیتی مراکز ہیں،جن میں سے ایک نمایاں نام جامعہ شمس الہدی السلفیہ دلال پور،کوٹال پوکھر،صاحب گنج، جھارکھنڈ کا بھی ہے

اسے متحدہ بنگال کا اولین سلفی مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے،یہ مسلمانانِ ہند کے ان مراکز میں سے ایک ہےجنہوں نے آزادیٍ وطن کی خاطر ظالم و جابر سفید فام انگریز حکومت کے خلاف نہ صرف علم جہاد بلند کیا تھا،بلکہ اسے وطنٍ عزیز سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا

تاریخی کتابوں میں مذکور ہے کہ اس مرکز میں طلبہ کو تعلیمی و تربیتی زیورات سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں دشمنانِ وطن سے نبرد آزما ہونے،انہیں کیفرکردار تک پہنچانے اور انہیں یہاں سے مار بھگانے کی خطرناک ٹریننگ بھی دی جاتی تھی

یعنی اس مرکز کو بیک وقت مرکز الطلبہ کے ساتھ مرکز المجاہدین ہونے کا بھی شرف حاصل ہےـ یوں تو مذکورہ مرکز کی تاسیس آج سے تقریبا 153 سال پہلے 1872ء کو مولانا احمد اللہ خان عظیم آبادی/رحمہ اللہ کے مبارک ہاتھوں عمل میں آئی تھی،تاہم اس کو منظم اور مرجع خلائق بنانے میں مولانا احمد اللہ خان عظیم آبادی/رحمہ اللہ کے ساتھ جناب ابراہیم منڈل/رحمہ اللہ اسلام پور، صاحب گنج، جھارکھنڈ کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے

مذکورہ دونوں حضرات کی مساعی جمیلہ اور اخلاصِ نیت کی بدولت یہ تعلیمی و تربیتی مرکز ڈیرھ صدی گزر جانے کے بعد آج بھی جھارکھنڈ، بہار اور بنگال جیسی ریاستوں کے مسلمانوں بالخصوص اہل حدیث کی نگاہوں میں اسی طرح مقبول بنا ہوا ہے جس طرح یہ ماضی میں ان کی نگاہوں میں مقبول بنا ہوا تھا

ایسا اس لیے بھی ہے کہ یہ مرکز اس علاقے میں سلفی(وہابی) تحریک کی سرگرمیوں اور شاندار کارکردگیوں کی ایک بہترین یادگار ہےـمجھے زمانہ طالب علمی سے ہی اس تعلیمی و تربیتی مرکز اور سلفی(وہابی) تحریک کی اس یادگار کی زیارت کرنے اور اسے سامنے سے دیکھنے کی دلی خواہش تھی

لیکن میرے اپنے علاقے سے کافی دور جامعہ امام ابن تیمیہ مشرقی چمپارن ،بہار میں تعلیم حاصل کرنے پھر فراغت کے بعد اسی جامعہ میں تدریسی خدمات سر انجام دینے کے لیے مقرر کیے جانے کے باعث میری یہ دلی خواہش پوری نہیں ہو پاتی تھی

تعطیلات میں کئی ایک بار گاؤں اور علاقے کے علمی و ادبی دوست و احباب کے ہمراہ اس مرکز کی زیارت کرنے اور اس کی عطر بیزیوں سے خود کو معطر کرنے کا ارادہ بنایا،تاہم ہر دفعہ ان کے اعذار اور ان کی نفی نے میرے خانہ دل میں اس مرکز کی زیارت کرنے کی خواہش کو دو چنداں کر دیا ـ

گزشتہ ایک مہینے سے میرا نیا مقر العمل صوبہ جھارکھنڈ کا مشہور و معروف تعلیمی و تربیتی مرکز “مرکز السلام التعلیمی” شری کنڈ ،صاحب گنج، جھارکھنڈ ہے، یہاں سے “جامعہ شمس الہدی السلفیہ دلال پور” بہت نزدیک ہے، یہ یہاں سے تقریبا دس بارہ کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے،میں نے جلد از جلد اپنی اس دلی خواہش کو پورا کر لینا مناسب سمجھا

چناں چہ میں نے گزشتہ ہفتہ اپنے فاضل دوست مولانا منظور عالم سلفی/حفظہ اللہ( استاد کلیہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا للبنات شری کنڈ)کے سامنے اپنی اس دلی خواہش کا اظہار کیا تو ان کا چہرہ خوشیوں سے کھل اٹھا

اور انہوں نے میری اس دلی خواہش کو پورا کرنے کے لیے نہ صرف فورا ہامی بھر دی،بلکہ دلال پور کے اپنے ایک خوشہ چیں ماسٹر وحید الزماں صاحب کو بذریعہ فون ہماری اس زیارت کی پیشگی اطلاع بھی دے دی،تاکہ ہمیں وہاں جانے

اس تاریخی مرکز کا مشاہدہ کرنے اور وہاں کے کبار علما و فضلا سے استفادہ کرنے میں کسی طرح کی کوئی پریشانی نہ ہو ـ حسب ارادہ ہم دونوں ماہ رواں کی 13 تاریخ بروز بدھ بوقت شام پانچ بجے اپنے ایک عزیز حافظ منیر الدین زیدی/حفظہ اللہ( استاد کلیہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ گمانی) کی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر مذکورہ مرکز کی طرف روانہ ہو گیے

جوں جوں ہم اس مرکز کے نزدیک ہو رہے تھے،ہمارے دلوں میں اس کے دیدار کی خواہش فزوں ہو رہی تھی،کچھ ہی منٹوں کے بعد ہم تاریخی بستی دلال پور پہنچ گیے

سب سے پہلے ہم اپنے ممدوح ماسٹر وحید الزماں صاحب کے دولت کدہ میں تشریف لے گیے،انہوں نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا،ان سے اور ان کے افراد خانہ سے علیک سلیک ہوئی

انہوں نے ہماری اس زیارت پر نہایت ہی مسرت و شادمانی کا اظہار کیا،دو چار منٹوں بعد چائے ناشتہ پیش کیا،ہم نے اسے تناول کیا اور اس پر اللہ کے ساتھ اپنے میزبان اور ان کے اہل خانہ کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے بہت بہت شکریہ ادا کیا اور انہیں ڈھیر ساری دعائیں بھی دیں ـ

مغرب کا وقت ہونے چلا تھا،چناں چہ ہم دونوں اپنے میزبان کے ساتھ اس تاریخی مرکز کی طرف چل دیے جس کے مشاہدہ کے لیے ہم برسوں سے بے چین تھے،دو تین منٹوں کے بعد ہی ہم اس تاریخی مرکز میں پہنچ گیے اور آخرکار اسے دیکھنے کی ہماری خواہش پوری ہو ہی گئی،اس کی خوشنما عمارتوں کو دیکھ کر ہم خوشیوں سے جھوم اٹھے

اللہ تعالیٰ اور اپنے میزبان کا شکریہ ادا کیا،ہم پر نگاہ پڑتے ہی اس مرکز کے کئی ایک اساتذہ کرام ہمارے طرف لپک پڑے،علیک سلیک کے بعد تعارف ہوا،مولانا سہیل لقمان تیمی اور مولانا منظور عالم سلفی نام سنتے ہی وہ سبھی خوشی سے کھل اٹھے

اذانٍ مغرب ہونے میں محض دو تین منٹ ہی باقی رہ گیے تھے،اس لیے ہم نے بشری ضروریات سے فارغ ہو کر وضوء کرنا مناسب سمجھا،جلدی سے ہم وضوء سے فارغ ہو گیے

مسجد کی پہلی لائن میں دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کی،نمازٍ مغرب میرے فاضل دوست مولانا منظور عالم سلفی/حفظہ اللہ نے پڑھائی،نماز بعد کچھ دیر تک وہاں کے طلبہ،اساتذہ اور ذمہ داران سے ملاقاتوں اور تعارف کا دور چلا،چایے ناشتہ سے ہماری شاندار ضیافت کی گئی،اس مرکز کے اساتذہ کرام بشمول مولانا سلطان احمد شمسی،مولانا لطف الحق مرشدآبادی،مولانا احسان اللہ سنابلی، مولانا زکریا سلفی،مولانا عبد العلیم بشنپوری،مولانا فضل الرحمن مدنی،مولانا فہیم خالدی،مولانا فخر الاسلام شمسی،مولانا سفیان شمسی،مولانا انیق شمسی اور مولانا امیر حمزہ حفظہم اللہ نے ہمارے لیے جس عقیدت و محبت کے معطر پھول نچھاور کیے وہ ناقابلِ فراموش ہے

یقینا یہ حضرات نہایت ہی مخلص اور سادہ مزاج ہیں،انہیں دیکھ کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ وہ اس تاریخی مرکز کے مشائخ عظام ہیں جسے دیکھنے کے لیے لاکھوں دل مچلتے اور کروڑوں آنکھیں ترستی رہتی ہیں ـ ہم نے مذکورہ مشائخ بالخصوص عالم عرب و عجم کے مشہور و معروف عالم دین،متعدد عربی و اردو کتابوں کے مصنف و مؤلف شیخ الشیوخ مولانا لطف الحق مرشد آبادی/حفظہ اللہ سے گھنٹوں تک مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیااور ان سے بہتے ہوئے علمی و ادبی آبشاروں سے کچھ دیر کے لیے ہی سہی اپنی علمی تشنگی بجھانے کی سعی مسعود کی،ان کا لب و لہجہ نہایت ہی شائستہ،ان کا اسلوب بڑا ہی سنجیدہ،ان کا مزاج بالکل معتدل اور ان کی فکر بڑی ہی شگفتہ معلوم ہوئی،انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں ہمیں اپنا اسیر اور دیوانہ بنا لیا،انہوں نے ہم دونوں کو الوداع کے موقع پر اپنی دو شاہکار تالیفات “تعلیم الإنشاء للأطفال” اور “الخطب الإسلامية لطلاب العربية(الجزء الرابع)” بطور تحفہ عطا کیں،جس پر ہم نے ان کے تئیں نیک توقعات کا اظہار کیا اور انہیں ڈھیر ساری دعائیں بھی دیں، اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کی پوری علمی و ادبی اور تربیتی و اصلاحی ٹیم کو اور ان کے اس مقر العمل کو سلامت رکھے اور قوم و ملت کے لیے مفید سے مفید تر بنایے ـ عشائیہ کا وقت ہو چلا تھا، چناں چہ وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہمارے میزبان ماسٹر وحید الزمان صاحب ہمیں سیدھا اپنے دولت کدہ میں لے گیے،انہوں نے جلدی سے دسترخوان لگایا اور اسے لذیذ ماکولات و مشروبات سے سجایا پھر ہمیں اس کی زینت بننے کی آواز دی

جس پر ہم لبیک کہتے ہوئے اس کی زینت بن گیے اور اس سے اپنی استطاعت اور توفیق کے مطابق لطف اٹھایا، عشائیہ سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے ان سے اور ان کے اہل خانہ سے رخصت ہونے کی اجازت لی،وہ اجازت نہیں دے رہے تھے، لیکن ہمارے اصرار اور مجبوریوں کو دیکھ آخر کار انہیں اجازت دینی ہی پڑی

اس پر ہم نے ان کا اور ان کے اہل خانہ کو بہت بہت شکریہ ادا کیا انہیں اور انہیں بہت ساری دعائیں دیں اور اپنے دلوں میں ڈھیر ساری خوشیاں، محبتیں،عقیدتیں اور یادیں سنجو کر اپنے مقر العمل “مرکز السلام التعلیمی شری کنڈ” کی طرف روانہ ہو گیے

اللہ کے فضل و کرم سے پندرہ بیس منٹ بعد ہم دونوں صحیح سلامت اپنے مقر العمل کو پہنچ گیے،گاڑی سے اترتے ہی میری زبان سے بے ساختہ یہ جملہ نکل پڑا کہ آج “آخر کار میری دلی خواہش پوری ہو ہی گئی!! “

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *