زبان کو سنبھال کر ذرا رکھیے جناب
زبان کو سنبھال کر ذرا رکھیے جناب
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اپنی باتیں دوسروں تک پہونچانے کے جو طریقے ہمیں دیے گیے ہیں، ان میں گفتگو ، تقریر، لکچر، ڈائیلاگ، بحث ومباحثہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ، ہم اپنی باتیں تحریر کے ذریعہ بھی دوسروں تک پہونچاتے ہیں، اور حرکات وسکنات کے ذریعہ بھی، جسے باڈی لنگویج یا اشاروں کی زبان کہتے ہیں؛ گویا یہ سب چیزیں اظہار کا وسیلہ ہیں۔
اسی لیے ٹھوس ، مدلل، معقول اور مؤثر گفتگو کی قدر ہر دور میں کی جاتی رہی ہے اور اس کے اثرات قوموں کی تقدیر بدلنے، حکومتوں کے عروج وزوال ، سیاسی اتار چڑھاؤ پر لازماً پڑتے رہے ہیں، ادھر کچھ دنوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ایسی زبان استعمال کر نے لگے ہیں
جو کسی طرح شرفاء کی زبان نہیں قرار دی جا سکتی،اور یقینی طور پر ان جملوں سے ایک خاص فرد یا طبقہ کی توہین ہوتی ہے ، مسلمانوں کوہندو کہنا، ہندو محمدی کے طور پر متعارف کرانے کا مشورہ دینا، سیکولر لوگوں کو نا جائز اولاد قرار دینا، تمام دہشت گردوں کو مسلمان قرار دینا ، بہوجن سماج وادی پارٹی کی صدر کو طوائف ، ایم پی ششی تھرور کی بیوی آنجہانی سونندا کو پچا س کروڑ کی گرل فرینڈ قرار دینا، دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو اور دنگائی اپنے کپڑوں سے پہچانے جاتے ہیں
سونیا گاندھی کے بارے میں یہ کہنا کہ گوری چمڑی کی وجہ سے وہ کانگریس کی صدر بنیں جیسے جملے ، اسی قبیل کے ہیں، ان جملوں کے کہنے والے پر اب تک کوئی کاروائی نہیں ہو سکی ہے اور شاید ہو بھی نہیں
البتہ راہل گاندھی کے اس بیان پر داروگیر ہو گئی ہے کہ رقم لے کر بھاگنے والے سارے کا خاندانی نام مودی ہی کیوں ہے، سورت کی عدالت سے دو سال کی سزا سُنانے کے بعد ان کی رکنیت جا چکی ہے، اور ۲۲؍ اپریل تک گھر بھی خالی کرنا ہوگا۔
اس کے جواب میں جو زبان استعمال کی جا رہی ہے ، وہ بھی چنڈو خانے کی زبان ہے، اور یہ ایک غلطی کو دور کرنے کے لیے دوسری غلطی کے ارتکاب کے مترادف ہے ۔
کیسا لگتا ہے، جب ہمارے سیاست داں بھی اس قسم کے گھٹیا بیانات دیتے ہیں، ایسے میںکس سے امید رکھی جائے کہ ان کے بیانات سماج میں صالح اقدار کو فروغ دے سکیں گے،یہ معاملہ صرف سیاست ہی کا نہیں ہے
بلکہ وہ لوگ جو مسلکی معاملات میں شدت پسند ہیں او ر تعصب نے ان کے اندر جڑ پکڑ لیا ہے، مناظروں کے شوقین ہیں، وہ بھی اپنی بات کو ثابت کرتے وقت دوسرے مسلک والوں کا مذاق اڑانے سے باز نہیں آتے ، بات مدلل ہو، زبان پاکیزہ ہو تو کوئی حرج نہیں ، جس بات کو حق سمجھا جائے، اس کا ذکر کیا جائے، لیکن استہزا، تمسخر ، ہر زہ گوئی حق کو ثابت کرنے میں معاون نہیں ہواکرتے
بلکہ علمی لوگوں کے اندراس انداز سے نفور پیدا ہوتا ہے، اور وہ ایسی کتابوں کو ہاتھ لگانے اور ایسی تقریروں کو سننے سے گریز کرتے ہیں، اس سے سماجی انتشار اور کبھی کبھی معاملہ قتل وغارت گری تک پہونچ جاتا ہے
یہی حال خانگی نزاعات اور جھگڑوں کا ہے، اس میں بھی جو زبان استعمال کی جا رہی ہے
اسے ہم مہذب نہیں کہہ سکتے ، اختلافات ہوتے رہتے ہیں اور اپنے حق کے حصول کے لیے ہر سطح پر جد وجہد کرنی چاہیے، یہ قطعا مذموم نہیں ہے، مگر اس کے لیے جو زبان استعمال کی جائے، کیا ضروری ہے کہ وہ سوقیا نہ ہو، مادر، پدر آزاد ہو، جب کہ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائیں
اسی طرح کوئی عورت دوسری عورت کا مذاق نہ اڑائے ، کیونکہ استہزاء ہمیشہ اپنے کو بڑا اور اچھا سمجھ کر کیا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ تو اللہ رب العزت ہی جانتا ہے کہ کون اچھا ہے؟ ایسا ہو سکتا ہے کہ جو مذاق اڑارہا ہے وہی اپنی اخلاقیات ، کیرکٹر اور کردار کے اعتبار سے کمزور اور بد تر ہو ، اس کے علاوہ اس عمل کے نتیجے میں ملکوں ، قبیلوں ، سماج اور خاندان میں تفرقہ ، انتشار، افتراق کے دروازے کھلتے ہیں
اس لیے ہمیں کوئی بھی بیان دینے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ وہ کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنیں ، گفتگو کرتے وقت حفظ مراتب، سامع کا پاس ولحاظ اور مقصدکا خیال رکھا جائے، فضول کی بحثوں ، الزام تراشی، ذاتی رکیک حملے اور لعنت وملامت کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے، اظہارِ اختلاف میں شائستگی اور نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے، جہاں نرمی ہوتی ہے وہاں حسن ہوتا ہے جہاں نرمی نہیں ہوتی، وہاں بد صورتی ہوتی ہے، پھوہڑ پن ہوتا ہے۔
اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رائے کے اظہار میں انصاف سے کام لیا جائے ، معاملہ اپنا ہویا والدین کا ، اقربا کا ہو یا رشتہ دار کا امیر کا ہو یا محتاج کا
ہر حال میں انصاف ملحوظ رکھا جائے، اور کسی قوم کی دشمنی تم کوا نصاف کے راستے سے نہ ہٹائے، آج صورت حال یہ ہے کہ ہماری کسی سے دشمنی ہوتی ہے تو سارے حدود پار کر جاتے ہیں اور اگر دوستی ہوتی ہے تو زمین وآسمان کے قلاے ملا دیتے ہیں
کل تک جو لعن طعن کر رہا تھا ، آج پارٹی میں شامل ہو گیا توپارٹی سپریمو کو ڈنڈوت بھی کر رہا ہے اور قصیدہ پر قصیدہ کہے جا رہا ہے، شیخ سعدی کا مشہور قول ہے کہ دشمنی میں بھی اس کا خیال رکھو کہ اگر کبھی دوستی ہوجائے توشرمندہ نہ ہو نا پڑے۔اس بے اعتدالی نے ہر ایک کے بیان کو بے وقعت کرکے رکھ دیا ہے ۔
بیان کے بعد دوسرا مرحلہ عمل کا ہے ، بغیر عمل کے صرف بیان کو ’’بیان بازی‘‘ کہتے ہیں، بیان میں جان اس وقت پڑتی ہے، جب اس کے پیچھے عمل کی قوت ہو، عمل نہ ہو صرف قول ہی قول ہو ، بیان ہی بیان ہو تو یہ انتہائی مذموم کام ہے، عمل ہے؛ لیکن قول کے بر عکس ہے تو یہ قول وعمل کا تضاد ہے۔
قول وعمل کے اسی تضاد کی وجہ سے سرکار کی طرف سے اعلان پر اعلان ہوتا رہتا ہے اور لوگ اسے قابل اعتنا نہیں سمجھتے ، اگر ہم کم بولیں اور کام زیادہ کریں تو عوام کا بھی بھلا ہوگا اورلوگوں کا اعتماد بھی بجال ہوگا؛ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو پا رہا ہے، اس معاملہ میں سب سے زیادہ ہمارے سیاسی رہنما آگے ہیں۔
کتنے اعلانات دسیوں سال سے حکومتیں کرتی رہی ہیں اور ان پر عمل کے اعتبار سے آج بھی پہلا دن ہے، اس طرز عمل سے سیاسی لوگوں کی قدر وقیمت میں گراوٹ کا رجحان بڑھا ہے، پہلے راج نیتی ہوتی تھی، اب راج ہی راج ہے، نیتی کا پتہ نہیں ، نظریات ، پالیسیاں کبھی سیاست میں ہوا کرتی تھیں،
لیکن اب یہ قصہ پارینہ اور ماضی کی داستان ہے، کل تک سیکولرزم کا نعرہ لگانے والا، کب عہدہ اور ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے فرقہ پرستوں کی گود میں جا بیٹھے گا ، کہا نہیں جا سکتا، اور پھر اس کی زبان سے کیا کچھ نکلنے لگے گا اور کس کس کی پگڑی اچھالی جائے گی کہنا ، مشکل ہے۔یہ صرف خیال نہیں ہے،اپنے ذہن پر تھوڑا زور دیں تو کئی نام آپ کے ذہن میں گردش کرنے لگیں گے۔
پھر الیکشن آ رہا ہے، مہم ووٹروں کے جوڑنے کی بھی چل رہی ہے، اور ووٹروں کے توڑنے کی بھی، آتشیں بیانات کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے ، پہلے پہاڑ ہی آتش فشاں ہوتے تھے، اب ہماری زبان بھی آتش فشاں ہو گئی ہے
ہمیں ان سے ہر حال میں ہوشیار رہنا ہوگا، بولتے وقت بھی اور سنتے وقت بھی، بولتے وقت الفاظ تول کر بولنا ہوگا؛ کیونکہ اللہ نے ہمارے بول پر پہرے بٹھا رکھے ہیں اور سنتے وقت اس کے رد عمل سے بچنا ہوگا؛ تاکہ ہماری زبان آلودہ نہ ہو، یاد رکھئے سخت ، گندے اور بھدے الفاظ سے قومی معاملات حل نہیں ہوتے اور سماج کا بھی بھلا نہیں ہوتا
مولانا ابو الکلام آزاد کے لفظوں میں ، ’’زبان حد درجہ محتاط ہونی چاہیے، کچھ اس طرح کے وقار وتمکنت اور سنجیدگی ومتانت آگے بڑھ کر ان کی بلائیں لینے لگے‘‘۔