نسخۂ قرآن سوزی

Spread the love

نسخۂ قرآن سوزی

نفسیات اور رد عمل

آج (٧/جولائی) کا دن عالمی یوم قرآن کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ ایسا در اصل، یوروپی ملک، سویڈن میں قرآن سوزی کے ایک روح فرسا واقعے کے رد عمل میں ہو رہا۔‌

قرآن کریم کے نسخے کو نذر آتش کرنے کی بات ہو یا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اہانت آمیز خاکے شائع کرنے کا معاملہ، اس طرح کے واقعات ہاری ہوئی نفسیات کے تحت وقوع پذیر ہوتے ہیں۔‌ در اصل، اسلام کے خلاف ہزاروں قسم کے پروپیگنڈے کے باوجود، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اس کی بڑھتی مقبولیت سے اسلام دشمن عناصر خوف زدہ ہیں۔ خدا کا اتارا ہوا یہ دین، ان کی نام نہاد تہذیب کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ خود یہی کلام الٰہی ہے۔ اس لیے یہ لوگ اس طرح کی روح فرسا حرکتیں کرتے رہتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو تشدد آمیز رد عمل کے لیے اکسایا جاے۔ اور پھر اس کی آڑ میں انہیں بد نام کر اسلام کی جانب راغب لوگوں کو اس سے بد ظن کیا جا سکے۔

اس قسم کی حرکتوں کے پیچھے بسا اوقات ایک اور محرک کار فرما ہوتا ہے۔‌ اور وہ یہ کہ بڑھتے ہوے اسلاموفوبیا کے ماحول میں، آج جو جتنا مسلم-مخالف ہے، وہ اتنا ہی مقبول۔ یہ ظاہرہ فتنہ پروروں کو اس پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ مقدسات اسلام کی بے حرمتی کریں اور راتوں رات ہیرو بن جائیں۔

اظہار راے کی آزادی کے نام پر، مغربی ممالک کی حکومتیں ہو یا عدالتیں، اس طرح کے دل سوز واقعات کی کھلی چھوٹ دیتی ہیں۔ بلکہ کبھی کبھار تو ان کی حوصلہ افزائی تک کی جاتی ہے۔ مگر اس وقت ان کا دوغلہ پن کھل کر سامنے آ جاتا ہے جب ان سیکولر حکومتوں کے کورٹس پر تنقید کی جاے۔ تب یہ لوگ آزادئ راے کے سارے اسباق بھول کر، سامنے والے پر توہین عدالت کا مقدمہ درج کر دیتے ہیں۔ لیکن اتنی چھوٹی سی بات ان کے اذہان میں نہیں آ پاتی، بلکہ جان کر انجان بنتے ہیں کہ کسی کی آزادی کا مطلب دوسرے کی آزادی میں رخنہ ڈالنا یا اس کے جذبات مجروح کرنا نہیں ہوتا۔ انگریزی کا بڑا مشہور مقولہ ہے کہ آپ کی آزادی وہیں ختم ہو جاتی ہے جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے:
“Your freedom ends where my nose begins.”

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے: آخر ان اشتعال انگیز حرکتوں پر امت مسلمہ کا کیا رد عمل ہونا چاہیے؟ کیا دیکھ سن کر بھی ان واقعات کی ان دیکھا کر دینا چاہیے؟ کچھ ‘معتدل فکر’ لوگوں کا یہی کہنا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ نظر انداز کرنے میں ہی اسلام دشمن قوتوں کے مقصد اصلی کی شکست ہے۔ عجیب المیہ ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی یا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلی گستاخی پر بھی، جن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، جب ان کی محبوب شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، آپے سے باہر آ جاتے ہیں۔ اور علمی اختلافات میں برداشت و وقار کا پاٹھ پڑھانے والے، یک لخت سارے آداب بھلا بیٹھتے ہیں۔‌ مقدسات اسلام کی بے حرمتی پر یہ طرز عمل ایمانی غیرت و حمیت کے سراسر خلاف ہے۔

راقم کی نظر میں، اس حوالے سے یہ چند ترکیبیں اپنائی جا سکتی ہیں:

١- حقوق انسانی کے عظیم کار کن اور معروف امریکی مفکر، میلکوم ایکس (الحاج ملک الشہباز: ١٩٢٥-١٩٦٥) نے میڈیا کے اثر و رسوخ کے بارے میں کبھی کہا تھا کہ یہ روے زمین پر سب سے زیادہ طاقت ور چیز ہے
(The most powerful entity on earth)۔
آج سوشل میڈیا کے بارے میں بہت حد تک یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا کے الگ الگ پلیٹ فارمز (بالخصوص ٹویٹر) پر اس طرح کی حرکتوں پر غم و غصے کا اظہار کیا جاے اور ان کی مذمت کی جاے۔‌ مگر، حتی الامکان جذبات پر کنٹرول رکھا جاے۔

٢- احتجاجی مظاہرہ بھی غم و غصے کے اظہار کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔

٣- کفار و مشرکین کے لیے دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش ہی سب کچھ ہے۔ اور یہ آسائش مال و زر سے آتی ہے۔ اس لیے معاش پر حملہ انہیں سب سے زیادہ چوٹ پہنچاتا ہے۔ لہذا، جس ملک میں اہانت رسول/قرآن سوزی کا واقعہ پیش آے، اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جاے۔

٤- کسی بھی ملک میں دوسرے ملک کے خلاف جب کوئی سرگرمی چل رہی ہوتی ہے تو وہاں کے سفیر کو طلب کیا جاتا ہے اور صورت حال پر وضاحت مانگی جاتی ہے۔ لہذا، جس ملک میں قرآن سوزی یا اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دل سوز واقعہ پیش آے، مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہاں کے سفیر کو بلا کر جواب طلب کریں اور اپیل کریں کہ آیندہ اس قسم کی حرکت نہیں ہونا چاہیے۔

باقی رہے قرآن مجید پر علمی مباحث اور اس کی تعلیمات کے مضبوط شواہد تو ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم۔ مگر اس طرح کے روح فرسا واقعات عموما ایسے بد اصل اور خبیث الفطرت لوگ انجام دیتے ہیں جن پر ان چیزوں کا زور کم ہی چلتا ہے۔‌ پھر بھی ایک مسلمان کو اپنا دعوتی فریضہ کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اور خیر امت ہونے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر حال میں خلق خدا تک خالق کائنات کی تعلیمات کو پہنچایا جاے۔

✍️ #محمدحیدررضا
٧/جولائی ٢٠٢٣ء

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *