مدارس پر لٹکتی تلوار

Spread the love

مدارس پر لٹکتی تلوار

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جن ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں ہے ، وہاں سے مدارس کو بند کرنے ، اس پر پابندی لگانے، جانچ بیٹھانے کی آواز یں اٹھتی رہی ہیں، اتر پردیش کی یوگی حکومت نے مدارس پر ان امور کا آغاز کیا تھا

او رمسلسل جانچ کے باوجود معاندانہ ذہن رکھنے والے افسران کوبھی ملک مخالف مہم یا منی لانڈرنگ کا سراغ نہیں ملا تو یوگی جی کو خاموش ہوجانا پڑا

بات صرف یہ رہ گئی کہ نئے مدارس کو منظوری نہیں مل پا رہی ہے ، اور رجسٹرد کرانے میں بھی دشواریوں کا سامنا ہے، لیکن دھیرے دھیرے یہ طوفان اتر پردیش میں تھمتا نظر آتا ہے، یہ وقتی بھی ہو سکتا ہے اور یوپی حکومت از سر نو کوئی شوشہ کھڑا کردے، اس سے بھی انکار ممکن نہیں ہے ۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما مدارس کی دشمنی میں یوگی سے کہیں آگے بڑھ گیے ہیں، انہوں نے سال 2020میں ایک متنازع قانون کے تحت حکومت کے ما تحت چلنے والے مدارس کو بند کرکے اسکول میں تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا تھا، اور بعض جگہوں پر اس کا نفاذ بھی ہو گیا

کئی مدرسوں پریہ کہہ کر بلڈوزر چلوا دیا کہ ان مدارس کی تعمیر غیر قانونی ہے، خود وزیر اعلیٰ کا اعلان ہے کہ ہم نے سرکاری امداد یافتہ مدارس کو اسکول میں تبدیل کر دیا اور اب تک وہ ریاست کے چھ سو مدرسوں کو بند کر چکے ہیں، باقی کو جلد ہی بند کر دیں گے ، کیوں کہ انہیں مدرسہ نہیں ، اسکول ، کالج اور یونیورسیٹی چاہیے

اگر ان کی یہی خواہش ہے تو دوسری مذہبی اقلیتوں کے اداروں کو وہ بند کیوں نہیں کرواتے، اس کی ہمت ان کے اندر نہیں ہے ، اس لیے وہ ساری بکواس مسلمانوں کے خلاف کرتے ہیں

تاکہ 2024کے پارلیمانی اور 2026میں ہونے والے ریاستی انتخاب میں غیر مسلم رائے دہندگان کو متحد کیاجا سکے، آسام کے اکتیس(31) اضلاع میںسے نو(9) ضلع میں مسلمانوں کی آبادی پچاس فی صد سے زائد ہے، ریاست میں کل تین کروڑ ساٹھ لاکھ لوگ بستے ہیں

جن یں ایک کروڑ چالیس لاکھ مسلمان ہیں، آبادی کے مجموعی تناسب میں ان کی تعداد چالیس فی صد ہے، جو بڑی تعداد ہے اور یہ متحد ہو جائیں تو انتخاب پراثر انداز ہو سکتے ہیں۔

ان ریاستوں کی دیکھا دیکھی کرناٹک کے وزیر اعلیٰ نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ اگر آئندہ اسمبلی انتخاب میں ہم بر سر اقتدار آئے تو مدارس کو بند کر دیں گے ، گویا کہ دھیرے دھیرے مدارس کو بند کرنے کی مہم تیز ہو رہی ہے

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ صرف مدارس پر حملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارے تعلیمی نظام اور تہذیب وثقافت پر حملہ ہے، دستور میں دیے گیے اقلیتوں کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے ، ہماری خاموشی ان کے حوصلوں کو بڑحا رہی ہے

ایسے میں ان حملوں سے نمٹنے کے لیے طریقہ کار اور میکانزم کی ضرور ت ہے، سب سرجوڑ کر بیٹھیں تو شاید مسئلہ کا کوئی حل نکل سکے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *