تیری الفت نے محبت مری عادت کر دی

Spread the love

حضرت واصف علی واصفؒ : تیری الفت نے محبت مری عادت کر دی (پیدائش: 15 جنوری 1929، وفات 18 جنوری 1993)حضرت واصف علی واصفؒ میری پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں۔

کامران غنی صبا

شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور

میں نے واصف صاحب کو دیکھا نہیں ہے، صرف ان کی تحریریں پڑھی ہیں، ان کے لکچرسنے ہیں، ان کی محفلوں کے فیض یافتگان کو سنا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ واصف صاحب میں اللہ نے غضب کی تاثیر رکھی ہے۔ان کے چھوٹے چھوٹے اقوال اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتے ہیں۔

زندگی کے عمومی مسائل جن سے ہر شخص نبردآزما ہے، واصف صاحب ان مسائل کے حل اتنے سادہ اور قابلِ عمل انداز میں پیش کرتے ہیں کہ شاعری کے سہل ممتنع کی طرح ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اتنا آسان اور قابلِ عمل حل ہمارے ذہن میں از خود کیوں نہیں آ گیا؟ حضرت واصف علی واصف 15جنوری 1929 کو خوشاب میں پیدا ہوئے۔ 18 جنوری 1993 کو لاہور میں آپ کا وصال ہوا۔

واصف صاحب انگریزی کے استاد تھے۔ آپ نے سول سروس کے امتحان میں نمایاںکامیابی حاصل کی تھی لیکن آپ کی آزادانہ اور قلندرانہ طبیعت نے سرکاری ملازمت کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔ ابتداء میں آپ نے پنجابی کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دئیے بعدمیں “لاہور انگلش کالج” کے نام سے اپنا خود مختار ادارہ قائم کیا۔

واصف صاحب کا اختصاص آپ کی قوت تاثیر ہے۔ میں نے واصف صاحب کو صرف پڑھا ہے اور کسی حد تک انہیں سنا ہے۔ ان کے الفاظ خواہ تحریری صورت میں ہوں یا تقریری، ایسا محسوس ہوتا ہے گویا سماعت میں نہیں سیدھے دل میں اُتر رہے ہوں۔

ان کے وصال کے بعد جب ان کی تحریر و تقریر اس قدر پر تاثیر ہے تو خداہی جانے جن لوگوں نے انھیں براہ راست سنا ہوگا، اُن کی قوتِ تاثیر کا مشاہدہ کیسا ہوگا؟تقریباً 2014 سے میں حضرت واصف علی واصفؒ کو پڑھ رہا ہوں۔

ان دس برسوںمیں شایدہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب میں نے واصف صاحب کی کوئی چھوٹی بڑی تحریر نہیں پڑھی ہو۔ ان کے بعض اقوال ذہن و دل میں اس طرح پیوست ہو چکے ہیں کہ کبھی کوئی مسئلہ در پیش ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اقوال رہنمائی کے لیے نظروں کے سامنے آ کھڑےہوئے ہوں۔

میں نے واصف صاحب کو نہیں دیکھا ہے لیکن ان کے اقوال و افعال کی روشنی میں ان کی شخصیت کا جو ہیولہ میرے سامنے ابھرتا ہے وہ اقبالؔ کےقلندر سے مشابہ نظر آتا ہے۔ وہی قلندر جو عمل لے لیے راغب کرتاہے۔ جو کہتا ہے کہ ؎عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھیواصف صاحب کہتے ہیں کہ علم وہی ہے جو عمل میں آ سکے، ورنہ ایک اضافی بوجھ ہے۔

واصف صاحب عِلم پر عَمل کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ علم و عمل کی ترویج و اشاعت کے لیے محبت کو لازم قرار دیتے ہیں اورہر اُس رویے کو ترک کر نے کی ترغیب دیتے ہیں جو محبت کی راہ میں ہو حائل ہو۔ دنیا میں انسان کی ساری کاوشیں، ساری جدوجہدیں سکون کے حصول کےلیے ہوتی ہیں۔

بسا اوقات انسان کے پاس دولت بھی ہوتی ہے، اسےعزت و شہرت اور مقام و مرتبہ بھی حاصل ہوتا ہے لیکن اس کی زندگی سکون سے خالی ہوتی ہے۔ گھریلو رنجشوں اور گلے شکووں نے ہم سب کے ذہنوں میں اس قدر کدورتیں بھر رکھی ہیں کہ ہماری کوئی محفل گلے شکووں سے خالی نہیں ہوتی۔ حسین مجروح نے کیا ہی سچا شعر کہا ہے ؎.

وہ قحطِ مخلصی ہے کہ یاروں کی بزم سے

غیبت نکال دیں تو فقط خامشی بچے

واصف صاحب زندگی کو پرسکون بنانے کے لیےگلہ اور شکوہ ترک کر دینے پر بار بار زور دیتے ہیں ۔ ایک موقع پر وہ کہتے ہیں:”زندگی سے تقاضا اور گلہ نکال دیا جائے تو سکون پیدا ہو جاتا ہے۔ سکون اللہ کی یاد سے اور انسان کی محبت سے پیدا ہوتا ہے۔

نفرت اضطراب پیدا کرتی ہے۔ اضطراب اندیشے پیدا کرتا ہے اور اندیشہ سکون سے محروم کر دیتا ہے۔ محبت نہ ہو تو سکون نہیں۔”ایک جگہ اپنے معتقدین کی محفل میں وہ ان سے وعدہ کرواتے ہوئے کہتے ہیں:”اگر آپ وعدہ کریں کہ کسی انسان کا گلہ نہیں کریں گے تو آپ سے وعدہ ہے کہ آپ کو انسان کے روپ میں رحمان ملے گا، یہ پکی بات ہے کہ اگر انسان کا گلہ نہیں کرو گے تو انسان کے روپ میں راز ملے گا، اگر کبھی گلہ پیدا ہو جائے تو اپنے اللّٰه سے معافی مانگو کہ یا اللّٰه مجھے نیک کر دے اور میرے اندر گلہ نہیں پیدا ہونا چاہئے۔”اسی محفل میں وہ کیسے پتے کی بات کہتے ہیں:” آپ صرف اس آدمی کا گلہ کر سکتے ہو جس سے آپ کے خیال میں خدا ناراض ہے اور یہ فیصلہ صرف قیامت کو ہو گا کہ اللّٰه کس سے ناراض ہے۔

لہٰذا قیامت سے پہلے گلہ نہیں کرنا، تو آپ مجھ سے یہ پکا وعدہ کر لو کہ کسی کا گلہ نہیں کریں گے۔”واصف علی واصف ؒ دوسرے صوفیوںکی طرح ظاہر کی بجائے باطن کی اصلاح پر زور دیتے ہیں۔

البتہ ان کے یہاں اصلاح باطن کے نام پر شریعت سے فرار کی راہ نہیں نکلتی۔ شرعی احکامات پر عمل پیرا ہوئے بغیر سلوک و تصوف کے سبھی مشاغل ان کے یہاں سعی لاحاصل ہیں۔ ایک موقع پر اپنے مریدین کو نماز باجماعت کی تلقین کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں”بزرگوں کے جتنے بھی آستانے ہیں کوئی آستانہ بھی آپ نے ایسا نہیں دیکھا ہوگا جہاں مسجد نہ ہو۔ہم نے تو کوئی نہیں دیکھا۔

آپ نے شائد کوئی دیکھا ہومگر نہیں۔لاہور میں داتا صاحب(رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا آستانہ دیکھیں تو مسجد سارےلاہور میں سب سے اچھی ہے۔مسجد شریعت ہےآستانے کو طریقت سمجھ لو۔تو انہوں نے طریقت کو مختصر کیا ہے اور شریعت کو زیادہ کیا ا ہوا ہے۔ہر جگہ ایسا ہے۔میاں میر صاحب(رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی مسجد دیکھ لوشاہ جمال(رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی مسجد دیکھ لو۔

تو یہ لوگ شریعت کا احترام کرتے تھے۔بلکہ اپنے آستانے سے پہلے مسجد بنایا کرتے تھے۔تو وہ شریعت کو violateنہیں کرتے۔”واصف صاحبؒ شریعت کی روح تک پہنچنے کے لیے محبت اور عشق کی راہ پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا کہ عقل و دل و نگاہ کا مرشد عشق نہیں ہو تو شرع و دیں بھی بتکدۂ تصورات بن جاتےہیں ۔

واصفؒ صاحب کہتے ہیں کہ اللہ کی محبت کا راستہ بندے کی محبت کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ جن انسانوں کو اپنے قریب رکھتا ہے انہی انسانوں کو ، انسانوں کے قریب کر دیتا ہے ۔ یعنی جو شخص اللہ کے ہاں جتنا محبوب ہو گا ، اس کے لئے انسانوں کی دنیا اتنی محبوب ہو گی ۔

اللہ کے ساتھ محبت کرنے والے انسانوں سے بیزار نہیں ہو سکتے اور انسان سے بیزار ہونے والے اللہ کے قریب نہیں ہو سکتے۔ایک موقع پر وہ کہتےہیں کہ انسان کا دِل توڑنے والاشخص اللہ کی تلاش نہیں کرسکتا۔ایک بار دورانِ گفتگو ابلیس کے لعین ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے انھوںنےکہا کہ ابلیس نے خدا کو نہیں انسان کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ واصف صاحب نے کیاہی معرفانہ بات کہی:”اِبلیس کا معبود تو تھا، محبوب کوئی نہ تھا۔ لعین ہونے کے لیے اِتنا ہی کافی ہے۔

اِنسان کی محبت کے بغیر خدا کا سجدہ‘ اَنا کا سجدہ ہے۔ خدا اِنسان سے محبت کرتا ہے اور اِبلیس اور اُس کے چیلے اِنسان سے محبت نہیں کرتے۔ کیسے کر سکتے ہیں!اِنسان سے محبت وہی کر سکتا ہے‘ جس پر خدا مہربان ہو۔ خدا جب کسی پر بہت مہربان ہو‘ تو اُسے اپنے بہت پیارے محبوب ﷺکی محبت عطا کر دیتا ہے۔”معاملات کی صفائی کے بغیر محبت اور عبادت کے دعوے جھوٹے ہیں۔

واصف علی واصفؒ معاملات کی صفائی پر اس قدر زور دیتےہیں کہ بسا اوقات گمان ہوتا ہے کہ وہ معاملات کی صفائی کو عبادت سے بھی مقدم تصور کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو شخص وعدہ پورا نہ کرے اور نماز پڑھتا جائے تو وہ منافق بن جاتاہے۔

واصف علی واصفؒ کے نزدیک عبادت صرف ظاہری رسوم و قیود کا نام نہیں ہے بلکہ ان کے مطابق ہر وہ عمل عبادت ہے جو اللہ کے نزدیک محبوب ہے اور ہر وہ عمل فریب ہے جو اللہ کے نزدیک مردود ہے، خواہ وہ ظاہری اعتبار سے عبادت ہی کیوں نہ ہو۔

ان کا یہ قول کتنا معرفانہ ہے کہ “عبادت وہی ہے جو محبوب کو منظور ہو جائے ورنہ کروڑوں سال کی عبادت ایک سجدہ نہ کرنے سے ضائع ہوتے دیکھی ہے۔ “واصف صاحبؒ کی تحریریں خاص و عام سب کے لیے یکساں تاثیر رکھتی ہے۔ بے قرار روحوں کےلیے ان کی تحریروں میں سامان قرار ہے۔ گنہ گاروں کےلیے ان کی تحریروں میں “لاتقنطوا” کی نوید ہے۔ آج جب ہر چہار جانب مایوسی ہے، خوف ہے، شکوک و شبہات ہیں، خوف ہے، ایسے میں واصف صاحب کی باتیںہمیں مایوسی کے حصار سے باہر نکال کر امید و یقین کی جنت میں داخل کرتی ہے۔ آپ کہتے ہیں:”اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرلیا جائے، اس کے فضل سے مایوسی نہ ہونے دی جائے تو خوف نہیں رہتا۔

کوئی رات ایسی نہیں جو ختم نہ ہوئی ہو کہ کوئی غلطی ایسی نہیں جو معاف نہ کی جاسکے۔ کوئی انسان ایسا نہیں جس پر رحمت کے دروازے بند ہوں ، رحم کرنے والے کا کام ہی یہی ہے کہ رحم کرے۔ رحم اس فضل کو کہتے ہیں جو انسانوں پر ان کی خامیوں کے باوجود کیا جائے اور یہ رحم ہوتا ہی رہتا ہے کسی کو خوف زدہ نہ کیا جائے تو خوف کا عذاب ٹل جاتا ہے۔”واصف صاحبؒ عصر حاضرکے صوفی ہیں۔

عصری مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ڈپریشن، غصہ، نفرت، تعصب، مسلکی انتشار،خونی رشتوں کی شکست و ریخت ،آج کے زمانے کے وہ مسائل ہیں جن سے ہر شخص نبردآزما ہے۔ واصف صاحب ؒ کی پوری زندگی کا ماحصل انسانی رشتوں سے وابستہ مسائل کی تفہیم و تعبیر تھی۔ رشتوں کے استحکام کے لیے انھوں نے محبت، شکر اور برداشت ان تین صفتوں کو بطور خاص اپنے اندر پیدا کرنے کی تلقین کی۔

انھوں نے خود پسندی،انا، غرور اور ہر وہ صفت جو انسان کو دوسرے انسان کی نظر میں ناپسندیدہ بناتی ہے، ترک کرنے پر زور دیا۔ ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا:”اسلام میں داخل ہونے کے بعد اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ دوسرے مسلمانوں پر فوقیت رکھتا ہے’ تو اسے غلط سمجھیں۔

اپنی فضیلت کو فضیلت کے طور پر بیان کرنا ہی فضیلت کی نفی ہے’ انسان کی کم ظرفی ہے’ جہالت ہے۔ اصل فضیلت تو دوسروں کو فضیلت دینے میں ہے جیسا کہ علم میں دوسروں کو شامل کرنے کا نام علم ہے ورنہ علم سے دوسروں کو مرعوب کرنا اور احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا جہالت ہے۔”واصف صاحبؒ انسان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کو گناہ کبیرہ سمجھتے تھے۔ انھوںنے نمائش سے بچنے اور سادہ زندگی گزارنے پر زور دیا۔ ان کے نزدیک وہ نمود و نمائش جس سے کسی کی غربت مجروح ہوتی ہو ناپسندیدہ ہے۔

ایک مقام پر انھوںنے کہا :اگر نمائش کے بلب بند کر دو اور کسی غریب کے گھر میں ایک چھوٹا سا بلب جلا دو تو وہ نمائش سے بہتر ہے۔اگر تیرے گھر کی نمائش اس کے گھر کا چراغ بجھا رہی ہے تو میرا خیال ہے کہ اپنے گھر کی نمائش بند کر دو. تم اور کچھ نہ کرو صرف ایک کام کرو کہ دولت کا اظہار نہ کرو پھر غریب آدمی پریشان ہونا چھوڑ دے گا۔”قطع تعلق اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اللہ کے رسول نے تین دن سے زیادہ کسی مسلمان سے بات بند کرنے کو ناجائز قرار دیا۔ ہم میں سے ہر شخص قطع تعلق کی کراہت اور اس کی وعید سے واقف ہے لیکن المیہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ اس گناہ کبیرہ میں ملوث ہیں۔ واصف صاحبؒ انسان کی نفسیات کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ رنجش کی حالت میں مذہبی اصول و ضوابط بالائے طاق رکھ دئیے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے موقع پر وہ آیات و احادیث کی بجائے چند جملوں میں ایسی گہری بات کہہ جاتے تھے جو سیدھے دل پر چوٹ کرتی تھی۔ قطع تعلق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار انھوں نے کہا کہ “جس کا جنازہ نہیں چھوڑ سکتے اس سے تعلق کبھی مت توڑنا۔” اسی طرح ایک اور موقع سے آپ نے بڑا ہی بلیغ جملہ کہا۔

آپ نے فرمایا کہ جب “تعلق رکھنا ہے تو جھگڑا کس بات کا اور جب تعلق نہیں رکھنا تو جھگڑا کس بات کا۔”مجھے افسوس ہے کہ میں نے واصف صاحبؒ کو نہیں دیکھا۔ اگر دیکھتا تو فرط عقیدت سے آپ کے دستِ مبارک کو بوسہ دیتا۔ میری زندگی پر آپ کے بے شمار احسانات ہیں۔ میرے ذہن کی منفی لہروں کو مثبت سمت عطا کرنے، میرے اندر کے اشتعال کو تھنڈا کرنے اور میرے اندر کے وحشی کو کسی حدتک انسان بنانے میں آپ کی تحریروں کا غیر معمولی کردار ہے۔ اللہ آپ کے درجات بلندفرمائے۔(آمین)۔ احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر حضرت واصف علی واصفؒ کی ذات پر صد فیصد صادق آتا ہے ؎

مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے

تیری الفت نے محبت مری عادت کر دی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *