مکاتب کا قیام اور ان کے تحفظ و ترقی کے اصول
مکاتب کا قیام اور ان کے تحفظ و ترقی کے اصول :
( از : طفیل احمد مصباحی )
مدارس و مکاتب کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کسی زندہ دل اور حقیقت آشنا شاعر نے کیا ہی پیاری بات کہی ہے :
یہ ‘ مدرسہ ‘ ہے ترا میکدہ نہیں ساقی یہاں کی خاک سے انساں بنائے جاتے ہیں
یہاں شعر میں صرف ” مدارس ” ہی مراد نہیں ٬ بلکہ اس میں ” مکاتب ” بھی شامل ہیں ۔ مدارس در اصل دینی تعلیم و تربیت کا دوسرا پڑاؤ ہیں ٬ ابتدائی اور اساسی پڑاؤ یہی مکاتب ہیں ٬ جہاں سے مدارس کو طلبہ کی فوج مہیا کرائی جاتی ہے ۔
اگر یہ مکاتب نہ ہوں تو مدارس کا وجود ختم ہو جائے ۔ کیوں کہ ان کو کمک اور رسد ملنا بند ہو جائے گا ۔ مکاتب کے فارغ التحصیل طلبہ ٬ مدارس میں مبتدی طلبہ کے روپ میں داخل ہوتے ہیں ۔ مسجدِ نبوی کے با برکت چبوترے سے دینی تعلیم و تربیت کا جو چشمۂ شیریں جاری ہوا تھا ٬ موجودہ مدارس و مکاتب اسی کی بل کھاتی لہریں ہیں ٬ جن سے تشنگانِ علومِ نبویہ زمانۂ خیر القرون سے آج تک مسلسل سیراب ہو رہے ہیں اور اپنی علمی تشنگی بجھا رہے ہیں ۔
فیضانِ نظر اور مکتب کی کرامت سے ہی بچوں میں آدابِ فرزندی اور آدابِ دین داری پیدا ہوتے ہیں ۔ مکاتب و مدارس ٬ اسلام کے مضبوط اور مستحکم قلعے ہیں ۔ دینِ اسلام کو آکسیجن اور بھرپور توانائیاں انہیں مدارس و مکاتب سے ملتی ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ آج اسلام مخالف طاقتیں سب سے پہلے انہیں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ کیوں کہ وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جب تک یہ مدارس و مکاتب موجود رہیں گے ٬ نہ اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹایا جا سکتا ہے اور نہ اس کی بنیاد کمزور کی جا سکتی ہے ۔مفکرِ اسلام حضرت علامہ قمرالزماں خاں اعظمی کے بقول : یہ ایک حقیقت ہے کہ جن ملکوں میں مدارس کو ختم کر دیا گیا ٬ وہاں اسلام مٹ گیا ۔
امام بخاری اور بہت سے ائمۂ حدیث و فقہ کی سر زمینوں میں صحیح سے کلمہ پڑھنے والے نایاب ہیں ۔ وسط ایشیا کی وہ تمام ریاستیں جو اشتراکیت کی زد میں آئیں ، وہاں مدارس کو مٹا کر اسلام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کچھ اور ملکوں میں اسی طرح کی کوشش ہو رہی ہے ۔
اس صورت میں علماے کرام کو تمام مساجد کو جز وقتی درسگاہوں میں تبدیل کرنا ہوگا ۔ مساجد کے تمام ائمہ اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں اور کوشش کریں کہ متعلقہ آبادی یا محلے کا کوئی بچہ دینی تعلیم سے محروم نہ رہنے پائے اور سنِ بلوغ تک پہنچنے سے قبل دینی تعلیم سے اس قدر آگاہ ہو جائے کہ وہ در پیش چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے ۔ علما و ائمۂ مساجد کے لیے تدریس کے ساتھ تبلیغِ دین اب فرض کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہے ۔
مکاتب کے قیام کا مقصد مسلمان بچوں کو ابتدائی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا ٬ ان کو قرآن پڑھانا اور دینِ اسلام کی بنیادی باتوں سے ان معصوم بچوں کو آگاہ کرنا ہے ۔ بچوں کے ذہن و دماغ چوں کہ سفید بورڈ کی مانند ہوتے ہیں ٬ ابتدائی مرحلے میں ان کے ذہن و دماغ کی سادہ تختیوں پر آپ جو رنگ چاہیں چڑھا سکتے ہیں ٬ اس لیے اس ننھی سی عمر میں ان کو دی گئی اسلامی تعلیم و تربیت بڑی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے ۔
یہ جو کہاوت ہے : التعلیم فی الصغر کالنقشِ فی الحجر ۔ محض کہاوت ہی نہیں ٬ بلکہ یہ اپنے اندر بڑی معنویت اور زمینی صداقت رکھتی ہے ۔ مکتب کی تعلیم کا آغاز الف ٬ با ٬ تا اور یسر القرآن ٬ عمّ پارہ ٬ الٓمّ اور قرآن پاک سے ہوتا ہے ۔
حدیثِ پاک : خیرکم من تعلم القرآن و علمہ کے مطابق قرآن شریف پڑھنا اور پڑھانا کارِ ثواب اور شرف و اعزاز کی بات ہے ۔ قرآنی تعلیم و تعلم کا سلسلہ زمانۂ رسالت سے جاری و ساری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک یہ مبارک سلسلہ جاری رہے گا ۔
قرآن مقدس کی صراحت کے مطابق حضور معلمِ کائنات ﷺ کی بعثتِ طیبہ کا مقصد لوگوں کو قرآنی آیات پڑھ کر سنانا ٬ ان کا تزکیہ کرنا اور انسانوں کو تعلیمِ کتاب و حکمت کے زیور سے آراستہ کرنا تھا ۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت کریمہ اس پر دال ہے : هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ . ( وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرور کُھلی گمراہی میں تھے ) ۔
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے پیغمبرانہ مشن کی تکمیل کے لیے تا دمِ حیات ان خطوط ( تعلیمِ کتاب و حکمت و تزکیۂ نفس ) پر عمل پیرا رہے اور اپنے جانثار صحابہ کے اندر تعلیمِ کتاب و حکمت کی روح پھونکتے رہے ٬ جس کے نتیجے میں ایک ایسا صاف و شفاف اور مہذب معاشرہ وجود میں آیا کہ دنیا جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔
آپ ﷺ نے بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام فرمایا ٬ جس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے ۔ زمانۂ خیر القرون میں مکاتب کی تعلیم کا منظم اور شاندار اہتمام ہوتا تھا ۔ امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں بچوں کی معقول تعلیم و تربیت کے لیے مکاتب قائم کیے اور معلمین کے لیے بقدرِ کفایت بیت المال سے وظیفے مقرر کیے ۔
خلفائے راشدین کے علاوہ دیگر مسلم امرا و خلفا کا بھی یہی طریقۂ کار رہا ۔ بہت سارے علما و فقہا اور نامور محدثین نے اپنی ابتدائی تعلیم انھیں مکاتب میں حاصل کی تھی ۔
حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ اپنی مکتبی تعلیم کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں اپنی ماں کی گود میں یتیم تھا ، میری ماں نے مجھے ایک مکتب کے حوالے کردیا ۔ جب میں نے قرآن ختم کیا تو میں مسجد میں جا کر علماے کرام کی علمی مجالس میں بیٹھنے لگا ۔ مکتب کی تعلیم کی اسی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر ہمارے اسلاف و اکابر نے مسلم علاقوں میں جگہ جگہ مکاتب و مدارس قائم کیے ٬ تاکہ دینی تعلیم و تربیت کا سنہرا نبوی دور قائم و دائم رہے ۔
جس طرح دعوت و تبلیغ کے مختلف ذرائع ہیں ٬ اسی طرح تعلیم و تعلّم کے بھی مختلف ذرائع ہیں ۔ برِ صغیر پاک و ہند سمیت تقریباً تمام مسلم ممالک میں دینی تعلیم کے فروغ و استحکام اور اسے عام کرنے کے جو ذرائع مروج و مقبول ہیں ، ان میں ایک اہم ترین ذریعہ ” مکاتب ” یا ” مکاتبِ اسلامیہ ” بھی ہے ۔
تعليم و تربیت کے لیے مکاتب کے علاوہ گاؤں دیہات اور شہر و قصبات سرکاری ٬ نیم سرکاری اور پرائیویٹ پرائمری اسکولوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔
مسلمان بچے اور بچیاں ان اسکولوں اور اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ ویسے تو مکاتب کے ساتھ عظیم پیمانے پر مسلم اسکولوں کا قیام بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔
لیکن اس مضمون میں میری گفتگو کا موضوع و محور ” مکاتب ” ہیں ۔ ہمارے ملک کے آئین نے ہمیں یہ بنیادی دستور حق دیا ہے کہ ہم ملکی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے پسند کے تعلیمی ادارے قائم کر کے اپنے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کا انتظام کریں ۔
قیامِ مکاتب اور ان کے تحفظ و ترقی کے اصول :
الحاد و ارتداد اور ضلالت و گمرہی کو جو وبا آج چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے ٬ اس سے بچنے کا واحد طریقہ ” مکاتب کا قیام و استحکام ” ہے ۔ مکاتب کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور رہے گی
لیکن آج جو افسوس ناک صورتِ حال پائی جا رہی ہے ٬ اس سے مکاتب کی ضرورت و اہمیت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔ مکاتب کے ذریعہ ہی ہم آنے والی نسلوں کے دین و ایمان کی حفاظت کر سکتے ہیں ۔ قومی و ملی احوال پر گہری نظر رکھنے والے بعض علمائے کرام نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس دور میں مدارس فرض کفایہ اور مکاتب فرص عین ہیں ٬ جو بہت حد تک درست اور سچی بات ہے ۔
مکاتب ٬ کشتِ دین و ایمان کے لیے ہریالی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہ قصرِ اسلامی کی بنیاد ہیں اور اسلامی سماج کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہیں ۔ ان کو کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک صالح اور صاف و شاف معاشرے کی تشکیل میں مکاتب اہم رول ادا کرتے ہیں ۔
غیر مسلم طبقہ اور بالخصوص عیسائی مشنریز تعلیم کے نام پر اپنے باطل عقائد و نظریات کی تبلیغ و ترسیل کے لیے جی توڑ کوششیں کر رہی ہیں اور مسلم بچوں کو گمراہ کر رہی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ روایتی انداز کے ” مکاتب و مدارس ” پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں ۔ دینی غیرت اور ملی ضرورت ہمیں آواز دے رہی ہے کہ ہم تعلیم کے میدان میں آگے بڑھیں ۔
جگہ جگہ مکاتب کے جال بچھائیں ۔ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیمی ادارے قائم کریں ۔ اسکول اور کالج کی بنیاد رکھیں ۔ کیوں کہ یہ دور تعلیم کا دور ہے ۔ علم و اکتشاف کا دور ہے ۔ آج انہیں اقوام کے ہاتھوں میں عالمی قیادت و سربراہی کا پرچم ہے ٬ جن کے پاس علم کی دولت اور تعلیم کا سرمایہ ہے ۔
لہٰذا قوم کے اربابِ حل و عقد ٬ مساجد و مدارس کے اراکین و ممبران ٬ علمائے کرام ٬ مفتیانِ عظام ٬ وارثینِ انبیا ٬ حفاظ اور ائمہ حضرات کو چاہیے کہ مسلم علاقوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں مکاتب کا قیام عمل میں لانے کی کوشش کریں اور جہاں پہلے سے مکاتب موجود ہیں ٬ ان کے نظامِ تعلیم و تربیت کو درست کر کے ان کو مضبوط و مستحکم بنائیں ۔ کیوں کہ یہ مکاتب ہماری بنیاد ہیں ۔
بنیاد کے کمزور ہوتے ہوئے بلند و بالا اور عالی شان مضبوط عمارت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ قیامِ مکاتب اور ان کے تحفظ و ترقی کے لیے اگر خلوص و للّٰہیت کے ساتھ مندرجہ ذیل اصول اور طریقۂ کار اپنائے جائیں تو ان کے خاطر خواہ نتائج و ثمرات مرتب ہو سکتے ہیں :
( ۱ ) اس بات کا ماقبل میں تذکرہ کیا جا چکا ہے کہ مسلم علاقوں میں مکاتب پہلے سے موجود ہیں ٬ لیکن ان کی حیثیت محض رسمی ہے اور ان میں روایتی طریقے پر تعلیم دی جا رہی ہے ۔ اس طریقۂ کار کو بدلنا بہت ضروری ہے ۔ قیامِ مکاتب یا ان کے تحفظ و استحکام کے لیے ہمیں سب سے پہلے مسلمانوں اور مسلم بچوں کے والدین کو علم کی اہمیت ٬ اس کے فوائد و ثمرات اور جہالت کے دینی و دنیوی نقصانات بتانے کی ضرورت ہے ۔
علماے کرام اور ائمہ حضرات کو خصوصیت کے ساتھ اس سلسلے میں آگے آنا ہوگا ۔ جلسوں میں مقررین حضرات سے علم کی اہمیت پر تقاریر کرائی جائیں ۔ جمعہ کے خطاب میں علم کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی جائے ۔ مسلم محلے میں ہفتہ واری تعلیمی و تربیتی پروگرام منعقد کیا جائے اور اس میں عوام و خواص اور بالخصوص خواتین کو پردے کے ساتھ شرکت کی دعوت دی جائے اور علم کی فوائد و ثمرات پر مفصل و مدلل گفتگو کی جائے ۔
( ۲ ) علم کی اہمیت و ضرورت سے روشناس کرانے کے بعد اب عوام کو مکاتب کے قیام کی ضرورت و افادیت سمجھائی جائے ۔ ان کو بتایا جائے کہ مکاتب آپ کی اولاد کی ترقی کا پہلا زینہ ہے ٬ اسے کے سہارے وہ آگے بڑھے گی اور اعلیٰ تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوگی ۔ اس تناظر میں عیسائی مشنریز کی تعلیمی سرگرمیوں سے بھی امتِ مسلمہ کو آگاہ کریں کہ وہ کس طرح تعلیم کے نام پر مسلم بچوں کو الحاد و لا دینی کی طرف لے جا رہی ہیں اور ان نونہالوں کو گمراہ کر رہی ہیں ۔
( ۳ ) ہر مسلم محلے میں چند اہلِ خیر اور دین دار حضرات آپ کو ضرور مل جائیں گے ۔ مکاتب کے قیام و استحکام میں ان کو ضرور اپنے اعتماد میں لیں اور ان کے ساتھ مل کر مکاتب کے قیام و استحکام کے راستے ہموار کریں ۔ اسی طرح نوجوانوں کا اعتماد و تعاون بھی ضروری ہے ۔
( ۴ ) بچوں کے والدین اور ان کے سرپرستوں سے خصوصی ملاقات کی جائے اور ان سے بچوں کو مکاتب میں بھیجیے کی گذارش کی جائے ۔ اگر ایک بار میں وہ اس طرف مائل نہ ہوں تو بار بار ان سے گذارش کی جائے ٬ کبھی تو کوشش بار آور ہوگی ۔ دعوت و تبلیغ کی طرح مسلمانوں کے گھر گھر دستک دی جائے اور ہر گھر سے ایک دو بچہ تعلیمِ مکاتب کے لیے حاصل کیا جائے ۔ ان شاء اللہ ! اس کے بہتر اور خاطر خواہ نتائج سامنے آئیں گے اور قطرہ سے سمندر بننے میں دیر نہیں لگے گی ۔
( ۵ ) بچوں کے ذہن و دماغ اور افتادِ طبع کو سامنے رکھتے ہوئے مکاتب کا از سرِ نو نصابِ تعلیم مرتب کیا جائے ۔ جیسے تیسے صرف قرآن شریف اور اردو کی پہلی دوسری کتاب پڑھا دینے سے قیامِ مکاتب کا مقصد پورا نہ ہوگا ۔ اس سلسلے میں جید علمائے کرام اور کچھ مسلم ماہرینِ تعلیم کی خدمات حاصل کی جائیں اور ان سے مفید مشورے لیے جائیں ۔
( ۵ ) مساجد کے برآمدے یا چبوترے میں بچوں کی تعلیم کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے ۔ قیام مکاتب کے لیے مساجد کے بجائے کسی مناسب جگہ کا انتظام کیا جائے ۔ کیوں کہ بالعموم دیکھا یہ جاتا ہے کہ نا بالغ اور بے شعور بچے مساجد کے تقدس کا خیال نہیں کر پاتے اور مساجد کی بے حرمتی ہوتی ہے ۔
( ۶ ) مکاتب کے لیے یونیفارم ڈریس بھی ہونا چاہیے ۔ تاکہ بچوں اور ان کے والدین کو اسکول کی طرح مکاتب کی اہمیت بھی احساس ہو سکے ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ جب بچوں کو اسکول بھیجا جائے تو پوری طرح تیار کر کے یونیفارم ڈریس میں بھیجا جائے اور مکاتب میں بھیجا جائے تو یوں ہی سول ڈریس اور معمولی لباس میں ۔
( ۷ ) بالعموم مکاتب کی تعلیم مفت دی جاتی ہے اور بچے ہفتے میں ایک دن جمعرات کو پانچ دس روپے استاد کو ادا کر کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں ۔ اس طرزِ عمل سے مکاتب کی اہمیت و وقعت کم ہو گئی ہے ۔ جب کوئی چیز فری اور مفت میں ملتی ہے تو اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ مکاتب کے معلم کو چاہیے کہ وہ کم از کم فی طالب علم ایک سو روپے ماہانہ ضرور وصول کرے ۔ جب بچے پیسے دے کر تعلیم حاصل کریں گے تو ان کو اور ان کے والدین کو مکاتب کی اہمیت کا اندازہ ہوگا ۔
( ۸ ) ہماری نئی نسل اور ہمارے چھوٹے معصوم بچے ہی ہماری آن بان شان اور مستقبل کے معمار ہوتے ہیں ٬ اس لیے ان کی ذہنی و اخلاقی تربیت خالص اسلامی نہج اور دینی خطوط پر ہونا نہایت ضروری ہے ۔
ان کو ایسی دینی فضا مہیا کرانا ضروری ہے ٬ جس میں خالص اسلامی تہذیب کی چھاپ ہو اور وہ اجنبی ثقافت کے تمام ایمان سوز اثرات سے پاک ہو اور یہ کام ابتدائی مرحلے میں ” مکاتب کے قیام و استحکام ” سے ہی ممکن ہے ۔ مسلم اسکول یا
کالج کھولنے کا مرحلہ بعد میں آتا ہے ۔ مکاتب کا قیام اور منظم طریقے سے ان کا استحکام بقائے اسلام کا ضامن اور تحفظِ ایمان کا باعث ہے ۔ مکاتب میں ان بچوں کے اذہان و قلوب پر دین و مذہب اور اسلامی تعلیمات کے نقوش اتنے گہرے انداز میں مرتسم کر دیے جائیں اور ان کو ” صبغۃ اللہ و صبغۃ الاسلام ” کے رنگ میں اس طرح رنگ دیا جائے کہ آگے چل کر ان کے دلوں پر الحاد و بے دینی کا کوئی رنگ چڑھنے ہی نہ پائے ۔
( ۹ ) صحت مند اور مثبت ماحول طلبہ کی کردار سازی میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ والدین اپنے بچوں کو گھر میں کیسا ماحول مہیا کراتے ہیں اور اساتذہ اسکول میں کس قسم کی فضا قائم کرتے ہیں ٬ یہ چیز ترتیب پر خصوصیت کے ساتھ اثر انداز ہوتی ہے ۔ آج ہمارے تعلیمی ادارے ماحول سازی اور تربیت کے معاملے میں مجرمانہ غفلت کے شکار ہیں ۔ بچوں کے پاس ذہانت اور ٹائیلینٹ کی کمی نہیں
لیکن ان کو مثبت اور خوش گوار ماحول نہ ملنے اور مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی فطری صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ہیں ۔ موجودہ تعلیمی نظام نے طلبہ و طالبات کے اندر چھپے انسان کو مار دیا ہے اور اسے کمرشیل بنا دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ذہن و دماغ آج خالص تاجرانہ بن چکا ہے ۔
تعلیم و تربیت سے زیادہ ان کو اپنے ” اچھے کیریئر ” کی فکر ستاتی ہے ۔ وہ بڑے ہو کر ہر رشتے کو نفع اور نقصان کی ترازو میں تولنے کے عادی بن جاتے ہیں ۔ جب ہمارے بڑوں نے ہی اخلاقی قدروں کو پامال کر دیا ہے تو پھر ان بچوں سے شکوہ و گلہ کیسا ?
مکاتب کے قیام اور اس کے طریقۂ کار پر روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم ان کے تحفظ و استحکام کے حوالے سے کچھ مفید باتیں اپنے مسلمان بھائیوں سے اور مکاتب کے معلموں سے کہنا چاہتے ہیں :
مسلم معاشرے میں مکاتب اور پرائمری سطح کے مدارس کی کمی نہیں ۔ کوئی مسلم گاؤں ٬ محلہ ٬ بستی اور قریہ ایسا نہیں جہاں مکتب یا پرائمری مدرسہ نہ ہو ۔ ہمارے یہاں بالعموم مکاتب کو مساجد سے منسلک کر دیا گیا ہے ٬ جن میں مسلم بچوں کو صرف روایتی انداز میں تعلیم دی جا رہی ہے اور وہ تعلیم بھی محض ناظرۂ قرآن اور اردو خوانی تک محدود ہے ٬ جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں ۔
آج ہماری قوم اتنی چالاک اور ہوشیار ہو گئی ہے کہ وہ مسجد کے امام کو تقرری کے وقت ہی صاف صاف کہہ دیتی ہے کہ امامت کے ساتھ بعد نمازِ فجر ایک گھنٹہ یا دو گھنٹہ بچوں کو پڑھانا ہوگا ۔ بعض علاقوں میں تو امام یا مؤذن کو زبردستی دو وقت ( بعد فجر اور بعد مغرب ) بچوں کی تعلیم پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ ہماری قوم کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ زبردستی دی جانے والی اور دلائی جانے والی تعلیم کبھی مفید اور سود مند نہیں ہو سکتی ۔
تنخواہ سات یا آٹھ ہزار اور ڈیوٹی ڈبل ۔ کیا ہماری قوم اتنی کنگال ہو گئی ہے کہ وہ اپنے امام کو دس پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دینے کے لائق بھی نہیں بچی ہے ۔ شادی بیاہ ٬ بینڈ باجا ٬ ڈھول تاشہ ٬ ڈی جے ٬ رقص و سرود ٬ عرس ٬ قوالی ٬ تعزیہ اور ذہنی عیاشیوں کی خاطر جلسہ کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر دینے والی مسلم قوم آخر اپنے اماموں کے ساتھ یہ سلوک کیوں کرتی ہے ? اس رویّے کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک یہ طریقۂ کار نہیں بدلا جائے گا ٬ مکاتب کا نظام درست یا مضبوط نہیں ہو سکتا ۔
کم تنخواہ میں امامت کرنے والے بے چارے امام اپنے معاشی استحکام کے لیے دعا تعویذ ٬ تیجہ ٬ چالیسواں اور سورۂ بقرہ پڑھنے کا سہارا لیتے ہیں ۔ ان توجہ زیادہ تر ان امور کی طرف رہتی ہے ۔ مکتب سے اضافی رقم نہ ملنے یا پھر بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے سب کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے ٬ اس لیے امام مجبور ہو کر محض خانہ پُری کرتا ہے اور بچوں کا سبق جیسے تیسے سن کر چھٹی دے دیتا ہے ۔ رسمی اور محض خانہ پُری کرنے والی مکتب کی یہ تعلیم دینی نقطۂ نظر سے ہمارے بچوں کے روشن مستقبل کی ضامن نہیں بن سکتی ۔ اس حوالے سے قوم کے ذمہ داروں کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ٹو ان ون ( Two In One ) سے اب کام چلنے والا نہیں ۔ جب تک امام اور مؤذن کو اچھی اور معقول تنخواہ نہیں دی جائے گی ٬ ان سے مکاتب کی بہتر تعلیم کی امید نہیں کی جا سکتی ۔
اگر چہ معمولی تنخواہ پر امامت کے ساتھ مکتب میں خلوص اور محنت کے ساتھ پڑھانے والے افراد بھی موجود ہیں ٬ لیکن ایسے افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم مکاتب کے نظامِ تعلیم کو درست ٬ منظم اور مستحکم کریں ٬ اگر چہ اس کے لیے ہمیں بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دینی پڑے ۔ مکاتب کے نظامِ تعلیم و تربیت کی مضبوطی کے سبب کفرستان میں بھی ایمان باقی رہ سکتا ہے ٬ ورنہ مکاتب کی بے اعتنائی اور زبوں حالی کے باعث ایمانستان میں رہ کر بھی نئی نسلوں کے دین و ایمان کی سلامتی کی گارنٹی نہیں لی جا سکتی ۔
مکتب کی تعلیم کی اسی اہمیت و ضرورت کے پیشِ نظر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : تین چیزیں لوگوں کے لیے ضروری ہیں :
( ١ ) حاکم و امیر ، ورنہ لوگ ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہو جائیں گے ۔
( ٢ ) مصحف یعنی قرآن شریف کی خرید و فروخت ٬ ورنہ کتاب اللہ کا پڑھنا اور پڑھانا بند ہوجائے گا ۔
( ٣ ) عوام الناس کی اولاد کو تعلیم دینے کے لیے معلم ٬ ورنہ لوگ جاہل رہ جائیں گے ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ جب مکتب کے پاس سے گزرتے تو فرماتے : یہی بچے ہماری قوم کے رہنما ہیں ۔
( طبقات ابن سعد : ٥ / ١٤١ ٬ بیروت )
سچر کمیٹی کی رپورٹ میں یہ ایک اہم اور چونکا دینے والا انکشاف سامنے آیا ہے کہ مسلمانوں میں مدرسہ جانے والے بچوں کی تعداد محض چار فیصد ہے اور باقی مسلم بچوں کی کثیر تعداد عام اسکولوں میں تعلیم پاتی ہے ٬ جو بالعموم غیر مسلموں کے زیر اہتمام چلتے ہیں ٬ جہاں تعلیم کم اور ہندوؤانہ کلچر زیادہ سکھایا جاتا ہے ۔ لاک ڈاؤن اور کورونا جیسے عالمی وبا کے بعد یہ فیصد اور بھی کم گیا ہے ۔
ابھی چند ماہ پیشتر راقم الحروف اپنے علمی و تحقیقی پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے دار العلوم ندوۃ العلماء ٬ لکھنؤ اور جامعہ اشرفیہ ٬ مبارک پور گیا تھا ۔ ندوہ کے ایک ہونہار طالب علم نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے بعد مجموعی تعداد سے تقریباً ایک ہزار طلبہ یہاں کم ہو گئے ہیں ۔ کچھی یہی حال جامعہ اشرفیہ اور دیگر مدارس کا بھی ہے ۔
لاک ڈاؤن کے بعد مکاتب کی تعلیم بھی کافی حد تک متاثر اور بے ضابطگی کا شکار ہوئی ہے ۔ اس لیے از سرِ نو مکاتب کی تعلیم کا جائزہ اب ناگزیر ہو گیا ہے ۔ اکثر جز وقتی مکاتب ( جو بالعموم مساجد کے چبوترے میں قائم ہوتے ہیں ) میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی استاد ہے اور اس کے سامنے مختلف سطحوں کے بچے دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
ناظرہ ٬ عم پارہ ٬ یسرنا القرآن اور حروف شناسی کے مرحلے طے کرنے والے چار پانچ سال کے بالکل چھوٹے بچے ایک ہی استاد کے پاس پڑھتے ہیں ۔ اس قسم کے جز وقتی مکاتب میں ایک استاد کے پاس ساٹھ ٬ ستر ٬ اسّی اور سو کے قریب بچے تعلیم پاتے ہیں ۔ کتابیں مختلف ہونے کے سبب اُستاد سارے بچوں کو اجتماعی تعلیم نہیں دے سکتے ٬ لا محالہ وہ انفرادی طور پر سارے بچوں کو پڑھاتے ہیں ۔
اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ گھنٹے دو گھنٹے کی مجموعی تعلیم جب انفرادی طور پر دی جائے تو ایک طالب علم کے حصے میں کتنا وقت آتا ہوگا اور قوم کے بچوں میں قرآن پڑھنے کی کتنی استعداد پیدا ہوتی ہوگی ۔
حقیقت یہ ہے کہ آج مکتب کی تعلیم محض رسمی ہو کر رہ گئی ہے ۔ امام صاحب کو پڑھانے سے زیادہ تعویذ لکھنے اور فاتحہ و تیجہ کی فکر ہوتی ہے ۔ تعلیم کے قیمتی اوقات میں ناظرہ پڑھنے والے ہوشیار بچوں کو ” قرآن خوانی و ایصالِ ثواب ” کے لیے بھیجا جاتا ہے ۔ مکتب کی اس رسمی تعلیم نے بچوں کو درست قرآن پڑھنے سے بھی محروم کر رکھا ہے ۔
نتیجتاً وہ بچے اسی ناقص پڑھائی کے ساتھ مکتب سے باہر آجاتے ہیں ۔ اس کے بعد اگر وہ مدارس کا رخ کرتے ہیں تو کچھ حد تک ان کی قرآن خوانی درست ہو جاتی ہے ٬ لیکن تا دمِ حیات ان کی قراءت و تجوید درست نہیں ہو پاتی اور جو بچے مکتب سے نکلنے کے بعد مدارس میں داخلہ نہیں لے پاتے اور والدین کی غفلت اور کوتاہی کے باعث یوں ہی تضییعِ اوقات کر کے کھانے کمانے کی عمر تک پہنچ جاتے ہیں تو اب والدین کو ان کے ذریعۂ معاش کی فکر لاحق ہونے لگتی ہے
اب یا تو ان بچوں کو کوئی ہنر سیکھنے پر لگا دیا جاتا ہے یا پھر محنت مزدوری کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اور اس طرح وہ پوری زندگی نہ قرآن درست پڑھتے پاتے ہیں اور نہ ان کی تجوید درست ہو پاتی ہے اور وہ اپنی عمر کے آخری پراؤ تک ناقص طریقے سے ہی قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اور ان کو یہ احساس بھی نہیں ہو پاتا کہ وہ قرآن مقدس جیسی کتاب کو ( جن کے مخارج صحیح طریقے پر ادا نہ ہونے کی صورت میں نماز نہیں ہوتی ) کو غلط پڑھ رہے ہیں ۔
ہمارے استاذِ محترم ٬ تلمیذِ حافظ ملت حضرت علامہ مفتی ٬ حافظ و قاری مفتی محمد ظلّ الرحمٰن رحمتؔ ضیائی اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ” غیرِ حافظ قرآن درست پڑھ ہی نہیں سکتا ٬ اگر چہ وہ عالم ہو ۔ الا ما شاء اللہ ” ۔ اور یہ در اصل مکتب میں دی جانے والی ناقص تعلیمِ قرآن کا نتیجہ ہے ۔
ایک بات ہمیشہ دھیان میں رکھنی چاہیے کہ مکاتب کو محض قرآن اور اردو پڑھانے تک محدود نہ کریں ٬ ان میں کچھ نمایاں تبدیلی لائیں ۔ جہاں تک ہو سکے مکاتب میں بچوں کو تجوید کے ساتھ قرآن کی تعلیم دی جائے ۔
اسلام کے چھوٹے چھوٹے بنیادی عقائد ٬ چھوٹی چھوٹی احادیث و ادعیۂ ماثورہ حفظ کرائی جائیں ۔ اسی طرح ناظرہ پڑھنے والے بچوں کو ” کتاب العقائد ” اور انوارِ شریعت ” ازبر کرا دی جائیں ٬ ان شاء اللہ اس کے مثبت اور نتیجہ خیز اثرات دیکھنے کو ملیں گے ۔ جب مکتب کی تعلیم کا وقت ختم ہو جائے تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھٹی دے دی جائے اور با شعور بچوں کو ( جن کی عمر دس سے پندرہ سال کے درمیان ہو ) کو روک لیا جائے اور روزانہ کسی بھی موضوع پر کم از کم دس منٹ لیکچر دیا جائے ۔
مثلاً : ان کو پریکٹیکلی وضو ٬ غسل اور دیگر اسلامی عبادات کی ادائیگی کے طریقے بتائے ہیں ۔ آسان انداز میں اسلام کے بینادی عقائد سے ان کو آگاہ کیا جائے ۔
نیز ان کے دلوں میں اللہ و رسول و بزرگانِ دین کی محبت و عظمت پیدا کی جائے ۔ اسی طرح حسنِ اخلاق ٬ کھانے پینے اور گفتگو کے اسلامی آداب ٬ مسجد کے آداب ٬ والدین کی خدمت ٬ علم کی فضیلت و اہمیت اور بڑوں کی تعظیم جیسے عنوان پر نصیحت کر کے ان کی بہتر تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے ۔
مکاتب کی تعلیم کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ تنخواہ کی کمی یا امامت کے ساتھ مفت تعلیم کا رواج ہے ۔ چوں کہ ملک کے سینکڑوں مکاتب ٬ مساجد کے زیرِ انتظام چلتے ہیں اور ائمہ حضرات کو اسی امامت کی تنخواہ پر مکتب کی معلمی پر جبراً مامور کر دیا جاتا ہے ٬ جس کا فطری نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ وہ بچوں کو توجہ اور محنت سے نہیں پڑھاتے ہیں ۔
بچوں کی کثیر تعداد اور ان کی تعلیم پر مامور صرف ایک استاد ( امام یا معلم ) بھی مکاتب کی تعلیم کی نا کامی کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ امام کے علاوہ مؤذن یا کسی دوسرے معلم کو بھی الگ سے مقرر کیا جائے ۔ کیوں کہ ایک شخص بیک وقت پچاس ٬ ساٹھ ٬ ستر یا اس سے زائد بچوں کی معلمی کا فرض کما حقہ انجام نہیں دے سکتا ۔
اب جہاں تک دوسرے معلم کی تنخواہ کا مسئلہ ہے تو اس کو اس طرح حل کیا جا سکتا ہے کہ ہر بچے سے ایک سو روپیہ ماہانہ فیس وصول کی جائے اور اس رقم کا نصف حصہ امام کو اور باقی نصف کسی دوسرے معلم کو دیا جائے ۔ اس طرح اضافی رقم ملنے کے سبب امام صاحب محنت سے بچوں کو پڑھائیں گے اور زیادہ بچوں کا بوجھ بھی ان کے سر نہیں آئے گا اور اس طرح بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کا انتظام و اہتمام ہو سکے گا ۔
مکاتب کی تعلیم کی نا کامی یا کمزوری کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ ان کا صدر یا سکریٹری جاہل یا معمولی پڑھا لکھا شخص ہوتا ہے اور وہ مکاتب کی بہتر تعلیم و تربیت کا نظم و نسق کرنے میں ناکام رہتا ہے ۔ اندھیروں سے اجالوں کی امید فضول ہے ۔
ہماری قوم کا بھی عجیب حال ہے ۔ گاؤں میں کسی با اثر اور پیسے والے آدمی کو دیکھا ٬ بلا جھجک اس کو مسجد یا مدرسے کا صدر یا سکریٹری بنا دیا ۔ نا اہلوں کو عہدہ و منصب سپرد کرنا ٬ قیامت کی علامت ہے ۔ جاہل شخص کسی بھی جہت سے مسجد و مدرسہ یا مکتب کا صدر و سکریٹری یا متولی بننے کا حق دار نہیں ہے ۔ اس رویّے کو بدلنے کی ضرورت ہے ٬ تب کہیں جا کر مکاتب کی بہتر تعلیم کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔
مقامِ غور و فکر :
آج ملک کے حالات کس قدر خطرناک اور افسوسناک ہیں ٬ وہ عوام و خواص سے پوشیدہ نہیں ۔ قدم قدم پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ ہماری کوتاہی ٬ تساہل ٬ نا عاقبت اندیشی اور غفلت شعاری نے وہ برے دن دکھائے ہیں کہ اللہ کی پناہ ! ایک منظم سازش کے تحت آج مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ۔
ان کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جا رہا ہے ۔ تجارت ٬ سیاست ٬ اقتصاد و معیشت ٬ ملازمت اور نوکری کے دروازے مسلمانوں پر بند کیے جا رہے ہیں ۔ لہٰذا وقت کی اہم ترین ضرورت اور حالات کا جبری مطالبہ ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں ۔ قومی غیرت اور ملی بیداری کا فکری و عملی ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنی ہمہ جہت پسماندگی کا دانش مندانہ جائزہ لیں ۔
سب سے پہلے آپسی اتحاد و اتفاق کا ماحول قائم کریں اور اپنی قیادت کو مضبوط کرتے ہوئے نئی نسل کی بہتر اور نفع بخش تعلیم و تربیت کی طرف اپنی عنانِ توجہ مبذول کریں ۔ تعلیمی میدان میں آگے بڑھیں ٬ تعلیمی حوالے سے خود کفیل بنیں ۔
تعلیم و تجارت اور ملازمت و معیشت کے نت نئے طریقوں کے بارے میں غور و فکر کریں اور اس حوالے سے ایسے طریقہ ہائے کار متعین و منتخب کریں جو ” قدیم صالح اور جدید نافع ” کے حامل ہوں ۔
اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ اعراس ٬ قوالی اور جلسہ و جلوس کے نام پر ہم کس طرح بے دریغ اپنی دولت خرچ کر رہے ہیں ٬ لیکن مسلم بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لیے معیاری اسکولز یا کالجز کھولنا تو دور کی بات ہے ٬ ہم معیاری مکاتب و مدارس کے قیام سے بھی کوسوں دور ہیں ۔
یہ بے حسی اور یہ غفلت شعاری آخر کب تک ? مسلمانوں کا اپنا اسکول اور مضبوط عصری تعلیمی پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچے غیروں کے اسکول میں داخلہ لیتے ہیں اور شعوری و غیر شعوری طور پر اغیار کی تہذیب و ثقافت اور کلچر کو اپناتے ہیں اور یہی مسلم بچہ آگے چل کر جب ڈاکٹر ٬ انجینئر اور پروفیسر بن جاتا ہے تو اس کو اسلامی تعلیمات میں ( معاذ اللہ ! ) خامیاں نظر آنے لگتی ہیں اور وہ دینی افکار و نظریات کو شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھنے لگتا ہے ۔ مسلم بچوں کے ذہن و دماغ میں لا دینیت اور صلح کلیت کے جراثیم نہ پنپنے پائیں
اس کے لیے ہمیں ابتدائی مرحلے میں ہی ان کی ٹھوس دینی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ہوگا ۔ ایک مسلمان ڈاکٹر بن جائے ٬ انجینئر بن جائے ٬ پروفیسر اور سائنس داں بن جائے ٬ لیکن دینِ اسلام کا پٹہ اپنے گلے سے نکال کر پھینک دے ٬ ایسی مہلک تعلیم سے کیا فائدہ ؟ اعلیٰ عصری تعلیم کے نام پر ہماری مسلم بیٹیاں عصری دانش گاہوں / کالجز / یونیورسٹیز کا رخ کر رہی ہیں اور وہاں مخلوط نظامِ تعلیم کے زیرِ اثر بے پردگی ٬ بے حیائی اور بیباکی کا درس لے رہی ہیں ۔
محبت کے نام پر غیر مسلم لڑکوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہیں اور کفر و ارتداد کا شکار ہو رہی ہیں ۔ اس زاویے سے بھی ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔
اللہ رب العزت ہمیں خلوص و للّٰہیت کے ساتھ دین و دانش کی خدمت انجام دینے کی توفیق ارزاں فرمائے ۔ آمین !!
علامہ مشتاق احمد نظاؔمی کی شاعرانہ حیثیت
علامہ یٰسین اختر مصباحی قائدِ اہل سنت کے خطوط کی روشنی میں