سیما حیدر کو پہچانیں
پہلا چہرہ :
نام : سیما حیدر
عمر : ٢٧ سال
بچے : چار
تعلیم : پانچویں پاس !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا چہرہ :
روانی سے انگریزی بولنا
کمپیوٹر کا اچھا علم ہونا
٥ پاسپورٹ ,
٣ موبائل فون
٣ سم کارڈ،
چار چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ
پاکستان سے دبئی
دبئی سے نیپال
نیپال سے ہندوستان
خفیہ طریقے سے نیپال کے راستے بھارت میں غلط طریقے سے داخل ہونا!
ساڑھی، نمستے ,بندیا سب کچھ آتا ہے !
ہندوستانی ماحول میں آتے ہی روانی سے ہندی اور انگریزی بولنا، اور اردو کا ایک لفظ بھی زبان پر نہ آنا!
کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب ایک مذاق ہے؟
یہ سب وہی کر سکتا ہے جو اتنا بڑا کھلاڑی ہو کہ اس کے کھیل کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے..۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرا چہرہ :
سیما کے آنے سے گریٹر نوئیڈا کے لوگ جشن منا رہے ہیں اور جس جذبے کے ساتھ اس کا استقبال کیا جا رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جلد ہی اس کو شہریت بھی مل جائے گی اور شاید اس کو سرکاری نوکری بھی مل جائے کیونکہ لوگ خوش ہیں کہ وہ دوڑتی ہوئی سچن ہندو کے پاس آئی ہے مسلم کے پاس نہیں!
لیکن! یہ ملک کے سیکورٹی اور خفیہ ایجنسیوں کے لیے سراسر ناکامی ہے آخر ایسے کوئی کیسے غیر قانونی طریقے سے ہندوستان آ سکتا ہے! ؟ یہ محبت کا سوال نہیں ہے! یہ ہمارے اپنے گھر، خاندان، گاؤں شہر، ملک کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ مسلم دشمنی میں آگے بڑا ہوا معاشرہ اس وجہ سے خوش ہے کہ مسلمہ ہونے کے باوجود وہ ایک ہندو کے ساتھ رہنے آئی ہے۔ اگر اس جگہ کوئی مسلمان ہوتا تو اب تک اس کو سیما کے ساتھ جیل بھیج دیا گیا ہوتا !
چوتھاچہرہ :
یہاں محبت کو بدنام کیا جا رہا ہے ورنہ
ایک پانچویں پاس میڈیا کے سامنے ایک اور اجنبی خاندان، اجنبی ملک، اجنبی جگہ جہاں وہ وہ اپنی زندگی میں پہلی بار آئی ہے اور اتنے بے خوفی سے سوالات کے جواب دے رہی ہے, ایک لفظ بھی اِدھر اُدھر ہو رہا ہے ! اور وہ چار بچے بھی اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ جیسے لگتا ہے کہ یہ اپنے ماموں دادی کے یہاں آئے ہوں!
میری رائے یہ ہے کہ سیما کسی غیر مرد کے ساتھ بغیر طلاق کے کیسے رہ سکتی ہے ؟ اسے اس کے ملک کے حوالے کرنا ضروری ہے اور اس کو مجرم سمجھا جائے اس کے ساتھ مجرم جیسا سلوک کیا جائے۔ جو نہ اپنے شوہر کی ہو سکی ، نہ اپنے خاندان کی ہو سکی,نہ اپنے والدین کا ہو سکی ,نہ اپنے مذہب کا ہو سکی اور نہ ہی اپنے ملک کا ہو سکی تو اب کیا ضمانت ہے کہ وہ یہاں وفادار بن کر رہ سکتی ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچواں چہرہ:
یہ اس ملک سے آئی ہے جس کو ” مملکت خدا داد جمہوریہ اسلامیہ پاکستان ” جہاں سب مسلمان ہیں اور یہ بھی واضح رہے کہ ہمارے یہاں انڈیا میں مسلم بچی ہو یا بچہ یہ سب کلمہ,نماز وغیرہ یعنی اسلام کے متعلق بنیادی سوالات کے جوابات بآسانی دے سکتے ہیں جبکہ پاکستان کی سیما حیدر کو سورہ فاتحہ تک نہیں آتی!
سعودی میں رہ رہے غلام حیدر کا کہنا کہ ایک مس کال سے ٹکڑائی پھر شادی ہو گئی یعنی ایک غلام حیدر سے پیار کیا یہاں تک کہ ہمارے چار بچے ہوئے، پھر دس سال بعد بیچارے سچن سے محبت کیسے ہو گئی !
جب جیوتی موریہ اپنے شوہر سے الگ ہونے کے لیے اپنے شوہر کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے تو ایک بڑا طبقہ ناراض ہو گیا لیکن جب جب ایک پاکستانی مسلمان عورت اپنے شوہر کو چھوڑ کر اپنے شوہر کے گھر و سازو سامان بیچ کر بغیر طلاق لئے اس کے چار بچوں کو لے کر ہندو بننے کے لیے انڈیا آتی ہے تو یہ لوگ خوش ہیں ! اس طرح دوغلہ ذہنیت والوں سے انصاف کی امید نہیں کی جاسکتی ۔اور یہ عورت کیسے بغیر شوہر کے اپنے چار بچوں کی زندگی کا فیصلہ لے سکتی ہے؟
,✍محمد عباس الازہری
۔