نفرت کی پاٹھ شالہ

Spread the love

نفرت کی پاٹھ شالہ

( نفرت کا وائرس شمال سے جنوب تک پہونچا۔ اب سوال یہ ہے کہ نفرت کے اس مرض کا انجام کیا ہوگا اور اس کا علاج کیسے کیا جائے)

از: نیاز احمد سجاد اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے قوم و ملت اور والدین کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں اور ان کے والدین ان کے روش مستقبل بنانے کے ضامن ہوتے ہیں۔

چونکہ یہ بچے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ کل یہی بچے ڈاکٹر ، انجینئر ، سائنسدان ، مفتی ، قاضی، جج ، رہنما ، استاد ،سوشل ورکر ، نیتا اور لیڈر بنیں گے ۔

گویا ملک و ملت کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھوں میں ہوگی ۔ اگر ان کی صحیح پرورش ، صحیح تربیت اور مثبت پرداخت نہ کی گئی تو وہی بچے جس جگہ اور جس شعبے میں جائیں گے وہ بجائے اس میں چار چاند لگانے کے ۔ وہ مہلک اور مسمار کرنے میں اپنا رول ادا کریں گے۔ در حقیقت تعلیم زندگی گزارنے اور اور سنوارنے میں آکسیجن کا کام کرتی ہے۔ اور جب دونوں چیزیں صحیح ہوں گی تب ہی مفید اور کارگر ثابت ہوں گی ۔ تعلیم سے انسان انسان اور سلطان بنتا ہے۔

تعلیم ہی انسان کو مہذب اور ترقی یافتہ بناتی ہے ۔ تعلیم ہی انسانی زندگی کو عروج پہ پہونچاتی ہے۔

وہ تعلیم ہی تھی جس کے بدولت چندریان 3 کا کامیاب مشن اپنے پایہ تکمیل کو پہنچا اور اب ملک کا پہلا شمسی مشن “آدتیہ ایل ۔ ون “لانچ کرکے ملک کا نام روشن کرکے ایک تاریخ رقم کی اور یہ سب کے سب ان تعلیم گاہوں کے پروردہ تھے جو ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور سب مل کر اور متحد ہو کر ملک کا نام روشن اور وقار کو بلند کر رہے ہیں اور اپنا مشن بغیر کسی بھید بھاؤ کے انجام دے رہے ہیں ۔

لیکن افسوس اور حیرت اس وقت ہوتی ہے جب کچھ ایسے عناصر جو اس مشن کو کمزور و لاغر کرنے اور نیست و نابود کرنے پہ تلے ہوئے ہیں ۔

اپنی مذموم اور مسموم حرکتوں سے گیان کے مندروں کو نفرتوں اور شرمناک رویوں سے ناپاک اور نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ ان کو نہ ملک و ملت کی ترقی سے کوئی سروکار ہے اور نہ ملک کی آبیاری میں کوئی ان کا یوگ دان ہے ۔ ان کو بھائی کو بھائی سے لڑاکر اور سر پھٹول کراکر اور کروا کر تماشہ دیکھنے میں مزا آتا ہے ۔ لیکن ان کا یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور اخوت و محبت کی ہی جیت ہوگی ۔

حالیہ دنوں میں تعلیم گاہوں میں جن کو گیان کا مندر کہا جاتا ہے ۔ کیسی بھیانک اور افسوسناک خبریں ملیں جس سے انسانیت شرمسار ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے۔

ملک کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔مظفر نگر کا وہ واقعہ کوئی ناگہانی یا نادانستہ طور پر نہیں رونما ہوا ۔ وہ کوئی وقتی حادثہ نہیں تھا جس کو بھلا دیا جائے ۔ملزم ٹیچر کو سزا یا اسکول کو بند کرنا اس کا صرف حل نہیں ہے۔ اسی طرح اس کے بعد جموں کشمیر سے یہ خبر بھی ملی کہ کٹھوعہ ضلع کے ایک اسکول کے ہندو طالب علم کے بلیک بورڈ پہ “جے شری رام ” لکھنے پر ایک مسلم ٹیچر نے اس کی پٹائی کردی اور معاملہ آگے بڑھتا دیکھ کر اس کو سسپینڈ کردیا گیا ۔اسی طرح اس کے دو دن بعد 28 اگست کو ملک کی راجدھانی دلی کے کیلاش نگر کے ایک سرکاری اسکول میں ایک ٹیچر نے ایک مسلم بچے کو کہ “تم مسلمان ہندوستانی نہیں ہو اور جنگ آزادی میں تم مسلمانوں کا کوئی یوگ دان نہیں ہے” ۔

اسی طرح نفرت کا یہ وائرس شمال سے ہوتا ہوا جنوب پہونچ گیا جہاں کرناٹک کے شموگا ضلع کے ایک سرکاری اسکول کی ٹیچر منجولا دیوی نے 31 اگست کو کلاس میں پڑھاتے دو مسلم طالب علموں کو بولا کہ “یہ تمہارا ملک نہیں ہے یہ ہندوؤں کا ملک ہے ۔تمہیں پاکستان چلے جانا چاہیے تم ہمیشہ کے لئے ہمارے غلام ہو ” یہ تفریقی مذہبی پاٹھ پڑھا کر کیا پیغام اپنے بچوں کو دینا چاہتے ہیں اور کس بھارت کی کلپنا کرنا چاہتے ہیں ۔

انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی بچے اس ملک کے مستقبل ہیں اور ملک کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھوں میں ہوگی ۔ پھر ان سے ببول کا پیڑ لگا کر آم کی امید کرنا ۔سوائے اپنا سر پہ پتھر مارنے کے کچھ نہیں ہوگا ۔ اسی طرح مظفر نگر کے ککرولی تھانہ کے بہیڑا سادات کے ایک اسکول میں ٹیچر ستیش نے محمد شعبان نامی طالب علم کو اس قدر پیٹا کہ اس کی حالت نازک بنی ہوئی ہے اور وہ زیر علاج ہے۔

یہ تھی حال میں واقع ہوئے چند واردات کی مثال جو صرف حالات کی سنگینی اور نفرت انگیزی کا جو ماحول اس ملک اور سوسائٹی میں پنپ رہا ہے اور اس کے جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں بطور عبرت اور نشاندہی کے طور پیش کی گئی ۔

کس کو کیا سزا دی گئی ۔ کس کو معطل اور کس پہ ایف آئی آر درج ہوئی اور کس پہ نہیں ۔ اس سے قطع نظر اور اس سے کسی مذہب ،کسی ذات پات یا علاقے کی تفریق کی بات کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر ملک کے تانے بانے پر اس کے کیا ردعمل سامنے آرہے ہیں اور بچوں کے ذہن و دماغ میں کیسے افکار و نظریات پل رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں اس کے کیا نتائج سامنے آئیں گے ۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں اس کا کیا رول ہوگا ۔ اس پر سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے اندر مثبت فکر ڈیویلپ کرنے کی ضرورت ہے۔ ملزم کو صرف سزا دے کر ماحول اور سوسائٹی میں پھیل رہے زہر کو نہیں ختم کیا جا سکتا ۔ اس کے لئے غیر

متعصبانہ محبت کے پیغام کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ نفرت سے بیزاری کی انقلابی مہم بھی ملکی پیمانے پر اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں خاص طور پر چلانے کی ضرورت ہے ۔ اور تمام لوگوں کو بلا استثناء اس مہم میں شریک ہو کر اور متحد ہوکر اس کے خلاف لڑنا پڑے گا ۔

اگر ہم متحد ھو کر لڑیں نفرت کی ٹولی سے

وہ جن شاخوں پہ بیٹھی ھے وہ شاخیں ٹوٹ جائیں گی

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *