کیا اسلامی تہذیب مبتدعانہ ہے
کیا اسلامی تہذیب مبتدعانہ ہے ؟
تحریر: توصیف القاسمی (
مولنواسی)مقصود منزل پیراگپور سہارنپور واٹسپ نمبر 8860931450
مشہور مفکر اور عالم دین مولانا وحیدالدین خاں صاحب مرحوم کی بعض کتابیں انتہائی اہم اور شاندار ہیں ابھی حال ہی میں دارالعلوم دیوبند نے مولانا مرحوم کی مایہ ناز کتاب ”پیغمبر انقلاب“ کو سالانہ انعامی اجلاس میں طلبہ کے درمیان تقسیم کرایا ہے
اسی کے ساتھ ساتھ مولانا مرحوم کے بعض تصورات انتہائی غلط بھی ہیں مثلاََ مولانا اسلامی تہذیب کو مبتدعانہ تصور مانتے ہیں چنانچہ مولانا مرحوم نے لکھا ہے کہ ” تہذیب civilization کے لئے موجودہ عرب دنیا میں حضارۃ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ لیکن اسلام کے دونوں مصادر sources قرآن و حدیث اس لفظ سے خالی ہیں ۔
قرآن وسنت میں اسلامی حضارۃ civilization کا تصوّر موجود نہیں ہے ۔علمائے متقدمین کی کتابوں میں سے کوئی کتاب اسلامی حضارۃ کے موضوع پر پائی نہیں جاتی ۔
اس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلامی حضارۃ ایک مبتدعانہ تصور ہے ۔ اس اصطلاح کا مأخذ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہاۃ ( التوبہ 9:30 ) کہا گیا ہے ۔ “ (دور دعوت صفحہ 197 )
مولانا وحیدالدین خان صاحب مرحوم اسلامی تہذیب کو ایک غیر اسلامی تصور سمجھتے تھے بالکل اسی طرح مولانا مرحوم دین اسلام کو مکمل نظام بھی نہیں مانتے تھے ، حیرت کی بات ہے کہ مولانا مرحوم دین اسلام کو از روئے اصول مکمل دین بھی مانتے تھے ۔
قارئین کرام !
نہ صرف ہمارا بلکہ علماء کرام کی اکثریت کا دعویٰ ہے کہ تہذیب بھی اسلامی ہوتی ہے ، اسلامی تہذیب کا تصوّر مبتدعانہ نہیں ہے بلکہ احکام اسلامی پر عملدرآمد کی صورت میں پیدا ہونے والی صورتحال کو ہی اسلامی تہذیب کہتے ہیں
دنیا کی تمام تہذیبیں عورت دولت حکومت اور مذہب کے ارد گرد گھومتی ہیں اور آج بھی مذکورہ چاروں چیزوں کے اطراف ہی ساری تہذیبیں گھومتی ہیں ، تہذیب کو ”مبتدعانہ تصور“ ماننے کی صورت میں مولانا مرحوم یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام مذکورہ چاروں چیزوں کے بارے میں اپنی کوئی الگ رائے نہیں رکھتا اور مذکورہ چاروں شعبہائے حیات کے بارے میں انسان مکمل طور پر آزادانہ رائے قائم کرسکتا ہے ۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و سنّت مذکورہ چاروں چیزوں کے بارے میں اپنا واضح موقف بھی رکھتا ہے اور واضح احکام بھی ۔
اسلام کا ”تصورِ عورت “ جہاں فطرت کے عین مطابق ہے وہیں دنیا کی تمام تہذیبوں اور مذاہب سے بالکل جداگانہ ہے ، یہ امتیازی تصور ہی اسلامی تہذیب کی پہلی اینٹ ہے ۔ بالکل اسی طرح اسلام کا ”تصوّر دولت“ ہے ، کمانے میں حلال کی شرط اور خرچ کرنے میں فضول کی ممانعت ، دولت کی منصفانہ تقسیم ، زکوٰۃ و صدقات کی فہرست ، حرمت سود وغیرہ تمام مالی نظاموں سے اسلامی مالیاتی نظام کو الگ کرتا ہے نتیجتاً پورا مسلم معاشرہ الگ ہوجاتا ہے اور اس طرح اسلامی تہذیب کی دوسری اینٹ وجود میں آجاتی ہے ۔
قارئین کرام!
یہ ہی معاملہ حکومت و مذہب کا ہے ، اسلامی طرزِ حکمرانی بھی بالکل جداگانہ ہے اور مذہب کے اصول و مبادی بھی بالکل الگ اور مبنی بر وحی ہیں ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت ہی اسلامی تہذیب کی صورت میں ڈھل جاتی ہے ۔
مولانا مرحوم کا یہ کہنا کہ حضارۃ ( تہذیب) کی اصطلاح قرآن و سنّت میں مذکور نہیں ہے تو جان لینا چاہیے کہ تہذیب کا تعلق ظاہری ڈھانچے سے ہے بنیادی عقائد اور احکام پر عمل کرنے کی صورت میں باطن کی طرح سماج کا ظاہر بھی ایک شکل اختیار کر لیتا ہے جسکو تہذیب کہتے ہیں ، قرآن کریم نے قبل از اسلام کے تمام ظاہری و باطنی ڈھانچوں کو ”جاھلیۃ“ اور ”حمیۃ الجاھلیۃ“ سے تعبیر کیا ہے اس کے مقابلے اللہ تعالیٰ نے جو ڈھانچہ تیار کیا ہے اس کو الاسلام کہا ہے تو حضارۃ ( تہذیب ) بھی اسلام کی وسیع تفصیل و تشریح کا ایک باب ہے ۔ میں اس بات کا اعتراف بھی کرتا ہوں کہ تہذیب کے نام پر مسلمانوں میں بہت سی غلط رسمیں درآئی جن کا سد باب ہونا چاہیے
محترم قارئین کرام !
مولانا مرحوم مفروضہ خیالات imagination کی بنیاد پر رائے قائم کرتے تھے حقائق reality کی بنیاد پر نہیں مثلاً مذکورہ اقتباس سے ذرا اوپر مولانا مرحوم لکھتے ہیں کہ ”قدیم تہذیبوں کے بانی سیاسی حکمراں ہوتے تھے“ یہ جملہ مکمل طور پر تہذیبوں کی تاریخ اور ان کے ترکیبی عناصر سے ناواقفیت پر مبنی ہے ۔
اسی طرح مولانا مرحوم تہذیبوں کے تصادم کو مفادات کا تصادم کہتے تھے جوکہ سراسر لفظی بکواس ہے ، تہذیبوں کا تصادم کہو یا مفادات کا تصادم دونوں ہی صورتوں میں اِنسانیت کا خون تو ہورہاہے نا ؟ دنیا کا کونسا عقل مند ہے جو تہذیبوں کے تصادم کو تو ناجائز کہے اور مفادات کے تصادم کو ایٹم بم اور تباہ کن جنگوں کی حد تک جائز کہے ؟
یہ جرأت بھی صرف اور صرف مولانا وحیدالدین خان صاحب ہی نے کی ہے ۔ پھر مولانا مرحوم یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہے کہ تہذیبوں کے تصادم کی جڑ اور بنیاد میں وہی چار چیزیں ہیں عورت دولت حکومت مذہب ، مفادات کے تصادم میں بھی وہی چار چیزیں ہیں عورت دولت حکومت اور مذہب ، تو اصل چیز لفظی تعبیر نہیں بلکہ اصل چیز وہ تباہ کاری ہے جس کے بارے میں آپ اور ہم اختلاف کر رہے ہیں کہ اسکو crash of civilizationکہیں یاcrash of interest کہیں ؟ ۔
اسی طرح مولانا مرحوم اپنے مفروضہ خیالات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ موجودہ دنیا میں تشدد violence بالکل ناقابلِ قبول ہے ۔ مگر گزشتہ دو سو سالوں میں موجود دنیا کے اندر جتنی تعداد میں انسان قتل کردیے گئے ہیں
شاید آدم علیہ السّلام سے لے کر اب تک نہ کیے گیے ہوں اور یہ ایسی سچائی ہے جس پر سب کا اتفاق ہے ، مگر مولانا مرحوم کے نزدیک موجودہ دنیا میں تشدد بالکل ناقابلِ قبول ہے ۔ اب میں اس جملے کوضد کہوں یا سچائی ؟ یہ فیصلہ قارئین کو کرنا ہے ۔
نوٹ:
مولانا وحیدالدین خان صاحب کی کئی کتابیں بہت ہی اہم اور قابل تعریف ہیں مگر اسی کے ساتھ ساتھ مولانا کے بہت سے تصورات دین کی جڑ اور بنیاد کو کو کریدتے ہیں ، علما امت پر ضروری ہے کہ مولانا کے لٹریچر کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد مولانا کے غیر اسلامی تصورات کی نشان دہی کی جائے تاکہ دین اسلام اصل صورت میں باقی رہ سکے ۔